مرحا ریسٹورینٹ میں داخل ہوئی اور اپنی ریسرو کی ہوئی ٹیبل پر جا بیٹھی۔
تھوڑی دیر بعد ہی ہمدان اور آبان بھی آگئے۔
السلام علیکم ۔ دونوں نے بیک وقت سلام کیا۔
وعلیکم السلام ۔ بول کر مرحا نے اُن دونوں کو دیکھا۔
ہمدان جینز پر نیوی بلیو کلر کی ٹی شرٹ پہنا ہوا تھا، بالوں کو جیل لگا کر سیٹ کیا ہوا تھا، آنکھوں پر مہنگے گلاسس اور ہاتھ میں قیمتی گھڑی اور موبائل تھا۔ اُس کی ہر چیز قیمتی ہونے کا ثبوت پیش کر رہی تھی۔
کہاں رہ گئے تھے تم لوگ؟
ارے مرحا کیا بتاؤں اتنا زیادہ ٹریفک تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا کراچی اُٹھ کر سڑکوں پر نکل آیا ہے۔ اِس سے پہلے آبان کچھ بولتا ہمدان بول اُٹھا۔
جبکہ آبان کا تو اُس کے اِس بہانے پر منہ کُھل گیا۔
جھوٹ بول رہا ہے یہ آپی، سب سے زیادہ ٹائم اِس نے لگایا ہے پہلے گھر جا کر تیار ہوا ہے پھر آیا ہے میرے ساتھ۔
ہمدان کا چہرہ شرمندگی کے مارے لال ہوگیا۔
مرحا اپنی مسکراہٹ دبانے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی۔
تیار ایسے ہو رہا تھا جیسے اپنی شادی میں جا رہا ہو۔ پھر اُس نے سر اُٹھا کر ان دونوں کو چہروں کو دیکھا، مرحا کا چہرہ ہنسی ضبط کرنے کی وجہ سے لال تھا جبکہ ہمدان کا چہرہ غصے کی شدت کی وجہ سے۔
کی ہوا میں نے کچھ غلط کہہ دیا کیا؟
کوئی بھی اس وقت آبان کو دیکھتا تو دنیا کا معصوم ترین انسان قرار دیدیتا۔
مجھے لگتا ہے کسی دن تمہارا قتل ہوجائے گا میرے ہاتھوں۔ ہمدان نے دانت پیستے ہوئے کہا تو مرحا کی ہنسی چھوٹ گئی۔
(اس کو بھی مرحا کے سامنے ہی میرا مزاق اُڑوانا تھا) ہمدان صرف سوچ سکا۔
اچھا اب آرڈر کرلیں؟ مرحا نے خود کو اور ہنسنے سے روکنے کے لیے کہا۔
جی۔ آبان نے لفظی جواب دیا جبکہ ہمدان ہنوز آبان کو آنکھیں چھوٹی کرکے گُھور رہا تھا۔
ہمدان بس کرو میرے بھائی کو گُھورنا۔ مرحا نے اُس کے کندھے پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
جیسا آپکا حکم۔ وہ ایک ہاتھ سینے پر رکھے سر کو خم دیتے ہوئے بولا۔
آبان تم نے شہریار کو نہیں بولا تھا؟
شہریار کے نام پر ہمدان کا ہلک تک کڑوا ہوگیا تھا، ایسی بات نہیں تھی کہ ہمدان اُس کو پسند نہیں کرتا تھا، ہمدان اور آبان کی کافی اچھی دوستی تھی شہریار سے مگر مرحا کی منگنی کے بعد سے ہمدان شہریار سے تھوڑی سی جلن محسوس کرنے لگا تھا۔
جی آپی میں نے انکو فون کیا تھا مگر وہ کہہ رہے تھے کہ اُنکی ایک میٹنگ ہے تو وہ نہیں آسکتے۔ آبان نے جواب دیا۔
اوہ اچھا۔ مرحا بولی۔
ہمدان نے مرحا کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی مگر وہاں افسوس کی کوئی رمق نہیں نظر آئی تو وہ تھوڑا مطمئن ہوگیا۔ شاید اُس پر محمود بٹ کی صبح کہی ہوئی باتوں کا اثر ہو رہا تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لنچ کے بعد ہمدان اپنے گھر چلا گیا تھا اور آبان اپنے گھر جبکہ مرحا واپس ڈیوٹی پر چلی گئی تھی۔
آبان گھر آکر سلمہ بیگم کو ڈھونڈنے لگا اور کچن وہ پہلی اور آخری جگہ تھی جہاں اُسے سلمہ بیگم اُس وقت مل سکتی تھیں۔
گھر میں لاتعداد ملازم ہونے کے باوجود بھی سلمہ بیگم کُکنگ خود کیا کرتی تھیں۔
مما مما سلمہ بیگم کو پکارتا وہ کچن میں آیا۔
مما۔
جی مما کی جان۔ سلمہ بیگم نے مُڑے بغیر کہا۔
مما کیا کبھی ایسا ہو سکتا ہے کہ میں گھر آوں تو آپ کچن میں کھانا نہ پکا رہی ہوں؟
جی بیٹا ایسا بالکل ممکن ہے مگر تب جب آپ لوگ میرے ہاتھ کا کھانا کھانا چھوڑ دیں۔ جس دن سے آپ لوگ میرے ہاتھ کا کھانا کھائے بغیر رہ لیے اُس دن سے میں کھانا پکانا چھوڑ دونگی۔ اِس بار وہ پوری طرح سے آبان کی طرف متوجہ تھیں۔
آپ کے پاس سارے جواب ہوتے ہیں۔ آبان نے منہ بسورا۔
بیٹا جی تمہاری ماں ہوں میں۔ وہ ہنس کر بولیں۔
اچھا ادھر آئیں بیٹھیں مجھے کچھ بات کرنی ہے آپ سے۔ وہ سلمہ بیگم کو چئیر پر بٹھاتے ہوئے بولا۔