لغاری ہاؤس میں ہنز خاموشی کا راج تھا.
آمنہ بیگم صبح کھانے پر باہر آئی تھیں.
ان کے باہر آنے کی وجہ سے ابان بغیر ناشتہ کئے آفس چلا گیا تھا.
گھر میں آمنہ بیگم سے کسی نے کوئی بات نہیں کی تھی.
آمنہ بیگم کی چھوٹی بہن اور بہنوئی بھی آج لغاری ہاؤس آئے تھے.
وہ دونوں کل کی فلائٹ سے عمرے کی سعادت حاصل کرنے جا رہے تھے.
آپا ماہی نظر نہیں آرہی..... فرزانہ بیگم نے پوچھا.
وہ یونیورسٹی گئی ہے.
آپا! کیا کچھ ہوا ہے؟
آمنہ بیگم کے سب بتانے پر ان کی چھوٹی بہن تھوڑی خاموشی کے بعد بولی تھی.
آپا آپ میری اور سمعیہ کی وجہ سے اپنا گھر تباہ نہ کریں. اللہ نے سمعیہ کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جوڑ رکھا ہوگا اور فکر مت کیا کریں.
آپ اپنا دل صاف کرلیں اور ابان کو زیادہ دن اپنے سے یوں ناراض مت رہنے دیں.
تم سہی کہہ رہی ہو... چھوٹی تم ایسا کیوں نہیں کرتی کہ سمیعہ کو لغاری ہاؤس چھوڑ جاؤں.
نہیں آپا... یا سر بھی تو ہو گا. دونوں بہن بھائی رہ لیں گے.آپ فکر نہ کریں.
یاسر کا کیا ہے وہ تو لڑکا ہے، کہیں بھی رہ لے گا.
اور ویسے بھی سمعیہ کچھ دن آجائے گی تو میرا بھی دل لگا رہے گا.
ورنہ آج کل تو دل ہر چیز سے بیزار ہوا پھرتا ہے. چلین ٹھیک ہے آپا میں کل جاتے ہوئے سمعیہ کو آپ کے پاس چھوڑ جاؤں گی.
_________زری کیا ہوا ہے؟ تم کب سے خاموش ہو.بھائی کی وجہ سے پریشان ہو.
موم اور بھائی کو لے کر تم پریشان نہ ہو، وہ لوگ خود ہی ایک دوسرے کو منا لیں گے، ویسے بھی بھائی موم سے زیادہ دن ناراض نہیں رہ سکتے.
وہ دونوں یونیورسٹی میں موجود تھیں.
نہیں..... ایسی کوئی بات نہیں ہے. بس پیپرز کو لے کر ٹینشن ہو رہی تھی.
او مائی گاڈ.... زرفشاں ابان لغاری پیپر کی ٹینشن لے رہی ہیں، یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں. ماہی کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولی.
ماہی کی یو بکواس ایکٹنگ کرنے پر وہ دونوں مسکرا دیں.
کہ تبھی دانیال ان کے پاس آیا تھا.
زری مجھے تم سے دو منٹ بات کرنی ہے. وہ ماہی کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا.
ماہی کو اس کا انداز ایک آنکھ نہ بھایا.
ٹھیک ہے ذری میں لیکچر لینے جا رہی ہوں، تم بھی آ جانا. وہ ایک نظر دانیال پر ڈالے وہاں سے چلی گئی.
دانیال بھائی ایسی کیا بات تھی، جو آپ ماہی کے سامنے نہیں کہہ سکتے تھے، خوامخواہ ناراض کردیا اسے...
اسی کی بات تھی میری نادان بہن، اگر اس کے سامنے کچھ کہتا تو کوئی شک نہیں تھا کہ وہ میرا سر پھاڑ دیتی.
میں ماہی کے لیے رشتہ بھیجنا چاہتا ہوں.
دانیال کی بات سن کر زری دو منٹ کے لیے خاموش ہی رہی.
آپ سچ میں......
نہیں... مذاق میں بھی کوئی رشتہ بھیجتا ہے.
حد ہے میں پاگل ہوں جو سال سے تمہاری پھوڑ نند کے پیچھے خوار ہو رہا ہوں.
آپ میرے سامنے میری پیاری سی نند کی برائی کر رہے ہیں.
واہ، خوب،.... نہیں تمہاری نظر میں بھائی کی کوئی اہمیت نہیں؟ بس شوہر کے ملتے ہی تم بدل گئی ہو.
دونوں مسکرا دیئے...
________ماہی اپنی خالہ کی طرف چلی گئی تھی.
زری کے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا. تو وہ آغاجان کے پاس چلی گئی تھی.
آغاجان سب ٹھیک ہے نا؟
ہاں میرے بچے سب ٹھیک ہے.
تو پھر آج آپ میرے ساتھ صبح پارک کیوں نہیں گئے؟
آج دل نہیں چاہ رہا تھا. بس، اسی لیے.... کل سے پھر سے جانا شروع کر دیں گے.
ٹھیک ہے.... وہ ان کے سائیڈ میز کی طرف منہ کیے کھڑی ان کی دوا نکالتے، ان سے باتیں بھی کر رہی تھی.
اور آغاجان کچھ فاصلے پر صوفے پر بیٹھے تھے اور زری کی شکایتیں دور کر رہے تھے.
جب کوئی تھکا ہارا آغا جان کے کمرے میں داخل ہوا تھا.
اور آغاجان کے سامنے نے ہی دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا.
آغا جان مجھے آپ سے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ آپ میرے حصے کا پیار بھی دوسروں کو کر جاتے ہیں. وہ زری کی طرف دیکھتا ہوا بولا.
وہ اس کی آواز پر چونکی تھی.
دوسروں کو کہاں؟ تم دونوں ایک ہی تو ہو.
وہ آغا جان کی بات پر مسکرا دیا.
زری دوا لئیے آغاجان کے پاس آئی اور ان کی طرف بڑھا دی.
زری آج یقیناً مجھ سے زیادہ دوا کی ضرورت تمہارے سائیں کو ہے، دیکھو اس کا چہرہ کیسے لال ہو رہا ہے.
نہیں آغا جان.... بس تھوڑی سی تھکاوٹ ہے. وہ بھی آرام کرنے سے دور ہو جائے گی. آپ آرام کریں. وہ یہ کہہ کر ان کے کمرے سے نکل گیا.
زری جاؤ، تم اسے کچھ کھانے کو دو اور میری مانو تو اسے دوا بھی دے دینا. یہ اسی طرح بس اپنے آپ پر ہی سارا غصہ نکالتا رہے گا، کسی سے کچھ نہیں کہے گا.
ٹھیک ہے آغاجان، میں انہیں دوا دے دوں گئی.
____________
وہ تھکا ہوا آفس سے آیا تھا. سر پھٹنے کے قریب تھا، اسی لئے وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا تھا مگر وہاں زری کو نہ پا کر وہ اسے ڈھونڈنے نیچے کی طرف بڑھ گیا تھا.
اسے آغاجان کے کمرے سے زری کی آواز سنائی دی تو وہ انہی کے کمرے میں چلا گیا تھا. سر کے درد کی وجہ سے وہاں دو منٹ بیٹھنا اس کے لئے مشکل ہو گیا تھا،اسی لئے وہ جلد ہی آغا جان کے کمرے سے اٹھ آیا تھا.
اور اب اپنے بیڈ پر لیٹا اسی دشمن جان کے بارے میں سوچ رہا تھا، جو پوری آب و تاب سے اس کے دل و دماغ پر سوار ہو گئی تھی.
رات کے چھ بجے کا وقت تھا جب ذری کمرے میں داخل ہوئی تھی.
وہ بیڈ پر لیٹا تھا.
وہ اس سے دانیال کے بارے میں بتانا چاہتی تھی، مگر بات کہاں سے شروع کرے کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا. اسی لیے وہ کافی دیر ایسے ہی کھڑی رہی.
وہ بس آنکھیں بند کیے تھا. وہ جانتا تھا کہ زری اس سے کچھ کہنا چاہتی ہے، مگر کہہ نہیں پا رہی.
وہ اٹھا تھا اور اس کے سامنے جا کھڑا ہوا تھا.
وہ..... میں... اس کے اس طرح اٹھ کھڑے ہونے سے، اور بالکل پاس آ جانے سے الفاظ ساتھ ہی چھوڑ گئے تھے.
میں سن رہا ہوں. بولو..... وہ اس کے اور قریب ہوا تھا.
میں.....
اس کے اس طرح بات کرنے سے اسے الجھن ہوئی تھی اور غصہ بھی آیا تھا کہ وہ اب بھی اس کے سامنے آنے سے کتراتی تھی اور بولنا تو بہت دور کی بات......
اس نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور اپنے ساتھ لئے دروازے کے باہر لا کھڑا کیا تھا.
میں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں یہ کہہ کر اس نے اس کے منہ پر ہی دروازہ بند کر دیا تھا.
وہ سگریٹ کی ڈبی اور لائٹر لیے صوفے پر آ بیٹھا تھا.
وہ اپنے رویے کو سمجھنے سے قاصر تھا. وہ ہر بار اس کے ساتھ زیادتی کر جاتا تھا، لیکن آج کچھ غلط نہ ہو جانے کے ڈر سے وہ زری کو اپنے کمرے سے نکال چکا تھا.
اس کا کانپتا وجود اور بات کرتے وقت تھرتھراتے ہونٹ.... ان سب کے مدنظر وہ کوئی گستاخی کردینے کو تھا. جس کا ازالہ شاید ممکن نہ تھا.
اپنے آپ پر قابو پانے کے لیے اسے یہی ایک بہترین حل نظر آیا.
وہ کافی دیر سگریٹ پھونکتا رہا تھا.
____________
اس کے منہ پر دروازہ بند کر دینے پر زری کو رونا آیا تھا. کہ کیسا شخص تھا جب دل میں آیا اپنے کمرے میں جگہ دے دی وہ بھی اس کے بارہا انکار کرنے پر اور جب جی میں آیا ذلالت کئیے کمرے سے نکال دیا.
اس بے عزتی کے بعد زری اپنے پہلے والے کمرے میں آ گئی تھی اور بیڈ پر لیٹ خوب روئی تھی.
وہ سوچ چکی تھی کہ وہ اب اس کے کمرے میں قدم بھی نہیں رکھے گی....موسم غم ہے مہربان اب کے
ہم پر تنہائیوں کا سایہ ہے
بعض اوقات رات یوں گزری
تو بھی کم کم ہی یاد آیا ہے
___________
رات کے نو بج گئے تھے. لیکن زری اب تک کمرے میں نہ آئی تھی.
وہ نیچے آیا تھا جب نجمہ اپنے کوارٹر جانے کی تیاری میں تھی.
صاحب آپ کو کچھ چاہیے تھا؟
وہ.... سب کہاں ہیں؟ کیا سب نے ڈنر کر لیا؟ صاحب بڑے صاحب( آغا جان) اپنے کمرے میں ہیں اور انہوں نے اپنے کمرے میں ہی کھانا کھایا اور آمنہ بیگم نے بھی اور چھوٹے صاحب (احمد صاحب) فیکٹری کے کام سے دوسرے شہر گئے ہوئے ہیں اور ماہی بی بی آج اپنی خالہ کے گھر ہی رہیں گی. وہ چپ ہو گئی تھی.
زرفشاں....
وہ جی اپنے کمرے میں ہیں، دو بار گئی تھی انہیں اٹھانے لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا...
وہ کچھ پل خاموش ہوا تھا.
صاحب میں جاؤ؟
ہا... ہاں... تم جاؤ.
نجمہ کے جانے کے بعد وہ زری کے کمرے کی طرف گیا تھا.
کمرے میں داخل ہوا تھا اور سامنے ہی دشمن جان بیڈ پر سوئی ہوئی تھی.
وہ اس کی طرف بڑھا تھا جو سرمئی رنگ کے لباس میں موجود تھی. اس کے چہرے پر آنسوؤں کے نشانات واضح موجود تھے.
اس کا چہرہ دیکھ کر ایک دم سے اس کی سانسیں تھم گئی تھی. وہ ہر بار اس کے ساتھ زیادتی کر جاتا تھا.
وہ جھکا اور اسے اپنی باہوں میں اٹھائے اپنے کمرے کی طرف چل دیا تھا.
وہ اسے بڑے آرام سے بیٹھ پر لٹائے فریش ہونے چل دیا تھا.
وہ فریش ہو کر آیا اور اس کے بہت قریب ہی لیٹ گیا تھا.
اپنا سر ایک ہاتھ سے اٹھائے اسے دیکھنے میں محو تھا. وہ چاہ کر بھی اس کے سحر سے نکل نہیں پا رہا تھا.
وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے بہت قریب لے گیا تھا اور اپنا حق استعمال کرتے ہوئے اپنے لب باری باتی اس کی آنکھوں پر رکھ دیے تھے.
وہ پیچھے ہوا اور دراز سے ایک ڈبی نکالی جس میں چین موجود تھی. یہ وہ چین تھی جو زری کو اس کے ابو نے دی تھی. اور ابان نے اس چین کو بڑی بے دردی سے زری کے گلے سے الگ کیا تھا.
وہ جانتا تھا کہ یہ چین زری کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے، اسی لئے اس نے اس چین کو جڑوایا تھا. اور اس میں ایک چھوٹے سے لوکٹ کا اضافہ کیا تھا، وہ بہت پیار سے اسے وہ چین پہنا گیا تھا.
اس کا سر اپنے بازو پر رکھے اس کے گرد حصار بنائے لیٹ گیا تھا.
سکون تو اب ملا تھا اس کو اپنے پاس دیکھ کر.دل کو سکون روح کو آرام آ گیا
موت آ گئی کہ دوست کا پیغام آ گیا
جب کوئی ذکر گردش آیام آ گیا
بے اختیار لب پہ ترا نام آ گیا
غم میں بھی ہے سرور وہ ہنگام آ گیا
شاید کہ دور بادۂ گلفام آ گیا
دیوانگی ہو عقل ہو امید ہو کہ یاس
اپنا وہی ہے وقت پہ جو کام آ گیا
دل کے معاملات میں ناصح شکست کیا
سو بار حسن پر بھی یہ الزام آ گیا
صیاد شادماں ہے مگر یہ تو سوچ لے
میں آ گیا کہ سایہ تہ دام آ گیا
دل کو نہ پوچھ معرکۂ حسن و عشق میں
کیا جانیے غریب کہاں کام آ گیا
یہ کیا مقام عشق ہے ظالم کہ ان دنوں
اکثر ترے بغیر بھی آرام آ گیا
احباب مجھ سے قطع تعلق کریں جگرؔ
اب آفتاب زیست لب بام آ گیا
___________
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...