لائبہ اپنے گھر کے لان میں ٹہل رہی تھی، وہ محمود بٹ کے آنے کا انتیظار کر رہی تھی۔
رویا مت کرو مجھے اچھا نہیں لگتا۔ اُس کی سماعتوں میں آبان کا کہا گیا جملہ گونجا۔
وّہ مبہم انداز میں مسکرائی۔
میرا مطلب ہے دیکھو رو رو کر تم نے آنکھیں سوجھا لیں اب پوری چڑیل لگ رہی ہو۔
ایک اور جملہ گونجا۔
اگلے ہی لمحے وہ کھلکھلا کر ہنس دی۔
ابھی وہ ہنس ہی رہی تھی کہ محمود بٹ کی گاڑی پورچ میں آکر رُکی۔
ہمدان کی نظر لائبہ پر پڑی جو کہ ہنس رہی تھی۔
اِس کو کونسا دورہ پڑا ہے رات کے اس وقت اکیلے اکیلے مسکرا رہی ہے۔ وہ بڑبڑاتا ہوا گاڑی سے اترا۔
ایک ملازم نے فوراً آگے بڑھ کر محمود بٹ کی طرف کا دروازہ کھولا۔
محمود بٹ کو دیکھ کر لائبہ پُر جوش انداز میں اُنکی طرف بھاگی، مگر بیچ میں پانی پڑا ہوا ہونے کی وجہ سے توازن برقرار نہ رکھ پائی اور پھسل گئی۔
آہ بابا۔ وہ بے اختیار چیکھی۔
ہمدان اور محمود بٹ فوراً اُس کی طرف لپکے۔
لائبہ کو اُٹھا کر سہارا دے کر چئیر پر بٹھایا، درد کی وجہ سے اُسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
بس میری گڑیا میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں۔ محمود بٹ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
نہیں بابا ڈاکٹر کو مت بلائیں۔
ایسے کیسے نہیں بلاوں؟ تمہارے لگ گئی ہے پیر میں۔ وہ اپنا فون نکالتے ہوئے بولے۔
ہمدان تم لائبہ کو اُس کے کمرے میں لے جاؤ۔
کریم کریم۔ ہمدان اور لائبہ کے جانے کے بعد وہ چیکھے۔
جی صاحب جی۔ کریم فوراً دوڑتا ہوا آیا۔
یہاں پانی کیوں گرا ہوا تھا؟ اندھے ہو تم لوگ نظر نہیں آتا کیا؟ وہ دھاڑے۔
معافی چاہتا ہوں صاحب جی آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولا۔
آئندہ ایسا کچھ ہوا تو تم اس گھر میں نظر نہیں آوگے۔
اب جاؤ یہاں سے۔ وہ دوبارہ دھاڑے
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
آبان تم کل فری ہو؟ مرحا نے پوچھا۔
ہاں بالکل فری ہوں۔
وہ دونوں اِس وقت ٹیرس پہ کھڑے کافی پی رہے تھے۔
کیوں آپکو کوئی کام ہے؟
ہاں میں سوچ رہی تھی کہ ہم کل لنچ پر چلیں، کافی دن ہوگئے نہیں گئے۔
ویسے آئڈیا (idea) تو اچھا ہے۔ آبان نے کافی کا سِپ لیتے ہوئے کہا۔
تم لائبہ اور ہمدان کو بھی بول دینا۔
ہائے میری کٹ کھنی بلی بھی جائے گی۔ آبان نے سوچا۔
کیا سوچ رہے ہو؟ مرحا نے اُس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی۔
جی جی بول دونگا میں۔ وہ ہڑبڑا کر بولا۔
کیا سوچ رہے تھے تم؟ مرحا نے اُس کو ایسے دیکھا جیسے اُس کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی ہو۔
میں یہ سوچ رہا ہوں کہ شہریار بھائی کو بھی بول دوں تاکہ آپ اُدھر بور (bore) نہ ہوں۔
بول دینا، اچھی بات ہے شہریار بھی ہمارے ساتھ آوٹنگ کرلینگے۔ مرحا نے خلاء میں دیکھتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہے پھر میں سب کو بول دونگا آپ بھی ٹائم پر ریسٹورینٹ پہنچ جائیےگا، اب میں سونے جا رہا ہوں کیونکہ مجھے آرہی ہے نیند۔
رہنے دو آبان تمہیں اِس وقت کوئی نیند نہیں آرہی بلکہ تم کل کے لیے کپڑے ڈیسائڈ کرنے جا رہے ہو اور یہ معاملہ کافی مہینوں سے چل رہا ہے۔ مرحا نے جیسے آبان کا راز افشاں کیا۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ آبان نے اپنی صفائی دینی چاہی۔
اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو پھر کیوں تم کچھ مہینوں سے کچھ زیادہ ہی تیار ہو کر یونی جانے لگے ہو؟
آپ مجھ پر نظر رکھتی ہیں؟
آہاں نظر خود ہی پڑ جاتی ہے۔
سچ سچ بتاؤ کس کے لیے اتنا تیار ہو کر جانے لگے ہو یونی؟ مرحا نے تفتیشی انداز میں پوچھا۔
کیا مطلب ہے انسان خود کے لیے تیار نہیں ہوسکتا کیا؟ آپ نا یہ نظر رکھنا چھوڑ دیں مجھ پہ کیونکہ ایسا ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔
ہاہاہاہا پتا تو مجھے چل ہی جائے گا کہ بات کیا ہے اتنا تیار ہونے کی پیچھے۔اب تم جاؤ اور کپڑے سلیکٹ کرو میں تو چلی سونے۔ مرحا اُس کو وہیں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .