وہ اپنی ماں کے کمرے میں موجود انہی کے ساتھ رات کا کھانا کھا رہی تھی.
امی اپنا بالکل دھیان نہیں رکھتیں، آپ پہلے سے زیادہ کمزور ہوگئی ہیں.
شگفتہ بیگم کی بس ایک ہی درینہ خواہش تھی کہ ہانیہ بھی اپنے گھر کی ہو جائے. انہوں نے اس کے لیے کافی جگہ رشتے تلاش کیے تھے، لیکن ہر کوئی عادل صاحب کی دوسری شادی کی وجہ سے انکار کر جاتا تھا.
عادل صاحب نے اپنی دوسری بیوی کو الگ گھر لے کے دیا تھا. انہوں نے دوسری شادی شگفتہ بیگم کے کہنے پر ہی کی تھی، کیونکہ شگفتہ بیگم جانتی تھی کہ اب وہ کبھی بھی اپنے شوہر کو بیٹا نہیں دے پائیں گی جو کہ عادل صاحب کی دلی خواہش تھی. مگر دوسری شادی کو بھی پندرہ سال ہوگئے تھے لیکن دوسری بیوی سے انہیں کوئی اولاد نہ ہوئی تھی. آہستہ آہستہ بیٹے کی خواہش ان کے اندر ہی مر گئی. انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کو باپ کا پیار دیا.
اور شگفتہ بیگم اپنے گھر کے اداس ماحول کو بھی خوب اچھے سے جانتی تھیں اور اب ہانیہ کے چلے جانے سے گھر بالکل ہی سونا ہو گیا تھا.
تم میری فکر چھوڑو..... یہ بتاؤ خوش ہونا تم ولید کے ساتھ؟ کہیں میں نے اپنی جلد بازی میں کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کر دیا؟
امی آپ ایسی باتیں کیوں کر رہی ہیں؟ اور میں بہت خوش ہوں آپ پلیز میرے بارے میں سوچنا چھوڑدیں.
ہانی ولید سمجھ دار ہے اور اس رشتے کو سمجھنے میں اسے تھوڑا وقت لگے گا. وہ ہانیہ کو سمجھاتے ہوئے بولیں.
چلیئے آپ جلدی سے یہ سب فنش کریں کیونکہ اس کے بعد میڈیسن بھی لینی ہے.
وہ انہیں میڈیسن دیے، نعیمہ (کام والی) کو شگفتہ بیگم کے پاس سونے کا کہہ کر اپنے کمرے میں آگئی.
اس کی زندگی اتنی رنگین نا تھی جو وہ اب اداس ہو جاتی. بس اسے ہمیشہ ایک گلٹ رہا تھا کہ اس کی فیملی نارمل انسانوں کی فیملی کی طرح نا تھی.
بڑی بہن زیب کی شادی ہوئے پانچ سال گزر گئے تھے. پہلے تو وہ دونوں بہنیں ہی اپنی زندگی مل کر ہنسی خوشی گذار لیتی تھیں، لیکن گزرے پانچ سال اس نے صرف تنہائی ہی دیکھی تھی اور اس تنہائی میں ہی اپنی زندگی گزاری تھی.
لیکن اب خدا نے پھر سے اس کی جھولی میں خوشیاں ڈال دی تھیں. زیب اور وہ پھر سے ایک گھر میں آ گئی تھیں. بہنیں ہمیشہ اپنا دکھ ایک دوسرے سے بانٹ لیا کرتی ہیں.
وہ واقعی ہی خوش قسمت تھی تبھی تو خدا نے اس کی محبت سے اسے ملا دیا تھا.
اپنی سوچوں کو جھٹکتے اس نے اپنا فون اٹھایا تھا اور گیلری کھولے ولید کی لی گئی سیلفی دیکھنے لگی....کسی کی جدائی سے
کسی کی جدائی ميں
کوئی مر نہيں جاتا
آج اتنے عرصے بعد تمہيں ديکھا
تو سمجھ ميں آيا کہ
جتنی بھی دوری ہو
دور جانے سے محبت کم نہيں ہوتی
اگر يہ نصيب نہ بنے تو کسک ضرور بن جاتی ہے
محبت مرتی نہيں امر کر جاتی ہے
___________
ابراہیم سے منہ ماری کے بعد وہ گھر آ گیا تھا.
اور اپنے بیڈ پر لیٹا کب خوابوں کی دنیا میں گیا وہ جان ہی نہ سکا.
اور اب اس کی آنکھ کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے سے کھلی تھی.
آنے والا بھی شاید جلد ہی چلا گیا تھا کیونکہ وہ سب شاہ کہ غصے سے خوب اچھی طرح واقف تھے. اسے نا پسند تھا کہ اسے کوئی نیند سے جگائے وہ اپنی آنکھیں مسلتا اٹھ بیٹھا تھا.
اس نے کمرے میں موجود گھڑی کی طرف دیکھا تھا جو رات کے نو بجائے ہوئے تھی. اس نے جلدی سے اپنا فون پکڑا تھا یہ دیکھنے کے لیے کہ کہیں ماہی کا کوئی میسج تو نہیں آیا.
لیکن اسے فون دیکھ کر مایوسی ہوئی تھی کیونکہ ایسا کوئی میسج نہ تھا جس میں ماہی نے اسے لینے آنے کے لیے کہا ہو.
تم نے نا آ کر بہت بڑی غلطی کی ہے مہ جبین شاہ اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا ہوگا. وہ کمرے سے باہر نکل گیا.
YOU ARE READING
تیری عاشقی میں جانا (مکمل ناول)
Romanceیکطرفہ محبت! آہ جس میں ایک شخص اپنی انا، غرور، وقار اور عزت نفس کو مار کر اس شخص کی طرف بڑتا ہے جو اپنے حسن، غرور و انا سے پتھر کا بن چکا ہوتا ہے... آخر کب تک وہ پتھر پتھر رہ سکتا ہے؟ ایک نہ ایک دن تو اسے موم ہونا ہی ہے...