باب نمبر ٢۵

51 4 0
                                    

شام کے پانچ بج رہے تھے کل اُس کا اور مرحا کا نکاح تھا اور وہ اور آبان کچھ چیزیں لینے مال آئے ہوئے تھے۔
یار شہریار بھائی بس بھی کریں اور کتنی شاپنگ کرنی ہے؟ آبان اُس کے ساتھ چلتے چلتے تھک چکا تھا۔
اچھا بس یہ آخری شاپ ہے، یہاں سے مرحا کے لیے سینڈل لیتے ہیں اور پھر گھر چلتے ہیں۔شہریار نے کہا۔
مجھے بھوک بھی لگی ہے۔ کب سے گُھمائے جا رہے ہیں بندہ تھوڑا خیال ہی کر لیتا ہے۔ آبان نے منہ بنایا۔
اچھا بھئی راستے سے کچھ ٹیک اوے کرلینگے۔ وہ سینڈلز دیکھتا ہوا بولا۔
آبان ہاتھ باندھے منہ بنائے اُس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔
بالاخر شہریار نے ایک سینڈل خرید لی تھی اور وہ لوگ دکان سے باہر آگئے تھے۔
آبان یار منہ تو ٹھیک کرو۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی چھوٹے بچے کی ٹافی اُس سے لے لی گئی ہو اور اب وہ ناراض ہوگیا ہو۔ شہریار کو اُسے دیکھ کر ہنسی آرہی تھی۔
اب چلیں؟ اُس نے اور منہ بگاڑا۔
ہاہاہا ہاں چلو۔ اُس کے منہ بگاڑنے پر اُسے اور ہنسی آئی۔
وہ دونوں مال سے نکل کر اپنی پارکنگ ایریا کی طرف آگئے۔
ڈرائیو میں کرونگا آج۔ آبان نے کہا۔
ایسا کچھ نہیں ہو رہا، میں اپنی گاڑی کسی کو ڈرائیو کرنے نہیں دیتا۔ شہریار نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا۔
یار صرف آج ہی تو کہہ رہا ہوں اور ویسے بھی جتنا آپ نے مجھے آج چلایا ہے نا اُس کا جرمانہ اِس ہی صورت میں بھرنا پڑیگا کہ آپ آج مجھے اپنی گاڑی چلانے دیں۔
نہیں آبان۔
آپکو جب پتا ہے کہ آپ میری ضد کے آگے نہیں جیت سکتے تو پھر کیوں کر رہے ہیں ضد؟ لائیں جلدی سے چابی دیں۔
اچھا میرے بھائی تم ہی چلا لو۔ بالاخر شہریار نے منہ بناتے ہوئے اُسے چابی دے ہی دی۔
تھینک یو۔ اُس نے شہریار کو فلائنگ کس دی۔
اَسْتَغْفِرُ اللّه‎‎ ، کیسی حرکتیں کرتے ہو۔ شہریار نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
آبان ہنسا۔ چلیں اب۔ وہ دونوں جا کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
جی سر میں نے اُس کا فون ٹریک کیا ہے۔ شہریار ایک مال کے باہر کھڑا ہے۔ فون پر مقابل کی بات سُن کر محمود بٹ کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔
یاد رکھنا کہ یہ ایک ایکسیڈینٹ ہی لگنا چاہیے۔ لہجے میں بے رحمی صاف واضح تھی۔
انہوں نے مقابل کی بات سُنے بغیر ہی کال کاٹ دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ اپنا ڈریس دیکھ رہی تھی جو کہ اُس نے مرحا کی بارات پر پہننا تھا کہ اُس کا موبائل بجا۔ اُس کی یونی فیلو کی کال تھی۔
لائبہ جلدی سے ٹی وی آن کرو۔
ارے بھئی نا سلام نا دعا ڈائریکٹ ٹی وی آن کرو۔ ضرور تمہارے کسی فیوریٹ ہیرو کا کوئی انٹرویو یا مووی آرہی ہوگی۔ ہیں نا؟ لائبہ بولی۔
ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمہیں یاد ہے ہماری یونی میں ایک لڑکا پڑھتا ہے آبان ملک؟
لائبہ کا دل زور سے دھڑکا۔
ہاں یاد ہے۔
اُس کی دیتھ ہوگئی ہے آج۔
اور اِس جملے نے لائبہ کی دنیا ہلا دی تھی۔
اُس کے ہاتھ سے سیل فون نیچے زمین پر گر گیا۔ مقابل ہیلو ہیلو کرتی رہی مگر اُس وقت ہوش کسے تھا۔
لائبہ نے لرزتے ہاتھوں سے ٹی وی آن کرکے نیوز لگائی۔
مُلک کے دو مشہور بزنس مین کے بیٹے آبان ملک اور شہریار حسن اس ٹرک سے ہونے والے حادثے کا شکا ہوئے ہیں۔ اور ہمیں پتا چلا ہے شہریار حسن شدید زخمی ہوئے ہیں جبکہ آبان ملک موقع پر ہی دم توڑ چکے ہیں۔ نیوز اینکر کی آواز لائبہ کے کانوں میں چُبنا شروع ہوگئی تھی۔
اُس نے ٹی وی بند کردیا اُس میں اور برداشت نہیں تھی۔
میں جا رہا ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔
لائبہ کی سماعتوں میں ایک جملا گونجا۔ ایک آنسو اُس کی آنکھ سے گر کر کپڑوں میں جذب ہوگیا تھا۔
ہاں وہ جا رہا تھا بلکہ وہ تو جا چکا تھا وہاں جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں آتا۔ لائبہ کو اِس جہاں میں چھوڑ کر وہ دوسرے جہاں جا چکا تھا۔ آج آبان ملک ہمیشہ کے لیے اِس دنیا سے پرواز کر گیا تھا۔
آنسو لڑیوں کے مانند بہہ کر اُسکا چہرہ بھگو رہے تھے۔
وہ دھیرے دھیرے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔ اُس کے لیے اس بات پر یقین کرنا بے حد مشکل ہو رہا تھا۔ اُس نے اپنے گھٹنوں کے گرد بازو حائل کیے اور گھٹنے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
سفیان ہاوس میں غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ وہ لوگ نیوز سنتے ہی فوراً ہسپتال روانہ ہوئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . ہمدان نیوز سُن کر بھاگتے ہوئے محمود بٹ کے کمرے میں آیا۔
بابا یہ سب؟؟
تمہارے راستے کا کانٹا اب ہٹ چکا ہے ہمدان۔ وہ گہری مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
وہ بس آنکھیں پھاڑے اُنکو دیکھ رہا تھا۔
اور دیکھو کیسے ایک تیر سے دو نشان لگ گئے۔ نہ اب تمہارے راستے میں آبان آئے گا نہ ہی وہ شہریار۔ انہوں نے ہمدان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
یہ گولڈن چانس دیا ہے تمہیں اِسے گنوا مت دینا۔
نہیں چاہیے مجھے یہ گولڈن چانس۔ وہ چیکھا۔
آپ نے میرے بھائی جیسے دوست کا قتل کروادیا۔ میں نہیں چاہتا تھا یہ، میں کبھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے دور جائے۔ جان بستی تھی میری اُس میں۔ اُس نے اپنے بال مُٹھی میں جکڑ لیے۔
بس کرو ہمدان، میں نے جو کچھ بھی کیا ہے تمہاری بھلائی کے لیے کیا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اپنا منہ بند رکھو اور آگے کیا کرنا ہے وہ سوچو۔ جاؤ جا کر مرحا کو تسلی دو، یہی وقت ہے اُس کے دل میں اپنا مقام بنانے کا۔ وہ غصے سے بولے۔
نہیں دینی مجھے کسی کو بھی تسلی نہ ہی مجھے مرحا کے دل میں اب کوئی مقام چاہیے۔ پاپا آپ نے اچھا نہیں کیا۔ وہ یہ کہہ کر رکا نہیں بلکہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کرلیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .. . . . . . . . . . . آبان کی ڈیڈ باڈی گھر آچکی تھی جبکہ شہریار کو اب تک ہوش نہیں آیا تھا۔
مرحا اب تک شاک کی کیفیت میں تھی۔ اُسکا اس بات پر یقین کرنا بے حد مشکل تھا کہ اُس کا بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔
سفیان ہاوس میں سفید چاندنیاں بِچھائی جا چکی تھیں۔ چاروں طرف لوگ تھے اور وہ بیچ میں سکون سے سو رہا تھا۔ دنیا کی ساری فکروں سے آزاد۔
سلمہ اپنے بیٹے کی جدائی کے غم میں آنسو بہا رہیں تھیں۔
محمود ولا سے بھی سب لوگ وہاں جمع تھے۔
مرحا کی آنکھ سے اب تک ایک آنسو نہ بہا تھا جبکہ لائبہ کی آنکھیں رو رو کر سوجھ چکی تھیں۔
میت کو دفنانے کے لیے لوگ آچکے تھے مگر مرحا ویسے ہی بیٹھی رہی کسی غیر مرئی نقطے پر اپنی خالی خالی نظریں جمائے، اُسکے چہرے پر درد واضح تھا مگر لب خاموش تھے۔ اُن سے ایک بھی شکوہ نہیں پھسلا تھا۔ وہ شکوہ کرتی بھی کس سے؟ اللّٰہ کی چیز تھی اللّٰہ نے لیلی۔

پاداشِ عملWhere stories live. Discover now