باب نمبر ١٠

51 6 0
                                    

بھائی چلیں؟ آبان اور ہمدان بیٹھے بات کر رہے تھے جب لائبہ اُن کے پاس آئی۔
آبان نے نوٹ کیا تھا لائبہ کی آنکھوں کی سوجن تھوڑی کم ہوئی۔
ہاں چلو میں تمہارا ہی انتیظار کر رہا تھا۔ ہمدان اپنا بیگ اُٹھا کر کھڑا ہوا۔
تم نے کیا پورے دن یہیں بیٹھنا ہے؟ ہمدان نے آبان کو بیٹھا ہوا دیکھا تو کہا۔
ہاں سوچ رہا ہوں کہ آج پورے دن یہیں بیٹھ کر وٹامن لیتا رہوں۔ آبان نے درخت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
ہنہہ ڈرامے باز۔ لائبہ بڑبڑائی۔
کچھ فرمایا آپ نے؟ آبان نے پوچھا۔
اُس نے فقط نفی میں سر ہلانے پر اکتفا کیا۔
تم بھی چلے جاؤ گھر ہم بھی جا رہے ہیں۔ ہمدان یہ کہہ کر وہاں سے لائبہ کو لی کر چل دیا۔
ناجانے یہ کٹ خنی بلی کب تک ناراض رہیگی۔ آبان بڑبڑا کر اپنا سامان سمیٹنے لگا
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
شہریار اپنے آفس میں بیٹھا موبائل پر مرحا کی تصویر دیکھ رہا تھا جب دروازے پر دستک ہوئی ۔
کم ان۔ اُس نے اجازت دی۔
آبان آفس کا دروازہ کھول کر قدم قدم چلتا ہوا آیا اور شہریار کی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
ویسے تو اُس کا ارادہ گھر جانے کا ہی تھا مگر وہ آبان تھا اُس کے ذہن میں کبھی بھی کچھ بھی آسکتا تھا۔
تم اِس وقت یہاں کیسے؟
میں نے سوچا ذرا آپ سے تھوڑے سے حساب باقی تھے وہ پورا کرتا جاؤں۔
شہریار کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
کہو کونسا حساب پورا کرنا ہے۔
پہلی بات تو یہ کہ کل جو آپ نے آپی کی پکچرز لی ہیں وہ ڈیلیٹ کریں۔ آبان نے تھوڑا سا آگے ہو کر دھیمی آواز میں کہا۔
شہریار کے چہرے کا رنگ اُڑا۔
آپکو کیا لگا مجھے پتا نہیں چلا ہوگا؟ یہ چیل جیسی نگاہیں میں نے اِس ہی لیے تو رکھی ہیں۔ وہ شہریار کو دیکھ کر مسکرایا۔
شہریار نے دانت پیسے۔
ابھی اُٹھو اور نکلو میرے آفس سے۔ شہریار نے اُس کو باہر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
آپ تو ناراض ہی ہوگئے، میں تو آپ کو یہ بتانے آیا تھا کہ نیکسٹ منتھ آپی کی برتھ ڈے ہے  اور میں اُن کے لیے ایک سرپرائز پارٹی ارینج کرنا چاہتا ہوں، اس کے لیے مجھے آپ کی ہیلپ کی ضرورت ہے۔
ٹھیک ہے اس بارے میں میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں، ابھی میری میٹنگ ہے اس لیے تم جاؤ۔
بھول نہیں جایے گا آپ۔ آبان نے اُٹھتے ہوئے کہا۔
میرا نام آبان نہیں ہے۔ شہریار نے جلانے والے انداز میں کہا۔
ہاں اب ہر کوئی آبان ہو بھی نہیں سکتا۔ آبان نے کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔ بائے کہہ کر وہ باہر نکل آیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
کالے کرتا شلوار  پر سفید رنگ کی ویسٹکوٹ پہنے، گھنی موچھوں کو تاو یتے وہ ائیرپورٹ سے باہر نکلے، اُن موچھوں تلے رقص کرتی شیطانی مسکراہٹ۔ وہ ایک بارعب شخصیت کے مالک تھے۔
ہمدان انکو دیکھ کر فوراً بھاگ کر آیا اور ان سے لپٹ گیا۔
بابا میں نے اور لائبہ نے بہت مس کیا آپکو۔
میں نے بھی اپنے بچوں کو بہت مس کیا تھا۔
بابا چلیں لائبہ ویٹ کر رہی ہوگی۔ وہ محمود بٹ کو گاڑی کی طرف لیجاتے ہوئے بولا۔
. . . . . . . . . . . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . 

پاداشِ عملWhere stories live. Discover now