کراچی ٹرپ سے فارغ ہوکر وہ آٹھوں اسلام آباد اگلے دن ہی واپس آگئے تھے...
رامس آفس میں بیٹھا مان شہیر کا انتظار کر رہا.تھا..لیکن ارمان کی جگہ شامیر کو آفس میں دیکھ کر رامس چونک گیا تھا..
"اوہو...بڑے لوگ آفندیز آفس آۓ ہیں.."رامس تعجب سے کہتے ہوئے شامیر سے بغل گیر ہوا۔
"ہاں ایسے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے کوئی شامیر آفندی کو پریشان نہیں کرتا.."شامیر کالر جھاڑتے ہوۓ چئیر پر بیٹھ گیا گیا جیسے اس سے بڑا بزنس مین کوئی اور نہیں ہے.
"ارمان کیوں نہیں آیا تجھے بھیج دیا سالے نے.."رامس نے تپتے ہوۓ کہا..ارمان اسکی کال بھی اٹینڈ نہیں کر رہا تھا اسی وجہ سے رامس تپا بیٹھا تھا..
"ارمان ایک کام میں مصروف ہے البتہ اگر تم چاہو تو میں تمھیں بتاسکتا ہوں لیکن ایک شرط پر.."شامیر نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پنجے کی شکل میں ملا کر بولا۔
"کیسی شرط.."رامس کا منہ کھلا.
"تمھاری لال اسپورٹس کار دو گھنٹے کے لیے چاہیے مجھے جو اس وقت آفس کے باہر کھڑی ہے.."اس وقت شامیر اپنے بھائی کا راز کھولنے جا رہا تھا.."مجھے نہیں جاننا ارمان کیا کر رہا ہے .."
رامس کو اپنی گاڑی بہت پیاری تھی اس لیے اس نے انکار کردیا..
"سوچ لو رامس بہت کام کی بات ہے تمھارا ہی فائدہ ہے.." میرا کیا میں تو حارث سے بھی گاڑی کا کہہ سکتا ہوں آخر شوروم کا مالک ہے یارا...
"چل بھونک.."
"بھونک!!."یہ سن کر شامیر کے تیور چڑھے.
"اچھا بھونکیے!!"
"اچھا کمینے سن تیرا کل برتھ ﮈے ہے.."شامیر نے بھی تمیز کا سہرا اتار دیا تھا.
"ہاں ہے..لیکن تو کیوں بتا رہا ہے.."رامس اسکی بات سے لاعلم تھا کے آگے وہ کیا راز فاش کرنے والا ہے."ہاں تو آج میرا بھائی ارمان آفندی تیری سالگرہ کی تیاریاں کر رہا ہے مطلب کے کل سب تمھیں سرپرائز دیں گے.."اور شامیر نے صرف کے اسپورٹس کار کے پیچھے پورا سرپرائز کامیابی سے برباد کردیا۔
"منحوس تو نے سب بتا دیا کمینے تھوڑی دیر چپ نہیں رہ سکتا تھا..کتنا خود غرض ہے اپنے مفاد کے لیے تو سب پلان چوپٹ کر دیتا ہے.."رامس آگ بگولہ ہوچکا تھا..
سرپرائز کا مزہ الگ ہوتا ہے پر کیا اب تو شامیر نے اعلان کر دیا تھا.
رامس ارمان کا بچپن سے قریبی دوست تھا اور پانچ سال کے وقفے کے بعد وہ اس سے ملا تھا..اور اب جان سے عزیز دوست کی سالگرہ کا ارمان نے سلیبریٹ کرنے پروگرام بنایا تھا.
*****"شایان یہ یہاں نہیں لگاؤ.." پریشہ شایان کو ﮈیکوریشن کس جگہ کرنی تھی اسکی جگہ بتا رہی تھی..
"اللہ کے واسطہ ایک بار بتا دو چڑیل! آدھے گھنٹے سے گھوما گھوما کر پاگل کر دیا ہے.."شایان اسکی حرکتوں سے اکتا چکا تھا۔
"اللہ اللہ ایسا لگ رہا ہے اگر تھوڑا ہل لو گے تو پگھل جاؤ گے۔۔" پریشہ نے منہ بنا کر کہا.
"شایان یہ والے پھول لگانا یہاں.."ملاہم آرٹیفیشل پھول کی بیل گلے میں لٹکاتے ہوۓ لائ تھی..
"کوئی قربانی کی جانورلگ رہی ہو ملاہم.."سعدی نے اسکے سر پہ چیت لگا کر کہا..
"کیا ہے ﮈھیلے؟؟.."ملاہم سعدی کا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھنے کی وجہ سے چڑ کر بولی.
"شرم تو نہیں آرہی بھائی کو ایسا کہتے ہوۓ.."سعدی جل کر بولا.
"ﮈھیلے کو ﮈھیلا ہی بولے گی نہ یا پھر چھچندر بولے گی.."پریشہ نے مشک کے ہاتھ پر تالی ماری جو ان سب جو دیکھ کر وہاں آئی تھی..
أنت تقرأ
جسے رب رکھے💫
فكاهةکہانی ان کرداروں کی کو دوستی اور محبت کے رشتے نبھانا جانتے ہیں،،آزاد پنچھیوں کی طرح ہر آسمان فتح کرتے ہیں.... کہانی ایسے لوگوں کی جو زندگی کو جیتے ہیں۔۔مشکلات ہر ایک کی زندگی میں آتی ہیں لیکن وہ مسکراتے ہوئے انکا سامنا کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے ر...