بابا میں نہیں جاؤں گی آپکو چھوڑ کر۔۔ وہ دیوانے وار رونے لگی۔۔
جاؤ اندر۔۔۔ بابا میں کہی نہیں جاونگی آپکو چھوڑ کر۔۔۔ میں نے کہا جاؤ اندر ۔۔۔ ادیبا اسے تیار کرو مولوی صاحب آتے ہونگے۔۔ علیشہ کو یوں روتا دیکھ کر شاہ کی مما نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کی کتنی لاڈلی تھی اسکے جانے کے بعد شاہ کی مما نے علیشہ کے بابا سے بات کی ۔۔ دیکھیں بھائی صاحب ہم علیشہ کو اپنی بیٹی بنا کر لے کر جائے گے شاہ کی مما کی اس بات پر شاہ کے بابا نے بھی انکا ساتھ دیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ سب گھر والوں کی پیاری ہے اور جب کہ وہ شاہ کے ساتھ نکاح کے بندھن میں بندھنے جا رہی تھی تو انکا فرض تھا کہ وہ اسکا خیال رکھے کیونکہ وہ اپنے بیٹے کی عادت سے واقف تھے۔۔۔کچھ دیر میں وہ علیشہ صدیقی سے علیشہ شاہ ہوگئی تھی۔۔۔ نکاح کے وقت مسلسل روتی رہی۔۔۔ نکاح کے بعد شاہ اور اسکی فیملی نے کہا کہ ہم اب نکلےگے۔۔۔
وہ کمرے میں مسلسل رو رہی تھی۔۔۔ آپیی اسے تسلی رے رہی تھی۔۔وہ اور کر بھی کیا سکتی تھی۔۔۔ وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بس اب ہم نکلے گے علیشہ کی مما نے کمرے میں آکر اس کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔ مما آپ مجھے مت جانے دے مما آپ مجھے روک لیں ۔۔۔ پلیززز میں آپکو کبھی تنگ نہیں کرونگی علیشہ کی اس بات پر انکو علیشہ پر بہت پیار آیا۔۔۔ بیٹا وہ لوگ ایسے نہیں ہیں تمہیں خوش رکھے گے۔۔۔ وہ اسکو تسلی دے رہی تھی اندر سے انکا دل بھی ڈر رہا تھا۔۔۔۔ علیشہ تم میری پرنسس ہو نہ زد نہیں کرو ہم تمہیں نہیں روک سکتے اگر تم ایسی زد کروگی تو بابا تمھارے بارے میں سوچ کر اپنی طبیعت خراب کرلیں گے بابا کے لئے چلی جاؤ۔۔۔ آپیی نے اسے سمجھایا۔۔۔ شاہ کی فیملی گاڑی میں بیٹھ گئے تھے ۔۔۔ وہ بابا سے گلے لگے روئے جا رہی تھی جب بابا نے اسے خود سے دور کیا تو اسے لگا کے کسی نے اسکے جسم سے جان نکالی ہو۔۔۔ باری باری سب سے گلے لگ رو رہی تھی جب مما کہ پاس آئی تو اس کا دل کیا کہ مما کے گلے لگ کر روتی رہے ۔۔۔ اک سکون تھا جو اسے یہ احساس دلا رہا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے اسکی مما کی دعائیں اسکے ساتھ ہیں۔۔ اور سب سے بڑی بات یہی تھی کہ یہ فیصلہ اسکے ماں باپ نے کیا تھا۔۔ اور ماں باپ کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا ہے۔۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئ تھی ۔۔۔ گاڑی اپنے راستے پر رواں دواں تھی مگر علیشہ ابھی بھی روئے جا رہی تھی ۔۔۔۔ اسکی سسکیوں سے تنگ آکر شاہ یک دم چیخا۔۔۔۔ بسسسسسس چپپپپپ ۔۔۔ اب اگر تم روئ تو چلتی گاڑی سے باہر پھینک دونگا۔۔۔ ایک ایک الفاظ چبا کر بولا ۔۔۔۔ علیشہ اسکے چیخنے سے ڈر گئ کپکپانے لگ گئ تھی۔۔۔۔ گاڑی میں شاہ اور علیشہ کے علاوہ شاہ کی چھوٹی بہن رابعہ بھی تھی۔۔۔ شاہ کی مما شاہ کے بابا کے ساتھ دوسری گاڑی میں تھی۔۔۔۔ علیشہ اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں ملاکر کپکپاہٹ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
کچھ دیر بعد گاڑی ایک خوبصورت حویلی کے آگے رکی۔۔۔ حویلی میں پہنچ کر علیشہ کا بہت اچھا استقبال ہوا۔۔۔۔
صالحہ بیگم (شاہ کی مما) نے رابعہ سے کہا ۔۔۔ بیٹا بھابھی کو بھائی کے کمرے میں چھوڑ آؤ۔۔۔ علیشہ بیٹا شام میں آپکی منہ دکھائی ہے تو آپ ابھی آرام کرلو ۔۔۔ اتنے میں انکا فون بجا۔۔۔ انھوں نے کال اٹینڈ کرکے جیسے ہیلو کہا۔۔۔ سامنے سے شاہ کی پرجوش آواز سنائی دی ۔۔۔۔مما ثانیہ کا پتا لگ گیا ہے۔۔۔ صالحہ بیگم کے اداس چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔۔۔ سچ کہا ہے وہ ۔۔۔ مما اس نے شادی کرلی ہے اور ابھی بھی اسکا یہی کہنا ہے کہ اس کو علیشہ نے بھیجا تھا۔۔۔