اتنے میں شاہ اور اسکی مما اسٹاف روم سے نکلے ۔۔۔ دیکھیں بہن یہاں تماشہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہم آپ کے گھر چل کے بات کرلیتں ہیں ۔۔۔ نہیں مما میں نے جو کہا ہے اس سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گا ... پر بیٹا گھر تو چلنا ہوگا۔۔۔۔ شاہ کی مما نے شاہ کو سمجھایا۔۔
شاہ کی روعب دار آواز سے علیشہ ڈر گئ فوراً اس نے اپنی مما سے پوچھا۔۔۔ مما یہ کیا کہہ رہے ہیں؟
جس طرح کی تم نے حرکت کی ہے میرا دل نہیں کررہا تم سے بات کروں ۔۔۔علیشہ کی مما نے نخوت بھرے لہجے میں جواب دیا۔۔۔ پر آنٹی اسنے کچھ نہیں کیا اتنی دیر سے چپ کھڑی مانو بولی ۔۔۔ بسس مجھے کچھ نہیں سننا۔۔
مما میں گاڑی میں ویٹ کررہا ہوں ۔۔۔ شاہ یہ کہہ کر مڑا نہیں۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔ ہم نکل رہے ہیں آپ۔۔ شاہ کی مما علیشہ کی مما سے مخاطب ہوئی ۔۔۔ جی جی ہم بھی نکل رہے ہیں۔۔
سنیں آپ رکشا لے آئے ۔۔۔ رکشے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ ہمارے ساتھ چل رہے ہیں۔۔۔
مانو بیٹا آپ اس کا بیگ لادو۔۔۔ جی آنٹی ۔۔ وہ یہ کہہ کر کلاس کی طرف چلی گئی ۔۔۔ ہم گاڑی میں ویٹ کررہے ہیں۔۔۔ شاہ کی مما بھی یہ کہہ کر چلی گئ ۔۔۔ مانو نے اسے بیگ لا کر دیا اور اس کے گلے لگ گئ کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ کچھ نہ کچھ ایسا ہوگا جس سے وہ اور اسکی دوست دور ہوجائے گے۔۔
چلو۔۔۔ اب وہ تمھارے لئے انتظار نہیں کرینگے۔۔۔گاڑی انکے گھر کے آگے رکی وہ اور اسکی مما گاڑی سے نکل کر گھر میں گئے ۔۔ صحن میں کھڑی ادیبا دروازے سے اندر آتے لوگوں کو دیکھ کر حیران ہوئ اور علیشہ جو کمرے میں جارہی تھی اسکے پیچھے گئ۔۔ علیشہ کیا ہوا میم نے کیوں بلایا تھا مما باباکو؟
آپییی کالج میں ایک لڑکی تھی ثانیہ جو آج کالج سے کہی چلی گئی ہے اور سب یہی کہہ رہے ہیں کہ اسے میں نے بھگایا ہے مگر میں تو اسے جانتی بھی نہیں ہوں۔۔ اور وہ لڑکی پتا نہیں کیوں ہرکسی سے یہی کہتی تھی کہ میں اسکی بیسٹ فرینڈ ہوں۔۔
اور یہ لوگ کون ہے ؟
یہ اس لڑکی کی مما اور بھائی ہے ۔۔۔ گڑیا تم بلکل بھی نہیں جانتی اس لڑکی کو ؟ ادیبا نے اس سے پیار سے پوچھا۔۔
نہیں آپییی ۔۔ تو سب یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ اسے تم نے بھگایا
ے؟ پتا نہیں۔۔ رو رو کر اسکا برا حال ہورہا تھا اور باہر شاہ اور اسکی مما اسکے بابا بھائی سے فیصلہ کررہے تھے مگر شاہ کا یہی فیصلہ تھا کہ وہ علیشہ کو اپنے ساتھ لے کر جائےگا اور اسے بھی ایسی تکلیف سے گزارے گا جس سے وہ گزرہا ہے۔۔ اتنے میں اسکی مما کمرے میں آئ اور علیشہ کو وہ ایسی خونخوار نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے ابھی قتل کردینگی ۔۔۔ چلو تمھارے بابا تمہیں بلارہے ہیں۔۔۔
وہ آنسوؤں کو بے دردی سے صاف کر کے اٹھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اب یہ آنسوں اس کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں۔۔۔ وہ یونیفارم چینج کر کے باہر آئ تو اب وہاں شاہ اور اسکی مما کے علاوہ شاہ کے بابا اور چھوٹی بہن رابعہ بھی تھی۔۔وہ ایک نظر رابعہ کو دیکھ کر بابا کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔۔ بابا آپ نے بلایا ۔۔
ہاں بیٹا۔۔۔ تم اپنا سامان پیک کرلو تھوڑی دیر میں انکے ساتھ نکاح ہے وہ شاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔۔ وہ جو بول رہے تھے اس پر انکو خود کو ہی یقین نہیں آرہا تھا۔۔ بابا نکاح میرا پر میں نے تو کچھ نہیں کیا بابا میں تو اس لڑکی کو جانتی بھی نہیں ہوں۔۔ بابا آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں آپ جانتے ہیں نہ اپنی شہزادی کو وہ کرسکتی ہے نہیں نہ۔۔ بابا آپ تو اپنی شہزادی پر یقین رکھتے ہیں نہ بابا میں نہیں جاؤں گی آپکو چھوڑ کر ۔۔