رابیعہ بیگم اپنے کمرے میں نماز ادا کر رہی تھیں. جب زری ان کے کمرے میں داخل ہوئی اور انہی کے پاس بیٹھ گئی.
انہوں نے سلام پھیرا اور دعا کے لئے ہاتھ بلند کیے.
امی پلیز بات کریں مجھ سے، آپ کی زری ایسے نہیں جی سکتی امی، پلیز کچھ بولیں امی، پلیز...... اس کے رونے میں شدت آئی تھی.
انہوں نے دعا کے بعد اس کی طرف منہ کیا تھا. زری تم جانتی ہو، تم جب چھوٹی تھی تو اپنی ہر بات اپنے بابا کو بتاتی تھی اور ان کے بعد تم ڈائری لکھنے لگی، لیکن تم نے مجھ سے کبھی کوئی بات شیئر نہیں کی.
میں ماں ہوں، تم مجھ سے کچھ شیئر نہ بھی کرو تو بھی ایک ماں اپنے بچے کے بارے میں سب جانتی ہے. لیکن کبھی یہ نا سوچنا کہ تمہاری ماں تم سے غافل رہی ہے، وہ سب جانتی ہے. لیکن میں تم سے سننا چاہتی ہوں، تمہارے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتی ہوں.
میری جان اپنی ماں سے کچھ مت چھپاؤ زری، اپنی ماں کو بتاؤ، کیا بات ہوئی ہے؟ جس کا صدمہ اتنا گہرا ہے کہ میری بہادر بیٹی برداشت نہیں کر سکی.....
وہ ان کے گلے لگ گئی.... امی میں کبھی کچھ نہیں چھپاؤ گی، کبھی بھی نہیں، بس آپ مجھ سے بات کرنا مت بند کریں.
امی ابان مج.... مجھے پسند نہیں کرتے وہ مجھے بہت جلد طلاق دے دیں گے. وہ اتنا کہہ کر پھر سے رونے لگی.
زری یہ کیسی باتیں کر رہی ہو میری جان، کیا ابان نے خود تم سے کہا ہے؟
نہیں... انہوں نے خود نہیں کہا، لیکن میں.... میں جانتی ہوں وہ ایسا ہی کریں گے. وہ انہیں آمنہ بیگم کی بات بتا نہ سکی.
نہیں میری جان ایسا نہیں سوچتے، ابان تو بہت اچھا ہے وہ ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا.
پھر کافی دیر رابیعہ بیگم اسے سمجھاتی رہیں._________________
بیٹا ابان ہمیں حقیقت سے آگاہ کر چکا ہے. اور ہم تم پر کوئی ترس یا ہمدردی نہیں دکھا رہے بلکہ بس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تم بھی ہماری بیٹی ہو. ہم چاہتے ہیں کہ ہم تمہیں لغاری ہاوس سے رخصت کریں.
وہ سب اس وقت ماہی کے کمرے میں موجود تھے. جب آغاجان نے عاشی کے سر پر پیار رکھتے ہوئے کہا.
اور ہاں کل ہم سب فہد کی طرف چلیں گے اپنی بیٹی کی شادی کی تاریخ رکھنے کے لئے...
واہ آغا جان آپ گریٹ ہیں.... ماہی چہکتے ہوئے بولی.
اچھا بس اب سب سونے کی تیاری کرو.... آمنہ بیگم بولی تھی.
ابان تم رابیعہ بیگم کو بھی بتا دینا کہ صبح کی تیاری رکھیں اپنی...... احمد صاحب بولے تھے.
جی.......
اور پھر سب اپنے کمروں کی طرف چل دیے...__________________
وہ اب کافی اچھا محسوس کر رہی تھی. ورنہ جب سے ہسپتال سے آئی تھی اور رابیعہ بیگم نے اس سے بات نہیں کی تھی، تو اس کا دل بجھ گیا تھا، لیکن اب خوش تھی.
لیکن جیسے ہی وہ لڑکی یاد آتی تو اس کا دل اداس ہو جاتا.
وہ ڈریسنگ کے سامنے موجود اپنے گیلے بال سکھا رہی تھی، جب اس لڑکی کا سراپا اس کی آنکھوں کے سامنے آیا تھا........
ہاں وہ پیاری ہے، مگر اتنی بھی پیاری نہیں ہے. میک اپ کرنے سے تو ہر کوئی پیارا ہی دیکھتا ہے وہ بڑبڑاتی ہوئی لپسٹک اٹھا کر لگا چکی تھی.
اور واقع ہی وہ صرف ایک لپسٹک سے ہی کافی پیاری لگ رہی تھی. خوبصورت تو پہلے ہی تھی لیکن کھلے بالوں اور لپسٹک سے اور خوبصورت دیکھ رہی تھی.
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...