Episode 7

7.8K 256 24
                                    


ایسے تو میں بور ہو جاؤں گی...
رابیعہ بیگم ابان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کے لیے چلی گئی تھیں. وہ تو زری کی طبیعت خراب کی وجہ سے جانے سے ہی انکار کر رہی تھیں. لیکن پھر خود زری نے  انہیں جانے کے لیے منایا.

امی آپ کے سامنے میڈیسن بھی لے چکی ہوں، اب کیا مسئلہ ہے، تھوڑی دیر تک ٹھیک بھی ہو جاؤں گی. اور ویسے بھی آپ نے آج چیک اپ کے لئے ہی تو جانا ہے، گھنٹہ دو گھنٹہ تک آپ واپس بھی آ جائیں گی.
وہ بڑے تحمل سے انہیں سمجھا رہی تھی اور چئیر پر بیٹھا ابان بغور اسی کو دیکھے جا رہا تھا جسے خود سے زیادہ اپنی ماں کی پرواہ تھی.
وہ اس کی لو دیتی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی.
ٹھیک ہے پھر، تم بیڈ سے نہیں اتروگی، اور کوئی ضرورت نہیں ہے کام کرنے کی.... وہ ممتا سے بھرے لہجے میں کہہ رہی تھیں.
ٹھیک ہے کچھ نہیں کروں گی، کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاؤں گی، آپ بے فکر ہوکر جائیں.

ٹھیک ہے میں چادر لے آؤ پھر چلتے ہیں بیٹا وہ ابان کی طرف دیکھ کر بولی تھیں. جس نے انہیں دیکھتے ہاں میں سر ہلایا تھا.

ان کے جانے کے بعد ابان اٹھ کر اس کے بیڈ کی طرف بڑھا تھا اور اس کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا.
وہ ایک نظر اسے دیکھ کر آنکھیں جھکا گئی تھی.
وہ چند پل اسی طرح کھڑا اس کا جائزہ لیتا رہا...... یہ لڑکی اپنی معصومیت، اپنے بھولے پن کی وجہ سے اس کے دل کے قریب ہوتی جارہی تھی.
وہ جھکا تھا اور اس کی پیشانی پر محبت بھرا لمس چھوڑا تھا. 
"اپنا خیال رکھنا، مائی انوسینٹ گرل...... "
وہ اس کے کان کے قریب سرگوشی کرنے کے بعد باہر کی طرف بڑھ گیا تھا.
اور وہ کتنی ہی دیر تک اس کے پرفیوم کی خوشبو اپنے اردگرد محسوس کرتی رہی اور اپنی آنکھیں بند کئیے بیڈ کی بیک کے ساتھ سر ٹکا گئی جیسے وہ کچھ پل اسے اپنے پاس محسوس کرنا چاہتی ہو.

شامِ غم کی سحر نہیں ہوتی
یا ہمیں کوخبر نہیں ہوتی

ہم نے سب دُکھ جہاں کے دیکھے ہیں
بے کلی اِس قدر نہیں ہوتی

نالہ یوں نا رسا نہیں رہتا
آہ یوں بے اثر نہیں ہوتی

چاند ہے، کہکشاں ہے، تارے ہیں
کوئی شے نامہ بر نہیں ہوتی

ایک جاں سوز و نامراد خلش
اِس طرف ہے اُدھر نہیں ہوتی

دوستو، عشق ہے خطا لیکن
کیا خطا درگزر نہیں ہوتی؟

رات آ کر گزر بھی جاتی ہے
اک ہماری سحر نہیں ہوتی

                          ____________

ماہی تم یہ کپڑے پہن کر مہمانوں کے سامنے آؤں گی. وہ گلابی رنگ کا کامدار سوٹ لیئے ماہی کے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولی تھیں.
امی اتنی جلدی بھی کیا ہے، ابھی پڑھائی تو ختم کر لینے دیں.
یہ تمہیں جلدی لگ رہا ہے؟ خاندان میں کوئی لڑکی اہسی نہیں ، جس کی شادی نہ ہوئی ہو تمہارے سوا.
شاید آپ بھول گئی ہیں. آپ کی پیاری بہن کی بیٹی (سمعیہ) ابھی رہتی ہے اور وہ مجھ سے دو سال بڑی بھی ہے. اس نے جتاتے ہوئے بتایا.
تمہارے مسئلے سے فارغ ہونے کے بعد میں بات کرتی ہوں ابان سے...... وہ سنجیدگی سے بولی تھیں.
کیا مطلب ابان بھائی سے بات کیوں کریں گئی. خالہ سے بات کریں. اس نے ناسمجھی سے کہا. تمہاری خالہ تو راضی ہے اور سمعیہ بھی یہی چاہتی ہے. بس ابان ہی بچا ہے. اس سے ذرا آرام سے بات کرو گئی، کہ اب وہ اپنی زندگی کے بارے میں بھی کچھ سوچے..... وہ اپنی ہی کہے جارہی تھیں. امی آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں کیا آپ بھول گئی ہیں کہ ابان بھائی کا نکاح 5 سال پہلے ہو چکا ہے. پھر ان باتوں کا کیا مقصد ہے.
ایسے نکاح کو برقرار رکھ کر کیا کرنا ہے جس سے میرا بیٹا خوش نہ ہو، وہ اپنی سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے کچھ بولتا نہیں ہے تو کیا ہوا، میں ماں ہوں مجھے اس کا غم صاف نظر آتا ہے.
امی آپ.... آپ غلط سوچ رہی ہیں. کیا آپ سے ابان بھائی نے یہ سب کچھ کہا ہے.
اس نے خود نکاح کی ہامی بھری تھی. وہ اپنی غلطی کیوں مانے گا. وہ شروع سے ہی ایسا ہے اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا لیکن ماں کا دل تو ہر چیز سے واقف ہوتا ہے.
اب بس مجھ سے الجھو مت، مجھے ابھی بہت سے کام ہیں میں اکیلی جان اتنے سارے کام کرکے تھک جاؤگی. سوچ رہی ہوں زری کو بلا لوں، وہی مدد کروا دے گی. وہ یہ سب کہتی ہوئی باہر کی طرف بڑھ گئیں.
اور ماہی کتنی ہی دیر اپنی ماں کے کہے گئے الفاظ پر سوچتی رہی اور وہ اب اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ اب اسے اپنے بھائی سے بات کر لینی چاہیے وہ ذری کے ساتھ کچھ غلط ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی.
                     ________________

ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول) Where stories live. Discover now