یہ شہریار نے خود کہا ہے؟ مرحا نے بھنویں سکیڑیں۔
ہاں مرحا وہ تو اب آپکی شکل دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہے۔ ہمدان نے کہا۔
پہلی بات تو یہ کہ شہریار کبھی بھی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر یہ رشتہ نہیں توڑیگا کیونکہ وہ ایک سینسیبل انسان ہے۔ دوسری بات بلکہ سوال ہے میرا تم سے کہ کیا تم واقعی شہریار کے دوست ہو؟
صرف دوست نہیں سب سے اچھا دوست ہوں۔ اُس کے لہجے میں اعتماد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
تو جو دوست ہوتے ہیں نا وہ یوں بدگمانیوں کی دیوار نہیں کھڑی کرتے دو لوگوں کو بیچ میں بلکہ دو دوستوں کی بیچ میں۔ مرحا نے ہمدان کا اعتماد جھاگ کی طرح بٹھا دیا۔ آخر کو وہ تھی تو ایک پولیس آفیسر۔
آئندہ اگر تم نے مجھ سے یا شہریار سے ایسی کوئی بھی بات کی یا ادھر کی بات اُدھر کی تو اُس کا انجام تمہاری سوچ سے بھی زیادہ بُرا ہوگا۔
دوست بننا سیکھو۔ امید کرتی ہوں تمہیں سمجھ آگئی ہوگی میری بات۔ یہ کہہ کر اُس نے فون کٹ کردیا۔
ہمدان بس فون کی سکرین کو دیکھ کر رہ گیا۔ اُس کی ساری کوششوں پر ایک جھٹکے میں پانی پھیر دیا گیا تھا۔
پھر مرحا نے شہریار کو میسج کیا۔
Are you awake?
اُس نے موبائل اُٹھایا ہی تھا
کے سامنے مرحا کا میسج جگمگانے لگا۔
Yes, of course.
مرحا کی سکرین پر چند لمحے بعد ہی شہریار کا میسج نظر آنے لگا۔
Are you angry with me?مرحا نے پوچھا۔
no, I am not angry with you.
shehryar, everything I said to you yesterday was a joke.
مطلب مرحا نے مزاق کیا تھا۔ شہریار کو اُس وقت اپنے اوپر بے حد غصہ آیا۔
So you don't like anyone else?
Absolutely not. مرحا نے جواب دیا۔
Does that mean you like me? شہریار کی آنکھوں میں شرارت چمکنے لگی جو کہ ظاہر ہے مرحا نہیں دیکھ سکتی تھی۔
Absolutely. مرحا مسکرائی۔
شہریار کو اتنی صاف گوئی کی امید نہیں تھی۔
By the way, I am angry with you. You should not have left the party like this. At least you could have trusted me. مرحا نے ناراضگی ضاہر کی۔
Sorry Mirha, I just got a little misunderstood. Sorry, this will not happen again. شہریار اپنی غلطی پر پشیمان تھا۔
You didn't even gave me a birthday present.
Sorry I forgot to give. وہ مسکرایا۔ مرحا پہلی بار اُس سے اِس طرح بات کر رہی تھی۔
By the way, where did all these misunderstandings came from? مرحا نے پوچھا۔
I will tell you this on one condition.
And what is that condition?
You have to have lunch with me the day after tomorrow. Will you have lunch with me?شہریار نے پوچھا۔ وہ مرحا سے سوری کہنا چاہتا تھا اور اُس کے لیے اُسے یہی بہتر لگا۔
I will think about it. Right now i'm going to sleep. good night. مرحا نے جواب دے کر اپنا فون آف کردیا۔
You are the greatest desire of my life. You are the love of my life. وہ بڑبڑایا اور سونے چل دیا۔
اُن دونوں کے بیچ کی بدگمانیوں کی دیوار گر چکی تھی۔ اب دونوں کو سکون کی نیند آنی تھی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آج ہمیرا اور حسن سفیان ہاوس میں آئے ہوئے تھے مرحا اور شہریار کی شادی کی ڈیٹ فکس کرنے۔
ارے بھئی سلمہ مرحا کو بھی تو بلائیں۔ ہمیرا نے کہا۔
مرحا کی ڈیوٹی ہے تو اِس وجہ سے وہ گھر پر نہیں ہے۔ سلمہ بیگم نے بتایا۔
سفیان بھائی تو پھر میں ڈیٹ فکس سمجھوں؟
جی جی بالکل۔ اگلے مہینے کی دس تاریخ ہی صحیح ہے۔ وہ بولے۔
سلمہ بیگم نے سب کا منہ میٹھا کروایا۔
رات کو جب مرحا گھر آئی تو سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے وہ بھی وہیں آگئی۔
ارے آپی شکر ہے آپ آگئیں۔ جلدی سے منہ میٹھا کریں آپکی شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی ہے۔ مرحا جو مٹھائی کھا رہی تھی آبان کی بات پر اُسے پھندا لگا۔
بیٹا آرام سے کھاو۔ سفیان صاحب بولے۔
کب کی ڈیٹ فکس کی ہے؟ مرحا نے پوچھا۔
اگلے مہینے کی دس تاریخ طے کی ہے ہم لوگوں۔ تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا؟ سلمہ بیگم نے پوچھا۔
اُس نے محض نفی میں سر ہلا دیا۔ اور سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آگئی۔ روم میں آکر وہ فریش ہوئی پھر کل کے لیے کپڑے سلیکٹ کرنے لگی،اُسے کل شہریار سے ملنے جانا تھا۔
اُس براون اور گولڈن کے کامبینیشن کی گھٹنوں تک آتی کرتی نکالی، اُس کے ساتھ لائٹ براون سے شیڈ کا اسکارف اور ڈوپٹہ تھا۔
وہ کپڑے سلیکٹ کرکے سونے جا ہی رہی تھی کہ اُس کا موبائل بجا، شہریار کا میسج تھا۔
ریسٹورینٹ کا نام اور اُس کے نیچے گڈ نائٹ لکھا تھا وہ مسکرا کر سونے چل دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . ہمدان اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑا تھا۔ چہرہ بالکل ویران تھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھا۔ نگاہیں چاند پر مرکوز تھیں۔ آنکھوں کے گوشے ہلکے ہلکے نم تھے۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ مرحا میری ہوجائے؟ اُس نے سوچا۔
تم نے کبھی اُس کو پانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ایک آواز آئی۔
میں نے کی تھی کوشش۔ وہ منمنایا۔
اور ہار مان لی۔ استہزائیہ ہنسی۔
نہیں مانی ہے میں نے ہار۔ وہ چیکھا۔ محمود ولاء میں اُسکے چیکھ گونجی تھی۔ اُس نے ایک گملا اُٹھا کر دور پھینکا، وہ محمود ولاء کے لان میں بکھر گیا تھا۔
ہمدان کے برابر والا کمرہ محمود بٹ کا تھا۔ وہ اِس وقت جاگ رہے تھے اور جانتے تھے کہ انکا بیٹا کیا کر رہا ہے۔ کچھ گرنے کی آواز پر وہ اپنے کمرے سے نکل کر آئے۔ ہمدان کے کمرے کا دروازہ کُھلا تھا۔ وہ اندر داخل ہوئے۔ ہمدان دوبارہ چلا رہا تھا۔
تو پھر یوں منہ لٹکائے کیوں کھڑے ہو یہاں پر؟ ایک اور بار کوشش کرو اور اپنی محبت کو حاصل کرلو۔ دوبارہ آواز آئی۔
ہاں میں کرونگا اُسے حاصل میں کرونگا۔ وہ چلایا اور زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔
محمود بٹ فوراً اُس کی طرف بڑھے، آخر کو وہ ایک باپ تھے اور لائبہ اور ہمدان کو تو انہوں نے ایک ماں کی محبت بھی دی تھی۔ تو پھر کیسا وہ اپنے بیٹے کو یوں دیکھ سکتے تھے۔
ہمدان بیٹا کیا ہوا ہے؟
پاپا میں اُسے حاصل کرلونگا نہ؟ اُس کا لہجہ عجیب سا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
ہاں میرے بیٹے تم اُسے حاصل کرلوگے۔
محمود بٹ کا دل تڑپا تھا۔
اچھا چلو اُٹھو یہاں سے، اتنی رات ہوگئی ہے سوجاو۔ انہوں نے اُسکو سہارا دے کر بیڈ پر لٹایا۔ اور پھر کمفرٹر اُڑا کر لائٹ آف کرکے وہ اپنے کمرے میں آگئے۔
کچھ سوچتے ہوئے انہوں نے اپنا موبائل نکالا اور کسی کو کال لگائی۔ کال پر بات کرنے کے بعد اُن کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ رقصاں تھی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . مرحا صبح پولیس اسٹیشن پہنچی تو اُس کے ڈیسک پر ایل لیٹر رکھا ہوا تھا۔ مرحا کرسی پر بیٹھ کر وہ پڑھنے لگی۔ جیسے جیسے وہ خط پڑھ رہی تھی اُسکے ماتھے کے بلوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لیٹر پڑھنے کے بعد اُس نے فوراً اپنا موبائل اُٹھا کر کہیں کال لگائی مگر جواب نہ ملا۔
اُس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا دیا۔