آج فاطمہ بیگم کریم صاحب کے ساتھ احمد ہاؤس حارث کا رشتہ لے کر آۓ تھے..ساتھ ہی فاروق صاحب اور بڑی مامی نازیہ حمدان صاحب کی بیوی بھی آئیں تھیں..انکے احمد صاحب سے اچھے تعلقات تھے..
پریشہ مشک اور ملاہم تو یونی کے فوراً بعد زری کے گھر پہ آگئیں تھیں۔۔
کریم صاحب نے حارث کے رشتے کے بات کرنا شروع کی۔۔
"احمد دراصل آج ہم کسی خاص مقصد سے یہاں آۓ..حارث کے لیے ہم زرفشاں کا ہاتھ مانگنا چاہتے ہیں..آپ زرفشاں بیٹا کو اب ہماری بیٹی بنا دیں.."
احمد صاحب کریم کی بات پہ ہولے سے مسکرائے۔۔
"جی کریم صاحب حارث بہت اچھا لڑکا ہے..ہماری طرف سے بھی آپ ہاں ہی سمجھیں"..احمد صاحب نے خوش ہوکر ہاں کردی۔
"لیکن بھائی صاحب آپ زرفشاں سے بھی پوچھ لیں بچی پہ کسی قسم کا رعب دباؤ نا ہو۔۔"فاطمہ بیگم احمد سے مخاطب ہوئیں.
ملاہم وہیں موبائل لیے کھڑی تھی اور حارث فون پہ سب کچھ سن رہا تھا..
"ارے میری بھولی اما جب اسکے اماں ابا راضی تو آپکو اس سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔" حارث کو فکر کھاۓ جارہی تھی کہ زری انکار نہ کردے.. مگر ایسا کچھ نہیں ہوا زری جب ناشتہ لے کر آئی تو گل ناز اسکی والدہ نے اسکا جواب پوچھ لیا تھا۔۔
اور اس نے ہاں کردی تھی اور فورا شرما کہ اندر چلی گئی..
ادھر فون پہ حارث بھنگڑے ﮈال رہا تھا رشتہ جو پکا ہوگیا تھا..
بڑوں کے فیصلے کے مطابق ایک ہفتے بعد منگنی کا فنکشن منعقد ہوا اور نکاح و رخصتی دو مہینوں کے بعد کرنے کا فیصلہ ہوگیا تھا.
حارث کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پورے اسلام آباد میں اپنے رشتے کی مٹھائیاں بٹواۓ..
اتنے سالوں کا صبر و انتظار رائیگا نہیں گیا تھا.______________***
ارمان شاپنگ بیگ پکڑے شاپ سے باہر نکالا اور وہ بیگ پریشہ کو پکڑا دیا جو شایان سے بحث میں مگن تھی۔۔
حارث کی منگنی کی تیاریاں عروج پہ تھیں اور یہ تینوں حارث اور زری کے لیے گفٹ لینے آۓ تھے..
شایان کہہ رہا تھا کہ گفٹ میں ایک ریسٹ واچ دیتے ہیں اور پریشہ کا زور والٹ دینے پہ تھا تاکہ حارث شادی کہ بعد اپنی جیب ﮈھیلی رکھے.ابھی وہ تینوں مال سے باہر پارکنگ ائیریا میں آئے تھے اور پریشہ کی نظر ایک کتے پہ پڑ گئی جو سڑک سونگھتا ہوا انھی لوگوں کی طرف آرہا تھا.
پریشہ نے ارمان کو کہنی ماری اور کتے کو بھاگانے کا اشارہ کیا۔۔اور شایان سے بھی بچانے کے لیے کیونکہ اب شایان کو اسکی دکھتی رگ معلوم ہوگئی تھی کہ وہ کتے سے ﮈرتی ہے۔۔
اور جو پہلے ہی پارک میں اس نے کتنا تماشہ کرا تھا وہ ہی پریشہ ابھی تک نہیں بھولی تھی۔
شایان کی نظروں میں جیسے ہی کتا آیا اسکے چہرے پہ شرارت امڈ آئی..
اب ساری بحث کا بدلہ لینے کا وقت تھا..
پریشہ ارمان کی طرف ہوگئی۔۔"ارمان بچالو! مجھے شایان کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے".پریشہ اسکے کان میں کھسر پھسر کرنے لگی.
"پری بی بی آج تو تمھیں اس کتے سے کوئی نہیں بچا سکتا" شایان نے اسکا ہاتھ کھینچا اور کتے کی طرف لے کر بھاگنے لگا.
"شایان چھوڑ دو اچھا نہیں ہوگا میں تمھاری ویب سیریز کی ریلیز میں مسئلہ کھڑا کردونگی اگر تم اس کتے کے پاس لے کر گئے.." پریشہ نے اپنی طرف سے اپنے بچاؤ کے لیے مزاحمت کری مگر شایان کے آگے سب بے کار تھا..
"شایان چھوڑ دے میسنی ﮈر کے مارے کہیں مر ہی نا جاۓ۔۔" ارمان نے اپنے قہقہے کو اندر گھونٹ کر کہا۔
"چھوڑ دوں؟"..شایان نے پریشہ سے بھنویں اچکائے پوچھا..
"ہاں ہننہہ۔۔" اس نے بھولتی سانسوں سے کہا۔ بھاگ بھاگ کر اسکا سانس پھول گیا تھا..
"چلو جاؤ معاف کرا.." شایان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر کہا.
پریشہ خفگی سے آنکھیں دکھا کر گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی اور دل ہی دل میں دنیا کہ تمام کتوں کو کوسنے لگی..
"منحوس چھچھندر بدتمیز دنیا کے سارے کتے ہی میرے پیچھے پڑ گئے ہیں۔۔" اپنے خیالات سے باہر وہ ارمان کی بھاری آواز سے نکلی..
"کیا ہوا کیوں سٹی گم ہے میڈم کی؟" ارمان نے اپنا ہاتھ اسکی آنکھوں کے سامنے لہرا کر بات کہی..
KAMU SEDANG MEMBACA
جسے رب رکھے💫
Humorکہانی ان کرداروں کی کو دوستی اور محبت کے رشتے نبھانا جانتے ہیں،،آزاد پنچھیوں کی طرح ہر آسمان فتح کرتے ہیں.... کہانی ایسے لوگوں کی جو زندگی کو جیتے ہیں۔۔مشکلات ہر ایک کی زندگی میں آتی ہیں لیکن وہ مسکراتے ہوئے انکا سامنا کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے ر...