آپی بات سنیں۔
مرحا کھانا کھانے کے لیے نیچے جا رہی تھی جب آبان نے اُس کو آواز دی۔
ہاں کہو۔
وہ قدم قدم چلتا مرحا کے عین سامنے آکھڑا ہوا۔
آپ کھانا کھانے جا رہی ہیں؟
ہاں۔
وہ مجھے آپ سے ایک کام تھا۔
ہاں تو ڈائریکٹ کہو،تمہید کیوں باندھ رہے ہو؟ مرحا نے کہا۔
آپ آج بابا سے بات کریں نا۔
کس بارے میں؟
میرے اور لائبہ کے رشتے کے بارے میں۔ اب تو میرے لاسٹ ائیر کے امتحان بھی ہونے والے ہیں۔ آبان نے معصومیت چہرے پر سجا کر کہا۔
اچھا میں کرتی ہوں بابا سے بات۔ وہ اُس کے بال خراب کرتے ہوئے بولی۔
اب چلو نیچے۔
وہ دونوں نیچے ڈائننگ ہال میں آگئے جہاں سفیان اور سلمہ پہلے سے انکا انتیظار کر رہے تھے۔
مما بابا مجھے آپکو کچھ بتانا تھا۔
آبان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
ہاں بیٹا بولو۔ سفیان صاحب بولے۔
بابا میرا ٹرانسفر لاہور ہو رہا ہے۔
اگلی بات سُن کر آبان کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی۔
اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں پولیس فورس چھوڑ دونگی۔ میں کل ہی استفا دے دونگی۔
لیکن مرحا یہ تو تمہاری بچپن کی خواہش تھی نہ۔ سلمہ بیگم بولیں۔
مما کبھی کبھار جیسا ہم چاہتے ہیں ویسا نہیں ہو پاتا کیونکہ اللّٰہ تعالٰی نے ہمارے لیے کچھ بہتر رکھا ہوتا ہے۔
ہہہممم تم نے سوچ سمجھ کر کیا ہے یہ فیصلہ؟ سفیان صاحب نے پوچھا۔
جی بابا میں نے سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا ہے۔ مرحا نے جواباً کہا۔
ٹھیک ہے پھر ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہیں۔
تھینک یو بابا۔ وہ مسکرائی۔
بابا میں نے آپ سے ایک اور بات بھی کرنی تھی۔
ہاں کہو۔
میں سوچ رہی تھی کیوں نا اب آبان کے بارے میں بھی سوچا جائے۔
کیا مطلب؟ سلمہ بیگم نے پوچھا۔
میرا مطلب ہے مجھے ایک لڑکی بہت پسند ہے جسکو میں اپنی بھابھی بنانا چاہتی ہوں۔ مرحا نے کہا۔
سلمہ بیگم اور سفیان صاحب دونوں نے بیک وقت آبان کو دیکھا جس پہ اُس نے میسنی سی شکل بنائی۔
کون ہے وہ؟ سفیان صاحب نے پوچھا۔
لائبہ۔ مرحا نے جواب دیا۔
سفیان صاحب نے آبان کو گُھورا۔
شرم تو تمہیں بالکل نہیں آئی ہوگی بہن کےکندھے پر بندوق رکھ کر چلاتے ہوئے؟ سلمہ بیگم نے محاورتاً کہا۔
لیکن مما میں نے تو کوئی بندوق نہیں چلائی۔ وہ معصومیت سے بولا۔
جی جی بیٹا جی جیسے ہمیں تو پتا ہی نہیں ہے کچھ۔ سفیان صاحب بولے۔
میں کرونگا بات محمود سے اِس بارے میں۔
تھینک یو بابا آپ بہت اچھے ہیں۔ آبان فوراً چہک کر بولا۔
ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ تم نے کوئی بندوق نہیں چلائی تو اب نشانہ لگنے پر اتنا خوش کیوں ہو رہے ہو؟ سلمہ بیگم کی بات پر وہ جھینپ گیا اور سب ہنس دیے۔
اور یوں ہی باتیں کرتے کرتے اُن لوگوں نے کھانا ختم کیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . وہ کاوچ پر آنکھیں موندے سکون سے بیٹھے تھے۔ چہرے پر گہری مسکراہٹ تھی۔ دفعتاً اُنکا فون بجا، کال کرنے والے کا نام پڑھ کر اُنکا بےساختہ قہقہہ بلند ہوا۔
اُنہوں نے کال ریسیو کرکے فون کان سے لگایا۔
بولو آج کیسے ہماری یاد آئی ہے جناب کو؟ وہ خباثت سے بولے۔
آپکو کیا لگتا ہے میرا ٹرانسفر کروا کر بچ جائنگے آپ؟ پاکستان میں ابھی بھی تھوڑا بہت قانون ہے اور ابھی بھی ایماندار پولیس افسر ہیں، کتنوں کا ٹرانسفر کروائنگے؟ اب کی بار مرحا نے قہقہہ لگایا۔
جو بھی میرے راستے میں آنے کی کوشش کریگا ان سب کو ہٹا دونگا میں۔ وہ جواباً غرائے۔
انسان کو اتنی اونچی اُڑانیں نہیں اُڑنی چاہئیں کہ وہ زمین پر واپس آنا ہی بھول جائے۔ مرحا نے تنبیہ کرنے والے انداز میں کہا۔
اونچی اُڑانیں تو شاہین ہی اُڑتے ہیں، تم لوگوں کو کیا پتا اُڑنے کا مزا۔ اُن کے لہجے میں تنفر جھلک رہا تھا۔
اونچی اُڑانیں تو کوّے بھی اُڑتے ہیں لیکن وہ بھی زمین پر ہی اپنا رزق تلاش کرتے ہیں مگر افسوس، آپ تو جانوروں سے بھی بدتر نکلے۔ وہ بھی شیرنی تھی کیسے پیچھے رہتی۔
اپنی بکواس بند رکھو لڑکی، ابھی اتنی بڑی نہیں ہوئی کہ میرے سامنے زبان چلاو۔ وہ غرائے۔
سنیں تو آپ محمود بٹ! ابھی آپکا صرف ایک ٹرک پکڑا گیا ہے۔ انتیظار کریں اُس وقت کا جب آپ خود جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونگے۔ مرحا نے کہا۔
اور وہ وقت کبھی بھی نہیں آئے گا۔ محمود بٹ کے ہر ایک لفظ سے غرور ٹپک رہا تھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے کال کاٹ دی۔
اور سر دوبارہ پیچھے گرا کر آنکھیں موند لیں۔ لیکن کچھ دیر پہلے والا سکون کہیں غائب ہوچکا تھا اور اُس کی جگہ اضطراب نے لیلی تھی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . اگلی صبح مرحا اپنے کمرے کی بالکونی میں کھڑی تھی، ہاتھ میں کافی کا مگ تھا، وہ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہی تھی۔
اُس کے موبائل پر ہمدان کی کال آنے لگی۔
السلام علیکم ۔ ہمدان نے کہا۔
وعلیکم السلام ۔ اُس کا لہجہ بھی ہواوں کی طرح یکدم سرد ہو چکا تھا۔
مرحا آئم سوری۔ مجھے اُس دن آپکو وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا۔ ہمدان شاید اپنے کیے پر پشیمان تھا۔
اٹس اوکے۔ مرحا نے کہا۔
کچھ دیر دونوں کچھ نہ بولے پھر مرحا نے کہا۔
کچھ دن بعد میری شادی ہے اُس میں ضرور آنا۔ یہ کہہ کر اُس نے کال کٹ کردی اور ہمدان کی آنکھ سے ایک موتی نکل کر گر پڑا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مرحا کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں، اُسکی شادی میں صرف ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔
ہمدان اور مرحا کی دوبارہ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ہمدان کچھ دنوں سے یونی بھی نہیں آرہا تھا۔ آج آبان اور شپریار نے ہمدان کے گھر جارہے تھے اُس کی خیریت معلوم کرنے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہمدان اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، ہاتھ میں مرحا کی کچھ تصویریں تھیں۔ اچانک سے آبان اور شہریار اُس کے کمرے میں داخل ہوئے، ہمدان نے بوکھلا کر تصویریں دراز کے اندر ڈالیں، مگر غلطی سے ایک تصویر باہر گر گئی جس پہ اُس کی نظر نہیں پڑی۔
تم لوگ اچانک؟ وہ ماتھے پر سے پسینہ پونچھتے ہوئے بولا۔
تم یونی نہیں آرہے تھے تو ہم نے سوچا کہ ہم ہی تمہاری خیریت پوچھ لیں۔ آبان نے کہا جبکہ شہریار کی نظر مرحا کی تصویر میں اٹک گئی تھی۔ اُس نے آگے بڑھ کر مرحا کی تصویر اُٹھائی، اُس کے تیور بدلے اُس نے سوالیہ نظروں سے ہمدان کو دیکھا۔ آبان کو بھی شدید حیرت ہوئی۔
اُس نے جہاں تصویر گری ہوئی تھی اُس کے سامنے والا دراز کھول کر چیک کرنا شروع کیا تو اُس کا خون کھول اُٹھا۔
ہٹو یہاں سے میری پرسنل چیزیں ہیں یہاں۔ ہمدان نے اُس کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔
یہ تمہاری پرسنل چیزیں ہیں ہاں؟ شہریار چیکھا۔
یہ مرحا کی تصویریں تمہاری کب سے ہو گئیں؟ وہ دوبارہ چیکھا جبکہ آبان اب تک حیرت کی مُورتی بنے کھڑا تھا۔
ہمیشہ سے میری ہیں یہ ہمیشہ سے۔ جواباً ہمدان بھی چیکھا۔
شہریار نے ہمدان کو کالر سے پکڑ کر ناک پر ایک مُکّا مارا۔
شہریار بھائی چھوڑیں کیا کر رہے ہیں۔ شہریار جو ہمدان کو اور مارنے جا رہا تھا آبان نے اُس کا ہاتھ پکڑا۔
تم سُن نہیں رہے کیا بکواس کر رہا ہے یہ؟ وہ آبان پر چیکھا۔
ہمدان جوابی حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھ رہا تھا کہ آبان نے اُس کو روکا۔ پھر اُس نے شہریار کو سکون سے صوفے پر بٹھایا۔
کیا ہوگیا ہے آپ دونوں کو؟ کہیں سے بھی پڑھے لکھے نہیں لگ رہے آپ دونوں۔ اور ہمدان تم بتاؤ آپی کی تصویریں تمہارے پاس کیا کر رہی ہیں؟
میری مرضی میں جسکی بھی تصویر اپنے پاس رکھوں۔ ہمدان نے کہا۔
وہ میری آپی کی تصویریں ہیں کسی کی بھی نہیں۔ وہ بہت ضبط سے بولا۔
محبت کرتا ہوں میں مرحا سے۔ سمجھے تم؟ میں محبت کرتا ہوں مرحا سے اور یہ ہمارے بیچ میں آچکا ہے۔ وہ شہریار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
آبان کو شاک لگا تھا اُس کی بات سُن کر۔
وہ دونوں یونی ٹائم پر ہمدان کے گھر آئے تھے۔ گھر پر سوائے ملازموں اور ہمدان کے کوئی نہیں تھا۔ اور ملازموں کی ہمت نہیں تھی کہ کمرے میں داخل ہوتے۔
میں بیچ میں نہیں آیا بلکہ تم بلا وجہ کی حرکتیں کرکے اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے جو کہ میرے جیتے جی تو کبھی نہیں بنے گی۔ شہریار اُٹھ کر آیا اور دوبارہ ہمدان کا کالر دبوچ کر غرایا۔
اِس بار آبان نے اُس کو نہیں روکا تھا۔ نہ ہی اب وہ روکنا چاہتا تھا۔
ہمدان خود کو چُھڑوانے کے لیے مزاحمت کر رہا تھا مگر شہریار کی گرفت بہت مضبوط تھی۔
آبان یہ ساری تصوریں اُٹھاو یہاں سے۔ وہ ہمدان کو گُھورتے ہوئے چلایا۔
تم ہوتے کون ہو یہاں سے تصویریں لے کر جانے والے؟ ہاں؟ ہمدان غرایا۔
میں شہریار حسن ہوں، مرحا کا ہونے والا شوہر۔ کیا اِس سے زیادہ انٹروڈکشن کی ضرورت ہے؟ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔
چھوڑیں شہریار بھائی چلیں یہاں سے اِس کے منہ لگنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے یہ پاگل ہوچکا ہے۔
میری طرف سے مر جاؤ تم لوگ مگر یہ تصویریں یہیں چھوڑ کر جاؤ ۔ ہمدان بولا۔
آبان کی دل میں ٹھیس اٹھی تھی، جس انسان کو وہ اپنے بھائی جیسا مانتا تھا آج وہ اُسے مرنے کا کہہ رہا تھا۔