گھر میں آج کافی شور و گل تھا.
احمد صاحب اپنے کمرے میں موجود تھے، جب ابان اور سبحان کمرے میں داخل ہوئے تھے.
ڈیڈ بھائی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں. آپ ہیں کہ انہیں موقع ہی نہیں دے رہے.
کیا ضرورت تھی اتنی رات کو آئس کریم کھانے کی؟ احمد صاحب ابان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولے تھے.
اتنے میں ذری چائے لئیے اندر داخل ہوئی.
ڈیڈ آپ کی بہو ہی ضد کر رہی تھی، اگر اسے آئسکریم نہ لے کر دیتا تو پھر آپ کو یا آغا جان کو شکایت آنی تھی میری..... یہ سب ابان نے زری کو دیکھتے ہوئے بولا....
جبکہ زری تو حیران رہ گئی... کیسے اپنے بچاؤ کے لیے اسے آگے کردیا.
اگر ہماری بیٹی کے کہنے پر گئے تھے تو پھر معاف کیا. وہ ذری ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولے. ڈیڈ بھائی سے بھی ناراضگی ختم کریں...
میں ناراض نہیں ہوں اسے کہہ دو کہ کل سے فیکٹری آنا شروع کرے. اب تم لوگوں کا باپ بڑھا ہو رہا ہے.
ابھی تو آپ ینگ ہیں ڈیڈ.... سبحان اٹھ کر ان کے گلے لگتا ہوا بولا...
وہ سب مسکرا دیئے.
آج ظفر صاحب اپنے بیٹے دانیال کے ساتھ ماہی کے رشتے کے لئے آ رہے ہیں.
میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ بھی اس وقت گھر پر موجود ہو.
دانیال.... ؟؟
ہاں! زری کی خالہ کا بیٹا. اس کی ماں اس دنیا میں نہیں رہیں، اکیلا بھائی ہے اور اس کے باپ کا اپنا بزنس ہے.
اس کے والد صاحب فیکٹری آئے تھے.
اب تم دونوں بھی دیکھ بھال لو. مجھے تو یہ رشتہ ٹھیک لگا ماہی کے لیے....
اور بیٹا تم بھی ماہی سے ایک بار اپنے طریقے سے پوچھ لو....
جی تایا ابو....
_____________
وہ کمرے میں داخل ہوئی تھی جب ابان کو خود سے شرٹ پہنتے دیکھا.
وہ اس کی طرف بڑھی تھی اور اس سے شرٹ لی تھی. مگر مقابل اپنی شرٹ واپس لے چکا تھا.
تم یہ جانتی تھی کہ دانیال رشتہ بھیجنا چاہتا ہے؟وہ بنا جواب دیے شرٹ لینے کے لئے آگے ہوئی...
میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟
ہاں..... جانتی تھی.
تو مجھے کیوں نہیں بتایا؟
میں بتانا چاہتی تھی لیکن آپ نے مجھے کمرے سے باہر نکال دیا تھا. وہ دوسری طرف منہ کرتے ہوئے بولی....
اسے اپنے سوال کرنے پر پچھتاوا ہوا.
اس نے اسے اپنی طرف موڑا.
زری اگر کبھی میں تمہیں خود سے بھی کہوں کہ مجھے چھوڑ دو یا مجھ سے دور چلی جاؤ تو بھی تم مجھے اکیلا چھوڑ کر مت جانا..... وہ اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا.
اچھا اب شرٹ پہنا دو....
خود ہی پہنیں اپنی شرٹ... وہ شرما گئی تھی.
ایسے کیسے پہنچوں گا؟ کیا تم جانتی نہیں تمہاری وجہ سے گولی کھائی ہے؟
اس کے بولنے پر زری نے فٹ سے اسے دیکھا.
آپ مجھے قصوروار مانتے ہیں؟
اس کے اس طرح دیکھنے سے وہ جان گیا تھا کہ وہ غلط کہہ گیا ہے.
وہ جانے کو تھی. جب وہ اس کی چین پکڑ گیا تھا. تم چاہتی ہو کہ یہ ٹوٹ جائے؟ تو شرافت سے میری طرف دیکھو...
وہ اس کی طرف مڑی تھی.
یار ذری میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ نہیں پاتا اور میرے منہ سے کچھ غلط ہی نکل جاتا ہے.
اچھا ٹھیک ہے. اب مجھے چھوڑیں، مجھے ماہی کو بھی تیار کرنا ہے. اور آپ بھی جلد ہی نیچے آ جائیں.
_____________ماہی میں معافی چاہتی ہوں کہ میں نے تمہیں اس کے بارے میں پہلے نہیں بتایا. وہ اسے تیار کرتی ہوئی بولی...
تم کیوں معافی مانگ رہی ہوں. اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے اور ویسے بھی میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ میری وجہ سے میرے دونوں بھائی اکٹھے ہوگئے ہیں. اس طرح ہماری فیملی پھر سے پوری ہوگئی ہے. اور سب اس رشتے سے راضی ہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے.
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...