موم.......!!!!! وہ جب گھر میں داخل ہوا تو اس نے سب سے پہلے آمنہ بیگم کو پکارا جو کہ اس کے مطابق حال میں مہمانوں کے ساتھ ہونی چاہیے تھیں. لیکن حال میں کوئی نہیں تھا.
صرف نجمہ ہی تھی جو صفائی کر رہی تھی.
اسی لیے وہ انہیں آواز دیتا ہوا کمرے کی طرف بڑھا.
وہ شرمندہ تھا کہ وہ وقت پر پہنچ نہیں سکا. اور نجمہ جو ہال میں موجود میز صاف کر رہی تھی. اس سے صاف ظاہر تھا کہ مہمان آکر جا چکے تھے اور اب اسے اپنی ماں کو منانا تھا.
موم! آئی ایم سوری، میں مانتا ہوں میری غلطی ہے. میں ٹائم پر نہیں آ سکا لیکن آپ دروازہ کھولیں وہ آمنہ بیگم کے دروازے پر کھڑا انہیں پکار رہا تھا.
دروازہ کھلا تھا لیکن وہ اپنی ماں کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر پریشان ہوا تھا.
موم کیا ہوا ہے؟ کیا کچھ ہوا ہے؟ وہ ان کی طرف بڑھتا ہوا بولا تھا.
اب کچھ ہونے کو باقی رہا ہے؟ تمام کسر اس منحوس لڑکی نے پوری کر دی ہے مہمانوں کے سامنے آکر............ اسے ایک پل نہ لگا تھا اپنی ماں کا اشارہ سمجھتے ہوئے کہ وہ کس کے متعلق بات کر رہی ہیں.
وہ لوگ ماہی کے لیے انکار کر چکے ہیں لیکن وہ لوگ زری کو مانگ رہے ہیں، اپنے بیٹے کے لیے...... آمنہ بیگم نے ایک نظر ابان کے تاثرات پر ڈالی، جن میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی تھی وہ بنا کوئی جواب دیئے باہر کی طرف بڑھ گیا._________________
زری میں پوچھتی ہوں ایسا کیا ہوا ہے جو تم مسلسل روئے جا رہی ہو. رابیعہ ماہی کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں جو کہ رونے کے شغل میں مصروف تھی.
اتنے میں دروازہ کھٹکنے کی آواز آئی رابیعہ بیگم دروازہ کھولنے کے لیے باہر کی طرف جل دیں . زری کو چند پل پہلے کی باتیں سوچ کر اور رونا آیا.وہ لوگ زری کے بارے میں آمنہ بیگم سے پوچھ رہے تھے.
لڑکے کی ماں بولی تھی کہ "ماشاءاللہ آپ کی دونوں بیٹیاں بہت پیاری ہیں. لیکن ہمیں آپ کی دیورانی کی بیٹی زیادہ پسند آئی ہے، اگر آپ اجازت دیں تو ہم زری کے لئے ہاں کرنا چاہتی ہیں."
ذری یہ سب باتیں سن رہی تھی اسے امید تھی کہ اب آمنہ بیگم انہیں بتا دیں گی کہ زری میرے بیٹے کی منکوحہ ہے، لیکن آمنہ بیگم کے الفاظ سے اسے جتنی تکلیف پہنچی تھی وہ لفظوں میں بیاں کرنا ناممکن سی بات تھی.
"دراصل میری دیورانی کی بیٹی کی شادی ہوچکی ہے لیکن وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہتی اور بہت جلد اسے طلاق ہونے والی ہے اگر آپ لوگ یہ سب جان کر بھی اس کے لیے ہاں کرتے ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں بلکہ یہ تو ہمارے لئے خوشی کی بات ہوگی. " آمنہ بیگم کا اطمینان دیکھنے لائق تھا.
وہ سوچنے کا ٹائم لے کر چلے گئے تھے لیکن زرفشان نعمان لغاری کے پاؤں تلے سے جیسے زمین کھینچ لی گئی ہو. اس کے لئے وہاں دو پل رکنا محال ہو گیا تھا، بغیر کسی کو بتائے وہ اپنے گھر چل دی._________________
بیٹا سب خیریت ہے نا؟ رابیعہ بیگم ابان کو اس وقت دیکھ کر پریشان سے بولیں.
جی چاچی!!! سب ٹھیک ہے. کیا آپ میرے لئے ایک کپ چائے بنا دیں گئی؟ جب تک میں زری سے آپ کے چیک اپ کی ڈیٹیل ڈسکس کر لوں. وہ بنا کوئی جواب سنے زری کے کمرے کی طرف مڑ گیا اور رابیعہ بیگم پریشان سی کچن کی طرف چل دیں.
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...