صالحہ بیگم حیرت سے علیشہ کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ثانیہ ہمدان صاحب کے آگے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگی۔۔۔
بابا مجھے معاف کردیں۔۔۔ میں جانتی ہوں میں نے بہت غلط کام کیا ہے۔۔۔ مگر آپ مان جاتے تو میں یہ قدم کبھی نہیں اٹھاتی۔۔۔
میں جانتی ہوں۔۔۔ کہ آپ نے کتنی شرمندگی کا سامنا کیا ہوگا۔۔۔ مجھے معاف کردیں۔۔۔
دیکھیں مجھے علیشہ نے بھی معاف کردیا۔۔۔ وہ گرگڑاتے ہوئے بولی۔۔۔
انکل آپ معاف کردیں۔۔۔ ثانیہ کو ۔۔۔ علیشہ ثانیہ کی حمایت میں بولی۔۔ علیشہ کی اس بات پر شاہ۔۔ صالحہ بیگم۔۔ دونوں ہی علیشہ کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ آپ کہتی ہو تو معاف کردیتا ہوں۔۔۔
ورنہ ثانیہ تم میرے لئے مرے برابر تھی۔۔۔
بابا پلیزززز ایسا مت کہے۔۔۔ میں مرجاونگی آپ لوگوں کے بغیر۔۔۔۔
وو انکے قدموں میں گرگئ۔۔۔
اٹھو بیٹا۔۔۔ ہمدان صاحب نے ثانیہ کو قدموں سے اٹھایا۔۔۔
میں نے معاف کیا۔۔۔ اس لئے کیونکہ میری بھی غلطی تھی۔۔۔
انھوں نے ثانیہ کو گلے سے لگایا۔۔۔
تم بھی آجاؤ۔۔۔ تمہیں بھی معاف کیا۔۔۔ انہوں نے عاصم کو بھی بلایاایک منٹ۔۔۔ شاہ غصہ میں بولا۔۔۔ بھلے ہی تمہیں بابا نے معاف کردیا ثانیہ۔۔۔ مگر میں نہیں کرونگا۔۔۔
شاہ۔۔۔ ہمدان صاحب نے شاہ کو دیکھا۔۔۔ بابا آپ کچھ بھی کہے مگر میں اسے معاف نہیں کرونگا۔۔۔
پر بھائی۔۔۔ اب تو بابا نے بھی معاف کردیا۔۔۔ ثانیہ روھانسی ہوئی
میں نے کہا۔۔۔ میں نہیں کرونگا۔۔۔
بھائی ایسا مت کہے ۔۔۔۔ آپ میرے بڑے بھائی ہو۔۔۔
پلیزز آخری غلطی سمجھ کر معاف کردیں۔۔۔ میں نہیں کرونگا۔۔
شاہ یہ کہہ کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
چھوڑو بیٹا۔۔۔ کچھ دن میں ٹھیک ہوجائگا ہمدان صاحب بھی یہ کہہ کر کمرے میں چلے گئے۔۔۔۔۔ ثانیہ اپنی مما کے گلے لگ کر رو رہی تھی۔۔۔ بیٹا بس کرو۔۔۔ بھول جاؤ۔۔۔ صالحہ بیگم نے اسے سمجھایا۔۔۔
اب ثانیہ علیشہ کے پاس آئی تھی۔۔۔ اور گلے لگ کر روتی رہی۔۔ علیشہ پلیززز مجھے معاف کردو ۔۔۔ میری وجہ سے تم نے بہت تکلیف اٹھائی ہے۔۔۔
ثانیہ۔۔۔ میں نے تمہیں معاف کردیا۔۔ اور اب سب بھول جاؤ۔۔۔
علیشہ تم بہت اچھی ہو۔۔۔ تم نے مجھے بابا سے معافی دلوائی۔۔
ورنہ وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرتے۔۔۔
ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔ اب تم آرام کرو۔۔۔
ڈاکٹر نے تمہیں complete بیڈ ریسٹ کا کہا ہے۔۔۔ مگر تم تو کمرے سے باہر آگئی۔۔۔
صالحہ بیگم نے علیشہ پر مصنوعی غصہ کیا۔۔۔
سوری وہ کمرے میں مسلسل شور کی آواز آرہی تھی۔۔۔ تو میں باہر دیکھنے کے لیے آگئ۔۔۔
بلکل صحیح ٹائم پر آئی ہیں بھابھی۔۔۔ ورنہ آج پہلی بار بابا نے ثانیہ آپی پر ہاتھ اٹھایا تھا۔۔ رابعہ کی اس بات پر سب ہنسے تھے۔۔۔
لیکن ثانیہ کی سوئی بھابھی پر آکے رکی تھی۔۔۔
رابعہ تم نے ابھی علیشہ کو کیا بولا ہے۔۔۔
ثانیہ نے فوراً رابعہ سے پوچھا۔۔۔
آپیی آپکو کیا پتا ۔۔۔ یہ کیوٹ سی پیاری سی لڑکی ہماری بھابھی بن گئی ہیں۔۔۔
سچ میں۔۔۔۔ ثانیہ نے حیرت سے علیشہ کو دیکھا۔۔۔
جی۔۔ آپی ۔۔۔ بہت اچھی ہیں علیشہ بھابھی۔۔۔
رابعہ کی اس بات پر علیشہ کے چہرہ پر اداسی آگئی۔۔۔
علیشہ بیٹا آپ جاکر آرام کرو۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ کا چہرہ دیکھ لیا تھا۔۔ جی ۔۔ وہ یہ کہہ کر مرے قدموں سے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئ۔۔۔
علیشہ کمرے میں آئی تو۔۔۔ شاہ بیڈ پر لیٹ کر موبائیل چلا رہا تھا۔۔
وہ چپ چاپ آکر صوفے کے ساتھ نیچے بیٹھ گئ۔۔۔
وہ اپنے گھر والوں کو یار کرکے رو رہی تھی۔۔۔
جب شاہ اٹھ کر اسکے پاس آیا۔۔ وہ شاہ کو دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔۔۔
بات سنو۔۔۔ اگر تمہیں اس کمرے میں رہنا ہے تو۔۔ میری مرضی سے رہو گی۔۔ جو میں کہوں گا وہ کرو گی۔۔۔
بہت شوق ہے نہ تمہیں لوگوں کے بیچ میں بولنے کا۔۔۔
بہت شوق ہے نہ سب کے سامنے اچھا بننے کا۔۔۔
اب جو میں کہوں گا وہی تم کرو گی۔۔۔
رات میں تم یہاں نیچے سؤ گی۔۔۔ صبح میرے اٹھنے سے پہلے میرے دو سوٹ استری کرو گی۔۔۔ اس کمرے کی پوری صفائی تم خود کروگی۔۔ ناشتہ کھانا سب تم اپنے ہاتھوں سے بناؤگی۔۔infect اس گھر میں رہنے والے سب ہی افراد کا کھانا تم ہی بناوگی۔۔۔
اور اگر تم نے کوئی چوں چراں کیا۔۔ تو یاد رکھنا میں تمھارا وہ حشر کروں گا کہ تم بہت اچھی طرح یاد رکھو گی۔۔۔ سمجھی۔۔۔
علیشہ نے نیچے نگاہ کیے۔۔۔ اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
شاہ یہ کہہ کر دوبارہ بیڈ پر جاکر بیٹھ گیا۔۔۔
علیشہ صوفے سے لگی نیچے بیٹھتی چلی گئ۔۔۔
وہ تو سمجھی تھی کہ اس کی سزا ختم ہوگئی۔۔ مگر صحیح معنوں میں تو اب اسکی سزا شروع ہوئی تھی۔۔۔
شاہ کی زندگی میں اب ہلچل مچی تھی۔۔۔ ایک طرف بہن تھی۔۔۔ جس نے اس سے جھوٹ بولا تھا۔۔۔ دوسری طرف اسے ہی بچانے والی لڑکی ۔۔۔ جس پر شاہ نے بے جا ظلم کیا تھا۔۔