Episode 26

6.2K 289 16
                                    

احمد صاحب کافی برہم ہوئے تھے کہ انہیں رات کو ہی ابان کی حالت کے بارے میں کیوں نہیں بتایا.
وہ صبح ہی آمنہ بیگم کو ساتھ لیے ہسپتال چلے گئے تھے.
ہسپتال میں فہد اکیلا نہ تھا، بلکہ سبحان اور اس کی بیوی (ردا) اور بیٹا (ماہر) بھی موجود تھا.
اسلام علیکم آنٹی.... ردا نے ہی آمنہ بیگم کو سلام کیا تھا. وہ سبحان کی موم، ڈیڈ کو پہلے بھی کافی بار تصویروں میں دیکھ چکی تھی.
احمد صاحب نے ردا کے سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیا. جبکہ چار سالہ مائر خود احمد صاحب کی گود میں چڑھ گیا تھا.
دادا جانی آپ کو میں اتنی بار تصویروں میں دیکھ چکا ہوں. بابا جانی کہتے ہیں کہ یہ میرے دادا جان ہیں. کیا آپ سچ میں ہمارے ساتھ چلیں گے؟
جی میری جان اب ہم ساتھ رہیں گے.
آپ کے بابا کہاں ہیں؟
وہ چاچو کے پاس ہیں. انہیں چوٹ آئی ہے نا اس لیے.....
وہ مائر کو اٹھائے اندر کی طرف بڑھ گئے، جہاں ابان موجود تھا.
ڈیڈ....
سبحان ان کی طرف بڑھا تھا، مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے ہی اسے روک چکے تھے.
آمنہ بیگم نے ہی آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو سینے سے لگایا تھا.
چھٹی کا کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر؟ احمد صاحب نے فہد کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا....
جی انکل اب ہم اسے گھر لے کر جا سکتے ہیں. کچھ فارمیلٹیز ہیں میں وہ پوری کر کے آتا ہوں. آپ یہاں بیٹھ کر انتظار کریں، پھر چلتے ہیں.
آمنہ بیگم ابان کے پاس آئی اور اسے بھی پیار کیا. موم ٹھیک ہوں میں.... بس ذرا سی چھو کر گزری ہے.
اس نے ایک نظر احمد صاحب پر ڈالی جو کہ صوفے پر جا بیٹھے تھے.
____________
وہ گھر آگیا تھا.
گھر میں کافی زیادہ لوگوں کے آ جانے سے کام بھی بڑھ گیا تھا. جس کی وجہ سے ذری کو اس کے پاس زیادہ دیر رہنے کا موقع نہ مل سکا.
یوں سب کے آ جانے سے کچن میں لگی رہی تھی.
ردا نے بھی اس کی مدد کرنے کے لئے کہا تھا جسے وہ بڑی سہولت سے انکار کر گئی تھی.
ذری مجھے بھی کوئی کام بتاؤ؟ میں بھی تمہاری مدد کروا دیتی ہوں.
نہیں بھابھی آپ آج آرام کریں. پھر بعد میں آپ کو ہی میرے ساتھ کچن میں کام کروانا پڑے گا.
ہاں... ہاں کیوں نہیں ضرور.....

اس نے اس کے لئے دوپہر کے کھانے میں سوپ بنایا تھا.
وہ اس کے لئے لے جانے ہی لگی تھی کہ سمعیہ آ گئی.
آغا جان اپنی دوا کے لئے کہہ رہے تھے. تم انہیں دوا دے او...
یہ کیا ہے؟
ابان کے لیے سوپ ہے.
وہ خود ابان کو اپنے ہاتھوں سے سوپ پلانا چاہتی تھی.
میں سوپ ابان کو دے آتی ہوں، تم پہلے آغا جان کو ان کی دوا دے او.
اس نے نا چاہتے ہوئے بھی باؤل سمعیہ کو دے دیا.
اس کے بعد پورا دن اسے موقع ہی نہ مل سکا ابان کے پاس جانے کا.
ماہی اور  عاشی بھی رات کے کھانا بنانے میں اس کی مدد کے لیے آ گئی تھیں اور اب وہ رات کے کھانے کے برتن نجمہ سے دلوانے کے بعد اوپر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی....
______________
وہ اپنے بیڈ پر لیٹا آنکھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا. اس کو زری پر غصہ آیا تھا.
وہ جب سے آیا تھا. وہ ایک بار ہی آئی تھی وہ بھی کچھ پل کے لئے اس کے بعد اس نے دوبارہ کمرے میں قدم رکھنا گوارا نا کیا تھا.
دوپہر میں سوپ بھی سمعیہ لائی تھی. جو کہ ابان کے پوچھنے پر اس نے اسے بتایا تھا.
کیا یہ سوپ تم نے بنایا ہے؟
ہاں..... بہت محنت سے میں نے یہ سوپ تمہارے لیے بنایا ہے.
پی کر بتاؤ کیسا بنا ہے؟ وہ سپون اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی....
ایک دم سے اس کے ذہن میں وہ گاڑی والا منظر لہرایا تھا، جب ذری اسے اپنے ہاتھوں سے آئسکریم کھلا رہی تھی.
نہیں میں خود کھا لوں گا. وہ اس کا بڑھایا ہوا ہاتھ واپس باؤل کی طرف کرتے ہوئے بولا...
سمیہ کے جانے کے بعد وہ کچھ دیر سو گیا تھا.
اور رات سات بجے کے قریب ہی اس کی انکھ کھولی تھی.
اور رات کا کھانا آمنہ بیگم نے اسے اپنے ہاتھوں سے کروایا تھا.
اور تب بھی وہ دشمن جان نہیں آئی تھی اور اب نو بجے کے قریب وہ بیڈ پر لیٹا اسے سوچنے میں مصروف تھا.
دروازہ کھلا تھا.
اب کوئی شک نہ تھا کہ وہ دشمن جاں ہی ہوگی.
وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے ایسے ہی لیٹا رہا.
جب زری دروازہ بند کیے اندر داخل ہوئی وہ اس کی طرف آئی تھی جو ہنز ایسے ہی لیٹا تھا.
سائیڈ ٹیبل پر دودھ کا گلاس ایسے ہی موجود تھا جیسے اس نے بھجوایا تھا.
مطلب اس نے میڈیسن نہیں لی؟
اس نے ہاتھ بڑھایا تھا کہ اس کا ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹا سکے، مقابل اسی ہاتھ سے ہی اس کا ہاتھ جھٹک گیا تھا.
آپ نے میڈیسن نہیں لی ابھی تک؟
تمہیں اس سے کیا؟ تم اپنے کام سے کام رکھو..... وہ اس سے یہ کہہ نا پایا کہ تمہیں اب فرصت ملی ہے.
زری کو اس کا یوں کہنا دل پر لگا تھا. وہ بنا کچھ اور کہے صوفے پر جا بیٹھی تھی اور آنکھیں نم ہوگئی تھیں.
وہ انتظار میں تھا کہ وہ اس سے کچھ کہے گی. لیکن اس کے ہاتھ اٹھانے پر وہ وہاں کھڑی نہ تھی، بلکہ سوفے پر بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی.
وہ اٹھ بیٹھا تھا یوں جلد بازی میں اٹھنے سے اسے اپنے بازو میں تکلیف ہوئی تھی.
زری یہ کیا طریقہ ہے؟ مجھے منانے کی بجائے تم خود منہ پھلائے دو میل دور جا بیٹھی ہو.
اس کے بولنے پر اس نے سر اٹھا کر دیکھا تھا.
اب میڈیسن دوگی یا میں خود اٹھ کر لوں؟
وہ اس کے بولنے پر جلدی سے اٹھی تھی اور اس کو میڈیسن نکال کے دی تھی.
کیا آپ مجھ سے خفا ہیں؟
کیا مجھے نہیں ہونا چاہیے؟
نہیں.... خفا ہونے کیلئے وجہ کا ہونا ضروری ہوتا ہے.
کیا یہ وجہ کافی نہیں ہے کہ تم ایک بار بھی مجھے دیکھنے نہیں آئی؟
آپ نے کہا ہی نہیں.
کیا؟
یہی کی  زرفشاں لغاری میرے پاس آؤ؟
میرے کہنے سے تم آ جاتی؟
ہاں.... میں آ جاتی.
کیا تم خود نہیں جان سکتی؟
کیا؟
یہی کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے؟
آپ چاہتے ہیں کہ میں خود سے آؤں؟
ہاں ....
کیوں؟ زرفشاں لغاری ہی کیوں ہمیشہ پہلے قدم بڑھائے؟
تم کیا چاہتی ہو؟
میں آپ کو اپنے پاس دیکھنا چاہتی ہوں؟
تم جانتی ہو یہ خطرناک ہے.
ہاں.... لیکن اب مجھے خطروں سے ڈر نہیں لگتا.
تو پھر کس سے لگتا ہے؟
آپ کو کھو دینے سے......
وہ دونوں ایک دوسرے کے سوالوں کے جوابات دینے میں اتنا مگن تھے کہ دروازہ بجنے کی آواز تک سنائی نہ دی.
زری ہی پہلے اس سحر سے نکلی تھی اور دروازہ کھولنے کے لیے بڑھی تھی.
چاچی..... چاچو.... کو بھاگ کر ابان کے پاس بیڈ پر آ گیا تھا.
میرے شیر.... کیا تم ابھی تک سوئے نہیں؟
میں آج آپ کے ساتھ سؤں گا.
یار تم بڑے ہو گئے ہو. بہادر بنو تمہیں اب اپنے کمرے میں سونا چاہیے..... وہ اسے سمجھانے کے انداز میں بولا تھا.
چاچو آپ  تو مجھ سے بڑے ہیں. تو پھر آپ چاچی کے ساتھ کیوں سوتے ہیں؟ کیا آپ کو ڈر لگتا ہے؟ مائر کی بات سنے زری کا بلند قہقہہ گونجا تھا.
یار تم کتنے شیطان ہو. میں تو تمہیں ایک اچھا بچہ سمجھ رہا تھا. ابان منہ بگاڑتے ہوئے بولا...
چاچی آپ بھی بیڈ پر آجائیں.
ذری اپنی ہنسی روکتی بیڈ پر آ گئی تھی.
اور مائر ان دونوں کے درمیان میں لیٹ گیا تھا.
زری بھی لائٹ آف کیے لیٹ گئی تھی.
مائر آپ ذرا میری طرف ہو جاؤ آپ کے چاچو کو چوٹ لگی ہے نا تو انہیں درد ہوگا. ...

ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول) Where stories live. Discover now