شدید گرمیوں کے دن تھے.. رات کے کسی پہر اُسکی آنکھ کھُلی..اُس نے موبائل اُٹھا کر وقت دیکھا تو فجر میں کافی وقت باقی تھا، وہ اُٹھ کہ تہجد کے لیے وضو کرنے چلی گئی۔
وہ تہجد گزار نہیں تھی لیکن وقت نے اُسے بنا دیا تھا، شاید اُسے رب کے قریب لانے کے لیے ایک حادثہ ضروری تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کچھ سال پہلے:
ملک ولا میں ڈائننگ ٹیبل پر کھانے کی ہر شہ موجود تھی۔ سب سکون سے ناشتہ کر رہے تھے لیکن جہاں آبان ہو وہاں خاموشی زیادہ دیر نہیں رہ سکتی اور ابھی بھی ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔
یار اب میری بھی چھوٹی موٹی منگنی ہو جانی چاہیے، کیا خیال ہے آپی؟ اُسکی بات پر جہاں مرحہ کا قہقہہ نکلا وہیں سفیان صاحب اور سلمہ بیگم نے اپنے لاڈلے کو گُھورا۔
دیکھو بات یہ ہے کہ ہم منگنی تو تمہاری کروادیں مگر ہم کسی کا بُرا نہیں سوچ سکتے ۔ مرحا نے لہجے کو سنجیدہ بنا کر کہا۔
کیا یار آپی میں سیریس ہوں۔آبان نے منہ بسورا۔
مرحا نے ایک اور قہقہہ لگایا۔
آبان تم سیریس بالکل اچھے نہیں لگتے۔ وہ ہنسی کے درمیان بولی۔
برخوردار تم کچھ زیادہ بڑے نہیں ہوگئے جو اپنی ہی شادی کی باتیں کر رہے ہو؟ سفیان صاحب مصنوئی غصہ چہرے پر سجا کر رعب دار آواز میں بولے۔
وہ بابا میں تو ایسے ہی مزاق کر رہا تھا۔ وہ کھسیانی ہنسی ہنسا۔
مرحا نے اپنا قہقہہ دبایا اور اور کرسی کھسکا کر کھڑی ہوگئی۔
اچھا اب میں چلتی ہوں دیر ہو جائےگی، خدا حافظ۔
خدا حافظ بیٹا۔ سلمہ بیگم نے کہا۔
وہ باہر کی جانب بڑھ گئی۔سفیان صاحب اور سلمہ بیگم کی دو ہی اولادیں تھیں ایک مرحا اور دوسرا آبان، مرحا اے-ایس-پی آفیسر تھی جبکہ آبان یونیورسٹی کے تیسرے سال میں بزنس پڑھ رہا تھا۔ سفیان صاحب ملک کے جانے مانے بزنس مین تھے اور سلمہ بیگم ہاوس وائف، سفیان صاحب نے مرحا کے پولیس فورس میں داخل ہونے کے چند ماہ بعد اپنے ایک عزیز از جان دوست کے بیٹے شہریار سے اسکی منگنی کروادی تھی۔ مرحا نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا اور ماں باپ کے فیصلے کے آگے سر خم کردیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ ٹیرس پر کھڑی آبان کا انتیظار کر رہی تھی، اُن دونوں کی عادت تھی وہ دونوں روز رات کو اُدھر بیٹھ کر کافی پیا کرتے تھے اور اپنے دن بھر کی ساری باتیں شئیر کرتے تھے۔
یہ لیں کافی۔ وہ اپنے موبائل پر کوئی وڈیو دیکھ رہی تھی جب آبان نے اسکو کافی لا کر دی۔
آپی ایک بات تو بتائیں۔ آبان نے بات کی شروعات کی۔
پوچھو۔ اُس نے خوشگوار موڈ میں کہا۔
آپ روز مجھ سے ہی کیوں کافی بنواتی ہیں؟ آبان نے کافی کا سِپ لیتے ہوئے کہا۔
وہ مسکرائی۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ کی کافی کر میرے پورے دن کی تھکن اُتر جاتی ہے، سچ کہوں تو تم بہت اچھی کافی بناتے ہو۔ اس نے پُر شفقت لہجے میں جواب دیا۔
ویسے یہ کچھ ہی ٹائم کی بات ہے پھر آپکی شادی ہو جائگی اور پھر آپ یہ بات شہریار بھائی کو کہا کرینگی اور پھر کہاں کا بھائی کہاں کی کافی کچھ یاد نہیں رہیگا آپکو۔ اُس نے آسمان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
میری زندگی میں کوئی بھی آجائے لیکن تمہاری اہمیت کبھی کم نہیں ہوگی، سمجھے بدھو۔ مرحا نے اُس کے بال خراب کرتے ہوئے کہا۔ اچھا سب چھوڑو یہ بتاؤ کل کے ٹیسٹ کی تیاری کرلی؟ مرحا نے موضوع بدلا۔
جی میری پیاری آپی میں نے کرلی ہے تیاری۔ آبان نے اسکے گال کھینچے۔
آہ آبان کتنی دفعہ کہا ہے میری گال نہیں کھینچا کرو۔ مرحا نے اس کے بازو پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
ہاہاہاہاہا میری بہن کے گال ہیں میں تو کھینچونگا۔ اُس نے مرحا کو زبان چڑائی۔ مرحا اسکے انداز پر مسکرائی۔ اچھا جاؤ سوجاؤ ورنہ صبح پھر یونی کے لیے لیٹ ہوجاؤگے۔ مرحا نے نرم لہجے میں کہا۔
آپ بھی سوجائیں شہریار بھائی سے باتیں مت کرتی رہیےگا۔ شوخ لہجے میں کہتا وہ نیچے بھاگ گیا۔ اور پیچھے مرحا ہنس دی۔