Episode 9

7.8K 304 84
                                    

بیٹھیے...... ڈاکٹر نے ابان کو بیٹھنے کے لیے کہا.
ابان کے دل میں مختلف قسم کے خدشات پل رہے تھے. اس کے لب پر ایک ہی دعا تھی کہ وہ ٹھیک ہو، مولا اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے.....
دراصل آپ کی وائف کو مائنر( نروس) اٹیک ہوا ہے، انہوں نے کسی بات کا گہرا صدمہ لیا ہے، اگر وہ اسی طرح پریشان رہیں، تو خدانخواستہ ان کا نروس بریک ڈاؤن بھی ہو سکتا ہے.
آپ کو انہیں ہر پریشانی سے دور رکھنا ہوگا اور جتنا ہوسکے انہیں خوش رکھیں.
انھیں ہوش کب تک آئے گا.
ہم نے خود انہیں نیند کا انجکشن دیا ہے تاکہ ان کا دماغ پرسکون ہو سکے، تقریباً تین گھنٹے بعد آجائیے گا اور کل ہم انہیں ڈسچارج بھی کردیں گے، بس آپ ان کی خوشی کا خیال رکھیں.

                  __________________

کیا کہا ہے ڈاکٹر نے؟ احمد لغاری نے ابان سے پوچھا جو ابھی ڈاکٹر کے پاس سے آیا تھا.
ڈیڈ اسے مائنر اٹیک ہوا ہے، کسی بات کا اس نے گہرا صدمہ لیا ہے.
اسے کچھ گھنٹے تک ہوش آجائے گا. آپ چاچی اور امی کو لے کر گھر چلے جائیں. میں ہوں زری کے پاس، کل تک اسے ڈسچارج مل جائے گا.

               __________________

آج کے دن اس کی ملاقات دو بار اس دشمن جان سے ہوئی تھی.
پہلی بار جب اسے دیکھا تھا وہ بے ہوشی کی حالت میں تھی اور دوسری ملاقات میں اس کی طبیعت بہتر ہونے کی بجائے اور بھی بگڑ گئی تھی. اس کے رونے کی وجہ سے سوجھی آنکھیں اسے دیکھنے سے لگتا تھا کہ جیسے بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں، اپنے اندر بہت راز رکھتی ہوں.
اور اب وہ اس کے سامنے تھی یہ دن کی تیسری ملاقات تھی اور اس ملاقات میں وہ اسے صدیوں کی بیمار لگ رہی تھی.
وہ لڑکی جو بستر سے لگی تھی، وہ اسے عزیز ہوتی جا رہی تھی اور اب جب وہ اسے اس حالت میں دیکھ رہا تھا تو اسے اپنے دل کے اور بھی زیادہ قریب لگی تھی.
وہ کبھی اسے کہہ نہیں سکا کہ وہ اس کے لیے کیا ہے.
وہ اس کے بیڈ کے پاس چیئر پر بیٹھا کہیں بہت دور نکل گیا تھا. اس کے اور اپنے ماضی میں.......
ماضی
آج تو ہماری بیٹی پری لگ رہی ہے. آغاجان نے پیار سے اپنے سامنے موجود 9سال کی زرفشاں سے کہا جو گلابی فراک پہنے پری لگ رہی تھی.
آغا جان آج میرے سکول میں فنکشن ہے اور آپ دیکھنا میں ہی فیری ایواڈ جیتوں گی....

آغا جان!!!!! ابان آواز دیتا باہر کی طرف آیا.
آغا جان آج بھی لیٹ......... ابھی وہ کچھ اور بولتا کہ اس کی نظر زری پر پڑی، وہ واقعی ہی معصوم پری لگ رہی تھی. لیکن اپنے آغاجان کے پاس اسے دیکھ کر غصہ آیا تھا.
آج بھی لیٹ ہو جائینگے ہم. آج فنکشن ہے، ہمیں جلدی جانا چاہیے. وہ نروٹھے پن سے بولا تھا.
بس ماہی کو بھی آنے دو پھر سب چلتے ہیں مل کر آغا جان نے تحمل سے کہا.
اس فنکشن پر زری کو سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے چوٹ لگی تھی اور اس کی بازو ٹوٹی تھی.
اس کے گرنے کی وجہ سے وہ کافی دکھی ہوا تھا، وہ میری وجہ سے گری تھی اسے میری نظر لگی ہے غلطی تو اس پاگل کی ہے، اسے اتنا پیارا نہیں لگنا چاہیے تھا. وہ بارہ سالہ ابان اپنے آپ سے لڑ رہا تھا.
اس کے مطابق اسے ہمیشہ اسی کی نظر لگتی تھی.
اس کے بعد سے وہ صرف اسے سرسری سا ہی دیکھتا تھا اور اس سے دور رہنے کی وجہ، اس کے چڑ چڑے پن کی وجہ آغاجان کی محبت تھی جس میں زری بھی شریک ہو چکی تھی اور شراکت اسے شروع سے ہی ناپسند تھی.
وہ کتنی دیر سوچ میں ڈوبا اسے تکتا رہا تھا شاید اس کی آنکھوں کی تپش تھی کہ اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولی تھیں.
جو منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا وہ شاید اسے پسند نا آیا تھا اسی وجہ سے وہ اپنی آنکھیں موند گئی تھی. اور مقابل کو اس کا اس طرح سے آنکھیں بند کر جانا چبھا تھا.
ہم اس وقت ہسپتال میں ہیں اور رات کے ڈھائی بج چکے ہیں. وہ شاید اس سے پہلی بار اتنے نرم لہجے میں بول رہا تھا.
لیکن اس نے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں.
موم ڈیڈ اور چاچی گھر جاچکے ہیں اور تمہیں..........  ابھی اس کی بات پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ زری نے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں، اسے سمجھے میں ایک پل نہ لگا تھا کہ وہ اور ابان اس وقت اکیلے ہیں اور ابھی رات بھی اس کے ساتھ ہسپتال میں گزارنی ہوگی.
اس کے اس طرح آنکھیں کھولنے پر اسے پریشانی ہوئی تھی، کیا تمہیں کچھ چاہیے؟
وہ اپنا منہ دوسری طرف موڑ گئی تھی جیسے کوئ دوسرا موجود ہی نہ ہو.
کچھ پل بعد وہ بھی اپنا سر چیئر سے ٹکا گیا....

وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے
کل  ان  کا  زمانہ  تھا  آج  اپنا  زمانا  ہے

                 __________________

کھٹک کی آواز سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں.
وہ منٹ سے پہلے اٹھ کر اس کے پاس پہنچا تھا جو شاید اٹھنے کی تیاری کر چکی تھی.
کیا ہوا کچھ چاہیے تھا؟ وہ اس کے اس طرح اٹھنے پر سمجھ گیا کہ اسے شاید واش روم جانا ہے.
مجھے واش روم جانا ہے.....
میں لے چلتا ہوں وہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھانے ہی والا تھا کہ وہ اس کے ہاتھ جھٹک چکی تھی.
نہیں.... میں خود چلی جاؤں گی، اب میں کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں. وہ یہ کہہ کر اٹھی تھی.

لیکن مقابل شاید ڈھیٹ تھا یا پھر اپنے نام کا ایک ہی تھا وہ اسے پھر سے تھام چکا تھا اور اسے لیے واش روم کی طرف بڑھا. اور آگے بڑھ کر دروازہ کھولا.

ڈور لوکڈ کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں باہر موجود ہوں.

اور اسی طرح اسے واپس لیے بیڈ پر بٹھایا.
پتا نہیں کیوں آنسوں آنکھوں سے باہر نکلنے کو بے تاب تھے اور اس کی اتنی پرواہ پر دو آنسو نکل کر رخسار پر بہے تھے، جو کہ مقابل سے چھپے نہ رہ سکے تھے.
کیا اس قدر افسوس ہو رہا ہے تمہیں اس لڑکے کی ماں کے انکار کا کہ تمہارے آنسو نہیں تھم رہے.وہ اسے بولنے پر اکسانے کے لیے اتنی گری ہوئی بات کہہ گیا تھا .
زری نے اپنے سامنے کھڑے محرم کو دیکھا تھا جو اسے بیڈ پر بٹھانے کے بعد بھی اسی کے سامنے کھڑا اپنی زبان کے نشطر چلانے سے باز نہ آیا تھا.
وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہوا تھا کیونکہ وہ اپنے آنسوں رگڑنے کے بعد مقابل کے سامنے کھڑی ہوئی تھی.
وہ آنسو کی وجہ جاننا چاہتا تھا، اس نے کبھی بھی اسے اس طرح روتے نہیں دیکھا تھا جب اسے کسی بات پر غصہ آتا یا رونا آتا تھا تو وہ خاموش ہو جاتی تھی اس طرح کبھی روئی نہ تھی. اس کے اس طرح رونے سے اسے تکلیف ہوئی تھی اور اپنی تکلیف کم کرنے کے چکر میں وہ اپنے الفاظ سے مقابل کی تکلیف میں اضافہ کر گیا تھا.
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولی تھی.
جس کے پاس باپ اور بھائی جیسے مضبوط سہارے نہ ہوں اور سہارے کے نام پر آپ جیسے مرد کا ساتھ ہو، جو کہ عارضی ہو، تو اس لڑکی کو رونا چاہیے، رونا نہیں بلکہ اسے جینا ہی نہیں چاہیے، کیا کرے گی وہ اس دنیا میں جی کر؟ اس کے آنسوؤں میں اضافہ ہوا تھا اور وہ روتے روتے اپنا سر اس شخص کے چوڑے سینے سے لگا گئی تھی جس کا ہاتھ وہ جھٹک گئی تھی، جسے وہ کچھ پل پہلے عارضی سہارا قرار دے چکی تھی اور اب وہ اسی کی پناہ میں تھی..
کچھ وقت بعد اس کے رونے کی آواز ہلکی ہوئی تھی اور اس کی سسکیاں تھم گئی تھیں.
اس نے اسے اپنے ساتھ ایسے ہی لگائے بٹھایا تھا اور پھر اس کا سر تکیے پر رکھا اور اس کے پاؤں اوپر کیے، اس پر چادر پھیلائے واپس آکر بیٹھا تھا اور اپنی نظریں اس کے معصوم چہرے پر ٹکا دی تھیں. رونے سے اس کی ناک گلابی ہوئی تھی اور اس کے چہرے پر واضح آنسو کے نشان موجود تھے.
وہ اٹھا تھا اور بہت پیار سے اس کی چھوٹی سی ناک کو اپنے ہونٹوں سے چھوا تھا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو.

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

                 _________________

ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول) Where stories live. Discover now