سیب کھاتے ہوئے جیسے ہی وہ مڑی اپنے پیچھے اسماء بیگم کو کھڑے پایا۔
اسلام علیکم آ آ آنٹی!!!
منہ میں سیب ہونے کی وجہ سے اس سے صحیح سے بولا بھی نہیں گیا۔
وعلیکم السلام بیٹا۔۔!!
اسماء بیگم نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔ کیونکہ جس حالت میں وہ کھڑی تھی اسماء بیگم کے لیے اپنی مسکراہٹ ضبط کرنا بہت مشکل کام تھا۔
(ایک ہاتھ میں سیب پکڑے دوسرے ہاتھ میں ایک پلیٹ جس میں کیلے، آڑو اور خوبانی رکھے ہوئے تھے۔ خود وہ منہ میں سیب بھرے ان سے بات کر رہی تھی)
"آنٹی آپ کی نکمی اولاد کی مردوں سے شرط ختم ہوئی کہ نہیں؟"
سیب کا ٹکڑا حلق سے نیچے کرتے ہوے اس نے ہنس کر اسماء بیگم سے دریافت کیا۔اس کا اشارہ سمجھتے ہی اسما بیگم مسکرا اٹھیں ۔
"ہاہاہا.. نہیں بیٹا ابھی نہیں اٹھے وہ لوگ ... تم بیٹھو اور آرام سے کھاو میں انہیں جگاتی ہوں"
اسما بیگم نے محبت بھرے لہجے میں کہا ۔
"نہیں آنٹی آپ کیوں جائیں گی؟ یہ نیک کام تو میں خود کروں گی بس یہ تھوڑے سے فروٹز کھا لوں"۔
وہ کہہ کر دوبارہ سیب کھانے لگی ۔
"آنٹی آپ کو پتا ہے کہ یہ فروٹس دیکھ کر تو میرے دل میں کچھ ،کچھ ہونے لگتا ہے کیا بتاوں اب آپ کو؟"
وہ آنکھیں بند کیے ایک جذب کی کیفیت میں بولتی اب کیلا چھیل رہی تھی۔
"آپ کو تو پتا ہی ہے نہ کہ کھانا ہی میری پہلی محبت اور کمزوری بھی ہے۔ بس فروٹس کو دیکھ کر میں کنٹرول نہیں کر سکی ناں"
وہ بیچاری کھسیا کر بولی۔کھانے کے معاملے میں وہ ایسی ہی تھی اور اسماء بیگم تو بس آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھیں۔
جوں ہی اس نے آنکھیں کھولیں تو اسماء بیگم کو خود کو ایسے تکتے پا کر ہنسنے لگی۔
"آنٹی آپ بھی سوچ رہی ہوں گی نہ کہ میں کتنی پاگل ہوں؟"
اس نے معصومیت سے پوچھا اسما بیگم کو اس کی اس معصومیت پر ہنسی آئی ۔ ایسا نہیں تھا کہ اسما بیگم اس کی کھانے سے محبت پر آگاہ نہیں تھیں بس وہ اس کی حد درجہ دیوانگی آج دیکھ رہی تھیں ۔
" بیٹا تم کھاؤ اپنا ہی تو گھر ہے تمہارا"
اسما بیگم نے پیار سے اس کے گال پر چٹکی کاٹی ۔
"جی آنٹی"
وہ انتہائی سعادت مندی سے بولی۔
"اچھا آنٹی میں ذرا ان کو جگا کے آتی ہوں "
شیلف پر خالی پلیٹ رکھتے ہوے وہ شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے ان کے کمرے کی طرف چل دی۔اسما بیگم نے مسکرا کر سر جھٹکا اور اپنے کام میں مصروف ھو گئیں ۔
راہ داری عبور کرتی وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ راہ داری میں دائیں، بائیں جانب کمرے تھے۔درمیان میں ایک بڑا ہال تھا۔جسے بہت ہی مہنگے فرنیچر سے آراستہ کیا گیا تھا ۔یہ گھر ڈیفنس کے باقی گھروں کی طرح بہت خوبصورت تھا ۔
سیٹی کی دھن بجاتے وہ مطلوبہ کمرے کے دروازے پر پہنچ کر رکی۔ اس کمرے سے اگلے کمرے کے دروازے کو ایک نظر دیکھا اور دھڑ سے دروازہ کھولتے اندر داخل ہوئی۔
کمرے کے وسط میں ایک ڈبل بیڈ پڑا تھا اور بیڈ کے دائیں جانب ایک قد آور کھڑکی تھی جس پر بھاری پردے گرے ہوئے تھے۔ بائیں جانب ایک ڈریسنگ ٹیبل تھا جس پر مختلف برانڈز کے پرفیوم ، میک اپ اور لوشن پڑے تھے۔کمرے میں دو دروازے تھے ایک سٹڈی کا اور دوسرا والکنگ کلوزٹ کا، کمرہ بلیک اینڈ وائٹ تھیم سے سجایا گیا تھا۔
اس نے بیڈ پر دیکھا جہاں وہ منہ تک کمبل اوڑھے آڑی، ترچھی لیٹی تھی۔
فلک چلتی ہوئی اس تک آئی اور اس پر سے کمبل ہٹایا اور ہمیشہ کی طرح وہاں اس کے پیر تھے۔فلک ہمیشہ اسی طرف سے کمبل ہٹاتی کہ شاید آج امل کو عقل آگئی ھو ۔۔
" اس کو آج تک انسانوں کی طرح سونا نہ آیا "
وہ بڑبڑآئی اورچلتی ہوئی دوسری طرف آئی اور اس پر سے کمبل ہٹایا۔ پر وہ جوں کی توں لیٹی رہی...
" یہ ایسے نہیں اٹھے گی مجھے لگتا ہے کہ شاید محترمہ رات کو پنگ پی کر سوئی تھیں "
وہ چلتی ہوئی کھڑکی تک آئی اور پردے ہٹائے سورج کی کرنیں چھن سے کمرے میں داخل ہوئیں ۔ پر وہ پھر بھی نہ ہلی۔
"ہائے اللہ کہیں مر ، ور تو نہیں گئی۔ "
فلک نے دانتوں میں انگلی دباتے ہوے کہا اور پھر تصدیق کے لیے پاس پڑا جگ اٹھا کر اس پر الٹ دیا ۔
" ہائے اللّه ".....
امل چیختی ہوئی اٹھ بیٹھی۔سفید رنگت، پنک کلر کا نائٹ سوٹ پہنے شولڈر کٹ بال وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔اس نے لال آنکھوں سے بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر بیٹھی فلک کو گھورا۔
"کیا ہوا جان "...
فلک نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے پوچھا ...
"کمینی ایسے کون جگاتا ہے وہ بھی اتنی صبح ،صبح ؟
امل نے روندو صورت بنا کر پوچھا۔
اس کی بات سن کر فلک تو اچھل ہی پڑی۔
" کچھ خدا کا خوف کرو لڑکی!!بارہ بجے کو تم صبح صبح کہتی ہو؟"
فلک نے گھورتے ہوے کہا ۔
واٹ ایور یار۔۔۔!!! آج آرام کرنے کا آخری دن تھا۔کل یونیورسٹی جانا ہے ۔پھر کہاں یہ موجیں ؟سونے دیتی تو کیا تھا؟اف کیا مصیبت ہے؟؟
امل نے روندو صورت بناتے ہوے پوچھا اور بالوں کو سمیٹا ۔بیڈ سے اتری۔جانتی تھی اب اگر سونے کی کوشش بھی کرے گی تو کون سا فلک نے اسے سونے دینا ہے ۔
ویسے تم کب آئی؟
امل نے کمبل تہہ کرتے ہوے پوچھا ۔
"میں تو گیارہ بجے ہی آگئی تھی پھر آنٹی نے فروٹس وغیرہ دے دیے تو بس وہی کھا رہی تھی تمہے تو پتا ہے نا رزق کی بےقدری نہیں کرتے"
فلک نے معصومیت سے کہا ۔
"ہاں پتا ہے مجھے ۔۔ بس کر دو فلک مجھے جیسے تمہارا پتا نہیں ہے نا؟ یہ بات کسی اور سے کہنا جو تمہے جانتا نا ہو ۔ہممممم ۔ ۔ "
امل نے سر جھٹکتے ہوے کہا ۔
"تم تیار ہو میں ذرا اسے دیکھ لوں پھر شاپنگ پر بھی تو جانا ہے نا ؟"
فلک نے بلند آواز میں کہا تاکہ اندر تک آواز چلی جائے۔
"ہاں بھئی دیکھ لو، دیکھ لو کس نے روکا ہے؟"
معنی خیزی سے ہنستے ہوے امل نے ہانک لگائی۔
"میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اس کے نام سے مت چھیڑا کرو "
فلک اچھی ،خاصی چڑ گئی۔
جواباً اسے امل کا قہقہہ سنائی دیا۔
"جیسا بھائی ویسی بہن"۔
فلک منہ بناتی سٹڈی میں داخل ہوئی ..جہاں درمیان میں ایک سٹڈی ٹیبل پڑا تھا اور دیوار کے ساتھ بہت سی شیلف تھیں جہاں طرح طرح کی کتابیں پڑیں تھیں۔
سٹڈی کے بائیں دیوار میں لگا دروازہ کھول کر وہ دانیال کے کمرے میں داخل ہوئی ۔
امل اور دانیال کا کمرہ بالکل ساتھ، ساتھ تھا۔ درمیان میں ایک سٹڈی روم تھا جس میں دونوں کے کمروں کے دروازے کھلتے تھے۔
دانیال کا کمرہ بالکل امل کے کمرے جیسا تھا فرق صرف اتنا تھا کہ دانیال کے کمرے کا تھیم بلیک اور گرے تھا۔
ہاں مگر دانیال کا کمرہ امل کے کمرے کی نسبت نفیس تھا۔کمرے میں نیم اندھیرا تھا ایک دیوار پر جابجا امل، فلک اور دانیال کی سکول کالج اور مختلف ایونٹ کی تصاویر لگی تھیں۔
فلک مسکراتی ھوئی بیڈ تک آئی۔
"دانی!!! دانی!!! اٹھو یار بارہ بج گئے ہیں"
فلک کو سوتے ہوئے وہ کیوٹ سا بچہ لگا۔ بچوں کی طرح ایک تکیہ بازو میں دبائے دوسرا سر کے نیچے رکھے وہ بہت معصوم سا لگ رہا تھا۔ وہ کسی بھی لڑکی کے دل کی دنیا ہلا سکتا تھا ۔فلک نے اپنی سوچوں کو جھٹکا ۔
"اف یہ میں کیا سوچ رہی ہوں؟؟ ایسا نہیں ہو سکتا"
ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دانیال بولا:
"مما نہ کریں نہ یار سونے دیں ناں"
دانیال نے کروٹ بدلی ۔فلک کی برداشت بس اتنی ہی تھی۔وہاں اس ماہرانی کو اٹھاو اور یہاں ان لارڈ صاحب کو۔۔۔!!!
"دونوں ایک ہی
جیسے ہیں۔ ڈھیٹ مجال ہے جو ایک آواز پر اٹھیں"
فلک خفگی سے بڑبڑآئی۔
"دانی منھوس اٹھ بھی چکو اب!!!
فلک نے بے خبر سوتے دانیال کو بری طرح سے جھنجھوڑتے ہوے کہا۔
"آہ ۔۔۔ممی بچائیں!!! بچائیں زلزلہ آگیا!!"
دانیال بوکھلا کر اٹھ بیٹھا۔
"ارے بیوقوف چپ کرو یہ میں ہوں فلک"
فلک نے تپ کر کہا۔
"اووووہ! تم کب آئی ؟"
وہ اٹھ بیٹھا ۔
"ابھی آئی ہوں مگر مجال ہے جو اٹھو کب سے جگا رہی ہوں"۔
اس نے خفگی سے منہ پھلاتے ہوے کہا ۔
دانیال اس کے انداز پر مسکرا اٹھا۔
"ہاں اب دانت کیوں نکالے جا رہے ہو؟ میں نے صبح کا کچھ نہیں کھایا ۔اٹھو اور تیار ہو جا کر اور نیچے آو جلدی!!!"
تحکم بھرے انداز میں کہتی وہ نیچے چلی گئی۔مسکراتے ہوے سر جھٹک کر دانیال واشروم کی طرف بڑھ گیا۔
...............
تم تینوں کی کہاں کی تیاری ہے؟؟؟
کھانے کے ٹیبل پر کھانا رکھتے ہوئے اسماء بیگم نے ان سے پوچھا جو نک سک سے تیار بیٹھے تھے۔
اسماء بیگم اور شاہزیب صاحب تو پہلے ہی ناستہ کر چکے تھے۔ پر ان کی نکمی اولاد کی صبح اب ھوئی تھی۔
"ممی دراصل ہم تینوں شاپنگ پر جا رہے ہیں یو نو کل سے یونی سٹارٹ ہے اس لیے آپ فکر نہ کی جئیے گا ہم شام تک واپس آجائیں گے۔"
دانیال نے اسماء بیگم کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہممممم.. مگر خیال سے کوئی شرارت نہیں "
اسما بیگم نے تنبیہہ کرتے ہوے کہا ۔پھر بھی جانتی تھیں کون سا یہ تینوں عمل کریں گے ۔
"جی ماما۔۔ ""جی انٹی "
ان تینوں نے سر ہلایا ۔
باتوں ہی باتوں میں ناشتہ کرنے کے بعد وہ تینوں اٹھے " "اللہ حافظ آنٹی""اللّه حافظ مما "
وہ تینوں ایک ساتھ کہتے ہوئے باہر نکلے۔
اسماء بیگم نے مسکراتے ہوئے انہیں دیکھا اور برتن اٹھانے لگیں ۔
...............
شاہ زیب خان *سراج* *خان* کی اکلوتی اولاد تھے ۔ان کی شادی ان کی خالہ زاد اسماء بیگم سے ہوئی تھی۔سراج صاحب دل کے مرض کی وجہ سے زندگی سے منہ موڑ گئے شاہزیب صاحب کا اپنا بزنس تھا ۔اسماء بیگم اور شاہ زیب خان کے دو بچے تھے۔ امل شاہزیب خان اور دانیال شاہزیب خان۔وہ دونوں جڑواں تھے اور شاہزیب خان کی کل کائنات تھے ۔ وہ دونوں ان کے بہت لاڈلے تھے پر بدتمیز بالکل نہ تھے،ہاں پر شرارتی بہت تھے ۔دونوں کے ساتھ فلک بھی ان کاموں ان کی پارٹنر تھی ہر جگہ ان کی شرارتوں کے چرچے تھے ۔فلک کا گھر بھی ان کے بلکل ساتھ ہی تھا۔وہ تینوں انیس سال کے تھے اور کالج سے فارغ ہوئے تھے۔ اب انہوں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لیا تھا۔ *نواب* *آفندی* کے دو بیٹے تھے۔ سہیل آفندی اور فرحان آفندی۔دونوں بھائیوں میں بہت محبت تھی پر ایک بار دونوں بھائیوں میں بزنس کو لے کر لڑائی ہوئی اور پھر سہیل آفندی گھر چھوڑ گئے۔فرحان آفندی آخر بڑے بھائی سے کب تک منہ موڑ سکتے تھے ۔ فرحان آفندی کے دو بچے تھے بڑا بیٹا صارم آفندی اور چھوٹی بیٹی فلک آفندی۔ فلک چھوٹی اور لاڈلی ہونے کی وجہ سے تھوڑی شرارتی تھی۔ صارم بھی پہلے بہت شوخ سا لڑکا تھا مگر وقت نے اس کے ساتھ ایسا کھیل کھیلا کہ وہ بہت سنجیدہ مزاج ہو گیا تھا.۔فلک بھائی میں اس بدلاو کی وجہ جانتی تھی پر پھر بھی کچھ کر نہیں سکتی تھی اور یہ فلک ،امل اور دانیال کی ہی وجہ سے تھا کہ وہ پہلے جیسا تو نہیں پر کافی حد تک نارمل ہو گیا تھا۔فلک تو سارا دن شاہزیب مینشن میں پائی جاتی تھی.دونوں گھروں کے درمیان دوستی کا گہرا رشتہ تھا۔
...............
گاڑی میں ایڈی شیرین کا گانا "ام ان لو ود دی شیپ اف یو" پورے زور و شور سے چل رہا تھا۔کھڑکیاں کھولے امل اور فلک دونوں کھڑکیوں سے باہر نکلی جھوم رہی تھیں۔ارد گرد سے گزرتے منجھلے بھی ان پر فقرے کس رہے تھے مگر انھیں اس سب کی عادت تھی سو بے نیاز بنی ھوئی تھیں۔
"تم دونوں اپنا منہ اندر کرو گی یا نہیں؟؟؟"
دانیال سخت جھنجھلایا ہوا تھا۔اس وقت وہ تینوں ایک جیسے کپڑے پہنے ہوئے تھے ۔ سکائی بلو چیک والی شرٹس اور ڈارک بلو جینز۔
"کیا ہے یار دانی؟؟حد کرتے ہو انجوائے تو کرنے دو نا۔۔۔!!"
فلک نے چڑ کر کہا ۔
ابھی فلک بول ہی رہی تھی کہ پاس سے گزرتے ایک لڑکے نے اپنے دانت دکھاتے ہوئے ہانک لگائی ۔
"اوہو۔۔ لاہور دیاں کڑیاں ہائے قربان لالے دی جان"
فلک اور امل کو تو اس کے دانت دیکھ کر ہی کراہیت ہونے لگی تھی اور وہ بے چارہ جو قربان جا رہا تھا گاڑی کے شیشے بند ہوتے دیکھ کر مایوس ہی ہو گیا۔
"دیکھا میں بولے جا رہا تھا کہ اندر آو پر نہیں' اور محترمہ فلک "قربان لالے دی جان "
دانیال نے قہقہہ لگاتے ہوے کہا ۔
"اچھا دانی دفع کرو اور گاڑی تیز چلاؤ نا پلیز ۔۔!!
امل نے منت آمیز لہجے میں کہا۔
جبکہ فلک کو تو دنیال کے اس طرح بولنے پر آگ ہی لگ گئی ..
"سمجھتا پتا نہیں کیا ہے خود کو؟ ہے کیا پورا چوول ،بدتمیز، امریکن باندر ہننہہ ۔ ۔ ۔ "
فلک زیر لب بڑبڑائی۔ اور ناک سکوڑا ۔
"اے کیا بولا تم نے مجھے ؟"
بیک مرر میں دانیال نے آنکھیں دکھاتے ہوے پوچھا ۔
تم سے مطلب میری مرضی جو مرضی بولوں؟
فلک نے تپ کر جواب دیا۔
اوووووہ ۔۔ بس کرو تم دونوں میں بھی ہوں تم لوگوں کے ساتھ ۔جب دیکھو لڑتے رہتے ہو تم دونوں ۔
امل نے تنگ آ کر کہا..
میں نہیں لڑتی ورڑتی تمہارا بھائی خود شروع کرتا ہے ۔
فلک نے غصے سے کہا ۔
کیا مطلب ہے تمہارا ہاں ؟میں یعنی کہ میں شروع کرتا ھوں ۔تو شایدمیں ہی شروع کرتا ھوں گا ۔"
کندھے اچکاتے ہوے دانیال نے معصومیت سے کہا ۔
انف دانی تم چپ رہو ۔۔۔!!!
امل نے دانیال کو گھورتے ہوے وارننگ دی ۔
"اچھا سوری۔!!! بس کرو گڑیا ۔ اور پورے دس منٹ بڑا ہوں تم سے آپ بولا کرو مجھے کیا تم، تم لگی رہتی ہو؟
دانیال نے بظاہر سنجیدگی دکھاتے ہوئے کہا۔امل اور فلک تو اس کے گڑیا کہنے پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ھو گئیں ۔
"اووووہ۔۔!!!! آپ تو میں اپنے ان کو بھی نہ کہوں"
امل نے اپنی شرٹ کے کالر میں منہ چھپا کر شرمانے کی ناکام اداکاری کرتے ہوئے کہا۔
"بس کرو چھوئی موئی ۔۔ شرمانا تو دیکھو اس کا"
فلک نے دانیال کو دیکھتے ہوئے کہا اور دونوں ہنسنے لگے۔یہی تو تھی ان کی دوستی اب لڑ رہے ہیں اور اگلے ہی لمحے وہ ہنس رہے ہوتے۔
.................
وہ تینوں اس وقت جینٹس کی سائیڈ پر کھڑے کپڑے خرید رہے تھے ۔
"یار دانی تم پر یہ شرٹ بہت سوٹ کر رہی ہے۔"
امل نے ستائشی انداز میں کہا ۔ واقعی خاکی رنگ کی وہ شرٹ بہت خوبصورت تھی ۔
"اوہ تو پھر تم لوگ بھی یہی لے لو"
دانیال نے شرٹ کو الٹ پلٹ کرتے ہوے کہا ۔
"پر مجھ پر یہ کلر سوٹ نہیں کرے گا نا؟"
فلک پریشانی سے بولی۔
"نہیں یہ کلر بہت اچھا لگے گا تم پر کیوں امل؟"
دانیال نے امل کی بھی رائے لینی چاہی ۔امل مسکرائی ۔
"ہاں فلک تم پر سوٹ کرے گا یہ کلر۔ اور مجھے بھی یہ شرٹ اچھی اچھی لگی ہے۔ "
امل نے کہا۔
وہ تینوں ہمیشہ ایک ساتھ اور ایک جیسی ہی شاپنگ کرتے تھے اور ہمیشہ ایک جیسے کپڑے ہی پہنتے تھے اسی وجہ سے وہ اکثر بہت سی پارٹیز اور تہواروں پر بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہوتے تھے۔ایک تو تینوں ہی خوبصورت جو ایک دفعہ دیکھنے والے کو دوسری بار دیکھنے پر مجبور کرتے اور دوسرا ان کی ڈریسنگ سینس بھی کمال کی تھی ۔
" اچھا چلو پھر لے لوں تینوں کی؟"
دانیال بولا۔
ہاں تم پیک کرواؤ ہم دوسری شاپ پر جا رہی ہیں۔"
امل اور فلک دانیال کو بتا کر نکل گئیں۔
امل اور فلک الگ الگ ریکس کی طرف بڑھ گئیں۔
امل شرٹس دیکھ ہی رہی تھی کہ کوئی آ کر اس سے زور سے ٹکرایا۔ صاف پتا چل رہا تھا کہ یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح امل سب سے الگ ریگ کے بلکل ساتھ کھڑی تھی وہاں کسی کا بھی ٹکرانا ناممکن تھا۔ بروقت دیوار کا سہارا لے کر امل نے خود کو گرنے سے بچایا تھا۔
"اوووہ ...سوری بیوٹیفل"
فہد قریشی نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
"بائے دی وے۔۔ آپ پر یہ کلر بہت سوٹ کر رہا ہے بیوٹیفل لیڈی"۔
فہد نے شرارت سے ہنستے ہوئے کہا۔
ایسا ہی تھا وہ ہر راہ چلتی خوبصورت لڑکی کو چھیڑنا اس کا فرض تھا فہد کے شرارت سے دیکھنے کا انداز امل کو سخت ناگوار گزرا ۔
اس کے پیچھے اس کے دوستوں نے بھی بےڈھنگے انداز میں قہقہے لگائے۔
"اسٹاپ دس نان سینس۔۔!! اچھے سے جانتی ہوں میں تم جیسے لڑکوں کو"" پہلے جان بوجھ کر ٹکراتے ہو پھر لائن مار کر ڈیٹ پر لے جاتے ہو مگر میں ان لڑکیوں جیسی نہیں ھوں ۔میں امل شاہزیب خان ھوں جو اپنے مقابل کو ناک و چنے چبوا دیتی ھوں ۔تم ہو کیا چیز میرے سامنے؟ ہن ۔ ۔ ۔ "
امل نے تپ کر کہا۔وہ اس نام پر چونکا پھر سر جھٹکا ۔
"واہ آپ تو ڈیٹ تک بھی پہنچ گئیں۔ چلیں آج رات پھر میں فری ہی ہوں تو ڈیٹ کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟"
فہد نے ہنستے ہوئے کہا
"شٹ اپ یو بلڈی باسٹرڈ۔۔!!"
امل سے مزید برداشت نا ہوا تو فہد کی گال پر ایک زور دار تمانچہ رسید کیا۔فہد کا چہرہ ضبط کے باعث لال ہو گیا۔ اس لیے اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔ فہد کے دوستوں کی بتیسی بھی اندر چلی گئی ۔
فہد نے چہرہ امل کی طرف موڑا ایک دفع تو امل اس کا لال چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئی مگر اگلے ہی لمحے خود کو کمپوز کیا۔
"تم جانتی ہو تم نے کس کو تپھڑ مارا ہے؟"
وہ آپ سے تم پر آیا ۔مذاق مہنگا پڑا تھا ۔وہ تو بس شرط لگا کر جیتنے آیا تھا ۔
"تمہیں خود کو اپنا نام نہیں پتا تو مجھے کیا پتا ہو گا؟"
امل اپنی ہی بات پر ہنستے ہوئے بولی۔
" چپ کر جاؤ میں تمہارا لحاظ کر رہا ہوں ورنہ "" تم نے فہد قریشی کو تھپڑ مارا ہے کسی کی اتنی ہمت نہیں ہے کہ مجھ پر ہاتھ اٹھائے۔پر دیکھو آج تو تم نے یہ غلطی کی ہے آئندہ خیال رکھنا اور دوسری بات آئی لائکڈ اٹ مجھے ایسی لڑکیاں ہی پسند ہیں"۔
فہد قریشی نے تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا ۔
امل کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اتنے میں دانیال اور فلک بھی آ گئے۔ لوگوں کا جھرمٹ دیکھ کر دونوں ادھر ہی آگئے پر امل کو دیکھ کر دانیال کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ضرور امل نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی ہو گی۔اسے بات کا تو پتا نہیں تھا مگر پھر بھی اس نے جا کر فہد قریشی سے معذرت کر لی ۔
اتنے لوگ اردگرد کھڑے تھے جو بھی تھا پر کوئی بھی بھائی بہن پر ایسی نظریں کہاں برداشت کر سکتا ہے؟
"آئم سو سوری
اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ھوں"۔
دانیال نے شرمندہ ہوتے ہوئے فہد قریشی سے کہا۔
"کوئی بات نہیں مجھے بالکل برا نہیں لگا"۔
فہد نے نظروں کا فوکس امل پر رکھتے ہوئے کہا۔امل نے اسے زبان چڑھائی۔ دانیال نے فہد سے ہاتھ ملایا اور امل کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھینچ کر باہر لے آیا۔فلک بھی فہد کو اک نظر دیکھتی باہر کو لپکی ۔
"غلطی اس کی تھی تم نے سوری کیوں کی اس سے؟"
ابھی دانیال کچھ بولتا امل بولی۔
"امل کوئی مذاق تھوڑی ہے یہ میں ادھر ہی تھا نا مجھے کہتی۔"
دانیال خفگی سے بولا ۔
چھوڑو یار۔۔!!! کلوز دس ٹاپک اور موڈ ٹھیک کرو اپنے۔۔!!!
فلک نے ماحول ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
"ہاں نا دانیال اچھا آئندہ نہیں کروں کی نا۔اب یہ مراثیوں والی شکل ٹھیک کرو لوگ کیا کہیں گے کہ اتنی پیاری لڑکیاں اور ایک بندر کے ساتھ گھوم رہیں ہیں۔کیوں فلک ؟"
امل نے دانیال کو تپانے کے لیے آخر میں اپنی جینس کی پاکٹ میں موبائل اڑستی فلک کو بھی گھسیٹا ۔
"ہاں ہاں بالکل اور مجھ سے کسی نے پوچھا تو میں تو کہہ دوں گی کہ ڈرائیور ہے میرا۔"
فلک بھی بھلا کیوں پیچھے رہتی۔
اور دانیال بیچادہ اتنی بے عزتی پہ منہ کھولے انہیں دیکھ رہا تھا۔
"چلو یہ منہ کیوں کھولا ہوا ہے بند کر دو نرے چمپینزی (chimpanzee )لگ رہے ہو اور جلدی سے کچھ کھلاو۔۔!!"
وہ دونوں حکم دے کر چل پڑیں اور وہ بےچارہ بھی اتنی بے عزتی کروا کر ان کے پیچھے ہو لیا ۔پر فون کا کیمرہ کھول کر دیکھنا نہیں بھولا تھا کہ کہیں سچ میں ہی ایسا نہ ہو۔
...............
اف یار آج تو بہت تھک گئے!!!
امل نے شاپنگ بیگ لاونج کے صوفے پر رکھتے ہوئے کہا۔
فلک بھی کافی تھک گئی تھی وہ اسما بیگم سے مل کر گھر چلی گئی ۔
"بیٹا کھانا لگاؤں؟"
اسما بیگم نے ان کے تھکے چہروں پر نظر ڈالتے ہوے پوچھا۔
"نہیں ماما ہم کھا کر آئے ہیں۔میں اپنے روم میں جا رہا ہوں امل میری کافی لے آنا۔"
اسما بیگم کو جواب دے کر آخر میں اس نے پانی پیتی امل کو مخاطب کیا ۔
پانی پیتی امل کو تو بات سن کر اچھو ہی لگ گیا۔
اےےےے کیا کہا؟
"میری ....کافی..... اوپر.....کمرے....میں ...لے....آو.."
دانیال نے اس کے کان کے قریب ہو کر چیخنے کے انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
"اففففف پرے مرو گدھے اتنی زور سے کیوں بھونک رہے ہو۔"
"ہییییییں گدھے بھونکتے بھی ہیں؟"
دانیال نے سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا اور ابھی بیچادہ آسکر اوارڈ جیتنے والا ہی تھا کہ امل نے اپنا سینڈل ایک سو اسی کے اینگل پر گھما کر دانی کے بازو پر ایسا مارا کہ نتیجے میں دانی کی دلخراش چیخ موصول ہوئی جو کہ امل کا کلیجہ تک ٹھنڈا کر گئی ۔اسماء بیگم تو کب سے کمرے میں چلی گئی تھیں مگر دانی کی آواز سن کر بھاگی بھاگی آئیں کہ کہیں امل نے اس کا سر ہی نا پھوڑ دیا ہو ۔
"آئیندہ کے بعد مجھے حکم دینے سے پہلے سو بار سوچنا آئی سمجھ؟ یہ چونچلے اپنی بیوی سے اٹھوانا تم۔"
امل نے نخوت سے کہا۔
"افففف ماما دیکھیں نا جوان جہان لڑکے کے سامنے اسی کی شادی کی بات کر رہی ہے۔ امل یار نا کیا کرو نا مجھے شمیاں آتی ہیں ۔"
دانیال نے ہاتھوں میں منہ چھپاتے ہوئے کہا۔
"ماما اپنا ڈوپٹہ بھی دے دیں اسے"۔
امل نے اپنا قہقہہ روکتے ہوئے کہا۔
"ماما اور میں تو کہتی ہوں لڑکی ڈھونڈنا سٹارٹ کر دیں جیسی بیچارے کی شکل ہے کسی نے اتنی جلدی اپنی بیٹی بھی نہیں دینی۔"
"ہااااااا دھونڈنے کی کیا ضرورت ہے لڑکی ہے تو سہی "۔
دانیال نے کہہ کر دانتوں میں زبان دبائی۔
"ارے بے شرم شرم نہیں آتی ماں کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہو؟"
دانیال بے چارہ کھسیا کہ اوپر کی طرف بڑھ گیا۔اور سیڑھیوں سے ہانک لگائی ۔
"امل کافی لے کر آنا پھر ایک بات بھی بتانی ہے۔"
اور یہ تھا بہن بھائیوں کا حربہ جو ہمیشہ کام کرتا ہے ۔
امل تو بھاگی, بھاگی کچن میں گئی۔
"ہاں ۔۔!! ہاں لا رہی ہوں پر اگر کوئی فضول بات ہوئی نا تو دیکھنا"۔
اور دانیال اس کو بے وقوف بنا کر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
.............
فلک کافی تھک چکی تھی اس لیے ماما بابا اور بھائی سے مل کر سیدھا کمرے میں آگئی اور شاور لینے چلی گئی۔جیسے ہی وہ باہر نکلی اس کے فون کی میسج ٹون بجی۔
اس نے لپک کر فون اٹھایا۔
پارٹنر کے نام سے ایک میسج جگمگا رہا تھا۔اس نے جلدی سے میسج اوپن کیا۔
"اگر فارغ ہو تو مجھ سے ابھی رابطہ کرو"
ایک سطر پر مشتمل چھوٹا سا میسج تھا۔
اس نے جلدی سے کال ملائی۔تیسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا۔
السلام علیکم!!
ہاں ٹھیک ہوں۔ تم سناؤ؟
اس وقت مگر کیوں؟؟اس کے لہجے میں تشویش تھی۔
اچھا اچھا ٹھیک ہے کہاں ملنا ہے؟؟؟
"چلو سہی ہے تم آجاؤ میں نکلتی ہوں ۔ویٹ کرو اوکے"
وہ اضطرابی حالت میں ٹہلتے ہوئے بولی۔
اوکے خدا حافظ!!
دوسری طرف سے شائد رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
وہ جلدی سے ڈریسنگ کی طرف بڑھی اور تیار ہو کر باہر نکلی۔داخلی دروازے کے پاس ہی اسے عائشہ بیگم مل گئیں۔
عائشہ بیگم نے ایک تفصیلی نگاہ اس پر ڈالی۔
سر پر کیپ جینز شرٹ پہنے وہ پھر سے کہیں جانے کے لیے تیار نظر آئی ۔
"کہیں جا رہی ہو؟؟؟اور وہ بھی اس وقت؟؟"
عائشہ بیگم نے گھڑی پر نظر ڈالتے ہوے کہا ۔
"امم...ماما وہ دراصل امل نے بلایا ہے اسے کوئی کام ہے مجھ سے...میں جلدی آنے کی کوشش کروں گی"
" اوکے بائے ...بابا اور بھائی کو بتا دیجئے گا..."
وہ ان کے گال چومتی باہر کی طرف لپکی۔
"اف یہ لڑکی بھی نا"
عائشہ بیگم سر جھٹکتے ہوے اندر کی طرف بڑھیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
تاریک سڑک کے کونے میں اسے سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں گاڑی کھڑی نظر آ ئی۔ وہ جلدی سے گاڑی تک پہنچی اور دروازہ کھولتی گاڑی میں بیٹھی۔
"السلام علیکم ۔۔!!!"
"وعلیکم سلام۔۔!!! "
"پارک کی طرف چلوں یا کسی ہوٹل میں؟"
سامنے والے نے مسکراتے ہوے پوچھا جیسے اس کا جواب جانتا ہو۔
"آف کورس ہوٹل میں، میں نے تمہاری وجہ سے جلدی، جلدی میں کچھ کھایا بھی نہیں"
اس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا۔وہ ہنسا جانتا تھا فلک کا جواب یہی ھو گا ۔
"اچھا چلو سہی ہے۔ویسے واقعی کچھ نہیں کھایا ؟"
مسکراہٹ ضبط کرتے ہوے اس نے سٹیرنگ گھمایا۔
منہ توڑ دوں گی میں تمہارا ۔۔!!! چپ کر کے بیٹھو ۔"
فلک ناراضگی سے بولی ۔ وہ مسکراہٹ ضبط کر گیا ۔باقی راستہ خاموشی سے کٹا ۔پارکنگ کے بعد وہ ہوٹل میں چلے آئے ۔
"اچھا ۔۔!!!ثبوت کیسے ملا تمہیں؟؟؟"
فلک نے پی۔سی ہوٹل میں اس کے مقابل بیٹھے ہوئے پوچھا۔
"آفس گیا تھا میں ان کے پھر ان کے کپڑوں پر مجھ سے چائے گر گئی وہ صاف کر نے گئے تو بس لاکر پر ہاتھ صاف کیا۔قسمت سے وہ کھلا ہی تھا۔ شاید کچھ نکال رہے تھے وہ"
اس نے آنکھ دباتے ہوے کہا ۔انداز محظوظ کن تھا ۔
"کیا کھاو گی؟"
اس نے مینیو کارڈ دیکھتے ہوئے کہا۔
" لاو میں خود کر لیتی ہوں آرڈر تم اپنا کر لو پہلے"
فلک نے کارڈ کھینچا ۔
"نہیں بھئی میں تو کافی لوں گا بس تم کھاو"
اس نے کافی کا آرڈر دیتے ہوے کہا ۔
"جیسی تمہاری مرضی"
فلک نے کندھے اچکاتے ہوے کہا ۔ویٹر کو آرڈر دینے کے بعد وہ اس کی طرف مڑی۔
"اس فائل کی کاپی ہے ؟؟؟"
"ہاں لایا ہوں یہ لو اسے تم اپنے پاس سنبھال کر رکھنا"
اس نے تنبیہی انداز اپنایا ۔
اس نے ایک نیلے رنگ کی فائل اس کی طرف بڑھائی۔۔
"اممم ٹھیک ہے اللّه کرے سارے مسائل حل ہو جائیں اور سب پہلے جیسا ہو جائے"۔
فائل پر نظر دھوڑاتے ہوے فلک نے کہا ۔
"ہممم۔۔ امید تو ہے باقی اللّه وارث"
کافی کا کپ اٹھتے ہوئے وہ بولا۔
"عالیہ بجو ٹھیک ہیں اور باقی سب؟؟؟"
لزانیا کھاتے ہوے فلک نے اسی کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں ٹھیک ہیں ۔ تمہیں یاد کرتی ہیں بہت اور اپنے ان کو بھی ۔بس اب تو سب ٹھیک ہو جائے"
کافی کا سپ لیتے ہوے اس نے کہا ۔
"امل اور دانیال کیسے ہیں؟"
"ٹھیک ہیں ..."
کوک پیتے ہوے فلک نے جواب دیا۔
"تم نے ہمارے بارے میں دانیال کو بتایا ہے ؟؟؟"
سنجیدگی سے فلک کی جانب دیکھتے ہوے اس نے پوچھا ۔
"نہیں اور بتانا چاہتی بھی نہیں ہوں..فلحال تو نہیں "
فلک نے ٹشو پیپر اٹھاتے ہوے کہا۔
"ہممممم اچھا ہے ۔۔!!کسی کو بھی مت بتانا ورنہ اگر یہ بات کھل گئی تو ہمارے لیے ہی مسلہ ہو گا"۔
کافی کا خالی مگ میز پر رکھتے ہوے اس نے کہا ۔
"ایسی باتیں تو مت کرو نا تمہیں پتا ہے نا تم کتنے اہم ہو میرے لیے"۔
فلک نے نم لہجے میں کہا۔
"اور میں کل رات میں ہی بابا سے بات کر لوں گی"
فلک نے سنجیدگی سے کہا ۔
"ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ سب کچھ جلدی،جلدی ہو جائے"
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اچھا چلو اب ہمیں چلنا چاہیے۔"
اس نے مینو کارڈ میں پیسے رکھتے ہوے کہا ۔
ہممم چلو!!
فلک بھی کرسی دھکیلتی اٹھ کھڑی ھوئی ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
راستے بھر دونوں خاموش رہے۔
"اوکے!! کل یونی میں ملاقات ہو گی اور میرے ڈیپارٹمنٹ کا تو پتا ہے نا تمہیں ورنہ میں گیٹ پر آجاوں گا"
اس نے فلک کو دیکھتے ہوے کہا ۔
"ہاں ہاں پتا ہے اور نا پتا چلا تو پوچھ لیں گے کسی سے اور گیٹ پر آنے کو رہنے دینا "
فلک نے اس کے کنسرن پر مسکراتے ہوئے کہا۔
"اچھا چلو خدا حافظ"
فلک نے ایک سائڈ پر ہو کر ہاتھ ہلایا۔
"خدا حافظ "
وہ زیرِ لب بولی ۔
سٹریٹ لائٹ کی روشنی میں فلک نے اس کی دور جاتی گاڑی کو دیکھا ۔
پھر سر جھٹکتی اپنے گھر کی طرف بڑھی۔اسے کل یونیورسٹی جانا تھا ۔
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...