ظلم حد سے بڑھ کر episode 20

1K 68 11
                                    

"علیشہ بیٹا اتنی رات میں کہا جاؤنگی"۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ سے پریشان ہوکر پوچھا۔۔۔
"آنٹی۔۔۔ دارالعوام اور ایدھی سینٹر 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔۔۔"
"میں کہی بھی چلی جاؤں گی"۔۔ علیشہ مصنوعی مسکراہٹ چہرہ پر لے کر بولی۔۔۔
"بیٹا ایسا مت کرو"۔۔
"تمھارے ماں باپ کو ہم کیا جواب دیں گے۔۔۔۔"
"کہہ دیے گا۔۔۔ وہ اپنی مرضی سے گئ ہے"
علیشہ بیگ اٹھا کر آگے بڑھی۔۔۔
"مما۔۔۔ بھابھی کو روک لیں"۔۔۔ رابعہ بری طرح رو رہی تھی۔۔۔
"نہیں کوئی نہیں روکے گا اس کو"۔۔ شاہ ایک دم چیخا۔۔۔

"شاہ تم چپ ہوجاؤ"۔۔۔۔ ہمدان صاحب شاہ پر چیخے۔۔۔

علیشہ دروازے سے باہر نکل گئ تھی۔۔۔ پیچھے سے کسی نے آواز دی۔۔۔۔
"علیشہ بی بی" ۔۔۔ "علیشہ بی بی۔۔۔ "
علیشہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔ آنسوؤں کی وجہ سے آنکھوں میں دھندلا پن آگیا تھا۔۔۔ تو سامنے سے آتے شخص کا چہرہ نہیں دیکھ پائ۔۔۔
بانو علیشہ کے پاس آکر بولی۔۔۔ "بیبی جی یہ لے لیں۔۔۔۔"
بانو نے علیشہ کے ہاتھ میں موبائل فون دیا۔۔۔
"پر بانو میں کیا کروں گی"؟۔۔۔
"آپ یہ لے لیں اس سے رابعہ بیبی سے بات کرلیے گا"۔۔۔
"وہ بہت رو رہی ہیں۔۔۔"
"نہیں میں نہیں لونگی۔۔۔"
"بیبی جی لے لیں"۔۔۔ "آپکو رابعہ بیبی کی قسم۔۔۔"
"بانو"۔۔۔ علیشہ نے مصنوعی غصہ سے دیکھا۔۔۔
"ٹھیک ہے"۔۔۔ "مگر تم کسی کو نہیں بتاؤ گی"۔۔۔
"رابعہ کے علاوہ۔۔"
"جی جی" ۔۔۔۔ وہ یہ کہہ کر مڑ گئی۔۔۔
علیشہ موبائل دیکھ کر۔۔ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔۔
وہ ایسے ہی سڑک پر بے مطلب چلی جارہی تھی۔۔۔ آنسوں اسکے آنکھوں سے رواں تھے۔۔۔
پیدل چلتے چلتے اسکے پاؤں دکھنے لگے تھے۔۔
آتی جاتی گاڑیوں کی روشنی اسکے چہرے پر پڑ رہی تھی۔۔۔
"کیا کروں"؟۔۔۔ "مجھے تو یہاں کے راستے بھی نہیں پتا"۔۔۔ وہ ایک جگہ کھڑی ہوکر سوچنے لگی۔۔۔
"میرے پاس تو پیسے بھی نہیں"۔۔۔
"جو۔ٹیکسی رکشہ میں جاؤں۔۔۔" وہ یہ سوچ کر دوبارہ رونے لگ گئی۔۔۔
"یا اللہ میری مدد کر"۔۔۔ وہ ابھی یہ کہہ رہی تھی۔۔۔ کہ سامنے سے ایک ادھیڑ عمر کا شخص اسکے پاس آیا۔۔۔
علیشہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔۔
"بیٹی کیا ہوا۔۔۔"؟ "یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔"؟ "کہی جاؤ گی۔۔۔؟"
"میں چھوڑ دوں۔۔۔"؟ اس نے علیشہ سے ایک ساتھ سوال کیے۔۔
"نہیں بابا جی"۔۔۔
"میں ٹھیک ہوں"۔۔
"آپ جاسکتے ہیں"۔۔۔۔ علیشہ ڈرتے ڈرتے بولی۔۔۔۔
"بیٹا میں ایسا نہیں ہوں"۔۔
"جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔" "کہی جاؤ گی میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔"
"نہیں میں کہی نہیں جاؤں گی۔۔۔"
علیشہ کی آنکھیں نم ہونے لگی۔۔۔
"تو اکیلی یہاں کیوں کھڑی ہو۔۔۔" ؟ انھوں نے علیشہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر باور کروایا۔۔۔ کہ جو علیشہ سمجھ رہی ہیں۔۔۔ وہ بلکل بھی ویسے نہیں ہے۔۔۔
علیشہ انکا شفقت بھرا ہاتھ محسوس کرکے بولی۔۔
"بابا جی میرے پاس پیسے نہیں ہیں"۔۔۔ "مجھے ایدھی سینٹر جانا ہے۔۔"
"آؤ میں چھوڑ دیتا ہوں"۔۔۔ "مجھ سے ڈرو نہیں"۔۔۔ وہ یہ کہہ کر مڑ گئے۔۔
سامنے انکی ٹیکسی کھڑی تھی۔۔۔ انھوں نے علیشہ کے ہاتھ سے بیگ لے کر۔۔۔ اوپر رکھ دیا۔۔۔
علیشہ ٹیکسی کا دروازہ کھول کر۔۔ پیچھے بیٹھ گئ۔۔۔

ظلم حد سے بڑھ کرNơi câu chuyện tồn tại. Hãy khám phá bây giờ