باب نمبر ١۴

46 5 0
                                    

آپی کی برتھ ڈے آنے والی ہے اور میں چاہتا ہوں ہم انہیں سرپرائز پارٹی دیں۔ وہ اُن کی سامنے والی چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
رہنے دو آبان تم برتھ ڈے والے دن تک اِس بات کو سرپرائز نہیں رکھ پاوگے اور جا کر مرحا کو بتا دوگے۔
اب آپ مجھے انڈرایسٹیمیٹ (underestimate )  کر رہی ہیں۔ وہ چئیر سے ٹیک لگاتا بولا۔
آبان بیٹا میں تمہیں نا بچپن سے جانتی ہوں، تم کب کیا کر سکتے ہو مجھے پتا ہے اس لیے یہ ڈرامے بند کرو اور جا کر فریش ہو کر سو جاؤ کیونکہ مجھے تم بہت زیادہ نیند میں لگ رہے ہو۔ وہ اطمینان سے چئیر سے کھڑے ہوتے ہوئے بولیں۔
آبان کا سارا جوش جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔
ٹھیک ہے نا کریں آپ میری ہیلپ میں..
مرحا آپی سے کہہ دونگا ہیں نا؟ سلمہ بیگم نے اُس کی بات کاٹی۔
اب ایسا بھی کچھ نہیں ہے میں بولنے والا تھا کہ میں بابا سے بات کرونگا وہ ہی میری ہیلپ کرینگے اور بابا نے بھی نا کی تو میں خود اکیلے کرلونگا۔ وہ گردن اکڑا کر بولا۔
ٹھیک ہے پھر میں تمہارے بابا کو کہہ دونگی کہ وہ تمہاری کوئی ہیلپ نا کریں۔ سلمہ بیگم مسکراہٹ دباتی بولیں۔
یار مما میں نے نہیں کرنی آپ سے بات۔ وہ آج صحیح معنوں میں جھنجھلا اُٹھا تھا۔
آبان میں نے کتنی دفعہ منا کیا ہے نا یہ یار ورڈ یوز کرنے کے لیے۔ وہ لہجے میں سختی سموئے بولیں۔
تو آپ نہیں کرینگی میری مدد؟ وہ انکی ڈانٹ کو نظر انداز کرتا بولا۔
بالکل بھی نہیں۔
ٹھیک ہے میں کرلونگا خود ہی۔ وہ پیر پٹختا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سفیان سنیں۔
سلمہ بیگم ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی کریم لگا رہی تھیں اور سفیان صاحب کسی فائل کا مطالعہ کر رہے تھے ۔
جی بیگم صاحبہ کہیں۔
آج آبان آیا تھا میرے پاس۔ یہ بول کر وہ تھوڑا رکیں۔
وہ تو روز ہی آتا ہوگا، ہمارا بیٹا ہے اور کس کے پاس جائے گا۔
افہو سفیان میری بات تو مکمل ہونے دیں، اب بیچ میں نہیں بولینگے آپ۔
اچھا جیسا آپکا حکم یہ ناچیز اب بالکل چُپ رہیگا۔ وہ منہ پر انگلی رکھتے ہوئے بولے۔
ہاں تو آبان کہہ رہا تھامرحا کی برتھ ڈے پر اُس کو سرپرائز دینے کا، میں نے دن میں اُس کو چڑانے کے لیے منا کردیا تھا مگر آپ ذرا دیکھ لیجیے گا وہ جو بھی کرنا چاہے۔ وہ اپنی بات مکمل کرکے خاموش ہوگئیں مگر سفیان صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔
اب آپ بول کیوں نہیں رہے؟ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں سفیان صاحب کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
سفیان صاحب نے آنکھ کے اشارے سے اپنی انگلی کی طرف اشارہ کیا جو کہ انہوں نے اپنے ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی۔
سلمہ بیگم نے بے اختیار اپنے سر پر ہاتھ مارا۔
اب پتا چلا ہے آبان کس پہ گیا ہے۔ وہ خفگی سے بڑبڑائیں مگر بڑبڑاہٹ اتنی اونچی تھی کہ سفیان صاحب تک آواز چلی گئی۔
میرے تو دونوں بچے مجھ پہ ہی گئے ہیں۔ وہ فخریہ انداز میں بولے۔
ایسا کچھ نہیں ہے آبان آپ پر گیا ہوگا مرحا نہیں، وہ کافی سمجھدار ہے۔
کیا مطلب ہے تمہارا اس بات سے۔ وہ تیوریاں چڑھائے بولے۔
کیا سفیان ہم ابھی مرحا کی سالگرہ کے بارے میں بات کر رہے تھے اور آپ بات کو کہاں سے کہاں لے گئے۔ سلمہ بیگم بات واپس مدعے پر لائیں۔

پاداشِ عملWhere stories live. Discover now