episode 11 (part b)

1.4K 142 63
                                    

ارمان بے ہوش پریشہ کو دیکھ کر اسکے پاس لڑھکتے قدموں سے آیا اور دوپٹہ اسکے سینے پر پھیلا دیا..
بازو پر گولی لگنے سے خون کافی بہہ رہا تھا اور صبح کی بھاگ دوڑ کی وجہ سے ارمان کا جسم اب نڈھال ہوگیا تھا اور بس وہ بھی پھر زمین پر گر گیا..
سعدی سے مزید کھڑکی پر نا کھڑا رہا وہ بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ نیچے بھاگ آیا..
حارث ایک دم سن ہوگیا تھا دونوں اسے جان سے زیادہ عزیز تھے اور دونوں ہی دنیا سے بے خبر الگ سو رہے تھے..
وقت نے کیسا پاسا پلٹا تھا..کل رات کو تو وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن تھے مگر اب جیسے ان میں کچھ کی کمی ہونے لگی تھی..
پولیس نے صارم کو پکڑا اور حارث کے کہنے پر سعدی ساتھ ہی پولیس اسٹیشن گیا۔۔ میڈیا وہاں پہنچ گئی تھی لیکن اصل بات کسی کو معلوم نہیں تھی.
اس وارﮈبواۓ نے پوری ویڈیو بنا کر فوراً سوشل میڈیا پر ﮈال دی تھی..شروع کا واقعہ اس میں ریکارﮈ نہیں ہوا تھا لیکن پریشہ کا دوپٹہ کھینچنے سے لے کر آخر تک ایک ایک چیز اس میں ریکارﮈ ہوگئی تھی..
میڈیا کو دیکھ کر اسنے وہ ویڈیو کسی اینکر کو دکھائی اور انھوں نے تبھی اپنے نیوز چینل پر چلا دی پورا میڈیا تجسس میں تھا کہ آفندی خاندان کے بچوں کی حالت پر کہ ایک کو گولی لگی تو دوسری کے ساتھ بدتمیزی ہوئی..
فاروق اور زوار صاحب کو انکے دوستوں نے فون کرکے آگاہ کرا اور وہ لوگ فورا گھر سے ہاسپٹل کے لیے نکلے..
راستہ میں وہ موبائل پر ہی ساری خبریں دیکھ رہے تھے انکا دل بیٹھے جا رہا تھا سمجھ کسی کو نہیں آرہی تھی کہ ہوا کیا ہے اور ہوا کیوں ہے!
شایان کو سعدی نے فون کرکے پولیس اسٹیشن بلالیا تھا..

"میں کون ہوں؟؟ تم لوگ مجھے نہیں بتا سکتے تھے.."شایان مسلسل سعدی پر برس رہا تھا۔
"تو پرائم منسٹر لگا ہے جو اس خاور کو گرفتار کروالیتا اپنے ایک حکم سے جو تجھے بھی بتاتے.."سعدی نے جواباً کہا۔۔
"تو سعدی تم تینوں نے مجھے بتانے کی زحمت تک نہ کری. میری تو جان ہلکان ہورہی ان تینوں کے بارے میں سوچ کر.."
"یار ٹھنڈا ہوجا..تیرے کام میں کوئی مسئلہ نہ ہو ہم نے تجھے اس لیے نہیں بتایا تھا.."
سعدی نے رپورٹ درج کرائی انکے وکیل بھی وہاں موجود تھے سارے کام وہی سنبھال رہے تھے..

سعدی پولیس اسٹیشن سے باہر نکل رہا تھا تبھی میڈیا کا ہجوم دیکھ کر اپنے بال درست کرکے منہ تھپتھپا کر باہر نکلا..آخر کیمرے میں اچھا جو دکھنا تھا.کچھ بھی ہو پر سعدی آفندی کی پرسنیلیٹی خراب نہ ہو۔
"سعدی آفندی یہ سب کیسے ہوا آخر وہ جونی آپ لوگوں کے پیچھے کیوں پڑا تھا؟" ایک اینکر نے پوچھا..
"ہم نے سنا ہے خاور لغاری کو آپ لوگوں نے پکڑوایا ہے اور ان پر کرپشن کا الزام بھی لگایا ہے.."دوسرا اینکر پہلے والے پر چڑھائی مارتے ہوۓ بولا..
"ایک منٹ سب کا جواب دونگا میں..شایان اپنا موبائل دے۔"
سعدی نے ریکارﮈنگ کا بٹن آن کرا پھر بولنا شروع ہوا.
"خاور لغاری آفندی انڈسٹری کا حصہ بننے جا رہا تھا لیکن مجھے اس پر شک تھا میں نے اسکے بارے میں معلومات نکلوائی تو وہ کچھ ٹھیک نہیں نکلی.اسکے بعد پولیس کی مدد سے ہم نے اسے ٹریپ کیا اور ارمان آفندی نے پاشا بن کر اس سے معلومات نکلوائی..اب تحمل سے سنیں جس خاور کو سب یہاں بلکہ زیادہ تر لوگ بہت پارسا سمجھتے ہیں تو ایسا نہیں ہے..وہ ایک کرپٹ آدمی ہے ملک کا پیسہ اس نے کھایا ہے..معصوم لوگوں کی جائیدادوں کو چالاکی سے اپنے نام کرا لیتا ہے اور پھر وہ لوگ سڑک پر آجاتے ہیں..تیسرا یہ الیگل ﮈرگز سپلائمنٹ کا کام بھی کرتا ہے اور اسکے پیچھے کسی بڑی پارٹی کا ہاتھ بھی تھا.."سعدی بولتے بولتے رکا اور ایک گہری سانس لے کر ان سب کے چہرے کے حیران کن تاثرات دیکھے۔۔
"جب یہ پکڑا گیا تو اسکے بیٹےجونی ٹانی سے رہا نہیں گیا اس نے ارمان آفندی کے چھوٹے بھائی شامیر آفندی کو اغوا کر لیا لیکن پولیس نے اسے چند ہی گھنٹوں میں بازیاب کرا لیا اسکے بعد وہ جونی ہاسپٹل آیا اور پھر جو ہوا وہ سب کچھ آپ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔۔"
"اور اس وقت شامیر آفندی کے لیے دعا کریں اللہ اسے زندگی دے اسکی کنڈیشن بہت سیریس ہے.."سعدی نے ریکارﮈنگ کا بٹن آف کرا..اس وقت پورا پاکستان سعدی کو سن رہا تھا اور خاور اور جونی کو سب دل ہی دل میں بد دعائیں دے رہے تھے.
"سر آپ لوگوں نے اپنی جان خطرے میں ﮈالی بہت بڑی بات ہے."
"مسٹر جان کی پرواہ نہیں اسکی موت ہی یہاں آنی تھی اس نے غلطی کری ہمیں لوٹنے کی اور ملک کے غداروں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے اگر ہم آگے بڑھ کر اسے نہ پکڑواتے تو آگے مزید یہ کتنوں کو بے وقوف بنا چکا ہوتا..ہم نے اپنی ﮈیلز کینسل کرکے اس سے جان نہیں چھڑائی بلکہ اس پر آسمان تنگ کر دیا..اب اس جیسے لوگ سو بار برا کام کرنے سے پہلے سوچیں گے.."سعدی سب تحمل سے بولتا چلا گیا.
سب تالیاں بجا اٹھے اسکی بات پر اور شایان کو بھی اس پہ رشک تھا مگر وہ غصہ ضبط کرے اسکی سن رہا تھا جیسے سب سعدی نے میڈیا کا سامنا کرنے کے لیے رٹ رکھا ہو۔۔
ٹی وی اسکرین پر جو لوگ اسے دیکھ رہے تھے سب کی انکھوں میں آنسو آگۓ تھے..سعدی کا کتنا حوصلہ تھا اتنا سب بگڑنے کے باوجود وہ چٹان کی طرح کھڑا سب بول گیا تھا..
اس انٹرویو کے بعد شایان اور سعدی ہاسپٹل کے لیے نکل گۓ.

جسے رب رکھے💫Opowieści tętniące życiem. Odkryj je teraz