ممم۔۔۔مجھے۔۔وہاں جانے دیں ۔۔ ورنہ میں مرجاونگی۔۔۔
علیشہ بیٹا۔۔۔ یہاں تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔ تم آرام کرو۔۔۔
پکا ۔۔۔ کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔۔ وہ بچوں کی طرح بولی۔۔۔
تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔۔ اگر کوئی کچھ کہے تو مجھے آکے بتانا ۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔۔
مجھے اپنی مما سمجھو۔۔۔ کوئی بھی بات کبھی بھی شئیر کرلو۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ جواباً وہ بس سر ہلا کر رہ گئ۔۔۔
اتنے میں رابعہ سوپ لے آئی۔۔ بھابھی آپ اٹھ گئی۔۔۔
کیسی طبیعت ہے آپکی۔۔۔ وہ سوپ کی ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر بولی۔۔۔ جواباً علیشہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
بھابھی یہ دیکھیں۔۔ میں آپکے لیے اپنے ہاتھوں سے سوپ بناکر لائ ہوں۔۔۔ رابعہ نے سوپ صالحہ بیگم کے ہاتھ میں دیا۔۔۔
آپ ٹیسٹ کر کے بتائیں کیسا بنا ہے۔۔۔۔؟
بیٹا یہ سوپ پی لو۔۔۔ تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا۔۔۔
نہ۔۔نہیں میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔۔
علیشہ کچھ کھالو بیٹا۔۔۔ ایسے تو تمہیں اور کمزوری ہوجائیگی۔۔
اور ہم تمھارے گھر والوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔۔ کے ہم انکی بیٹی کا خیال نہیں رکھ سکے۔۔ ہم تمھارے بابا سے وعدہ کرکے آئے ہیں کہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے گے۔۔۔ مگر اب تم ایسا کر رہی ہواپنی ماں کی بات بھی نہیں مانوگی۔۔ علیشہ یہ سن کر صالحہ بیگم کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔
آپ میری مما کی طرح ہیں۔۔۔ آپ نے میرا خیال رکھا ہے۔۔۔
میں ضرور مانوگی آپ کی بات۔۔۔ شاہ دریسنگ پاس کھڑا شیشے سے یہ سب ہوتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
شاہ کے دل میں کہی نہ کہی کونے میں علیشہ کے لیے جگہ بن گئی تھی۔۔۔
اچھا بیٹا ۔۔۔ تم یہ سوپ پیو ۔۔۔ میں چلتی ہوں مجھے کچھ کام سے باہر جانا ہے۔۔۔ رابی بیٹا بھابھی کا خیال رکھنا۔۔۔ صالحہ بیگم یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئ۔۔۔ بھابھی۔۔ میں آپکے لیے کوئی سوٹ نکال دیتی ہوں ۔۔۔۔ آپ اس میں uncomfortable محسوس کر رہی ہونگی۔۔۔ ہمممم۔۔وہ جواباً ۔۔۔مسکرائ۔۔۔
شکر ہے بھابھی۔۔آپ نے smile تو کی۔۔۔
شاہ بھی یہ سب شیشے میں دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ smile کرتی ہوئی بہت پیاری لگتی تھی۔۔۔میں باہر جارہا ہوں۔۔۔ شاہ بھی یہ کہہ کر کمرے سے نکل گیا۔۔
بھابھی میں نے آپکا سوٹ نکال دیا ۔۔۔ آپ فریش ہوکر۔۔چینج کرلو۔۔
علیشہ اٹھنے لگی تھی۔۔ کہ اسے چکر آیا۔۔ وہ دوبارہ بیڈ پر گر گئی۔۔۔ رابعہ جلدی سے اسکے پاس آئی۔۔۔
کیا ہوا بھابھی۔۔۔ ؟
کچھ نہیں بسس ہلکا سا چکر آگیا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے میں آپکو لے چلتی ہوں۔۔ واش روم تک۔۔۔
ہممم۔۔۔ علیشہ کو ابھی بھی چکر آرہے تھے۔۔۔ اس لیے اس نے ہاں بول دیا۔۔۔تھوڑی دیر بعد علیشہ فریش ہوکر نکلی۔۔۔ تو رابعہ کمرے میں نہیں تھی۔۔ شائد وہ اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔
علیشہ نے ٹاول کی مدد سے بال سکھائیں۔۔۔
اسے کمزوری محسوس ہونے لگی۔۔ تو وہ صوفہ پر جاکر لیٹ گئی۔شام کے 5:00 بج رہے تھے جب اسکی آنکھ کسی شور سے کھلی۔
وہ اٹھ بیٹھی۔۔۔ آواز کمرے کے باہر سے آرہی تھی۔۔۔
کیا کروں۔۔۔۔؟
باہر جاکر دیکھوں۔۔؟
نہیں نہیں۔۔۔
پتا نہیں کیا سمجھے۔۔۔؟
کچھ بھی سمجھے۔۔ مجھے دیکھنا چاہیے۔۔۔
وہ یہ فیصلہ کرکے دروازہ کھول کر باہر چلی گئی۔۔۔
حویلی کے برآمدے میں ۔۔۔ صالحہ بیگم ۔۔ شاہ کے بابا ۔۔رابعہ اور شاہ کے علاوہ ۔۔ ایک لڑکی اور لڑکا بھی موجود تھے۔۔۔
شاید وہ ثانیہ اور اسکا شوہر ہو ۔۔۔ وہ یہ سوچ کر آگے بڑھیں۔۔۔
سیڑیاں اترنے لگی تھی کہ۔۔ اسکی کان میں آواز پہنچی۔۔۔
وہ لڑکی ثانیہ ہی تھی۔۔ جو اپنے بابا سے کچھ بات کر رہی تھی۔۔۔
بابا میں نے آپکو بتایا بھی تھا ۔۔۔ مگر آپ نے مجھے فوراً منع کردیا
تو میرے پاس آخری یہی حل تھا۔۔۔
کیونکہ میں عاصم کے بغیر مرجاتی۔۔۔
بے شرم لڑکی ۔۔۔ اپنے باپ کے آگے ایسی باتیں کرتی ہو۔۔۔
ہمدان صاحب(شاہ کے بابا) نے ثانیہ کو مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔۔
اتنے میں علیشہ اس تک پہنچ گئی۔۔ اور ثانیہ کے آگے کھڑی ہوگئ
ہمدان صاحب کا ثانیہ کو مارتا ہاتھ رک گیا۔۔۔
علیشہ بیٹا ۔۔۔ آپ ہٹ جاؤ۔۔۔ ہمدان صاحب نے نرمی سے علیشہ کو کہا۔۔۔ میں جانتی ہوں۔۔۔ انہوں نے جو کیا ہے۔۔۔ وہ غلط کیا ہے۔۔
مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ ان پر سب کے سامنے ہاتھ اٹھائے۔۔
کم سے کم اپنے بیٹے اور انکا خیال کریں۔۔۔ وہ عاصم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔؟ ثانیہ نے علیشہ کو مخاطب کیا۔۔۔
یہ آپ اپنی فیملی سے پوچھیں۔۔۔
میں جانتی ہوں۔۔ مجھے آپ کے گھر کے matter میں بولنے کا کوئی حق نہیں۔۔۔ مگر انسان جب ہی ایسا قدم اٹھاتا ہے۔۔
جب اسکے گھر والے اسکے خلاف ہو۔۔۔
علیشہ نے ہمدان صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔
انکے ساتھ بھی یہی ہوا ہوگا۔۔۔ تب ہی انھوں نے ایسا قدم اٹھایا۔۔ ہمدان صاحب نے سر جھکا دیا۔۔۔
تم چپ رہو۔۔۔ تمہیں ہمارے معملات میں بولنے کا کوئی حق نہیں ہے
شاہ۔۔۔۔۔ ہمدان صاحب نے شاہ کو چپ کروایا۔۔۔
سنو بیٹا۔۔۔ ہمدان صاحب نے علیشہ کو مخاطب کیا۔۔۔
ہم شرمندہ ہیں۔۔۔ تم پر ہونے والے ظلم پر۔۔۔
ایسی بات نہیں ہے انکل ۔۔۔ آپ کیوں شرمندہ ہورہے ہیں ۔۔۔
میں جانتی ہوں۔۔ میرے ساتھ برا ہوا ہے۔۔۔
مگر یہ سب پہلے ہی میرے نصیب میں لکھ دیا گیا تھا۔۔۔
ثانیہ۔۔۔ وہ ثانیہ سے مخاطب ہوئی۔۔۔
تمھاری وجہ سے میں بہت ظلم کا شکار ہوئی ہوں ۔۔۔
لیکن میں چپ رہی۔۔ میں جانتی تھی کہ تم کسی وجہ سے گئ ہو۔۔
میں جانتی تھی۔۔ مگر میں نے ایک ایک ظلم سہا ہے۔۔۔
میں چاہتی تو تمہیں کبھی معاف نہیں کرتی مگر میرے ماں باپ نے میری ایسی تربیت نہیں کی۔۔۔ اسلیے میں نے تمہیں معاف کردیا۔۔
لیکن اب تم اپنے بابا سے معافی مانگو۔۔
کیونکہ تمھاری وجہ سے تمھارے بابا نے کتنی شرمندگی اٹھائ ہے