ہاں تو میری مسکراہٹ جو کہہ رہی ہے آپ وہ کر دیں۔ شہریار نے چائے کا ایک سِپ لیا۔
کرتی ہوں میں بات اُن لوگوں سے۔ انہوں نے مسکرا کر کہا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
محمود بٹ اپنے کمرے میں بیٹھے کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔
ہاں ہاں جو بھی پولیس افسر ہو چُپ کرادینا اُس کو۔
ایسا کون آگیا جو اپنی جیب گرم کرنے کا نہیں سوچتا؟ انہوں نے سوال کیا۔
مرحا...انہوں نے زیرِ لب مرحا کا نام دوہرایا۔
ہہہہہہمم یہ لڑکی تو ہمارے کام میں مصیبت بن جائے گی، تم ایک کام کرو کچھ دن یہ ڈرگس کا کام رکوا دو، میں کرتا ہوں اُس کا کچھ۔ وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔
گُڈ، بائے۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون رکھ دیا۔
مرحا سفیان ملک اتنی ایماندار تو تم بھی نہیں ہوگی، تیار ہوجاؤ اب اپنے ٹرانسفر کے لیے۔ انہوں نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے سوچا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
لائبہ کے آبان کو نظر انداز کرنے پر آبان نے بھی یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ بھی لائبہ کو نظر انداز کریگا اور جب تک لائبہ خود کوئی بات نہیں کریگی وہ بھی نہیں کریگا۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
رات کا وقت تھا ہمدان اپنے کمرے میں ادھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔
تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ اُس کی آنکھوں کے سامنے گُھوما۔
اگر تم اُس سے محبت کرتے ہو تو حاصل کرلو اُسے، ویسے بھی اس دنیا میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ محمود بٹ نے سگار سلگایا۔
پر بابا یہ آسان نہیں ہے شہریار مرحا کو پسند کرتا ہے وہ کبھی بھی یہ منگنی نہیں توڑیگا۔
اور مرحا کیا وہ پسند نہیں کرتی اُس کو؟ محمود بٹ کے چہرے پر فوراً ایک عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔
میں نہیں جانتا۔ ہمدان نے کہا۔
ہمدان تم تھوڑا سا تو اپنا دماغ استعمال کرلو یا دماغ بھی دل کے ساتھ چھوڑ آئے ہو؟ وہ اپنے بیٹے کی ناسمجھی پر اب چڑ رہے تھے۔
تم محمود بٹ کے بیٹے ہو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو اپنے راستے سے ہٹانا سیکھو...
مرد بنو یوں مشکلوں سے گھبراو نہیں۔
منظر دھندلا ہوا وہ خیالوں سے واپس آیا۔
بابا صحیح کہتے ہیں مجھے کچھ نا کچھ کرنا پڑیگا ورنہ وہ شہریار مرحا سے شادی کرلیگا۔ پتا نہیں مرحا کو ایسا کیا دکھا تھا اُس میں جو مجھ میں نہیں دکھا، جبکہ میں شہریار سے زیادہ ہینڈسم ہوں۔ اُس کے اندر غرور نے سر اُٹھایا۔
"ناجانے کیا ہوگا اس غرور کا انجام
ہم تو بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ اللّٰہ خیر کرے"
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
اگلے دن لائبہ یونی کے گراونڈ میں بیٹھی پڑھ رہی تھی دفعتاً اُس کی نظر سامنے سے آتے آبان پر پڑی, جب سے آبان نے ڈھکے چھپے لفظوں میں اظہار کیا تھا تب سے لائبہ کا دل ایک عجیب سے احساس میں گِھرا ہوا تھا۔
لائبہ کو لگا آبان اُس سے کوئی بات کریگا، آبان کو قریب آتا دیکھ اُس نے نظریں دوبارہ کتاب پر مرکوز کرلیں۔
ہہہہہہمم تو اب میڈم چاہتی ہیں کہ میں خود ان سے بات کروں۔ آبان نے سوچا۔
مگر ایسا ہوگا تو نہیں۔ اور وہ اُس کو نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا۔
لائبہ جو کہ آبان کے بات کرنے کا انتیظار کر رہی تھی اُس کے یوں چلے جانے پر لائبہ کا چہرہ بجھ گیا۔
ہنہہ اچھا ہوا جو اس نے آکر کوئی بات نہیں کی۔ اُس نے سوچا مگر دل اور دماغ ایک دوسرے سے متفق نہیں تھے۔ وہ خود بھی اپنے جزبات سمجھنے سے قاصر تھی۔
"یہ محبت ہے صاحب،
سمجھ میں آجائے ایسا جزبہ نہیں۔"
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
ہمدان، آبان اور شہریار مرحا کی برتھ ڈے کے لیے شاپنگ کرنے آئے ہوئے تھے۔ آج انہیں مرحا کا ڈریس لینا تھا، شہریار نے اپنی پسند سے مرحا کے لیے ڈریس لیا تھا مگر آبان کو یہ بات مرحا کو بگانے سے منا کردیا تھا شاپنگ کرنے کے بعد وہ لوگ ایک ریسٹورینٹ ڈنر کرنے آگئے تھے۔
وہ باتیں کر رہے تھے جب آبان کا موبائل بجا وہ ایکسکیوس (excuse) کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔
مرحا کو یہ ڈریس پسند نہ آیا تو؟ ہمدان نے کہا۔
آہاں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ مرحا کو یہ ڈریس پسند نہ آئے، مجھے اپنی پسند پر پورا یقین ہے کوئی بھی اسکو ناپسند نہیں کرسکتا، آخر مرحا بھی تو میری ہی پسند ہے۔شہریار کے لہجے میں خود اعتمادی صاف ظاہر تھی۔
اور مجھے مرحا کی پسند کا بھی اندازہ ہے۔ وہ مسکرا رہا تھا
ہمدان نے اپنی ناگواری چھُپائی۔
مجھے کبھی کبھار لگتا ہے کہ مرحا اس منگنی سے خوش نہیں ہے۔ ہمدان نے کہا۔
اُس کے دماغ میں محمود بٹ کی باتیں بھر چکی تھیں۔
ہاہاہاہاہا یار اگر ایسی کوئی بھی بات ہوتی تو مرحا خود ہی انکار کردیتی اس رشتے سے۔
ہوسکتا ہے کہ وہ انکل آنٹی کے کہنے پر مانی ہو اُس کی اپنی رضامندی نہ ہو۔ ہمدان نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
وہ آج کے زمانے کی پڑھی لکھی لڑکی ہے وہ اپنا اچھا بُرا جانتی ہے اور اُس سے پوچھ کر ہی سب ہوا ہے۔
ہمدان کچھ کہنے ہی جا رہا تھا کہ آبان واپس آگیا اور بات وہیں رہ گئی۔
مما کی کال تھی پوچھ رہی تھیں کہ مرحا کا ڈریس لیا یا نہیں اور یہ بھی کہ پڑسو برتھ ڈے ہے اور ہم سستی دکھا رہے ہیں۔ اُس نے منہ بنا کر کہا۔
اس کے انداز پر ہمدان اور شہریار کی ہنسی چھوٹ گئی۔
مجھے اتنی ڈانٹ پڑ گئی اور تم لوگ ہنس رہے ہو۔
اچھا رو نہیں یہ لو ٹشو۔ شہریار نے اُسے ٹشو پکڑایا۔
اپنے پاس رکھیں یہ ٹشو شادی کے بعد کام آئےگا۔ آبان نے کہا۔
اچھا بھئی اب ذرا جلدی کرو مجھے گھر جانا ہے۔ آج ہمدان کو شہریار کی موجودگی سے اکتاہٹ ہو رہی تھی۔
ہاں بس چلتے ہیں۔ آبان نے کہا۔
وہ تینوں ڈنر توکر چکے تھے بس پیمنٹ کرکے باہر نکل آئے۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
مرحا اپنے کمرے میں بیٹھی موبائل یوز کر رہی تھی، واٹس ایپ کھول کر اُس نے شہریار کا تھوڑی دیر پہلے ڈالا ہوا اسٹیٹس دیکھا اُس میں شہریار نے اپنی اور آبان کی پک لگائی ہوئی تھی، وہ مبہم سا مسکرادی۔ اُس نے رپلائی پر ٹیپ (tap) کیا مگر پھر موبائل آف کرکے سائڈ میں رکھ دیا۔
ابھی اُس میں اور شہریار میں اتنی بےتکلفی نہیں ہوئی تھی کہ وہ رات میں اُس کو میسج کر دیتی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . سنڈے کی خوشگوار صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔
مرحا کی آنکھ اُس کے موبائل کی آواز سے کھلی تھی، اُس نے اُٹھ کر موبائل دیکھا تو لائبہ کی کال آرہی تھی، مرحا کے کال ریسیو کرتے ہی لائبہ کی چہکتی آواز گونجی۔
"Happy birthday mirha api"
مرحا نے بے اختیار کلینڈر کی طرف دیکھا، وہ خود بھی اپنی برتھ ڈے بھول چکی تھی۔
مرحا نے جواباً کہا۔ "Thank you guriya"
کیسی ہیں آپ؟
ابھی ابھی اُٹھی ہوں تو تھوڑی نیند میں ہوں۔ مرحا نے ہلکے سے ہنس کر کہا۔
اوہ آئم سوری، آپ فریش ہوجائیں ہم بعد میں بات کرلینگے۔
ہاں ٹھیک ہے ۔ مرحا نے جمائی لی اور فون کٹ کردیا۔
پھر اُس نے موبائل میں دیکھا تو کافی سارے لوگوں کے میسج آئے ہوئے تھے اور اُس میں سب سے پہلا میسج شہریار کا تھا۔ شہریار نے ایک لمبہ چوڑا میسج لکھ کر مرحا کو سینڈ کیا تھا۔
وہ میسج پڑھ کر مرحا کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔ مرحا نے اُس کو جواب دیا اور فریش ہونے چل دی۔
. . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .