آبان اور لائبہ والے واقعہ کو دیڑھ ہفتہ گزر چکا تھا اور تب سے اب تک اُن دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ لائبہ جہاں بھی آبان کو دیکھتی تھی نظر انداز کردیا کرتی تھی اور آبان بھی مرحا کی سالگرہ کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا، ابھی بھی وہ شاپنگ کرکے سمندر کے کنارے آگیا تھا۔
آبان سمندر کے کنارے اپنی گاڑی سی ٹیک لگا کر کھڑا ہوا تھا، لائبہ کا یوں آبان کو نظر انداز کرنا اُسکو بہت بُرا لگ رہا تھا۔
کاش تم میری محبت کو سمجھتیں اور مجھے یوں نظر انداز نہ کرتی۔ اُس نے سوچا۔
غلطی تمہاری بھی نہیں ہے، مجھے تم پر اپنی محبت کا راز یوں نہیں کھولنا چاہیے تھا، مگر ایک بات تو طے ہے کہ دلہن تم صرف میری بنوگی اور کسی کی نہیں اور وہ بھی جلد۔ وہ مسکرایا تھا اور واپس جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آبان صوفے پر بیٹھا لائبہ کی پکچرز دیکھ رہا تھا اور مسکرا رہا تھا، مرحا کافی دیر سے بیٹھی یہی دیکھی جا رہی تھی۔
وہ چپکے سے اُٹھی اور آبان کے برابر میں جا بیٹھی، آبان نے ہڑبڑا کر موبائل بند کیا۔
کیا چھُپا رہے ہو؟ اُس نے ابرو اچکات ہوئے پوچھا۔
ک..ک..کچھ نہیں آپی۔ وہ ہکلایا۔
آہاں کچھ تو ہے، موبائل دو مجھے اپنا۔ تحکم بھرا لہجہ۔
میں کہہ رہا ہوں نا کہ کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ موبائل والے ہاتھ کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے بولا۔
مرحا نے اُس کی یہ حرکت بغور دیکھی۔
اگلے ہی لمحے مرحا نے اُس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹ لیا تھا۔
وہ بس آپی آپی کرتا رہ گیا۔
دور رہو مجھے دیکھنے دو۔ وہ اُس کے موبائل کا پاسورڈ ڈالتے ہوئے بولی۔
موبائل کے کھُلتے ہی سامنے لائبہ کی تصویر جگمگانے لگی۔
مرحا نے ایک ابرو اُٹھا کر آبان کو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ یہ کیا ہے۔
ہہہہہمم تو یہ وجہ تھی تمہارے یونی جاتے وقت اتنا زیادہ تیار ہونے کی۔ کب سے چل رہا یہ۔ خالص بڑی بہنوں والا انداز۔
ایک سال ہوگیا ہے۔
بابا کو بتاؤں یہ؟ مرحا نے اُسے گُھورتے ہوئے پوچھا۔
آپ تو میری پیاری سی آپی ہیں نا آپ تھوڑی بتائیں گی بابا کو۔
مکھن لگانا خوب جانتے ہو تم ہاں۔ فی الحال تم صرف اپنی پڑھائی پر دیہان دو اور اِس بارے میں میں بابا سے خود بات کرونگی تم کچھ نا کہنا۔ مرحا نے اُسے سمجھایا۔
اچھا میرا موبائل تو دیدیں۔ آبان نے معصوم چکل بنا کر کہا۔
ہاہاہاہا پکڑو اپنا موبائل۔ مرحا نے اُسے موبائل دیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . حسن ولا میں سب لان میں بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
حسن میں سوچ رہی تھی کہ اب مرحا اور شہریار کا نکاح کردیا جائے۔ ہمیرا بیگم نے کہا۔
شہریار کے چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ نے گھیرا ڈال لیا۔
بیگم میں کیا کہہ سکتا ہوں بچوں کی زندگی ہے ان سے پوچھ لیں۔ حسن صاحب نے کہا۔
ہاں تو بھئی میرے بچے تم بتاؤ کیا کریں۔ ہمیرا اب شہریار کی طرف مُڑی تھیں۔
میں کیا کہوں آپکو جو ٹھیک لگے وہ کریں۔ وہ بولا۔
تمہاری جو یہ مسکراہٹ ہے نا بیٹا وہ تمہاری بات کا ساتھ نہیں دے رہی۔ ہمیرا بیگم نے اسے چھیڑا۔