شدید گرمیوں کے دن تھے.. رات کے کسی پہر اُسکی آنکھ کھُلی..اُس نے موبائل اُٹھا کر وقت دیکھا تو فجر میں کافی وقت باقی تھا، وہ اُٹھ کہ تہجد کے لیے وضو کرنے چلی گئی۔
وہ تہجد گزار نہیں تھی لیکن وقت نے اُسے بنا دیا تھا، شاید اُسے رب کے اور قریب لانے کے لیے ایک حادثہ ضروری تھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ایک ہفتہ مزید گزر گیا تھا اور پولیس نے آبان کی موت کو حادثاتی موت قرار دے کر اُس کا کیس بند کر دیا تھا۔ شہریار آج ہی ڈسچارج ہو کر گھر آیا تھا اور لائبہ کی رپورٹس بھی آج ہی آنی تھیں۔
شہریار نے ہمیرا کے موبائل سے مرحا کا نمبر ڈائل کر کے موبائل کان سے لگایا۔
چند ہی لمحوں بعد کال ریسیو کرلی گئی۔
السلام علیکم آنٹی۔ مرحا نے کہا۔
وعلیکم السلام۔
فون پر شہریار کی آواز سُن کر اُس نے لب بھینچے۔
کیسے ہیں آپ؟
مرحا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟ شہریار نے اُس کے سوال کے جواب میں ایک سوال کردیا۔
نہیں شہریار۔ لہجہ سنجیدہ تھا۔
مجھے آپ کو بتا دینا چاہیے تھا اُن میسج کے بارے میں۔ آئم سوری۔ میری ہی وجہ آج آبان ہمارے بیچ نہیں ہے۔
اس میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے شہریار۔ ہر کسی کی موت کا وقت معین ہے لیکن بس مجھے ایک بات کا دکھ ہے کہ آپ نے مجھے بتانا بھی گوارہ نہیں کیا۔ سنجیدہ ٹھہیرا ہوا لہجہ۔
سوری مرحا۔ وہ بس اتنا ہی بول سکا کیونکہ مرحا نے کال کاٹ دی تھی۔
اور وہ بس بے بسی سے موبائل کی طرف دیکھتا رہ گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
محمود بٹ لائبہ کی رپورٹس لے کر دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔
دیکھیے مسٹر محمود ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے لائبہ کے دماغ کا ٹیومر کافی بڑھ چکا ہے۔ تھرڈ اسٹیج ہے یہ۔ اگر ہم نے آپریشن کرنے کی کوشش کی تو لائبہ کی جان بھی جا سکتی۔ ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہہ رہی تھی اور اسکا ایک ایک لفظ محمود بٹ کی روح کھینچ رہا تھا۔
اور مجھے تو ایک بات نہیں سمجھ آرہی کہ لائبہ کے ٹیومر کا اتنی دیر سے کیسے پتا چلا ہے۔ کیا انکے پہلے کبھی درد نہیں ہوا یا آپ ہی اپنے پچوں کہ صحت سے غافل تھے؟ آج کل کے پیرنٹس کو اپنے بچوں کا خیال ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر تھوڑی برہم ہوئی۔
اُن کو اپنے سارے کردہ گناہ یاد آنے لگے۔
آپ یہ رپورٹس لے جائیں اور دوائیاں ٹائم پر دیجیے گا انکو۔ باقی اللّٰہ مالک ہے۔
وہ وہاں سے اُٹھ گئے۔ اب انہیں گھر جا کر سب سے مشکل مرحلہ طے کرنا تھا۔ لائبہ کو بتانے کا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
وہ ہمدان کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ ہمدان ہاتھوں میں سر گرائے اپنے آنسو قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
میں کیا کہوں آپکو، میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے ہیں۔ پتا ہے یہ سب نا ہمارے کردہ گناہوں کی سزا ہے۔ میری بہن۔ اُسکا ضبط ٹوٹا اور آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
ہمدان میرے بچے۔ وہ اُٹھ کر ہمدان کے پاس آنے لگے۔
میرے پاس مت آئیں۔ اُس نے ہاتھ دکھا کر انہیں رُکنے کا کہا۔
آپکا یہ جو لاڈ ہے نا پاپا اُس نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا ہے۔ میرے دوست، میری بہن اور میرا ہنستا مسکراتا اپنا آپ۔ لیکن اب آپ خوش ہوجائیں کیونکہ راستے کے پتھر جو ہٹ گئے ہیں اور اب تو لائبہ کے بھی ٹیومر ہوچکا ہے تو اب اُسکی فکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہ استہزائیہ ہنسا۔
مرحا اور شہریار اب میری کال نہیں اُٹھارہے اور انکے گھر جا کر معافی مانگنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں۔ مگر آپ ضرور معافی مانگ لیجیے گا اُن سے۔ کیونکہ آپ نے آبان کا قتل کیا ہے۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھ کر جانے ہی لگا تھا کہ دروازے پر لائبہ کو دیکھ کر اُس کے قدم رُک گئے۔ کیا نہیں تھا اُس کی آنکھوں میں بے اعتباری، رنج،نفرت۔ ہاں وہ نفرت ہی تھی جو وہ اس وقت اپنے باپ اور بھائی کے لیے محسوس کر رہی تھی۔
مبارک ہو آپ دونوں کو ہماری بربادی۔ سرد لہجے میں کہتی وہ وہاں سے چلی گئی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ناظرین ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ ملک کے نامور بزنس مین نے آبان ملک کی موت کا جرم قبول کرلیا ہے۔ ہم آپکو یہ بھی بتاتے چلیں کہ محمود بٹ نے ہائی-وے سے پکڑے جانے والے منشیات کا جرم بھی قبول کرلیا ہے۔
مرحا کو یہ نیوز دیکھ کر نہ ہی خوشی ہو رہی تھی نہ ہی غم بس ایک سکون تھا جو وہ اپنے اندر محسوس کر رہی تھی۔ تبھی اُسکا فون بجا۔
لائبہ کی کال تھی، اُس نے ریسیو کی۔
آپی آئم سوری۔ وہ بس اتنا کہہ کر رو پڑی۔
ارے میری گڑیا تم کیوں سوری بول رہی ہو۔ جو بھی ہوا ہے اُس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے گڑیا۔ جو بھی تھا وہ لائبہ کو کسی اور کی غلطی کی سزا نہیں دے سکتی تھی۔
مجھے برین ٹیومر ہے۔ وہ بھی تھرڈ اسٹیج۔
اِس جملے نے مرحا کا سر چکرا دیا۔
تمہیں پتا ہے لائبہ آبان ہمارے بیچ سے کیوں چلا گیا؟ کیونکہ اگر وہ یہاں ہوتا نا تو یہ خبر سنتے ہی مرجاتا۔ تم میری ایک بات مانوگی؟
جی کہیں۔
تم میرے پاس آکر رہ لو۔
نہیں آپی، یہاں بھائی کا خیال کون رکھیگا پھر۔
آپ شادی کب کر رہی ہیں؟ لائبہ نے پوچھا۔ وہ بات بدلنا چاہتی تھی۔
پتا نہیں گڑیا۔
جب بھی کرینگی تو مجھے بلائنگی نا؟ اُس نے بہت مان سے پوچھا۔
چھوٹی بہنوں کے بغیر بھی شادی ہوتی ہے کیا؟
اور دونوں کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔
نم آنکھیں اور ہلکی مسکراہٹ۔
کچھ دیر یونہی باتیں ہوتی رہیں پھر کال کٹ کردی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آبان کا چالیسواں گزر چکا تھا۔ آج مرحا اور شہریار کا نکاح تھا۔ نکاح کی تقریب سفیان ہاوس میں ہی رکھی گئی تھی۔
مرحا نے پیچ اور گولڈن کے امتزاج کا لہنگا پہنا ہوا تھا اور اُس ہی سے میچنگ کا اسکارف۔ لائٹ سا میک اپ۔ جیولری کے نام پر صرف گجرے پہنے ہوئے تھے۔
نکاح ہوچکا تھا۔ بس رخصتی ہونی باقی تھی۔
وہ دونوں اسٹیج پر بیٹھے تھے۔
شہریار بلیک شیروانی پہنے، بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے بے حد وجیہ لگ رہا تھا۔
لائبہ مرحا کے برابر میں کھڑی تھی۔ وہاں سب موجود تھے بس ایک انسان کم تھا جسکی کمی ساری زندگی رہنے والی تھی۔
ہمیں لگتا ہے کہ کچھ کہانیاں ادھوری رہ جاتی ہیں مگر نہیں وہ کہانیاں بھی مکمل ہوتی ہیں، مگر ہمیشہ کی طرح اختتام پر ہمیں ہنساتی نہیں ہیں بلکہ آنسو دے جاتی ہیں۔ آبان اور لائبہ کی کہانی بھی یہیں ختم ہوچکی تھی ہمیشہ کے لیے۔
مرحا اور شہریار رخصتی کے بعد ساحل سمندر پر آگئے تھے۔ وہ دونوں ہاتھ پکڑے ساحل پر چل رہے تھے۔
ساری زندگی ساتھ چل لوگی میرے؟ شہریار نے پوچھا۔
إنشاءاللّه۔
اور کبھی تھک کر رُکنا پڑا تو؟
تو آپکو بھی روک لونگی اپنے ساتھ پر کبھی الگ نہیں ہونے دونگی۔
تم میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ ہو مرحا۔ وہ مسکرایا۔
اور آپ میری خوبصورت زندگی ہیں۔ مرحا بھی مسکرائی۔
اُس کی بات پر شہریار نے منہ بنایا اور وہ ہنس دی۔
اس بار بھی تم جیت گئیں مجھ سے۔ وہ اُس کی ناک دباتا بولا۔
ہمیشہ جیت جاتی ہو چاہے بات بھروسے کی ہو یا اظہار کی۔ وہ سمندر کی لہروں کو دیکھتا ہوا بولا، اُسکی آنکھوں میں نمی چمکی تھی۔
جو ہوا اب اُسے ماضی سمجھ کر بھول جانا چاہیے اور اپنی آگے کی زندگی پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔
سیدھا سیدھا بولو کہ مجھ پر دیہان دیں۔ شہریار نے اُس کو چھیڑا۔
ہاہاہاہاہا میرا یہی مطلب تھا۔
کبھی تو شرما جایا کرو۔
میں شہریار حسن کی بیوی ہوں مجھے شرمانا نہیں آتا۔ وہ ہنسی۔
وہ بھی ہنس دیا۔
ایک نیا سفر شروع ہو چکا تھا جس میں انہوں نے ہمیشہ ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے اور ماضی میں آنے والی ہر مشکل کو بھُلا دینے کی قسم کھائی تھی۔ختم شد۔