وہ اسے اپنی طرف دیکھا پا کر نظریں جھکا گئی تھی مگر اپنے آنسوؤں کو روکنے میں ناکام رہی تھی.
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکےاب رو کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟ اس کا لہجہ نرم پڑا تھا.
میں... میں کچھ ثابت کر ہی نہیں سکتی. جو اپنا سچا ہونا ثابت نہیں کر سکتی، اسے کچھ اور ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے. وہ پچھلی بات کا حوالہ دیتی ہوئی بولی.....
ٹھیک ہے! وہ اس کے اور نزدیک ہوا تھا اور کانوں میں سرگوشی نمایاں انداز میں بولا تھا.
چلو مان لیا تم مجھ سے دور نہیں جانا چاہتی، لیکن کبھی پاس رہنے کا بھی تو نہیں کہا؟ وہ سنجیدگی سے بولا تھا..
وہ حیران ہوئی تھی. ابان سے فاصلے کے چکر میں میں وہ دوبارہ سے شیشے کے ساتھ لگ گئی تھی.
لیکن اس کے اس طرح سے پیچھے ہونے پر وہ غلط مطلب لے گیا تھا.
زرفشاں ابان لغاری میں آج بھی اپنی بات پر قائم ہوں. وہ خود اس سے فاصلے پر ہوا تھا اور اس سے منہ موڑ گیا تھا.
کچھ دیر بعد وہ پھر اس کی طرف پلٹا تھا.
بہت غرور ہے تمہیں اپنے حسن پر؟؟ لیکن یہ یاد رکھنا کہ تمہارا یہ حسن ابان لغاری کی انا پر وار کرنے میں ناکام رہا ہے....
وہ حیران و پریشان کھڑی تھی وہ اپنے حواسوں کو کنٹرول کرنے میں لگئی تھی.وہ بات کو کس قدر غلط رخ پر لے گیا تھا.دروازے پر دستک ہوئی تھی اور ابان نے ہی آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا.
بھائی پیچھے ہٹیں، مجھے اندر آنے دیں، مجھے اپنی دوست سے ملنا ہے.
پتہ نہیں آپ نے اسے کتنا ڈرا دھمکا دیا ہوگا.
وہ اب صرف تمہاری دوست ہی نہیں ہے بلکہ وہ اب ابان لغاری کی بیوی ہے، اب اسے ڈرنے کی نہیں ڈرانے کی ضرورت ہے.... وہ شرارت سے بولا تھا.
بھائی! نیچے آپ لوگوں کو سب یاد کر رہے ہیں. ٹھیک ہے 15 منٹ میں ہم آرہے ہیں یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا.میرے بغیر نیچے جانے کی ضرورت نہیں ہے. میرے کپڑے نکالو.
اس نے سائیڈ ٹیبل سے ایک بوکس نکالا اور اسے بیڈ پر اچھال دیا.
اسے بھی پہن لینا.... وہ یہ کہہ کر وہ واش روم میں گھس گیا.
زری بیڈ کی طرف بڑھی تھی اور ہاتھ بڑھا کر وہ ڈیبی اٹھائی تھی.... اسے رج کے اپنی بےعزتی پر رونا آیا تھا.
کیا وہ اس شخص کی سوچ بدلنے میں ناکام رہی تھی؟ ہاں.... وہ اب بھی اس کے بارے میں وہی سوچتا تھا.
ڈبی میں دو کنگن تھے جو کہ بہت خوبصورت تھے، اس نے بے دردی سے ان کنگنوں کو اپنی کلائیوں میں سجایا تھا.میں نے کب درد کی زخموں سے شکایت کی ہے
ہاں میرا جرم ہے کے میں نے محبت کی ہےچلتی پھرتی لاشوں کو گلہ ہے مجھ سے
شہر میں رہ کر میں نے جینے کی جسارت کی ہےآج پہچانا نہیں جاتا چہرہ اسکا
اک عمر میرے دل پہ جس نے حکومت کی ہےآج پھر دیکھا ہے اسے محفل میں پتھر بن کے
میں نے انکھوں سے نہیں دل سے بغاوت کی ہےاسکو بھول جانے کی غلطی بھی ہو نہیں سکتی
ٹوٹ کر کی ہے تو صرف محبت کی ہے . . . !_______________
ناشتہ کرنے کے بعد ابان فہد کی طرف چلا گیا تھا کیونکہ رات کو فہد کا ولیمہ تھا.
احمد صاحب فیکٹری چلے گئے تھے.
رابیعہ بیگم نے لغاری ہاؤس آنے کے لیے منع کر دیا تھا لیکن اغا جان کی بات رکھتے ہوئے انہوں نے کچھ دن بعد آنے کا کہا تھا.
زری کافی دیر آغاجان سے باتیں کرتی رہی اور پھر نجمہ نے آکر ہی اسے اطلاع دی تھی کہ آمنہ بیگم اسے اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں.
ٹھیک ہے بیٹا!!!! تم جاؤ اپنی ساس کی بات سنو وہ تمہیں کچھ کہیں تو بیٹا اپنے دل پر مت لینا انہیں اپنی ماں کا درجہ دینا....
جی آغا جان...... وہ یہ کہہ کر آمنہ بیگم کے کمرے کی طرف بڑھ گئی________________
چل صحیح ہے. اب سارا کام ہو گیا ہے، تو تو ایسا کر عاشی کو پالر لے جا اور میں گھر جا کر سب کو لے آتا ہوں..... اس نے اپنی طرف سے آسان حل بتایا تھا.
ابان تم کتنے مین ہو، تم زری کو بھی اپنے ساتھ ہی لے آتے تو کیا چلا جاتا تمہارا؟؟ بلکہ تمہارا کام ہی آسان ہو جاتا وہ میرے ساتھ ہیں پالر چلی جاتی.
محترمہ!!! تمہارے علم میں اضافہ کرتا چلوں کہ میری بیوی کو ان پالروں کی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی وہ یہاں آکر بور ہی ہوتی، چلو اب یہ تو ہے کہ وہ گھر پر آرام کر رہی ہو گی.... وہ شوخی سے بولا تھا.
بس..... بس کبھی بات اپنے تک نہ آنے دینا...عاشی منہ بگاڑتے ہوئے بولی تھی.
ہاہاہاہاہاہا.... آخر ابان لغاری نام ہے.
وہ سب اس کی بات پر مسکرا دیے.
_________________آؤ..... وہ آمنہ بیگم کے کمرے کے دروازے پر رک گئی تھی، جب آمنہ بیگم نے اسے اندر آنے کے لیے کہا.
مجھے تم سے کچھ خاص دشمنی نہیں ہے لیکن پھر بھی تم مجھے پسند نہیں ہو.
تمہاری وجہ سے میرا بڑا بیٹا مجھ سے دور ہے، مگر میں ابان تمہیں نہیں دے سکتی.
تائی امی! میں آج تک آپ کی شکایتیں دور کرنے میں ناکام رہی ہوں، مگر میرا یقین کریں میں رخصتی پر راضی نہیں تھی.
رخصتی ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے تم پانچ سال سے میرے بیٹے سے وابستہ ہو، تمہاری ماں کی وجہ سے میری چھوٹی بہن کو کتنا کچھ سہنا پڑا تم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی.
اس کی تکلیف کا مدعاوا ابان کی شادی سمیعہ سے کرکے کرنا چاہتی تھی، لیکن تمہاری وجہ سے میں ایسا کرنے میں کامیاب نہیں رہی.
مجھے اب بھی تم سے امید ہے کہ تم میرے بیٹے کی زندگی سے نکل جاؤں گی....
میں معذرت چاہتی ہوں تائی امی! میں ایسا چاہ کر بھی نہیں کر سکتی، میرے بس میں کچھ نہیں ہے، نہ پہلے نہ اب...... وہ یہ کہہ کر ان کے کمرے سے نکل گئی._________________
Assalam o alaikum!!!!
Main aap Sab ky comment parti hun, mujhe notification bhi show ho Jaate Hain aur mujhe bahut Achy Lagty Hain aap logon ky comments/rewies novels ke bare mein, jo app log Dete Hain, Sivay ak comment k "Episode is too short"
Meri online classes chal rahi hai.... presentation, quiz, or lectures Ke chakron Mein main aap Sabke comments Ka Jawab Nahi De paati or na hi story lambi likh pa Rahi Hoon.Aap Logon ke itne achy reviews parne ke bad Mera khud ka Dil Karta Hai K Main is story ko jald se jald khatm Karon.
So plz cooperate kreen.
ƙɛɛ℘ ʂų℘℘ơཞɬıŋɠ....
________________________________
🔘 Vote if you like
🔘 Comment down and share your reviews
🔘 Follow on instagram 👉🏻 @novels_by_nageen
YOU ARE READING
ستمگر کی ستمگری (مکمل ناول)
Short Storyکہتے ہیں عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتا.... سہی کہتے ہیں. ایک فریق اپنی محبت کو کتنا ہی چھپالے لیکن آنکھیں سب بولتی ہیں،کیونکہ آنکھیں دل کی ترجمان ہوتی ہیں. اس کہانی میں اس ستمگر کی آنکھیں سب بیان کرتی ہیں. لیکن وہ منہ سے کچھ بھی بیان کرنے کو تیار ہی...