چھین لیں میری سانسیں۔۔۔ کیوں نہیں چھین لیتے۔۔۔ علیشہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے گلے کو دبانے لگی۔۔۔
پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔۔ چھوڑو۔۔۔
نہیں آپ آج مجھے مار ہی ڈالیں۔۔۔
شاہ اسے ایسا ہی چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔۔۔ وہ شرمندگی اور ندامت کا شکار ہوگیا۔۔۔ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ وہشاہ رات میں آیا تو علیشہ زمین پر سوگئ تھی۔۔۔ بغیر کچھ کھائے۔۔
شاہ اسکو اٹھا کر بیڈ پر لیٹانا چاہتا تھا۔۔۔ مگر شرمندگی کی وجہ سے ۔۔۔۔ وہ علیشہ کے پاس آکر بیٹھ گیا۔۔۔
چپ چاپ علیشہ کا چہرہ تکنے لگا۔۔۔ اسکے چہرے پر کچھ آوارہ لٹے آرہی تھی۔۔۔ جسے شاہ نے ہٹانا چاہا۔۔ مگر اسکے ہاتھ لگانے سے پہلے ہی علیشہ ہلی ۔۔ شاہ اسکو ہلتا دیکھ کر پیچھے ہوگیا۔۔
اسکے چہرے پر آنسوؤں کی لکیریں واضح دکھائی دے رہے تھے ۔۔۔
تھوڑی دیر میں شاہ اٹھ کر واش روم چلے گیا۔۔۔
صبح جب علیشہ اٹھی تو شاہ ڈریسنگ کے آگے بال بنا رہا تھا۔۔۔
وہ شاہ کو اگنور کرکے واش روم چلی گئ۔۔۔
واپس آئی تو شاہ ناشتہ کرنے چلا گیا تھا۔۔۔
علیشہ بھی اس کے پیچھے چلی گئی۔۔۔
علیشہ چپ چاپ ناشتہ کر رہی تھی ۔۔۔۔ جب صالحہ بیگم کی آواز اسکی کانوں میں ٹکرائ۔۔۔
کیا ہوا علیشہ۔۔۔؟ آج بہت چپ چپ ہو۔۔۔
کچھ نہیں آنٹی۔۔ وہ بسس میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ علیشہ نے بہانا بنایا۔۔۔
اچھا اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے بیٹا آپ جاکر آرام کرلینا۔۔۔
جی۔۔۔ علیشہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔۔
وہ اب دوبارہ ویسے ہی ہوگئ تھی۔۔۔ جیسے یہاں آئ تھی۔۔۔3 مہینے گزر گئے۔۔۔ اسکو ایسے ہی ۔۔۔۔ نہ شاہ اس کو مخاطب کرتا۔۔۔ نہ وہ شاہ کو مخاطب کرتی۔۔۔
گھر میں بھی وہ ایسے ہی رہ رہی تھی۔۔۔ نہ کسی سے بات کرتی۔
اپنے کمرے میں بند رہتی۔۔۔ اگر رابعہ اس سے کچھ پوچھتی تو اس پر غصہ کرنے لگ جاتی۔۔
شاہ کو فیکٹری کے لیے جانا تھا۔۔ تو وہ اٹھ کر جلدی تیار ہونے چلا گیا۔۔
علیشہ ابھی بھی سو رہی تھی۔۔ وہ فریش ہوکر واپس آیا۔۔ تو علیشہ ابھی بھی ایسی لیٹی ہوئ تھی۔۔۔
شاہ نے جان بوجھ کر واش روم کا دروازہ زور سے بند کیا۔۔۔
مگر علیشہ پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔
شاہ نے علیشہ کو پاس جاکر اٹھایا۔۔۔ مگر وہ نہیں اٹھی۔۔۔۔
شاہ اسکا سر اپنی گود میں لے کر جلدی سے صالحہ بیگم کو آواز دینے لگا۔۔۔۔
مماااا۔۔۔۔۔ مماااااا۔۔۔
صالحہ بیگم جلدی سے اپر آئی۔۔۔ علیشہ کو ایسے لیٹے دیکھ کر فوراً اس کے پاس آئ۔۔۔۔
شاہ کیا کیا ہے تم نے اس معصوم کے ساتھ۔۔۔ بتاؤ۔۔ وہ شاہ پر چلانے لگیں۔۔۔
مما میں نے کچھ نہیں کیا۔۔۔ میں جب اٹھا تو یہ ایسے ہی لیٹی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے سوچا شاید سو رہی ہے۔۔۔ مگر جب میں نے واش روم کا دروازہ زور سے بند کیا۔۔۔ تب بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔۔۔
شاہ اسے ہاسپیٹل لے کر چلو۔۔۔ اگر اسے کچھ ہوا تو میں تمہیں کبھی معاف نہیں کرونگی۔۔۔
جی۔۔۔ شاہ علیشہ کو گود میں اٹھا کر گاڑی تک لے کر گیا۔۔کیا ہوا۔۔۔ ڈاکٹر فرحانہ۔۔۔؟ صالحہ بیگم نے ڈاکٹر کے آتے ہی پوچھا۔
ایوری تھنگ از فائن۔۔۔
لیکن یہ بے ہوش کیوں ہوئ۔۔
فکر کرنے کی کوئ بات نہیں۔۔۔ اس حالت میں ہوتا ہے۔۔ بلکہ آپ کو تو پتا ہونا چاہیے۔۔۔ آپ خود ایک ماں ہیں۔۔۔
کس حالت میں۔۔۔ صالحہ بیگم نا سمجھی سے بولی۔۔۔
دیکھیں مسز ہمدان۔۔۔ شی از پریگنینٹ فرام لاسٹ 3 منتھ۔۔۔
شاہ بھی وہی تھا۔۔۔ ان الفاظوں نے اسکا دماغ گھوما دیا۔۔۔
واقعی۔۔۔ صالحہ بیگم خوشی سے بولی۔۔۔۔
جی۔۔۔ لیکن آپ کو نہیں پتا تھا کیا۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فرحانہ شاہ کو دیکھ کر بولی۔۔
نہیں۔۔۔ میں کچھ دنوں سے شہر سے باہر گئ ہوئی تھی۔۔ میں کل ہی آئی ہوں ۔۔۔ صالحہ بیگم نے بہانا بنایا۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ ویسے یہ بہت کمزور ہیں۔۔ تو آپکو انکا بہت خیال رکھنا ہے۔۔
میں کچھ میڈیسن لکھ دیتی ہوں۔۔ وہ آپ انھیں باقاعدگی سے دیں۔۔
ڈاکٹر۔۔۔ ہم انہیں گھر کب لے کر جاسکتے ہیں۔۔۔ شاہ نے میڈیسن کی پرچی لیتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ابھی انکی ڈرپ چل رہی ہے۔۔۔ کچھ دیر میں انکو ہوش آجائے گا تو لے جائے گا۔۔۔
میں سسٹر سے کہہ کر انہیں پرائویٹ روم میں ایڈمیٹ کروا دیتی ہوں
کچھ دیر میں علیشہ کو پرائیویٹ روم میں ایڈمیٹ کر دیا۔۔۔
جہاں علیشہ صالحہ بیگم اور شاہ کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔۔
مما میں فیکٹری جا رہا ہوں۔۔ وہاں کچھ کام ہے۔۔۔ آپ ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی جائیگا۔۔۔ شاہ ریسٹ واچ پر ٹائم دیکھ کر بولا۔۔شاہ تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے۔۔۔ علیشہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔ اور تمہیں فیکٹری جانے کی لگی ہوئی ہے۔۔۔ شاہ کی بات سن کر صالحہ بیگم غصہ سے بولی۔۔۔
پر مما بہت میٹنگز ہیں ۔۔۔ مینیجر کا فون آیا ہے۔۔۔
تم مینیجر کو بولو وہ خود ہینڈل کرلے گا۔۔۔ مگر تم کہی نہیں جاؤگے۔۔۔ ابھی علیشہ کو سب سے زیادہ تمھاری ضرورت ہے۔۔۔
وہ تو مجھے دیکھنا تک پسند نہیں کریگی۔۔۔ میں نے اس کے ساتھ بہت ظلم کیا ہے۔۔۔۔ شاہ دل ہی دل میں شرمندہ ہورہا تھا۔۔۔کچھ دیر بعد علیشہ کو ہوش آگیا۔۔۔
میں میں یہاں ۔۔۔۔ علیشہ فوراً اٹھی۔۔
ارے علیشہ بیٹا آرام سے ۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ کو ایسے اٹھتے دیکھ کر بولی۔۔۔
شاہ صوفے پر بیٹھا۔۔۔ انہی کو دیکھ رہا تھا۔۔
اب کیسی طبیعت ہے تمھاری۔۔۔؟ کیسا فیل کر رہی ہو۔۔۔؟ صالحہ بیگم نے علیشہ سے پوچھا۔۔۔
ہممم۔۔۔ ٹھیک ہوں۔۔۔ علیشہ غائب دماغی سے بولی۔۔۔
آج میں بہت خوش ہوں۔۔۔ تم نے مجھے اتنی اچھی خوشخبری سنائی ہے۔۔ صالحہ بیگم خوش ہوکر بولی۔۔۔
علیشہ سوالیہ نظروں سے صالحہ بیگم کو دیکھنے لگی۔۔۔
مطلب۔۔۔؟ علیشہ نے صالحہ بیگم سے پوچھا۔۔
بیٹا تم ماں بننے والی ہو۔۔۔ صالحہ بیگم نے علیشہ پر بم پھوڑا۔۔۔
وہ حیرت سے آنکھیں کھول کر شاہ کو دیکھنے لگی۔۔۔ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ تو اب یہ چاہتی تھی کہ۔۔۔ کسی طرح اس رشتے سے آزاد ہو۔۔۔
اب تو علیشہ کا اس رشتے سے آزاد ہونا۔۔۔ نا ممکن تھا۔۔۔
کیا ہوا علیشہ۔۔۔ تمہیں خوشی نہیں ہوئ۔۔۔؟ صالحہ بیگم نے خاموش بیٹھی علیشہ سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں نہیں مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔۔ علیشہ مصنوعی مسکراہٹ چہرہ پر لے کر بولی۔۔۔
میں اب گھر جانا چاہتی ہوں۔۔۔ علیشہ اپنا ڈوپٹہ اوڑھتی ہوئی بولی۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ صالحہ بیگم نے شاہ کو دیکھ کر بولا۔۔
گھر پہنچتے ہی۔۔۔ علیشہ نے کہا ۔۔۔ میں آرام کرونگی۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ شاہ تم علیشہ کو اپر چھوڑ آؤ۔۔۔ صالحہ بیگم نے شاہ کو کہا۔۔۔
نہیں نہیں میں خود چلی جاؤنگی۔۔۔ علیشہ صالحہ بیگم سے مسکرا کر بولی۔۔۔ نہیں بیٹا ۔۔۔ ابھی تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
شاہ جاؤ اسے اپر لے کر۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔ شاہ نے بازو سے علیشہ کو آرام سے پکڑا۔۔۔
کچھ ہی سیڑھیاں چڑھے تھے۔۔ کہ علیشہ نے اپنے بازو سے شاہ کا ہاتھ ہٹادیا۔۔۔ شاہ نے دوبارہ ہاتھ رکھ لیا۔۔۔
علیشہ نے غصہ سے شاہ کو دیکھا۔۔۔
مجھے مما نے کہا ہے۔۔۔ علیشہ کو ایسے گھورتے دیکھ کر شاہ فوراً بولا۔۔۔
مہربانی آپکی ۔۔۔ مجھے آپکی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ وہ شاہ کا ہاتھ ہٹاکر اوپر چلی گئ۔۔۔۔