Episode 19

7.9K 365 80
                                    

میرے ہمسفر، میرے ہم نشین
میں نے رب سے مانگا تو کچھ نہیں
پر جب بھی مانگی کوئی دُعا
نہیں مانگا کچھ بھی تیرے سوا

وہ اٹھی تھی اور اپنے آپ کو کسی دوسرے کمرے میں دیکھ کر اس کے ذہن میں کل رات کے سارے منظر لہرائے تھے.
اس نے جیسے ہی آنکھ اٹھا کر صوفے پر دیکھا تو وہاں ابان موجود نہ تھا اسے حیرت ہوئی تھی، بھلا وہ اتنی صبح کہاں جا سکتا ہے.
لیکن جیسے ہی اس کی نظر بیڈ پر پڑی تو وہ بہت قریب ہی اس کے پاس موجود سو رہا تھا.
پتہ نہیں رات  کون سا وقت تھا، جب سر کے درد سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور وہ اٹھ بیٹھا تھا. اس چھوٹے سے صوفے پر نیند آنا مشکل تھا اور صبح پھر ایک تھکا دینے والے دن کی شروعات ہو جانی تھی، اسی لیے وہ کچھ سوچتے ہوئے آٹھ کھڑا ہوا اور زری کی دوسری سائیڈ پر آ کر لیٹ گیا تھا.

اچھے بھلے صوفے پر تھے، بھلا یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی.... وہ بڑھاتی آٹھ کھڑی ہوئی تھی.
اس نے جیسے ہی الماری کھولی تو اسے حیرت ہوئی کیونکہ الماری میں ابان کے ساتھ اس کے کپڑے بھی موجود تھے اور وہ دو سوٹ بھی تھے جو ابان نے اس کے لیے لیے تھے، وہ ان میں سے ایک سوٹ لیے واش روم میں گھس گئی
                  ________________
میری نطروں میں کوئی کیسے جچے
نسبت یار نے مغرور بنا رکھا ہے

ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟؟؟؟؟
عاشی نیند سے بیدار ہوئی تو فہد کو خود پر نظریں جمائے پایا....
دیکھ رہا ہوں کہ کیا کوئی صبح اتنی بھی حسین ہو سکتی ہے؟
اچھا........... وہ حیران ہوئی تھی.
مجھے اتنی پیاری صبح دینے کے لئے شکریہ....
تمہیں نہیں لگتا کہ تم کچھ زیادہ ہی ڈائیلاگ بازی کرنے لگے ہو.....؟
کیونکہ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بیوی کی تعریف کرتے رہو گے تو زندگی آسانی سے کٹ جائے گی..... وہ شرارت سے بولا تھا.
مطلب تمہیں صرف زندگی کاٹنی ہے؟ وہ اداسی سے بولی تھی.
نہیں مجھے اب تمہارے ساتھ اپنی ساری زندگی بتانی ہے وہ اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے بولا....
                      __________________

وہ نکھری نکھری باہر آئی تھی.
اور نظر سامنے ہی اس دشمن جان پر پڑی تھی. جو اب اٹھ چکا تھا مگر اس نے اٹھنے کی زحمت نہیں کی تھی.
وہ اس پر ایک نظر ڈالنے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی.
وہ اپنے گیلے بالوں کو سکھانے میں اس قدر مصروف تھی کہ اس کو یہ بھی علم نہ ہوسکا کہ کب ابان اس کے بالکل پیچھے آ کھڑا ہوا تھا اور اس کے دلربا سراپے میں کھو سا گیا تھا.
وہ گرے فراک پہنے ہوئے تھی جس پر گلابی رنگ کا کام ہوا تھا.
اس نے نظر اٹھا کر شیشے میں دیکھا تھا، وہ بلیک شرٹ اور ٹراؤزر پہنے ہوئے تھا اور بال بکھرے ہوئے تھے مگر پھر بھی اپنی نشیلی آنکھوں سے مقابل کو کھائل کر دینے کی صلاحیت رکھتا تھا.
وہ اٹھی تھی اور اس کے پاس سے گزرنے کو تھی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ ے اسے ڈریسنگ کے ساتھ لگا گیا تھا.
اپنی یہ اکڑ کسی اور کو دکھانا اور کل رات جو حرکت تم نے کی ہے اس کی وجہ جان سکتا ہوں؟
وہ اس کے پوچھنے پر بھی کچھ نہ بولی تھی.
اس کے نہ بولنے پر اسے اور غصہ آیا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈریسنگ پر موجود اشیاء کو زمین پر دے مارا تھا.
میں تم سے اس گھٹیا حرکت کی وجہ پوچھ رہا ہوں؟ وہ دھاڑا تھا.
اس کی دھاڑ پر وہ سہم گئی تھی اور آنکھیں نم ہونے کو تھیں...
اس کی آنکھیں نم ہونے پر اسے اپنے رویے پر افسوس ہوا تھا.
اگر ایسی گھٹیا حرکت کرنے کا تم نے سوچا بھی، تو اگلی بار میں خود تمہارا گلا دبا دوں گا. پھر تمہیں ان فضول حرکتوں کی ضرورت نہیں پڑے گی.
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کتنی گولیاں لی ہیں؟ بس اسے اس کی فکر تھی، اگر زیادہ استعمال کر لیتی تو؟؟؟ یہ سوچ ہی اسے ہلا دینے کے لئے کافی تھی.....
وہ اسے اپنی طرف دیکھا پا کر نظریں جھکا گئی تھی مگر اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام رہی تھی.

تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکے

                  _________________

ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول) Where stories live. Discover now