آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟وہ رابیعہ بیگم کی دوا لینے ان کے گھر کی طرف آئی تھی، جب دانیال کو رابیعہ بیگم کے گیٹ کے پاس دیکھ کر بولی...
لو.... محترمہ کی چھٹی والے دن بھی آنکھ جلدی کھل جاتی ہے..... وہ اپنے منہ میں بڑبڑایا تھا.
کچھ کہا؟ وہ اس کے اس طرح بڑھانے سے کچھ سمجھ نہ پائی.
نہیں... محترمہ میں نے کچھ نہیں کہا،کیا آپ بتانا پسند کریں گی کہ .....
میں کچھ نہیں بتاؤں گی بلکہ آپ بتائیں کہ آپ اس طرح کسی کے گھر کے باہر کیا کر رہے ہیں؟ ورنہ میں شور مچا دوں گی، کہ آپ چوری کر رہے ہیں.
اچھا!!! تو کیا میں آپ کو چور دیکھتا ہوں؟
دیکھنے سے کیا ہوتا ہے. آپ کی حرکتیں بتا رہی ہیں.یہ میری خالا کا گھر ہے. میں ان سے ملنے آیا تھا. کیا اب آپ بتانا پسند کریں گی کہ زری اور خالہ کہاں گئے ہیں؟
کیا..... میری چچی آپ کی خالہ کب سے بن گئیں؟ ماہی نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا.
ہاہاہاہاہا جب سے میں پیدا ہوا ہوں، تب سے ہی وہ اس روتبے پر فائز ہو گئی تھیں. وہ اس کی بے تکی بات پر کھل کر مسکرایا تھا.
چچی ہماری طرف ہیں اور زری ہسپتال میں ہے. اس سے اپنی اور بےعزتی برداشت نہ ہوئی اسی لیے جلدی سے بتا کر دروازہ کھولنے لگی.
کیا.... کیا ہوا ہے زری کو؟؟
آپ خود جا کر دیکھ لیں اور مجھ سے اس طرح سڑک پر کھڑے ہو کر سوال جواب مت کریں وہ اسے ہسپتال کا پتہ بتائے، اندر دوا لینے کے لیے بڑھ گئی گی.._______________
ستمگر کو میں چارہ گر کہہ رہی ہوں
غلط کہہ رہی ہوں مگر کہہ رہی ہوںزری نے آنکھیں کھولیں.... تو ابان کو چیر سے سر ٹکائے سوتا پایا......
وہ سوتے ہوئے بھی کسی مغرور شہزادے کی طرح لگ رہا تھا، جسے صرف اپنے آپ سے غرض ہو اور اپنی رعایا سے لاعلم ہو.
میری وجہ سے یہ پوری رات بے آرام ہوئے، لیکن مجھے کیا؟
میری بھی تو زندگی ان کی وجہ سے ڈسٹرب ہوئی ہے، اگر انہیں چھوڑنا ہی تھا تو پھر کیوں... کیوں شادی کے لیے ہامی بھری تھی. اگر مجھے چھوڑنا ہی ہے تو مجھے کہیں کہ "میری زندگی سے چلی جاؤ زرفشاں نعمان لغاری" یوں تائی امی کو کہنے کی کیا ضرورت تھی اور تائی امی کو بھی کسی کی زبان کا پاس رکھنا نہیں آیا، کیسے مہمانوں کے سامنے میرا تماشہ بنا دیا اور ان سے یہ بھی کہہ دیا کہ میرا شوہر مجھے بہت جلد تلاق دینے والا ہے. وہ یہ سب باتیں سوچے جا رہی تھی اور انہیں سوچتے اس کے ماتھے پر کئی بل بھی آئے تھے اور چہرے پر ناگوار تاثرات بھی نمودار ہوئے تھے.
کچھ ہی پل میں مقابل بھی اٹھا تھا اور اس کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس سے پوچھا تھا.
کیا کچھ چاہیے؟
مجھے گھر جانا ہے. اس کے سوال کو نظرانداز کیے بولی.
ٹھیک ہے. میں ساری فارمیلٹی کلیئر کر کے آتا ہوں پھر چلتے ہیں. وہ یہ کہ کر دروازے کی طرف بڑھا اور پھر پلٹا.....
کچھ کھانے کو چاہیے؟
نہیں......
وہ اس کا جواب سنے باہر کی طرف بڑھ گیا.
سوال جواب تو ایسے کر رہے ہیں، جیسے ہم میں بہت اچھے تعلقات قائم ہوں....
ہننہہہہہ.....
اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو
پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام_______________
وہ کھانے کا کچھ سامان لیے جیسے ہی اندر داخل ہوا تو وہ اپنے سامنے منظر کو دیکھ کر رکا تھا.
جہاں وہ یونیورسٹی والا لڑکا چیئر پر بیٹھا تھا اور وہ دونوں کسی بات پر مسکرا رہے تھے.
مجھے دیکھ کر اسے حیرانی ہوئی تھی اور اب وہ تمہاری خبر ضرور لے گی، کہ تم نے اسے میرے بارے میں بتایا کیوں نہیں......
غلطی تو تمہاری ہے. تم نے ہی کہا تھا کہ میں اسے کچھ-------ابھی وہ کچھ اور بولتی کہ سامنے کھڑے ابان کو دیکھ کر اس کی چلتی زبان رکھی تھی.
کیونکہ وہ صرف خاموشی سے کھڑا ہی نہیں تھا بلکہ اپنا غصہ، حسد، جلن، سب کنٹرول کیے ہوئے تھا.
اس کے اس طرح چپ ہو جانے پر اس نے دروازے کی طرف دیکھا تھا.
اسلام علیکم.......
دانیال کے سلام پر ابان آگے بڑھا تھا. اور ٹرے ٹیبل پر رکھ دی تھی.
یہ میری خالہ کا بیٹا دانیال ہے اور دانیال بھائی یہ زری کے بھائی اور میرے تایا زاد کزن ہیں.
اور زرفشاں لغاری کا شوہر ابان لغاری بھی....... زری کے آدھے تعارف پر اس کا موڈ بگڑا تھا اور اس سے ہاتھ ملاتے وقت اپنا مکمل تعارف خود کروا چکا تھا.
جی جی میں جانتا ہوں آپ زری کے شوہر ہیں، جو کچھ دن پہلے لندن سے بزنس کی ڈگری لئیے واپس آئے ہیں.
کچھ لیں گے آپ؟ چائے وغیرہ
نہیں.... آپ لوگ ناشتہ کریں میں اب چلتا ہوں ......________________
آپ کو انھیں بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ آپ میرے شوہر ہیں.....؟ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی اور ابھی لباس تبدیل کرکے آئی تھی، ان کپڑوں میں وہ کچھ بہتر لگ رہی تھی جبکہ ہسپتال کے لباس میں کافی بیمار دکھائی دے رہی تھی.
اس کی آواز پر ابان جو اس کی دوا رکھ رہا تھا اس کے ہاتھ رکھے تھے، وہ دوا کا شاپر میز پر واپس رکھ کے اس کی طرف بڑھا تھا اور اس کے سر پر جا کھڑا ہوا تھا.
اس کی ٹھوڈی اوپر کیے، اس کی آنکھوں میں دیکھے پوچھا تھا.
کیا میں تمہارا شوہر نہیں ہوں؟ پھر اس بے تکی بات کا مطلب کہ میں نے اسے یہ کیوں کہا؟
وہ اس کے اس طرح پوچھنے پر اپنی پلکیں جھکا گئی تھی.
اس طرح آنکھیں نیچی کرنے پر اس نے اس کی ٹھوڈی کو جھٹکا تھا، جیسے اس کا یہ عمل ناگوار گزرا ہو...یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے_________________
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...