سفیان ہاوس میں سب ڈنر کر رہے تھے۔
مرحا بیٹا کل تمہاری کوئی خاص مصروفیت تو نہیں ہے نا؟ سلمہ بیگم نے کباب اُٹھاتے ہوئے پوچھا۔
نہیں مما، کیوں کیا ہوا؟
ہاں کل وہ تمہارے سسرال والے آرہے ہیں ڈنر پر۔
خیریت یوں اچانک؟ مرحا نے چونک کر کہا۔
ہاں کل ہی رخصت کرنے کا سوچ رہے ہیں ہم آپکو۔ آبان کہاں چُپ رہنے والا تھا۔
اِس سے پہلے کے مرحا اُس کو کچھ بولتی سفیان صاحب نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کہ دبایا تو اُس کے دانت اندر گئے۔ مرحا نے اپنی ہنسی دبائی۔
ایسے ہی ملنے آنا چاہ رہے تھے وہ۔ سلمہ بیگم نے آبان کو گھُورتے ہوئے کہا جس پہ آبان نے اُن کو آنکھ ماری۔
تم تیار ہوجانا ذرا۔
ہاں کہیں ان کو یہ نا لگے کہ ہم ملازموں کی جگہ آپ سے سارے کام کرواتے ہیں۔ آبان نے کہا۔
آبان بس کرو اب۔ سفیان صاحب کرخت لہجے میں بولے۔
گڑیا تم جاؤ سونے، صبح جلدی اُٹھنا ہوتا ہے تم نے۔ اور آبان تم بھی سوجانا جلدی۔ یہ کہہ کر وہ اپنے روم میں چلے گئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
بھائی اُٹھ جایئں۔ وہ ناجانے کتنی دیر سے اپنے بھائی کو اُٹھانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجال ہے جو اس پہ کوئ اثر ہوا ہو۔
یار تھوڑی دیر اور سونے دو۔ وہ کمبل منہ پر تانتے ہوئے بولا۔
اگر اب آپ نہ اُٹھے تو میں آپ پر پانی پھینک دونگی۔ اُس نے دھمکی دی۔
لیکن مقابل بھی ضدی تھا۔
اُس نے سائڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے جگ کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے اُس جگ کا پورا پانی ہمدان کے اوپر تھا۔
کیا۔ ۔ہوا۔ ۔ کیا ہوا۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھا اور سامنے کھڑی اپنی چھوٹی بہن کو دیکھ کر سارا معاملہ سمجھ گیا۔وہ جینز پر بےبی پنک کلر کا ٹاپ پہنی ہوئی تھی، ڈوپٹہ گلے میں ڈالا ہوا تھا، گھنگریالے بالوں کی پونی بنائی ہوئی تھی اور کچھ آوارہ لٹیں چہرے کے گرد جھول رہیں تھیں۔ کانوں میں گولڈ کے چھوٹے چھوٹے ٹاپس تھے، چہرہ کسی بھی میک اپ سے عاری تھا اور اُس کی ہنسی جو ہمدان کی حالت دیکھ کر رُک ہی نہیں رہی تھی، وہ خود بھی ایک چھوٹی سی معصوم سی گڑیا لگتی تھی۔
بس بھی کرو لائبہ۔ وہ منہ بناتا بولا۔
ہاہاہاہاہا بھائی میں تبھی آپکو کہہ رہی تھی کہ اُٹھ جایئں۔ وہ اُس کی حالت سے محظوظ ہوتی بولی۔
ہاں تو صحیح سے اُٹھانا تھا۔
بھائی میں نے آپ کو صحیح سے نہیں اُٹھایا۔ وہ صدمے سے بولی۔ پہلے ملازمہ اتنی بار آپ کے کمرے کا دروازہ بجا کر جا چکی تھی، پھر میں آئی، لیکن پھر بھی آپ نہیں اُٹھے اور آپ کہہ رہے ہیں میں نے آپ کو صحیح سے نہیں اُٹھایا۔ جو بھی تھا وہ اپنی بہن کو ناراض نہیں کر سکتا تھا۔
اچھا تم اب نیچے جاؤ ، میں جلدی سے تیار ہو کر آیا پھر چلتے ہیں یونی۔
ہیں؟ سنڈے کو یونی کون جاتا ہے؟
کیا مطلب ہے تم اتنی دیر سے مجھے کیوں اُٹھا رہی تھی؟ وہ حیرت سے بولا۔
اچچچچچھھھا وہ۔ وہ تو میں اس لیے آپکو اُٹھا رہی تھی تاکہ آپ مجھے مرحا آپی کے گھر چھوڑدیں۔ وہ آنکھیں پٹپٹا کر بولی۔
مرحا کے نام پہ ہمدان کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی۔