باب نمبر ۵

53 7 0
                                    

یا اللّٰہ کیا ساری مما ایسی ہوتی ہیں یا مجھ پہ کوئی خاص کرم ہے آپکا؟ اس نے اوپر دیکھتے ہوئے سوچا۔
آبان نے۔ لائبہ نے زیر لب کہا۔
کچھ کہا تم نے بیٹا؟ وہ ہانڈی میں چمچ چلاتے ہوئے لائبہ سے بولیں۔
جی آنٹی اب میں چلتی ہوں میرا اسائنمنٹ رہ گیا تھا۔
بیٹا تھوڑی دیر اور رُک جاتی، شہریار کی فیملی آنے والی ہے۔
نہیں آنٹی کام زیادہ ہے اور کل ہی سبمٹ کروانا ہے، میں کسی اور دن آجاونگی۔
آج تو تمہیں اجازت دے ہوں لیکن آئندہ تم کھانا کھائے بغیر نہیں جاوگی۔
آبان ابھی تک باہر کھڑا تھا البتہ اُس نے رُخ موڑ لیا تھا تھوڑا۔
لائبہ سلمہ بیگم سے مل کر کچن سے باہر نکل ہی رہی تھی کہ اُس کی نظر آبان پہ پڑی جو کہ دوسری طرف منہ کیے ایک ہاتھ سر پر رکھے کھڑا تھا۔ وہ کسی کی آہٹ پر چونکا، سامنے دشمنِ جاں کھڑی غصے سے لال ہو رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں ہمیشہ کی طرح آبان کو ایک سحر میں جکڑ چکی تھیں۔ لائبہ نے اُسکی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ واپس آیا۔
کیسی ہو۔ آبان نے مسکرانے کی کوشش کی۔
بھائی سے کہیں میں نیچے اُنکا انتیظار کر رہی ہوں جلدی آئیں، مجھے گھر جانا ہے۔ درشتی سے کہتی وہ باہر کی طرف بڑھ گئی۔
آبان کا تو منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا، ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ لائبہ نے اُس سے صحیح سے بات نہ کی ہو۔ وہ سر جھٹک کر اوپر کی جانب بڑھ گیا، ہمدان کو بلانا بھی تو تھا۔

لائبہ کا موڈ ایک دم سے خراب ہوچکا تھا، اُس کا بھائ باہر جانے کی پلیننگ کر رہا تھا اور اُس کے علاوہ یہ بات ساری دنیا کو پتا تھی۔ اُس نے آنکھیں بند کرکے سارے آنسو اندر اُتارے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  شہریار تم اب تک ریڈی نہیں ہوئے بیٹا۔ ہمیرا بیگم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بول رہیں تھیں کہ اپنے پُروقار بیٹے کو دیکھ کر ٹھٹکیں۔
وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنےبال سیٹ کر رہا تھا۔ ہمیرا بیگم کو دیکھ کر مسکرایا۔
بے اختیار اُن کے منہ سے ماشاءاللّه نکلا۔
ماشاءاللّه بہت پیارے لگ رہے ہو۔
اُسکی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔
تھینک یو ماما۔ وہ ہی عزلی گمبھیر لہجہ۔
چلیں ماما؟
ہاں چلو تمہارے پاپا انتیظار کر رہے ہیں۔یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئیں۔
وہ بھی خود پر ایک نظر ڈالتا باہر آگیا۔
. . . . .  . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .  لائبہ اور ہمدان کے جانے کے بعد سلمہ بیگم نے مرحا کو تیار ہونے بھیج دیا تھا۔
وہ تھوڑی دیر سستانے کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
کم ان۔ مرحا نے اجازت دی۔
آبان اندر داخل ہوا۔
آپی مما کہہ رہی ہیں جلدی آجائیں مہمان آچکے ہیں۔
مرحا نے میسنی سی شکل بنائی جسکو دیکھ کر آبان کو ہنسی آگئی۔
اگر آپ کہیں تو واپس بھیج دیتا ہوں اُنکو۔ مسکراتے ہوئے مرحا سے کہا۔
ہاں تاکہ امی ہمیں بھی اُن کے ساتھ ہی گھر سے روانہ کردیں۔ وہ بھی مسکرائی۔
ایک تو آپ امی سے اتنا ڈرتی ہیں، چِل کریں یار۔
مرحا ہنسی۔
اچھا اب تم جاؤ میں بھی آتی ہوں۔
جلدی آئیے گا۔ یہ کہہ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔
مرحا روم لاک کرکے ڈریسنگ روم میں گئی اور وہاں سے ایک استرے شدہ جوڑا نکال کر تیار ہونے چل دی۔
تیار ہو کر اُس نے ایک نظر خود کو دیکھا، کالے اور سرخ رنگ کے کامبینیشن کی کُرتی کو ساتھ کالا پاجامہ اور سرخ ڈوپٹہ جو ہمیشہ کی طرح سر پر تھا۔ سٹریٹ بالوں کا نفاست سے جُوڑا بنایا ہوا تھا۔
چھوٹی بادامی آنکھیں، اُسکی اور آبان کی آنکھیں ایک ہی جیسی تھیں۔
چھوٹی تیکھی ناک، اُس کے نقوش تیکھے تھے اور اُس کی تھوڑی کا تِل اُس کے حسن کو اور نکھارتا تھا۔ ویسے تو وہ میک اپ نہیں کرتی تھی مگر سلمہ بیگم کے اسرار پر اُس نے ہلکا پھلکا میک اپ کرلیا تھا۔
خود پر ایک نظر ڈالتی وہ نیچے کی جانب بڑھ گئی۔

پاداشِ عملWhere stories live. Discover now