مجھے خاموش راہوں میں تیرا ساتھ چاہیے
تنہا ہے میرا ہاتھ تیرا ہاتھ چاہیےمجھ کو میرے مقدر پر اتنا یقین تو ہے
تجھ کو بھی میرے لفظ میری بات چاہیےدوپہر سے رات ہونے کو آ گئی تھی، لیکن ابان گھر نہیں آیا تھا. وہ بنا مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا تھا.
زری کا کہا ایک ایک لفظ اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا.
وہ کتنی بار اپنی بات ثابت کرنے کے لئے اس کے سامنے آئی تھی اور اتنی ہی بار اس نے اسے دھتکار دیا تھا.
اسے اب تک یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی اپنی ماں ہی اس کا گھر بسنے سے پہلے ختم کردینا چاہتی تھیں.
وہ زری کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا. آخر کب تک؟ کبھی نہ کبھی تو اسے اس کا سامنا کرنا ہی تھا.
ان تمام سوچوں کو جھٹکتے اس نے گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی تھی...
______________
ماں تو آخر ماں ہوتی ہے، وہ کبھی اپنی اولاد کے لئے کوئی غلط فیصلہ لے ہی نہیں سکتی.
ماں کا دل اگر موم ہوتا ہے تو اس کی اولاد بھی اپنی ماں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی.
یہی زری کے ساتھ تھا وہ چاہ کر بھی اپنی ماں سے زیادہ دیر خفا نہیں رہ سکتی تھی.
وہ ان کی گود میں سر رکھے کافی دیر ان کی باتیں اور نصیحتیں سنتی رہی تھی.
رابیہ بیگم کے بتانے پر ہی دوپہر میں ہونے والے واقعہ کی خبر ہوئی تھی.
اس بات کا پتا چلتے ہی اس کا دل کافی بے چین ہو گیا تھا، پتا نہیں ابان نے سب کچھ سننے کے بعد کیا رد عمل اختیار کیا ہوگا؟ لیکن اب سچائی جاننے کے بعد وہ اپنے ساتھ کچھ غلط ہی نہ کرلے...
اس کی پریشانی مغرب کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی کیونکہ ابان اس وقت گھر آ جاتا تھا لیکن آج تو سب کچھ ہی الٹ ہو رہا تھا.
آج آمنہ بیگم اور آغا جان دونوں نے رات کا کھانا اپنے کمروں میں کیا تھا.
نجمہ آمنہ بیگم کو کھانا ان کے کمرے میں ہی دے آئی تھی.
جبکہ آغاجان کے لئے وہ خود لے کر گئی تھی جس سے آغاجان نے کرنے سے منع کر دیا تھا، پھر زری کے اصرار پر انہیں کرنا پڑا. وہ انہیں دوا بھی دے آئی تھی.
ڈائننگ ٹیبل پر احمد صاحب، رابیعہ بیگم، ماہی اور زری ہی تھے.
لغاری ہاؤس میں آج معمول کے مطابق چہل پہل نہیں تھی کیونکہ آج ماہی بھی خاموش تھی.
ماہی آغاجان اور احمد صاحب کی باتیں سن چکی تھی جو آج دوپہر ہوا تھا.
وہ چاہ کر بھی ابان کو ایک کال نہ کر سکی تھی. اس میں ہمت نہ تھی کہ وہ اس سے کال کرکے ہی پوچھ لیتی کہ اب تک آئے کیوں نہیں؟ کب آئیں گے؟ آپ نے ڈنر کر لیا؟ یہ وہ سوال تھے، جو اسے بے چین کر رہے تھے.
اب رات کے دس بج رہے تھے مگر وہ ستمگر اب تک نہیں آیا تھا.غم نہیں یہ کہ انتظار کیا
بلکہ یہ ہے کہ اعتبار کیابے تعلق ہی ہم تو اچھے تھے
اس تعلق نے اور خوار کیا___________________
رات کے گیارہ بج رہے تھے جب اس نے گھر میں قدم رکھا تھا.
اس نے صبح سے کچھ کھایا نہ تھا اسی لیے بھوک مٹانے کی نیت سے وہ سب سے پہلے کچن میں گیا تھا.
نجمہ رات نو بجے ہی اپنے کواٹر میں چلی جاتی تھی اور اب کچن میں کوئی بھی موجود نہ تھا.
اکثر جب بھی وہ کچن میں آتا تھا تو وہ دشمن جاں موجود ہوتی تھی لیکن آج خالی کچن اس کو منہ چڑا رہا تھا.
اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ خود سے کچھ بنا سکتا یا فریج سے کچھ لے کر گرم کر سکتا. وہ بنا کچھ کھائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا.اس کے قدموں کی آہٹ سے ہی وہ جان گئی تھی کہ ابان ہے. اسی لیے وہ اپنی آنکھیں بند کیے سوتی بنی تھی.
وہ دروازہ بند کیے، صوفے پر اپنا کوٹ اچھالے بالکل اس کے بیڈ کے پاس جا کھڑا ہوا تھا.
اسے یوں پرسکون سوتا دیکھ کر قلب سکون محسوس ہوا تھا.
دن بھر کی تھکاوٹ پل بھر میں دور ہوئی تھی. اس کا دل کیا کہ وہ اسے اپنی باہوں میں بھر کے کہیں دور بہت دور لے جائے، جہاں غم کا سایہ تک نہ ہو.
وہ اس پر جھکا تھا. اس سے پہلے کے وہ کوئی گستاخی کرتا وہ اس کے ہاتھوں کے عمل کو دیکھ چکا تھا. جو اس کے جھکنے پر مٹھی بنائے زور سے بند کر گئی تھی.
اس کا ایک ہاتھ اس کے چہرے کے بہت قریب ہی موجود تھا. مطلب صاف تھا کہ وہ سو نہیں رہی تھی. وہ آنکھیں بند کئیے بھی ابان لغاری کو محسوس کر سکتی تھی.
وہ بنا کچھ کہے واش روم میں گھس گیا.
واش روم کے دروازہ بند ہونے پر وہ اٹھ بیٹھی تھی، اور اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں گرائے ایک لمبا سانس کھینچا تھا، جیسے وہ کچھ دیر پہلے سانس روکے لیٹی ہو.
_________________وہ واش روم سے فریش ہو کر باہر آیا تھا، جب ذری اس کے لیے کھانا میز پر لگا چکی تھی، اسے حیرانی بالکل نہیں ہوئی تھی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ ابان لغاری کو بنا دیکھے بھی پڑھ سکتی ہے.
وہ تولیہ اچھالے ڈریسنگ کی طرف آیا تھا، جب زری میز پر کھانا رکھے بیڈ کی طرف بڑھنے کو تھی ،جب وہ ایک ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا.
وہ اس کا ہاتھ یونہی پکڑے کنگھی کرنے میں مصروف تھا، جیسے دوسرا کوئی فریق وہاں موجود ہی نہ ہو.
وہ اس کے کچھ نہ بولنے سے سمجھ گیا تھا کہ وہ دوپہر ہونے والے واقعے کے بارے میں جان چکی ہے.
وہ کوئی بھی بات کئیے اسے لیے سوفے پر بیٹھ گیا تھا.
وہ کھانا کھانے میں مصروف ہو چکا تھا مگر زری ویسے ہی بیٹھی تھی.
اس کے لئے یہی کافی تھا کہ سب جاننے کے بعد اس نے کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کی تھی. لیکن زری کے دل میں اس وقت یہی ایک خیال تھا، کہ وہ شخص کچھ تو بولے کچھ تو کہے وہ جانتی تھی کہ ابان لغاری معافی مانگنے والوں میں سے نہیں ہے. وہ معافی نہ بھی مانگے.... کم سے کم کچھ کہے تو سہی.
وہ کھانا کھا چکا تھا..
ٹھیک ہے تم لے جاؤ اسے....
وہ اس کے کہنے پر برتن اٹھائے کچن کی طرف چل دی تھی، لیکن یہ دیکھ کر حیران ہوئی تھی کہ ابان بھی اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا.
وہ کچن میں برتن دھوئے، واپس ان کو ان کی جگہ پر رکھ رہی تھی جب ابان کی آواز اس کے کانوں میں پڑی.
کافی...
وہ بس کافی ہی بولا تھا. جس سے وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کافی پینا چاہتا ہے، اسی لئے وہ بنا کوئی جواب دیے کافی بنانے میں لگ گئی.
وہ پاس ہی چیئر پر بیٹھا، بڑی فرصت سے اسے دیکھنے میں مگن تھا. جو خاموشی سے اپنا کام کئے جا رہی تھی.
وہ زرفشاں لغاری کو سمجھنے سے انکاری تھا. کہ کیسی لڑکی ہے کم از کم کچھ تو کہے یا پھر ایک طنز کا تیر ہی چلا دے. میرے ساتھ رہ کر اسے اتنا تو سیکھ ہی جانا چاہیے تھا. وہ اپنی سوچ پر خود ہی مسکرا دیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ لڑکی کچھ نہیں کہے گی.ستم پر شرطِ خاموشی بھی اس نے ناگہاں رکھ دی
کہ اک تلوار اپنے اور ،میرے درمیا ں رکھ دی
یہ پوچھا تھا کہ مجھ سے جنسِ دل لے کر کہاں رکھ دی
بس اتنی بات پر ہی کاٹ کر اس نے زباں رکھ دی
پتا چلتا نہیں اور آگ لگ جاتی ہے تن من میں
خدا جانے کسی نے غم کی چنگاری کہاں رکھ دی
زمانہ کیا کہے گا آپ کو اس بدگمانی پر
میری تصویر بھی دیکھی تو ہو کر بدگماں رکھ دی
میرے حرفِ تمنا پر چڑھائے حاشیے کیا کیا
ذرا سی بات تھی تم نے بنا کر داستاں رکھ دی
___________________
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...