سفیان صاحب، آپ ذرا بچوں کو دیکھ لیجیے گا، پتا نہیں یہ تینوں لڑکے مل کر کیا کرینگے۔ آبان پتا نہیں صبح صبح اُٹھ کر کہاں چلا گیا ہے۔ مجھے بھی تھوڑی دیر میں مرحا کو لے کر سیلون جانا ہے۔
ارے بیگم کیوں اتنا پریشان ہو رہی ہیں آپ سارے انتظامات ہو جائنگے۔ اور آبان اکیلا تھوڑی ہے اُس کے ساتھ شہریار اور ہمدان بھی ہیں اور اگر کوئی مسئلہ ہوا تو میں بیٹھا ہوں نا ادھر۔ سفیان صاحب نے کہا۔
آپ بس بیٹھے ہی رہیےگا، میں جا رہی ہوں مرحا کو لے کر۔ وہ جھنجھلا کر بولیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مرحا بیٹا ذرا میرے ساتھ سیلون چلنا۔ سلمہ بیگم اُس کے کمرے میں داخل۔ہوتے ہوئے بولیں۔
میں؟ مرحا نے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے پوچھا۔
جی بیٹا آپ، میری فرینڈ کو تم سے کچھ کام تھا، تو آج میں جا ہی رہی تھی تو میں نے سوچا کہ تمہیں بھی لے جاؤں۔
مما آپ اُنکو میرا نمبر دیدیں میں اُن سے کال پر بات کرلونگی ابھی تھوڑا سا کام ہے مجھے۔ مرحا کہا۔
بس میرے کام نہیں کرنے ہوتے ہیں تم لوگوں نے، میں بول چکی تھی اُس کو میں تمہیں ساتھ لاونگی اپنے مگر ٹھیک ہے تم کام کرو۔ سلمہ بیگم نے کمال کی اداکاری کی۔
اچھا اچھا میں چل رہی ہوں آپکے ساتھ۔ مرحا نے جیسے گھُٹنے ٹیک دیے۔
میں تمہارا باہر انتیظار کر رہی ہوں دس منٹ میں آجاؤ۔ وہ یہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گئیں۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . گاڑی ایک شاندار سیلون کے باہر رُکی سلمہ بیگم اور مرحا گاڑی سے اُتر کر اندر کی جانب بڑھ گئیں۔
سلمہ بیگم نے کاونٹر پر جا کر اپنا اپاینٹمنٹ کارڈ دکھایا تو اور پھر جا کر صوفے پر بیٹھ کر اپنی باری کا اننتیظار کرنے لگیں۔
میم آپ میں سے مرحا مٙلک کون ہیں؟ ایک لڑکی نے آکر اُن سے پوچھا۔
جی میں ہوں۔ مرحا نے کہا۔
آپ اندر آجائیں۔
مرحا نے چونک کر سلمہ بیگم کو دیکھا تو انہوں نے آنکھ کے اشارے سے اُس کو اندر جانے کا کہا۔ مرحا سر ہلاتی اُس لڑکی کے ساتھ اندر چلی گئی۔
میم آپ اپنا ڈریس چینج کرلیں۔ بیوٹیشن بولی۔
سلمہ بیگم نے پہلے ہی مرحا کا سامان اور جیولری دیدیا تھا۔
ڈریس؟ مگر کیوں؟ مرحا نے سوال کیا۔
میم آپکا میک اپ کرنا ہے آپ پلیز جلدی سے چینج کرلیں۔
آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی مجھے کوئی میک اپ نہیں کروانا ہے۔ رُکیں ذرا میری مدر (mother) باہر بیٹھی ہیں میں اُن سے پوچھتی ہوں۔
لیکن میم وہ تو جا چکی ہیں اور انہوں نے آپکے نام کی ہی اپاینٹمنٹ لی ہوئی ہے۔ بیوٹیشن نے کہا۔
ایسے کیسے جا سکتی ہیں وہ؟ ایک منٹ میں اُنکو فون کرتی ہوں۔
اوکے میم آپ اُنکو فون کریں میں آتی ہوں۔
مرحا نے اپنی پرس دیکھنا چاہا تو اُسے یاد آیا کہ اُسکا پرس گاڑی میں ہی رہ گیا ہے۔ وہ منہ بنا کر جا کر چئیر پہ بیٹھ گئی۔
جی میم آپ نے کنفرم کرلیا؟ بیوٹیشن نے اندر آکر پوچھا۔
جی میرا ہی میک اپ ہے، آپ ڈریس دیں میرا۔ ناچار اُس کو ہاں کہنا ہی پڑا۔
بیوٹیشن سے ڈریس لے کر وہ چینج کرنے چلی گئی۔ چینج کرنے کے بعد بیوٹیشن نے نفاست سے اُسکا میک اپ کرنا شروع کردیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سفیان ہاوس میں پارٹی کی تیاری زور و شور سے جاری تھی۔ کچھ ہی دیر میں سفیان ہاوس کا وسیع لان بتیوں سے جگمگا اُٹھا تھا اور اس میں آبان، ہمدان اور شہریار کا ہاتھ تھا۔
شہریار کھڑا ملازموں کو کچھ ہدایت دے رہا تھا جب سلمہ بیگم اُس کے پاس آئیں۔
شہریار بیٹا تم جا کر مرحا کو لے آو۔
جی آنٹی آپ مجھے سیلون کا ایڈریس بتا دیں میں لے آتا ہوں۔ شہریار اُن سے ایڈریس سمجھ کر مرحا کو لینے چلا گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بیوٹیشن مرحا کو تیار کر چکی تھی، مرحا اپنے سراپے کو دیکھ کر خود بھی حیران تھی۔
وہ اورنج اور کالے رنگ کی تخنوں تک آتی کامدار فراک اور چوڑی دار پاجامہ پہنی ہوئی تھی، آج ڈوپٹے کی جگہ کالے رنگ کا اسکارف پہنا ہوا تھا (وہ بھی شہریار نے ہی لیا تھا) اسکارف پر اورنج رنگ کی موتیوں سے خوبصورت کام ہوا ہوا تھا۔ نفاست سے کیے گئے میک اپ میں وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
میم آپکو کوئی شہریار صاحب لینے آئے ہیں۔ بیوٹیشن نے آکر کہا۔
مرحا اپنا سامان اُٹھا کر باہر چلی آئی۔
شہریار گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ بلیک تھری پیس میں وہ بے حد وجیح لگ رہا تھا کہ کوئی بھی اُس کو دیکھتا تو چند لمحے یونہی دیکھتا رہ جاتا۔
شہریار کی نظر جیسے ہی باہر آتی مرحا پر پڑی تو ہٹنے سے انکاری ہوگئیں۔ وہ آسمان سے اُتری ہوئی کوئی حور لگ رہی تھی۔
اُس نے فوراً آگے بڑھ کر مرحا سے اُس کا بیگ لیا۔
آپ کیوں آئے ہیں مجھے لینے؟ مرحا نے سوال کیا۔
وہ آنٹی نے کہا تھا کہ آپکو لے آؤں تو میں آگیا۔
اور مما خود کیوں نہیں آئیں؟
وہ بزی تھیں اس لیے نہیں آئیں۔ اور آپ کیا سارے سوال یہیں کھڑے ہو کر کرینگی یا چلیں گی بھی؟
جانے کے لیے ہی باہر آئی ہوں میں۔ اُس نے آنکھیں گُھمائیں۔
تو پھر بیٹھیں۔ شہریار نے گاڑی کا دروازہ کھولا تو مرحا بیٹھ گئی اور وہ خود بھی دوسری طرف جا کر بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کر کے زن سے آگے بڑھادی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سارے مہمان سفیان ہاوس میں آچکے تھے بس مرحا کے آنے کا انتیظار تھا۔
لائبہ نے آج پیل بلیو اور سلور کے کامبینیشن کی گھٹنوں سے اوپر تک آتی فراک پہنی ہوئی تھی، بال ایک طرف کو ڈالے ہوئے تھے اور ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ سیدھا آبان کے دل میں اُتر رہی تھی۔ آبان کام کے ساتھ ساتھ نظریں بچا کر اُس حسین سی گڑیا کو بھی دیکھ لیتا تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اب کیا آپ سارے راستے اس ہی طرح منہ بنا کر بیٹھی رہینگی؟ شہریار نے مرحا کو دیکھا جو مستکل منہ پُھلائے گقڑی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
تو میں کیا گاڑی کے شیشوں سے باتیں کروں؟ مرحا نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
جب اتنا ہینڈسم منگیتر سامنے ہو تو شیشوں سے باتیں کرنے کی کیا ضرورت ہوئی بھلا۔
تو میرے ہینڈسم منگیتر آپ یہ بتائیں کہ آپ لوگ کونسا کھیل کھیل رہے ہیں میرے ساتھ؟
ابھی گھر چلیں آپ کو آپکے سارے سوالوں کے جواب مل جائنگے۔ شہریار نے اطمینان سے کہا۔
اُس کی بات پر مرحا نے دوبارہ اپنا رخ کھڑکی کی جانب موڑ لیا۔
گھر کے اندر جانے کی ایک شرط ہے۔ وہ لوگ گھر سے تھوڑا سا ہی دور تھے کہ شہریار نے کہا۔
کیسی شرط؟
آپکو آنکھیں بند کرنی پڑینگی۔
اب یہ کیا نیا مزاق ہے؟ میں نہیں کرونگی آنکھیں بند۔
کرنی تو پڑیگی ورنہ آپ اندر نہیں جا پائنگی۔ اچھا ٹھیک ہے۔ مرحا نے ہار مانی۔
شہریار نے سفیان ہاوس کے باہر گاڑی روکی اور مرحا کو اترنے کا اشارہ کیا۔
چلیں اب آنکھیں بند کریں اور جب تک میں نہ کہوں آنکھیں نہیں کھولنی ہیں آپ نے۔ شہریار نے اُسے سمجھایا۔
گاڑی تو اندر لے جاتے آپ۔
وہ گارڈ اندر کرلیگا فی الحال آپ اندر چلیں۔
مرحا نے اپنی آنکھیں بند کی تو شہریار نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور آرام سے اُس کو اندر لے جانے لگا۔
سفیان ہاوس کے لان میں سارے مہمان جمع تھے۔ شہریار مرحا کو اندر لاکر آنکھیں کھولنے کا کہا۔
اُس نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں سب نے ایک ساتھ اُس کو ہیپی برتھ ڈے کہا۔
مرحا کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ چھا گئی۔ شہریار اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُس کو ٹیبل کے پاس لے گیا جہاں کیک رکھا تھا۔
وہ جاکر آبان ے گلے لگ گئی۔
تم نے کیا ہے نہ یہ سب؟ اُس نے پوچھا۔
صرف میں نے نہیں شہریار بھائی اور ہمدان نے بھی۔ وہ مسکرا کر بولا۔
تھینک یو سو مچ تم لوگ بہت اچھے ہو۔ مرحا نے کہا۔ پھر ان سب نے مل کر کیک کاٹا۔
سفیان، حسن اور محمود بٹ ایک قدرے کونے میں کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہ تینوں یونی کے زمانے سے دوست تھے اور اب بزنس پارٹنرز بھی بن گئے تھے۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لائبہ ایک ٹیبل پر بیٹھی جوس پی رہی تھی جب آبان آکر اسکے سامنے بیٹھ گیا۔
اہہم اہم۔ آبان نے اُس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا مگر اس نے آبان کو دیکھا تک نا۔ آخر کچھ تو نخرے بنتے ہی تھے۔
ہاں بھئی ہمیں کیوں لفٹ کروائی جائےگی آج اتنے حسین جو لگ رہے ہیں کچھ لوگ۔ آبان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔
اُس کے انداز پر لائبہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس دی۔
تمہاری نوٹنکیاں کب ختم ہونگی آبان؟
"وہ ہماری محبت کو نوٹنکیاں سمجھ بیٹھے،
ہائے رے ہائے وہ کیا ظلم کر بیٹھے"۔
تم پھر شروع ہوگئے؟ لائبہ نے خفگی سے بھنویں سُکیڑیں۔
ویسے میں سوچ رہا تھا کہ ہم شہریار بھائ اور آپی کی طرح منگنی نہیں کرینگے بلکے ڈائریکٹ نکاح کرینگے۔ آبان نے اُس کی بات کو یکسر نظر انداز کیا۔
لائبہ کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا۔
تمہیں لڑکی کون دیگا؟ کیونکہ میں تو تم سے کبھی شادی نہیں کرونگی۔ لائبہ نے گویا ناک سے مکھی اُڑائی۔
یار محمود انکل دینگے نا اور کون دیگا اور دیکھو تم بالکل پریشان نہیں ہونا میں ہوں نا سب سنبھال لونگا۔ آبان نے اپنی مسکراہٹ دبا کر کہا۔
شٹ اپ آبان، کتنا فضول بولتے ہو تم۔ لائبہ نے آنکھیں سکیڑ کر اُسےگُھورا۔