باب نمبر ٢٢

43 6 0
                                    

آج اُس کی سالوں کی محنت برباد ہو چکی تھی۔
وہ کھڑی ہوئی اپنا سامان اور لیٹر اُٹھایا اور باہر آگئی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہمدان اور آبان کلاس لینے کے بعد یونی کے گراونڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔
تمہیں کیا ہوا ہے کیوں صبح سے منہ لٹکائے پھر رہے ہو؟ آبان نے ہمدان کو دیکھ کر کہا۔
کچھ بھی نہیں۔
تو پھر تم نے شاپنگ پر جانے سے کیوں منع کیا؟
آبان نے کچھ دیر پہلے ہمدان کو اُس کے ساتھ شاپنگ پر چلنے کا کہا تھا مگر ہمدان نے منع کر دیا تھا۔
میرا موڈ نہیں ہے اس لیے میں نے منع کردیا۔ اُس کے لہجے میں بیزاریت صاف واضح تھی۔
آپی کی شادی میں صرف دو ہفتے رہ گئے ہیں اور مجھے شاپنگ کرنی ہے اس لیے تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ آبان نے ضدی لہجے میں کہا۔
آبان تمہیں ایک بار میں سمجھ نہیں آتی کوئی بات؟ جب میں کہہ رہا ہوں کہ مجھے نہیں جانا تو زبردستی کیوں کر رہے ہو؟ ہمدان بگڑا۔
میں تو تمہارا ہی موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ خیر میں شہریار بھائی سے پوچھ لیتا ہوں۔
اُس نے اپنا موبائل نکال کر شہریار کو کال ملائی۔ اُس نے کال ریسیو کرلی۔
ہاں آبان بولو۔ اُس نے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے کہا۔ غالباً وہ مصروف تھا۔
بھائی جان پہلے سلام دعا کرتے ہیں۔ آبان نے کہا۔
یہ بول کر تو تم نے کافروں والی فیلنگ دلادیں..خیر...السلام علیکم فرمائیے کیا کام ہے؟ وہ اب پوری طرح سے آبان کی طرف متوجہ تھا۔
شاپنگ پر چلیں گے میرے ساتھ؟
پوچھ تو ایسے رہے ہو جیسے مجھے شاپنگ پر نہیں بلکہ ڈیٹ پر لے کر جا رہے ہو۔
ارادہ تو میرا شاپنگ پر ہی لے کر جانے کا تھا لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو میں آپکو ڈیٹ پر لے جاتا ہوں۔ آبان نے اپنی ہنسی دبائی۔
اَسْتَغْفِرُ اللّه‎‎ آبان۔ شہریار بولا اور آبان کا قہقہہ بلند ہوا۔
اچھا بتائیں چل رہے ہیں؟
نہیں یار میری میٹنگ ہے میں نہیں آسکتا۔
نہ آپ جا رہے ہیں نہ ہی ہمدان جا رہا ہے۔
تو تم اکیلے چلے جاؤ ۔
یار مجھے اکیلے شاپنگ کرنے میں مزا نہیں آتا۔ آبان نے کہا۔
تو پھر آج کا پلان کینسل کردو اور اب مجھے بھی کام کرنے دو۔
ٹھیک ہے آپ کام کریں۔ اللّٰہ حافظ۔ یہ کہہ کر اُس نے کال کاٹ دی۔
اُس کے دماغ میں ایک خیال آتے ہی وہ مسکراتا ہوا کیفیٹیریا کی جانب بڑھ گیا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . مرحا دوپہر میں گھر پہنچی اور گھر پہنچ کر فوراً تیار ہونے چل دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . لائبہ یار چل لو نہ۔ وہ پچھلے پانچ منٹ سے لائبہ کے سامنے بیٹھا اُسے اپنے ساتھ چلنے کے لیے منا رہا تھا۔
اچھا ٹھیک ہے چلو لیکن اگر تم نے شاپنگ کرتے ہوئے ذرا بھی نخرے دکھائے نا تو میں واپس آجاؤنگی۔ بالاخر لائبہ مان ہی گئی۔
اچھا ٹھیک ہے لیکن ابھی چلو تو۔ آبان کھڑے ہوتے ہوئے بولا۔
ہہہمم چل رہی ہوں۔ لائبہ یہ کہہ کر اُس کے پیچھے چل دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . وہ ریسٹورینٹ میں شہریار کے سامنے بیٹھی تھی۔ ہلکا پھلکا میک اپ کیے، نم نظریں جھکائے بیٹھی وہ شہریار کی دھڑکنیں تیز کر رہی تھی۔
وہ ایسی ہی تھی ہمیشہ شہریار کے دل کی دھڑکنیں تیز کردیا کرتی تھی اور اُسکو پتا بھی نہیں چلتا تھا۔وہ بہت خوبصورت تھی،اُسکو یہ بات پتا بھی تھی مگر اُس نے کبھی اِس بات پر غرور نہیں کیا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ:"یہ خوبصورتی اللّٰہ کی ایک ایسی نعمت ہے کو کچھ عرصے بعد ڈھل جائے گی مگر ہمارے اچھے اخلاق ہمیشہ زندہ رہینگے ہمارے مرنے کے بعد بھی لوگوں کی اچھی باتوں میں"۔
وہ قدرے کونے کی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔
آپ نے اب کیا سوچا ہے مرحا؟ شہریار نے پوچھا۔
سوچنا کیا ہے شہریار؟ بات صاف ہے میں کراچی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتی۔ میرا سب کچھ یہیں ہے۔
اچانک اِس ٹرانسفر کی کوئی وجہ؟
ہاں ایک وجہ ہے۔ وہ پُرسوچ انداز میں بولی۔
کیا؟
کچھ دن پہلے ہائی-وے پر سے ایک منشیات کا ٹرک پکڑا گیا تھا۔ جو کہ میں نے پکڑا تھا لیکن ابھی تک اُس کا مالک نہیں پکڑا گیا اور نہ ہی پکڑا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے ملک کا قانون پیسے سے چلتا ہے۔ پیسے دے کر قانون کو جیسے دل چاہے ویسے بدلا جا سکتا ہے۔ مرحا نے آخر میں ٹھندی آہ بھری۔
تو اِن سب سے آپکے ٹرانفسر کا کیا تعلق ہے؟ اُس نے نا سمجھی سے پوچھا۔
اُن لوگوں کو خطرہ ہے میرے یہاں رہنے سے کیونکہ میں جانتی ہوں کہ اُس ٹرک کا مالک کون ہے اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میرا ٹرانسفر بھی اُس نے ہی کروایا ہے۔ مرحا نے بتایا۔
کون ہے وہ؟ شہریار نے پوچھا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . آبان جلدی کرو یار کب سے گُھمائے ہی جا رہے ہو لے نہیں رہے کچھ۔ لائبہ چلتے چلتے تھک چکی تھی مگر آبان کی بیٹری ویسے ہی چارج تھی۔
کوئی اچھی چیز بھی تو ملے، آخر میری آپی کی شادی ہے۔ آبان بولا۔
اور اتنا پیارا کرتا لیا تو ہے میں نے اور تم کہہ رہی ہو میں نے کچھ نہیں لیا۔
مجھے تو لگ رہا ہے جیسے تمہاری شادی ہے۔ لائبہ نے آنکھیں گُھمائیں۔
آبان ہنسا۔
میں بابا سے بات کرلونگا اب ہماری شادی کی۔
اُس کی بات پر لائبہ کے گال لال ہوئے اور وہ بس ہلکا سا مسکرادی۔
اہہمم اہہممم کوئی بلش کر رہا ہے۔ آبان نے اُسے تنگ کرنا چاہا۔
کوئی نہیں۔ لائبہ نے اُسے گُھورا۔ گال ہنوز گلابی ہو رہے تھے۔
اب کوئی جھوٹ بول رہا ہے۔
آباااااانننننن۔
ویسے تم نے کوئی جواب نہیں دیا شادی والی بات پہ۔ تو کیا میں تمہاری خاموشی کو نہ سمجھوں؟
لائبہ نے اپنے ہونٹ کُچلے۔
ٹھیک ہے پھر میں نہیں کرتا بابا سے بات۔
لائبہ کے چلتے قدم رُکے۔
کیا وہ سچ میں میں بات نہیں کریگا؟ ایک خیال کے اُس کے ذہن میں آتے ہی اُس کا چہرہ بُجھ گیا۔
آبان نے پیچھے مُڑ کے اُس کو دیکھا اور ہنستا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کے لوگ اُسے رُک رُک کر دیکھنے لگے۔
بس کرو آبان لائبہ نے اُسے گُھورا۔
شکل دیکھو اپنی کیسی ہوگئی ہے۔ آبان پھر سے ہنسنے لگا۔
اُس کی بات پر لائبہ جھینپ گئی۔
مزاق کر رہا تھا میں۔ اُس نے لائبہ کے سر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
اچھا اب چلو مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ لائبہ نے بات بدلنی چاہی۔
ہاں ٹھیک ہے چلو۔ یہ کہہ کر وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
میں ابھی یہ نہیں بتا سکتی لیکن وقت آنے پر آپ کو سب پتا چل جائے گا۔
ہہممم آپ پولیس فورس نہیں چھوڑیں ہم دونوں شادی کے بعد لاہور شفٹ ہوجائنگے۔ شہریار نے مشورہ دیا۔
لیکن مما بابا انکل آنٹی سب یہاں ہونگے تو میں کیسے وہاں رہونگی؟ اور سب سے بڑی بات آبان یہاں ہوگا، اُسکو دیکھے بغیر، اُس سے بات کیے بغیر تو میرا دن نہیں گزرتا۔ اگر ہم کراچی میں رہینگے تو میں بار بار ملنے بھی جا سکونگی۔
مرحا آپ وڈیو کال پر بات کرلیگا آبان سے۔
شہریار آپکا بزنس بھی تو ہے یہاں اگر ہم لاہور چلے گئے تو آپکو نئے سِرے سے سب کچھ کرنا سیٹ پڑیگا اور یہ بات آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی کہ بزنس کو دوبارہ کھڑا کرنا آسان نہیں ہے۔ میں آپکی محنت کو یوں ضائع نہیں کر سکتی۔ وہ کسی صورت لاہور جانے پر راضی نہیں تھی۔
مرحا میرے لیے یہ اہم نہیں ہے کہ میری محنت ضائع ہوجائےگی یا مجھے مشکل ہوگی۔ میرے لیے آپ اہم ہیں، آپکے خواب اہم ہیں اور میں یہی چاہتا ہوں کہ آپکی کوئی خواہش ادھوری نہ رہ جائے۔
مرحا نے نظریں اُٹھا کر شہریار کو دیکھا اور اُس کی نظریں وہیں ٹھہر گئیں۔ وہ ہلکا سا مسکرایا۔ اُس کی مسکراہٹ مقابل کو سحر میں جکڑنے کا ہنر رکھتی تھی،اُسکی وجیہہ شخصیت کی آج وہ اسیر ہوگئی تھی۔ آج شہریار حسن مرحا سفیان ملک کی دھڑکنیں بڑھا گیا تھا۔
تھینک یو شہریار۔ وہ نم آنکھوں سے مسکرائی۔
آہاں تھینک یو کی ضرورت نہیں ہے۔ اُسکی مسکراہٹ بھی گہری ہوئی۔
میں آپکو یہ تو بتانا بھول ہی گئی کہ میرے پاس ہمدان کی کال آئی تھی۔ کہہ رہا تھا کہ آپ نے شادی سے انکار کر دیا ہے اور آپ میری شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ مرحا نے اُسے سب بتایا۔
ایسا کب کہا میں نے؟ شہریار نے بھنویں سکیڑیں۔
مجھے کیا پتا۔ مرحا نے کندھے اچکا دیے۔
دیکھیں مرحا میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا ہے، ہمدان جھوٹ بول رہا ہے۔ اور کیوں بول رہا ہے یہ تو میں اُس سے پوچھوں گا۔ شہریار نے دانت پیسے۔
ہاہاہاہا مجھے پتا ہے کہ ہمدان جھوٹ بول رہا تھا اور میں نے اُسے سمجھا بھی دیا ہے اس لیے آپ کو اُس سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہنسی تھی۔
کیا مرحا آپ نے تو مجھے ڈرا دیا تھا۔ شہریار نے خفگی سے اُسکو دیکھا۔
شہریار مجھے آپ پر بھروسہ ہے کہ آپ کبھی بھی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہمارے رشتے کو ختم نہیں کرینگے۔
وہ پھر سے مسکرایا۔
اچھا اب چلیں؟ مجھے دوبارہ آفس بھی جانا ہے۔
مرحا نے محض سر ہلا دیا۔
وہ لوگ بل پے کر کے جیسے ہی باہر نکلے سامنے سے آبان اور لائبہ آگئے۔
شہریار نے زور سے آنکھیں میچیں۔
لائبہ فوراً آکر مرحا سے گلے ملی۔
کیسی ہیں آپ؟ لائبہ نے پوچھا۔
میں بالکل ٹھیک ہوں تم کیسی ہو گڑیا؟
میں بھی ٹھیک ہوں۔
تو یہ میٹنگ تھی آپکی؟ آبان نے شہریار کے کان میں سرگوشی کی۔
اُس کی بات ہر شہریار جھینپ گیا۔
تم دونوں اِس وقت یہاں کیا کر رہے ہو؟ مرحا نے مسکرا کر آبان کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
ہم دونوں آپ کی شادی کی شاپنگ کرنے گئے تھے تو واپسی پر یہاں لنچ کرنے آگئے۔ آبان کے بجائے لائبہ نے جواب دیا۔
اچھا تم لوگ جاؤ لنچ کرو میں اور شہریار اب چلتے ہیں۔
مرحا اور شہریار اپنی اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئے۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر اپنے اپنے راستے چل دیے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .

پاداشِ عملNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ