باب نمبر ٦

49 7 0
                                    

ڈرائنگ روم میں تمام نفوس بیٹھے باتیں کر رہے تھے، شہریار وہاں نہیں تھا۔
السلام علیکم۔ مرحا نے اندر داخل ہوتے  ہوئے سب کو سلام کیا۔
وعلیکم السلام بیٹا، جیتی رہو۔ ہمیرا بیگم نے اُٹھ کر اُسے پیار سے اپنے ساتھ لگایا۔
کیسی ہیں آپ؟ مرحا نے مسکرا کر پوچھا۔
الحمداللہ میں تو بالکل ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسی جا رہی ہے جاب؟ کتنے مجرم پکڑے اب تک؟ انہوں نے جواباً کہا۔
ہاہاہاہاہاہا آپ بس دعا کیا کریں کہ ایک بھی مجرم بچ نہ پائے۔
میری تو ساری دعائیں تمہارے اور شہریار کے لیے ہیں۔
اتنے میں شہریار اندر داخل ہوا، وہ سفید کُرتا شلوار پہنا ہوا تھا، اُس کی مسکراتی سیاح آنکھوں کی چمک مرحا کو دیکھ کر اور بڑھ گئی تھی۔ مونچھوں تلے لمبے پتلے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں تھی، ہلکی بڑھی داڑھی وہ شیو نہیں کرتا تھا۔ وہ سچ میں سحر کن شخصیت کا مالک تھا۔ اُس کی مکراہٹ اُسے اور مقبول بناتی تھی۔
وہ اندر آتے ہوئے مرحا کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا۔
اُس کی سیاح گہری آنکھیں مرحا کی بادامی آنکھوں سے ملی تھیں، چند لمحے نظروں کا تبادلہ ہوا، وہ مسکرایا، مرحا بھی جواباً مسکرائی۔
اور بھی لوگ ہیں یہاں۔
ایک آواز آئی تسلسل ٹوٹا، شہریار نے مُڑ کر آبان کو دیکھا جو ناجانے کب وہاں آکر کھڑا ہوا تھا۔
کباب میں ہڈی۔ شہریار بڑبڑایا لیکن آبان نے سُن لیا۔
ہڈی نہیں سالا ہوں وہ بھی اکلوتا، تھوڑی عزت دیا کریں۔ آبان نے فرضی کالر جھاڑتے ہوئے کہا۔
ہنہہ گلا نا دبادوں؟ شہریار جل کر بولا۔
ارے شہریار کھڑے کیوں ہو بیٹھو نا۔ سلمہ بیگم نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جی۔ وہ بس اتنا کہہ کر حسن صاحب کے برابر میں جا بیٹھا۔
حسن صاحب اور ہمیرا کی ایک ہی اولاد تھی شہریار۔ حسن صاحب ملک کے نامور بزنس مین میں سے ایک تھے۔ شہریار بھی پڑھائی مکمل کرکے اُن کے بزنس میں اُن کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔
شہریار تمہارے اسلام آباد والے پروجیکٹ کا کیا ہوا؟ سفیان صاحب نے سوال کیا۔
جی انکل الحمداللہ اسٹارٹ کردیا ہے وہ۔
اچھا چلیں کھانا لگوا دیا ہے آپ لوگ آجائیں۔ سلمہ بیگم نے کہا۔
وہ سب ڈائننگ روم کی جانب بڑھ گئے۔
کھانا کھاتے ہوئے مرحا کو مسلسل کسی کی نظروں کی تپش محسوس اپنے اوپر محسوس ہو رہی تھی مگر جب بھی وہ نظریں اُٹھا کر دیکھتی تو سب کھانے میں مشغول ہوتے۔ وہ شدید جھنجھلا رہی تھی۔
شہریار اُس کی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا۔
شہریار بھائی کھانے پر دیہان دیں آپی کو گھورنے کے لیے ساری زندگی پڑی ہے۔ آبان جو کہ شہریار کی ساری کاروائی دیکھ رہا تھا بولا۔
مرحا نے چونک کر سر اُٹھایا اور بات سمجھ آجانے پر سرعت سے سر جھکا گئی۔
شہریار اپنی چوری پکڑی جانے پر شرمندہ ہوا۔
جہاں سب نے ہنسی دبائی وہیں سلمہ بیگم نے آبان کو گھورا جیسے کہہ رہی ہوں کہ تم ذرا دیر چُپ نہیں رہ سکتے؟
لیکن اُنکی گُھوری کو آبان نے بالکل نظر انداز کردیا تھا۔
اچھا آپی وہ...
آبان کھانا کھاتے ہوئے بولتے نہیں ہیں۔
آبان کچھ اور بولنے ہی جا رہا تھا کہ سلمہ بیگم کی تنبیہہ پر برا سا منہ بنا کر دوبارہ کھانا کھانے لگا۔
(ایک تو مما کچھ بولنے ہی نہیں دیتیں) وہ صرف سوچ سکا۔
شہریار نے اسکو ایسے مسکرا کر دیکھا جیسے کہہ رہا ہو مل گیا سکون؟
آبان نے اسکی مسکراہٹ دیکھ کر آنکھیں گُھمائیں۔ اور پھر سارا وقت وہ خاموش ہی رہا۔

پاداشِ عملWhere stories live. Discover now