ارمان کی حالت کچھ لمحوں میں ایسی ہوگئی تھی جیسے کسی چھوٹے بچے کو اپنے من پسند کھلونے کے ٹوٹنے کا دکھ!! تو پریشہ اسکی من پسند کھلونا تھی نہیں وہ ایک جیتی جاگتی انسان تھی شاید دل کے کسی ویرانے میں جگہ بنا رہی تھی۔
ارمان نے شاید محبت کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا اور شاید موت کو بھی قریب کرنے لگا تھا جانے انجانے میں۔۔کیونکہ اس الفت میں تڑپ رکھی گئی تھی آفندی کے لیے۔۔۔
پوری جگہ اس نے نظر دوڑائی اور اسکی ایک جگہ جاکر نظر ٹہری اور وہ وہاں کا منظر دیکھ کر شاکڈ ہوگیا۔"یار یہ پریشہ ابھی تک نہیں آئی۔۔" سعدی کو خیال آیا تو وہ بولا۔۔
حارث نے سب بتایا پھر ان لوگوں کو کہ پریشہ مل ہی نہیں رہی اور اسکا فون بھی بند ہے۔
"ابے یار! شٹ چل شامیر ڈھونڈنے چل میسنی کو کچھ ہو نا جاۓ پھر میرا کیا ہوگا میں کسے تنگ کرونگا۔۔"شایان نے ماتھا رگڑتے ہوئے فکر سے کہا۔۔
"مشک کو کر لینا بھئی تو۔"حارث نے اسکی فکر دیکھ کر کہا تھا۔
"ارمان گیا ہے نہ وہ ڈھونڈ لے گا چِل فکر ناٹ۔۔" شامیر نے تو ایسی لاپرواہی دکھائی کہ ملاہم اور مشک کا منہ کھلا رہ گیا۔
اسے اپنے بھائی پر بھروسہ تھا کہ وہ ڈھونڈ لے گا اور پریشہ پر بھی تھا کہ اتنی جلدی جان نہیں چھوڑے گی اور ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ کسی مصیبت میں ہو بلکہ وہ تو خود ایک چلتی پھرتی مصیبت تھی۔ارمان جو منظر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا اندر تک اسکے دل میں سکون کی لہر دوڑی اور بس الحمداللہ ہی کہہ سکا۔۔
حال ایسا تھا کہ کسی نے مردے میں جان ڈال دی کسی کو اسکی بچی ہوئی سانسیں لوٹا دی ہوں۔
پریشہ وہاں کھڑی مزے سے دونوں ہاتھوں میں گولا گنڈے پکڑے ایک کے بعد دوسرے پہ انصاف کر رہی تھی۔
پریشہ کی جیسے ہی ارمان سے نظریں ملیں اس نے چہرے کا رخ موڑ لیا۔۔ یہ دیکھ کر ارمان کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا اسکا دل کر رہا تھا کہ خود پریشہ کا گلا دبائے جتنا اسنے اسے پریشان کیا ہے۔۔
مان اسکا نام پکارتے ہوۓ اسکے پاس آیا لیکن وہ ڈھیٹ تب بھی ویسے ہی منہ موڑے کھڑی رہی اسکے اس لاپرواہ انداز نے ارمان آفندی کو مزید چڑ دلائی۔۔
"دماغ خراب تو نہیں ہوگیا تھا تمھارا۔ کتنا پریشان کرا تم نے مجھے لڑکی! اگر کچھ ہوجاتا تمھیں تو کہاں ڈھونڈتا پھرتا۔۔"
ارمان نے اسے کھینچ کر بینچ پر بٹھایا تھا اور خود گٹھنوں کے بل بیٹھ کر اس پر برس پڑا۔۔اور پریشہ دل میں اسے جواب دے رہی تھی "جنت میں جاکر ڈھونڈتے پریاں تو وہاں ہی ملیں گی نہ۔۔"لیکن ارمان کے غصے کی برسات اچانک ہی تھم گٸی جب پریشہ نے اپنا جھکا سر اٹھایا اپنی نظروں سمیت۔۔ ارمان بلکل خاموش ہوگیا وہ اسے مزید پاگل کر رہی تھی وہ اپنے حال سے بے خبر تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ارمان نے ہاتھ سے اسکے چڑیلوں کی طرح بکھرے بال درست کرے اور اپنا رومال نکال کر آنکھوں کے نیچے جو کاجل اس نے پھیلایا تھا وہ صاف کیا۔۔ لوگ کاجل لگا کر اچھے لگتے یہاں پریشہ کا کاجل پھیلا تو کسی کو بے انتہا پسند آیا۔۔ کنچئی آنکھوں کو چار چاند لگ گئے تھے۔۔ ارمان نے اپنا ساراغصہ پی لیا اسے لگا شاید پریشہ روئی ہے اور ثبوت اور گواہ اسکی آنکھیں تھیں۔۔آنکھوں کے نیچے پھیلا کاجل اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ پریشہ بہت روئی ہے۔۔مگر ایسا تو کچھ تھا ہی نہیں وہ پریشہ حیات نور آفندی تھی اتنی سی باتوں پر رونے والوں میں سے نہیں بلکہ وہ روتی ہی نہیں تھی۔۔آنکھ میں کچرا جانے کے باعث بے دھیانی میں اس نے آنکھیں صاف کرنا چاہیں تھیں اور پھر کاجل پھیل گیا۔۔
أنت تقرأ
جسے رب رکھے💫
فكاهةکہانی ان کرداروں کی کو دوستی اور محبت کے رشتے نبھانا جانتے ہیں،،آزاد پنچھیوں کی طرح ہر آسمان فتح کرتے ہیں.... کہانی ایسے لوگوں کی جو زندگی کو جیتے ہیں۔۔مشکلات ہر ایک کی زندگی میں آتی ہیں لیکن وہ مسکراتے ہوئے انکا سامنا کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے ر...