ہال کے گیٹ پر اب ایک نیا فضیتہ چل رہا تھا..
فاطمہ اور ارسلہ بیگم ان سب کو اس وقت کافی کارنر جانے کے لیے منع کر رہیں تھیں. انکا کہنا تھا کہ زری کے گھر والے اور تمام مہمان بھی جاچکے ہیں اب وہ سب بھی گھر چلیں مگر سعدی کا پلان تھا اور سب اس پر متفق تھے تو کوئی اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا..
"اتنی رات کو کافی کی کونسی لت لگ گئی ہے جو اگر پوری نہیں ہوئی تو گھر نہیں جایا جاسکتا؟؟"رابعہ بیگم نے سعدی کے کان مڑوڑے پوچھا..
"چچی جان بس تھوڑی دیر میں آجائیں گے آپ لوگ چلے جائیں..." سعدی کان سہلاتا ہوا کہہ رہا تھا اسی نے سب کو پیچھے لگایا تھا..
"نور تمھارا کل امتحان ہے تم ہمارے ساتھ گھر چلو.."ارسلہ بیگم نے اسے پیار سے کہا کہ وہ مان جاۓ ورنہ انکا ہاتھ سیدھا چپل پر جارہا تھا..
"ارے مما میری تیاری پکی ہے ہم بس جلدی سے آجائیں گے..آپ ٹینشن نا لیں.."پریشہ اپنا شرارہ پکڑے کھڑی انھیں اطمینان کرا رہی تھی..
"ٹینشن کیوں نا لوں! جب جب یہ لوگ سب ساتھ جاتے ہیں ہر بار کوئی مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں..فاروق بھائی اور زوار آپ کچھ کہتے کیوں نہیں..."ارسلہ کی فکر بھی جائز تھی جب ہی انھوں نے ان دونوں کو تھرﮈ جنریشن کو سمجھانے کا کہا...
"بھابھی آپ کو لگتا ہے اب ان میں سے کوئی سنے گا.. انکے بوتھوں پر ایکسائاٹمنٹ ہی دیکھ لیں جیسے بھوکے بنگالیوں کو کبھی کافی پینے کو نہیں ملی.."فاروق صاحب نے پیشانی رگڑی تھی..
"ہاں بیگم اور ساتھ ہیں تو کوئی انکا کچھ نہیں بگاڑ سکتا آپ بلاوجہ پریشان ہورہی ہیں.."زوار صاحب انکے شانے پر ہاتھ رکھا تھا اور پھر ارسلہ نور بڑبڑاتے ہوۓ منہ بنا کر گاڑی میں بیٹھ گئیں.."میری تو کبھی انھوں نے سننی ہی نہیں ہے..."زوار صاحب اپنی زوجہ کے معمول انداز پر مسکراہ اٹھے..__________****
آآ....سعدی کی لمبی ﮈکار پر پریشہ نے اپنا ہاتھ اسکی کمر پر مارا...
"کھانے کو دو گھنٹے ہوگئے ہیں اور موصوف کو ابھی تک ﮈکاریں آرہی ہیں..حارث اس نے تمھاری شادی پر پورے مہینے بھر کا کھانا کھایا ہے جیسے اسکو بعد میں ملے گا نہیں..."پریشہ بد مزہ ہوۓ بولی..
نازش جاچکی تھی..منہا کو شامیر نے جانے نہیں دیا تھا اور رامس اور لیزا ساتھ ہی تھے.."بھئ رامس تو کب شادی کر رہا ہے؟..." شایان برابر میں بیٹھے رامس کے کندھے پہ ہاتھ ﮈال کر پرسرار انداز میں بولا..
"جب ہماری ہونے والی وہ کہیں گی..."رامس نے لیزا کا چہرا اپنی نظروں میں لیے کہا تو لیزا نے حیا سے نظریں جھکا لیں..
سب نے لیزا کو اسلام قبول کرنے کی مبارکباد دی تھیں اور اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا تھا.
کافی ختم ہوگئی تھی ارمان نے سعدی کو کوئی اشارہ کرا اور سعدی نے سرجھٹک کر اسے ہاں کہا تھا.. جیسے کہ ارمان یاد دلائی گئی بات یاد آئی ہو..
رات کے دو بج رہے تھے سعدی نے گھڑی میں ٹائم دیکھا اور ایک نیا شوشا اور چھوڑا..
"پریشہ میں کیا کہتا ہوں آج جب باہر ہیں تو لانگ واک پر چلیں.."سعدی نے پہلا پاسا پریشہ پر پھینکا تھا..
"گریٹ...چلو یار چلتے ہیں تھوڑی سی واک کرکے واپس پھر گھر چلے جائیں گے.."پہلا شکار ہوگیا تھا..سعدی دل میں خود کو داد دے رہا تھا.اسے پتا تھا اگر پریشہ راضی تو پھر باقی سب بھی ہو ہی جائیں گے...اس لڑکی کا کل انگلش کا پیپر تھا اور اسے سیر سپاٹوں سے فرست نہیں تھی...
"ایک کام کرتے ہیں گاڑیاں یہاں ہی چھوڑ دیتے ہیں.واپسی میں لیتے ہوۓ چلیں گے.." ارمان عادتاً ماتھے پر آتے بال پیچھے کرتے ہوۓ کہہ رہا تھا..اور سب اسکے کہنے پر باہر نکلنے لگے۔
VOUS LISEZ
جسے رب رکھے💫
Comédieکہانی ان کرداروں کی کو دوستی اور محبت کے رشتے نبھانا جانتے ہیں،،آزاد پنچھیوں کی طرح ہر آسمان فتح کرتے ہیں.... کہانی ایسے لوگوں کی جو زندگی کو جیتے ہیں۔۔مشکلات ہر ایک کی زندگی میں آتی ہیں لیکن وہ مسکراتے ہوئے انکا سامنا کرتے ہیں اور ہر حال میں اپنے ر...