عاشی کے ولیمے کو گزرے ہفتہ ہو گیا تھا.
دن بے کیف سے گزر رہے تھے..... ان دونوں میں بات چیت نہ ہونے کے برابر تھی، مگر زری اپنے فرض کو بخوبی نبھا رہی تھی.
وہ صبح اٹھ کر ابان کے کپڑے ریڈی کر کے نیچے ناشتہ بنانے چلی جاتی تھی.
ابان کے جانے کے بعد وہ آغا جان کے پاس رہتی. رابیعہ بیگم بھی لغاری ہاؤس میں آ چکی تھیں. لیکن زری ان سے بات نہ کرتی تھی.
وہ اپنے کمرے میں بہت کم رہتی تھی. ابان کے آنے کے بعد تو وہ جانا ہی نہیں چاہتی تھی.
صبح ابان کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ کمرے سے نکل جاتی تھی اور رات بھی جب سونے کا ٹائم ہوتا تب ہی اپنے کمرے میں جاتی تھی.
اور اب اسے یونی جانا شروع کرنا تھا.صبح جب وہ اٹھی تھی تو ابان کو اپنے بہت نزدیک سوتا پایا، اسے ایک دم سے غصہ آیا، لیکن نظر ثانی کرنے کے بعد اسے معلوم ہوگیا تھا کہ ابان اپنی جگہ پر ہی ہے، بس زری بیگم ہی اس کی سائیڈ پر چلی گئی تھی.
اس نے صد شکر کیا کہ ابان کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی، اس کی آنکھ کھل گئی تھی.
وہ ابان کے کپڑے سیٹ کئے، خود فریش ہو کر نیچے چلی گئی تھی.
وہ پھر سے آغاجان کو پارک لے جانے لگی تھی.______________
ابان کی جب آنکھ کھلی تو زری کو کمرے میں نہ پایا.
وہ اٹھ کر فریش ہونے چل دیا.
ابان سے زری کی ایک بھی حرکت چھپی نہیں تھی. اس کا جلدی اٹھ کر کمرے سے نکل جانا، رات دیر تک کمرے میں نہ آنا.
ابان کو اپنا یوں نظر انداز کیا جانا گوارہ نہ تھا، لیکن وہ پھر بھی برداشت کر گیا تھا.
ذری اپنا یونی بیک تیار کرکے ہی نیچے گئی تھی اور اس کا یونی بیک دیکھ کر اسے غصہ آیا تھا.
کہ اس نے ایک بار پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا اور نہ ہی بتانا کہ وہ پھر سے یونی جانا شروع کر رہی ہے. وہ فریش ہو کر باہر آیا تھا اور ٹائی نہ ملنے پر چلایا تھا.
اس کی آواز ٹائینگ ٹیبل پر موجود سب افراد نے سنی تھی.
زری! بیٹا جاؤ ابان کو اس کی ٹائی ڈھونڈ دو....آغاجان بولے تھے.
وہ ان سے کہنے کو تھی کہ وہ کپڑوں کے ساتھ ہی ٹائی رکھ کر آئی ہے، جیسے پچھلے دنوں سے رکھ رہی تھی.
مگر آمنہ بیگم بول پڑیں..... لو بھلا یہ بھی اب بتانے کی ضرورت ہے کہ زری بیگم اپنے شوہر کی چیزوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں.
تائی امی میں......... وہ ابھی کچھ بولتی کہ رابیعہ بیگم بول پڑیں...
ابان کی تیاری مکمل کرواؤ جا کر......
وہ ایک نظر ڈال کر کمرے کی طرف بڑھ گئی.جو مٹا ہے تیرے جمال پر وہ ہر ایک غم سے گزر گیا
ہوئیں جس پہ تیری نوازشیں وہ بہار بن کے سنور گیاتری مست آنکھ نے اے صنم مجھے کیا نظر سے پلا دیا
کہ شراب خانے اجڑ گئے جو نشہ چڑھا تھا اتر گیاترا عشق ہے مری زندگی ترے حسن پہ میں نثار ہوں
ترا رنگ آنکھ میں بس گیا ترا نور دل میں اتر گیا__________________
وہ بنا آواز کئیے کمرے میں داخل ہوئی تھی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی تھی کہ وہ شخص جو ابھی ٹائی کے لیے چلا رہا تھا وہ ٹائی پہنے مکمل تیار کھڑا تھا.
وہ یہ دیکھ کر واپس جانے کو تھی جب اس کی آواز کانوں میں پڑی..
دروازہ بند کرو......
اس کے پاس دروازہ بند کرنے کے سوا اور کوئی آپشن موجود نہ تھا.
وہ دروازہ بند کیے اپنی جگہ سے نہیں ہلی تھی.
وہ خود اس کی طرف آیا تھا اور اس کے پاس جا کھڑا ہوا تھا.
تم نے کس کی اجازت سے یونی جانا شروع کیا ہے؟ میں آغاجان سے اجازت لے چکی ہوں. وہ معصومیت سے بولی.
او ائی سی..... مطلب تمہیں صرف آغاجان کی اجازت کی ضرورت ہے، باقی تمہاری لائف میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے؟؟
وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کے سوالوں پر خاموش تھی.
تم میرے سامنے اتنی معصوم کیوں بن جاتی ہو؟ اور آواز کہاں چھوڑ کر آتی ہو، میرے پاس آنے سے پہلے؟؟
وہ اپنا چہرہ اور نیچے کر گئی تھی.
تم واقعی ابان لغاری کو سوٹ نہیں کرتی.....
یوں ڈری سہمی لڑکیاں مجھے زہر لگتی ہیں.
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...