بس کرو ہمدان اب بہت ہوگیا، یہ میرے ماں باپ کی دی ہوئی تربیت ہے جو میں اب تک تمہارا لحاظ کر رہا ہوں، مجھے مجبور مت کرو، ورنہ پھر میں وہ کرونگا جس کا تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔ اور آئندہ میرے سامنے آنے کی بھی غلطی مت کرنا۔ انگلی اُٹھا کر کہتا وہ شہریار کو لے کر وہاں سے باہر نکل آیا۔
گاڑی میں شدید تناو تھا۔
شہریار بھائی آپ پلیز آپی کو کچھ نہیں بتائیے گا وہ ویسے ہی اپنی ٹرانسفر کی وجہ سے اُداس ہیں، میں نہیں چاہتا کہ وہ اور ہرٹ ہوں۔
تم بےفکر رہو۔ شہریار نے کہا۔
آبان کو گھر ڈراپ کرکے وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مرحا لاونج میں بیٹھی تھی جب آبان اندر آیا۔
تم اتنی جلدی آگئے آج؟ مرحا نے پوچھا۔
ہاں بس میں نے سوچا کہ آپ کے ساتھ تھوڑا ٹائم اسپینڈ کرلوں۔ وہ بامشکل مسکرایا۔
آبان تم پریشان ہو؟ مرحا نے اُس کے چہرے کے اُتار چڑھاو دیکھے۔
تھوڑا سا اداس ہوں بس، آپ چلی جائیں گی نا اس لیے۔
تمہار جب دل کرے نا تم مجھ سے ملنے آجایا کرنا۔ مرحا اُس کا گال چھو کر بولی۔
تم فریش ہو کر آو پھر ہم مووی دیکھتے ہیں مرحا نے کہا۔
ٹھیک ہے میں آتا ہوں۔ وہ یہ کہہ کر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ملازموں سے پتا چلا ہے کہ آج آبان اور شہریار آئے تھے اور بہت ہنگامہ بھی کرکے گئے ہیں۔
محمود بٹ اور ہمدان محمود بٹ کے کمرے میں بیٹھے تھے۔
ہمدان نے محض ہاں میں سر ہلا دیا۔
کس بات پر ہوا تھا یہ ہنگامہ؟ محمود بٹ نے سگار جلاتے ہوئے پوچھا۔
اُن دونوں کو پتا چل گیا ہے کہ میں مرحا سے محبت کرتا ہوں۔
تو کیا تم گارڈ سے کہہ کر اُن دونوں کو باہر نہیں نکلوا سکتے تھے؟ ہمت کیسے ہوئی دونوں کی کہ میرے ہی گھر میں آکر میرے ہی بیٹے سے بدتمیزی کرکے چلے گئے۔ وہ بھڑک اُٹھے۔
کچھ دن بعد مرحا کی شادی ہے پاپا اور میں کچھ نہیں کر سکا اب تک۔ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولا۔
تم فکر مت کرو اب جو بھی ہوگا وہ میں کرونگا اور تم دیکھنا مرحا تمہاری ہی ہوگی۔ اُن کو آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔
ہمدان کی کچھ ڈھارس بندھی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . شہریار اپنے کمرے کی بالکونی میں بیٹھا تھا، گھر میں ملازموں کے سوا کوئی نہیں تھا۔
اُس نے ہاتھ میں وہ ہی تصویریں پکڑی ہوئی تھیں جو وہ ہمدان کے گھر سے لایا تھا اور ایک ہاتھ میں لائٹر تھا۔ اُس نے تصویروں کو جلانا شروع کیا۔ ایک ایک کرکے ہر تصویر آگ کی لپیٹ میں آچکی تھی۔ اُس کی بالکونی میں دھواں بھر گیا تھا ، اُس کی آنکھوں سے پانی بہنا شروع ہوگیا تھا۔
وہ اُٹھ کر باہر آیا اور ایک ملازم کو آواز دی اُس سے بالکونی کو صاف کرنے کا کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔
. . . . . . .. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج مرحا اور شہریار کی مہندی تھی۔
وہ گولڈن اور پیلے رنگ کا امتزاج کا لہنگا پہنے اسٹیج پر بیٹھی تھی۔ میک اپ کے نام پر صرف گلابی رنگ کی لپسٹک لگی ہوئی تھی۔ ہاتھوں میں گجرے تھے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی اسکارف پہنا ہوا تھا۔ اُس کا تِل آج کچھ الگ ہی چمک رہا تھا وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ اور برابر میں بیٹھا اُس کا شہزادہ، سفید شلوار کمیز پر کالے رنگ کی واسکٹ پہنے، بالوں کو جیل لگا کر سلیقے سے سیٹ کیا ہوا تھا، ہاتھ میں قیمتی گھڑی اور پیروں میں پشاوری چپل پہنے بے حد وجیہ لگ رہا تھا۔ مسکراہٹ تھی کہ اُس کے چہرے سے جدا ہی نہیں ہو رہی تھی۔
وہ دونوں آج بے حد خوش لگ رہے تھے۔ کچھ لوگوں کی آنکھوں میں اُن دونوں کی جوڑی کو دیکھ کر خوشی تھی تو کچھ لوگوں کی آنکھوں میں حسد کے انگارے دہک رہے تھے۔
لائبہ آج اورنج رنگ کی مہندی کے لحاظ سے شارٹ فراک پہنی ہوئی تھی۔ بال کھول کر ایک طرف کو ڈالے ہوئے تھے، کانوں میں جھمکے ڈالے ہوئے تھے اور ہاتھ چوڑیوں سے لبریز تھے البتہ آج چشمہ نہیں پہنا تھا۔ ہلکا سا میک اپ کیے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ آبان کی نظریں بار بار بھٹک کر اُس حسن کے مجسمے پر جا رہی تھیں۔
آبان کا دل چاہ رہا تھا کہ ایک بار جا کر اُس پری کے ہاتھوں کی مہندی دیکھے مگر وہ نہیں جا سکتا تھا۔ اُس نے اپنا موبائل نکال کر لائبہ کو میسج کیا۔
"رات میں میں تمہاری مہندی دیکھنے آونگا سو مت جانا"
لائبہ یہ میسج پڑھ کر محض مسکرادی۔
. . . . .
محمود بٹ اور سفیان کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ سفیان صاحب بولے۔
میں سوچ رہا تھا کہ کیوں نہ مرحا اور شہریار کی شادی کے بعد آبان اور لائبہ کے بارے میں کچھ سوچیں۔ مجھے اپنے آبان کے لیے لائبہ بہت پسند ہے۔
آبان پہلے اپنی ڈگری مکمل کرلے پھر سوچیں گے اِس بارے میں۔ محمود بٹ نے اُنکو ٹالنا چاہا۔
ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔
ہمدان کیوں نہیں آیا؟انہوں نے سوال کیا۔
اُس کی طبیعت تھوڑی ٹھیک نہیں تھی۔
اوہ اللّٰہ بہتر کرے۔
یونہی باتیں کرتے کرتے مہندی کا فنکشن ختم ہوگیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ اُس نے اب تک چینج بھی نہیں کیا تھا۔
اُس کے موبائل پر میسج کی بیپ ہوئی آبان کا میسج تھا۔
"باہر آو"
وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی نیچے کی جانب بھاگی۔
گیٹ کے سامنے ہی آبان اپنی مرسیڈیز سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
شکر ہے تم جلدی آگئی۔ لائبہ کو دیکھ کر اُس کے پاس چلا آیا۔
کچھ دیر اُس کو یونہی دیکھتا رہا پھر بولا۔
سنو۔
کہو۔ وہ جواباً بولی۔
اچھی لگ رہی ہو۔
تم بھی۔ وہ مسکرائی۔
اُس کو مسکراتا دیکھ آبان کی مسکراہٹ بھی گہری ہوئی۔
اب کتنی دیر یونہی دیکھتی رہوگی مجھے؟
جب تک دل نہیں بھر جاتا۔
اور دل کب بھریگا؟
جب تک آخری سانس نہیں آجاتی۔
اُس کے بعد دل بھر جائےگا؟
اُس کے بعد وہ دھڑکے گا ہی نہیں تو بھرنا کیسا۔ لائبہ نے کہا۔
میرا دل تو پہلے ہی دھڑکنا بھول چکا ہے اب یہ صرف تمہارا نام لیتا ہے۔
بہت فلمی ڈائلاگ تھا یہ۔ لائبہ نے اُس کے کندھے پر مارتے ہوئے کہا۔
تمہارے لیے تھا اِس لیے دل سے نکلا تھا، آئندہ اِسے فلمی نہ کہنا۔ وہ ناراض ہوا۔
سنو میں جاؤں اب؟
کیوں دل بھر گیا۔ اُس نے لائبہ کو چھیڑا۔
آبان۔ لائبہ نے اُسے گُھورا۔
اچھا مہندی تو دکھاتی جاؤ ۔
جلدی دیکھو۔ لائبہ نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے۔
میرا نام کیوں نہیں لکھوایا اِس پہ؟
شادی میری نہیں مرحا آپی کی ہو رہی ہے۔
تم کہو تو تمہاری بھی کروا دیتے ہیں۔ آبان شوخ ہوا۔
لائبہ کا چہرہ حیا سے سرخ ہوا۔
اچھا اب جانے دو۔
ایک شرط پر جانے دونگا۔
کیسی شرط؟ لائبہ نے پوچھا۔
تمہیں اپنے ہاتھوں پر میرا نام لکھوانا پڑیگا۔
مگر میں مہندی لگوا چکی ہوں۔ لائبہ نے اعتراض کیا۔
بس چھوٹا سا لکھوا لو۔ پلییییززززززز۔ اُس نے پلیز کو کھینچ کر بولا۔ اُس وقت لائبہ کو وہ بے حد پیارا لگا۔
اچھا لکھوالونگی۔ اب خوش؟
بہت زیادہ۔ اُس کی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
میں جا رہا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔
تم بھی۔ یہ کہہ کر وہ اندر آگئی اور آبان اپنے راستے نکل گیا۔
محمود بٹ اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ انکی آنکھوں میں نفرت کے انگارے جل رہے تھے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ اپنے ہاتھ پر لکھے آبان کے نام کو دیکھ رہی تھی۔ وہ اُس کا نام پہلے ہی اپنی ہتھیلی پر لکھوا چکی تھی مگر اُس نے دکھایا نہیں تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بھائی۔ لائبہ مسلسل دروازے پر دستک دے رہی تھی مگر اندر سے کوئی جواب نہ پا کر وہ اندر داخل ہوگئی۔ ہمدان کاؤچ پر سر گرائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔
بھائی اُٹھیں۔ اُس نے آہستگی سے جا کر ہمدان کا کندھا ہلایا۔
اُس نے آنکھیں کھولیں، وہ جاگ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اُداسی تھی، کوئی قیمتی متاع چِھن جانے کا خوف تھا، اُس کی آنکھوں کی آسودگی کہیں گُم ہو چکی تھی۔ اُس کی آنکھوں میں سب کچھ لُٹ جانے کا غم تھا۔ لائبہ کو اُس کی طبیعت ٹھیک نہ لگی۔
کہو۔
آپ ٹھیک ہیں؟ میں کافی دیر سے آپ کے کمرے کا دروازہ ناک (knock) کر رہی ہوں مگر آپ کوئی جواب ہی نہیں دے رہے۔ آپ کل مرحا آپی کی مہندی میں بھی نہیں گئے تھے۔ سب ٹھیک ہے نا بھائی؟
ہاں سب ٹھیک ہے تم پریشان نہ ہو۔ وہ زبان سے تو اپنے ٹھیک ہونے کا اقرار کر رہا تھا مگر اُس کی آنکھیں، اُس کی آنکھیں اُس کا ساتھ نہیں دے رہیں تھیں۔
بھائی کوئی تو بات ہے جو آپ نے یوں خود کو کمرے میں بند کیا ہوا ہے۔ وہ اُس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔
اُس نے واپس آنکھیں بند کرکے چہرہ پیچھے کی جانب گرالیا۔
کچھ دیر وہ خاموش رہا پھر جب بولا تو اُس کی آواز میں درد واضح تھا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم جس سے محبت کرتے ہیں وہ ہم سے دور چلا جاتا ہے۔ پہلے ماما اور اب وہ۔ بات کے اختتام پر ایک آنسو لڑھک کر اُس کے گال پر بہہ نکلا۔
کون جا رہی ہے؟ لائبہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
میری زندگی کا چین، میرے دل کی دھڑکن، میری پہلی محبت مجھ سے دور جا رہی ہے۔ وہ کسی اور کا نام اپنے نام کے آگے لگانے جا رہی ہے اور میری بےبسی دیکھو کہ میں اُس کو رُکنے کا بھی نہیں کہہ سکتا، میں نہیں کہہ سکتا اُس کو کہ وہ نہ جائے میرے لیے رُک جائے۔
لائبہ کو اُس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں لگی۔
بھائی جو ہمارے نصیب میں ہوتا ہے وہ ہمیں دیدیا جاتا ہے اور جو نصیب میں ہی نہیں تو اُس کو کیسے روک سکتے ہیں آپ؟ لائبہ کو یہ تو نہیں پتا تھا کہ وہ مرحا کہ بارے میں بات کر رہا ہے، وہ بس اپنے بھائی کی پریشانی دور کرنا چاہتی تھی۔
جب وہ میرے نصیب میں نہیں تو میرے دل میں کیوں ہے لائبہ؟ اُس نے تڑپ کر پوچھا۔
ہر کام میں اللّٰہ تعالٰی کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے جو ہمیں جلد یا بدیر سمجھ آجاتی ہے۔ اس لیے آپ سب کچھ اللّٰہ پر چھوڑدیں اور اُس لڑکی کو اپنے دل سے نکال دینے کی دعا کریں۔
ہمدان نے آنکھ کھول کر اپنی اُس چھوٹی سی گڑیا کو دیکھا جو وقت سے پہلے ہی اتنی بڑی بڑی باتیں کرنے لگی تھی۔
آپ فریش ہوکر آجائیں بریک فاسٹ ساتھ کرینگے۔
تم چلو میں آیا۔
لائبہ نیچے کی جاب بڑھ گئی۔
. . . .. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .