وہ دیوانے سے

4K 179 35
                                    

السلام  علیکم !
فلک فرحان صاحب کی بائیں جانب کی کرسی کھینچتے ہوے بولی ۔
وعلیکم السلام! تو آج  تمہارا یونیورسٹی کا پہلا دن ہے ۔۔۔۔ہممممم "
عینک لگاتے ہوے فرحان صاحب نے اسے دیکھا۔
جو بلیک جینز پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے ہوے تھی۔
"جی بابا "
فلک سعادت مندی سے کہتی کرسی کھینچ کر بیٹھی۔
(آہا یہ آلو کے پراٹھے بھی کیا زبردست چیز ہیں یعنی کہ حد ہو گئی ان کی خوشبو تو دروازے کو  چیر کر کمرے تک پہنچی تھی)
"صارم بھائی یہ ذرا چائے تو پاس کریں نا پلیز "
بازو فولڈ کرتے ہوے فلک نے صارم کو کہا جو دل جمی سے ناشتہ کر رہا تھا۔
(اوہ تو جس طرح بھائی کھا رہے ہے اس کا مطلب ہے پراٹھے بہت مزے کے ہیں )
اس نے دل میں سوچا ۔
"آہا بری بات فلک کھانے کے میز پر اس طرح دوسروں کو تنگ نہیں کرتے خود کام کرتے ہیں"
عائشہ بیگم خفگی سے بولیں ۔
السلام علیکم  ۔۔۔ لیڈیز اینڈ جینٹل مین "
تبھی بیرونی دروازے سے امل اور دانیال فریش سے موڈ میں داخل ہوے۔
"وعلیکم السلام آو بیٹا ناشتہ کرو "
"اففف انکل یہ کوئی کہنے والی بات تھوڑی ہے ۔وائے ناٹ شیور  ویسے بھی میں ناشتہ کر کے نہیں آیا ۔لیٹ اٹھا تھا آج تھوڑا سا "
امل نے حیرانی سے دانیال کو دیکھا جو کچھ دیر پہلے ناشتے کے میز پر اپنے دو عدد پراٹھے ختم کرنے کے بعد چائے کا پورا مگ خالی کر کے آیا تھا۔
"پتا نہیں ان دونوں نے اپنے  پیٹ میں ایسے کون سے جن پالے ہیں جو دو منٹ بعد کودنا شروع کر دیتے ہیں توبہ ہے!"
ناشتے پر ٹوٹی فلک (جسے دیکھ کر یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ وہ دنیا پہ اپنا آخری کھانا کھا رہی تھی )اور دانیال کو دیکھتے ہوے امل بڑبڑآئی ۔وہ دونوں اتنا کھاتے تھے کہ سالم انسان نگل کر بھی انہوں نے شور مچانا تھا '" اور دو "،"اور دو "
وہ دونوں اپنے بیگ لاؤنج کے صوفوں پر رکھتے ڈائینینگ کی طرف بڑھے دانیال صارم کے برابر کرسی کھینچتے ہوے بیٹھا یوں کہ اس کے بلکل سامنے فلک بیٹھی تھی ۔
آلو کے پراٹھے دیکھتے ھی دانیال کی بھوک نئے سرے سے چمک اٹھی ۔
"آہا انٹی آپ نے آلو کے پراٹھے بناے ہیں۔افففف بہت بھوک لگی ہے سچی آنٹی اب جلدی دیں نا پراٹھا "
عائشہ بیگم نے مسکراتے ہوے فلک کی پلیٹ سے دوسرا پراٹھا اٹھایا جو وہ دانیال کو آتا دیکھ کر اپنے پہلے پراٹھے کے نیچے چھپا چکی تھی۔
پر شومی قسمت بیچاری فلک اتنا سا منہ لے کر رہ گئی۔اس نے ایک نظر سامنے بیٹھے دانیال کو دیکھا جو پراٹھے کے بڑے بڑے لقمے لے رہا تھا۔
"ہممممم شودا کہیں کا نا ہو تو "
چائے کا مگ منہ سے لگاتے ہوے فلک بڑبڑ آئی۔
دانیال نے ندیدی نظروں سے چائے کو دیکھا۔
فلک نے جیسے ھی اس کی نظروں کے ارتکاز کو سمجھا فورا اپنا مگ دونوں ہاتھوں میں زور سے پکڑ لیا یوں جیسے اسے خوف ہو کے سامنے بیٹھا صدیوں کا بھوکا اس کی چائے پی لے گا۔ اور:"چائے  کے دیوانے کبھی بھی اپنی چائے پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتے "۔
"انٹی آپ کے پراٹھے نا بہت مزے کے بنے ہیں اف مزہ آگیا اور مزہ دوبالا ہو جاتا اگر چائے بھی مل جاتی تو  ۔ ۔ ۔ "
منہ میں بڑا لقمہ ڈال کر جب وہ بولا تو لقمہ حلق سے آگے جانے سے انکاری ہو گیا۔گویا انتظار میں ہو کہ بھائی صاحب پہلے آپ چائے لے لیں پھر ھی میں نیچے تشریف لے کر جاؤں گا۔
کھانسی کا زبردست دورہ پڑا تو دانیال صاحب کھانس، کھانس کر دوہرے ہو گئے۔
فرحان صاحب نے مسکراہٹ دباتے ہوے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا ۔
"آرام سے کھاؤ  بیٹا ابھی تو صرف سات بجے ہیں تم لوگوں کی کلاس نو بجے سٹارٹ ہونی ہے "
عائشہ بیگم نے چائے  کا مگ اسے پکڑاتے ہوے کہا۔
"آنٹی آج نا ہمارا پہلا دن ہے ہم جلدی اس لیے جا رہے ہیں کہ اسی بہانے یونی گھوم کر دیکھ لیں گے ۔"
امل نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوے کہا ۔
"یونیورسٹی میں  گھومنا ہے یا پھر ۔ ۔ ۔ "
صارم نے مسکراتے ہوے معنی خیزی سے اک آبرو اچھکائی ۔
"میری باتیں دھیان سے سنو تم تینوں بلکہ اپنے پلو سے باندھ لو "
فرحان صاحب نے اخبار کو ایک طرف رکھتے ہوے سنجیدگی سے کہا۔
انھیں اپنی طرف متوجہ پاکر انہوں نے گلہ کھنکھارا گویا تہمید باندھی ۔
"تم لوگ کسی بھی سٹوڈنٹ یا کسی بھی ٹیچر کے ساتھ کسی بھی قسم کا مذاق نہیں کرو گے سمجھ رہے ہو نا تم تینوں؟ کسی بھی ٹیچر کے ساتھ کوئی مذاق نہیں کرو گے ۔حال ھی میں تم لوگوں کے ٹیچر آفتاب صاحب ہمارے گھر کو رونق بخش کر جا چکے ہے اور یہ صرف تم تینوں کے کارناموں کے باعث ہوا ہے "
فرحان صاحب نے تینوں کو گھورتے ہوے کہا جو زبان دانتوں تلے دبائے بیٹھے تھے۔
"کیا بابا ؟؟آفتاب سر  ہمارے گھر کیوں آے تھے؟کیوں خیریت؟
فلک نے سرسری  سے  لہجے میں پوچھا۔
"ہاں بھئی ہم تو خیریت سے ھی تھے مگر وہ بچارے ۔اللّه ان کی حالت دیکھ کر مجھے بہت ترس آیا تھا ان پر"
صارم نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا۔
"اور نہیں تو کیا ؟ بچارے ٹھیک سے بیٹھ بھی نہیں سکتے "
عائشہ بیگم کے لہجے میں افسوس ھی افسوس تھا ۔
"اچھا ہے نا کاش اس دن ہمیں بیٹھنے دیا ہوتا تو کم از کم اب بیٹھ تو سکتے تھے نا"
دانیال نے سر جھٹکتے ہوے کہا۔
"اور کیا کیا تھا انہوں نے بتاؤ ذرا ،"
میز پر دونوں کہنیاں جما کر فرحان صاحب نے پوچھا۔
"بابا آپ کو تو پتا ہے نا ہم کتنےےےےے  معصوم ہیں "
آنکھیں پٹپٹاتے ہوے فلک نے کتنے پر زور دیا۔
"جی بیٹا بلکل معصومیت نے کہا تھا کہ بس مجھے ان تینوں پر ھی تمام ہونا ہے"
"انکل ہر انسان کو بولنے کا حق حاصل ہے۔ ہم صرف باتیں کر رہے تھے۔کیا کریں؟ ہمارا اک اصول ہے کہ جب بھی کوئی بات یاد آئے تو  فورا کر لینی چاہیے۔یہ نا ہو بعد میں بھول ھی جائے! ہم بات ھی تو کر رہے تھے ' دو منٹ اگر آفتاب صاحب چپ کر جاتے تو کیا جاتا ؟پر نہیں "
امل نے تاسف سے سر ہلاتے ہوے کہا۔
"اہ بیٹا یہ تو پھر انہوں نے بہت ظلم کیا ہے نا؟"
صارم نے سنجیدگی سے کہا۔
"تو پھر کیا ہوا ؟"
فرحان صاحب نے پوچھا۔
"ہونا کیا تھا کہتے "گیٹ اوٹ فرام مائی کلاس۔دو منٹ سکون سے نہیں بیٹھتے اور نا کسی اور کو بیٹھنے دیتے ہو "ہم نے بھی کہہ دیا "سر جی آپ تو سکون سے ھی بیٹھے ہو ایوں چیلنج نا کریں یہ نا ہو بیٹھا بھی نا جائے " بس پھر کیا تھا ہمیں چیلنج دے دیا "
دانیال نے سکون سے کہا۔
"تم لوگوں میں  ذرا تمیز ہے کہ نہیں ؟ یہ ۔ ۔  یہ ان پچھلے دو ماہ میں  ساتویں ٹیچر تھے تم لوگوں کے جو ہمارے گھر تک آئے' تم لوگوں نے بدلے کے طور پر بچارے  کی کرسی پر ھی پنسل اٹکا دی لائک سیریسلی؟"
فرحان صاحب نے صدمے کی سی کیفیت میں کہا۔
"بابا اس میں کوئی خاص بات تو نہیں ہے؟پنسل کے لیڈ سے کیا ہوتا ہے ؟ویسے کیا ہوا تھا؟"
فلک نے معصومیت سے پوچھا۔
"بس کیا بتاؤں؟ ان کے سقا ایسا چبا کہ بےچارے کو آپریٹ کروانا پڑا ۔افف بچارے سکون سے بیٹھ بھی نہیں سکتے۔"
عائشہ بیگم نے جھرجھری لی۔
ریللی ؟؟؟؟
وہ تینوں دبے دبے جوش سے چیخے۔
"دانی!!! ہم چیلنج جیت گئے"
فلک اور امل پرجوش  سی بولیں۔
صارم ،فرحان اور عائشہ بیگم ہونقوں کی طرح ان تینوں کو دیکھ رہے تھے۔ (کیا اس کے بعد بھی کچھ ہو سکتا تھا ؟)
یاہو ۔۔۔!!
دانیال نے فضا میں مکا لہرایا۔
آخر پلان کس کا تھا ؟؟
دانیال نے آبرو اچھکائے۔
کیا ؟؟؟تم ہر بار ایسا کیوں کرتے ہو ؟
امل روہانسی ھوئی ۔
اور نہیں تو کیا امو سہی کہہ رہی ہے یہ کیا بدتمیزی ہے ؟ہاں ؟
یاد کرو بچو دماغ پر زور دے کر سر شمس کی چائے میں لال مرچوں کی پوڑی کس نے ڈالی تھی ؟ اور سر اقبال کا والٹ بھی میں نے اڑایا تھا۔
فلک بھول چکی تھی کہ وہ اکیلے نہیں بیٹھے۔خیر بھول تو یہ بات امل اور دانیال بھی گئے تھے۔
"ہممممم یہ کوئی اتنے بڑے کام نہیں تھے ۔ سر انجم کی بلی کی دم میں نے کاٹی تھی۔ ہاہا دم کٹی بلی،سر طاہر کے پیپرز میں نے ان کے لاکر سے چوری کیے تھے تبھی تم پاس ھوئی،سر ثاقب کا میم کشش سے جھوٹا آفیر بھی میں نے بنوایا تھا۔"
دانیال نے فخریہ کالر جھاڑے۔
"کینٹین سے سموسے ہمیشہ میں نے چوری کیے۔ جو تم لوگوں نے رج رج کر کھائے تھے اور اب تم لوگ مجھے سرے سے بھول گئے ہو۔سر آفتاب کی کرسی پر سقا بھی میں نے فٹ کیا تھا۔
امل نے اپنے بالوں کی لٹ کو جھٹکتے ہوے کہا۔
عائشہ بیگم ،صارم اور فرحان صاحب اس سے زیادہ سننے کی استطاعت بھی  نہیں رکھتے تھے۔
"کیا ؟اتنے ظلم ؟
فرحان صاحب نے صدمے سے کہا۔
"بس انکل یہی تھے باقی اسکول لائف کی تو کیا ھی بات ہے؟"
گردن بائیں طرف جھکا کر دانیال نے تعریفی انداز میں بازو اٹھایا۔
"اور ان کے قصور ؟"
صارم نے حیرانی سے پوچھا ۔
"یار بھائی نا تو وہ ہمیں سکون سے بیٹھنے دیتے تھے،نا ان کے پالتو جانور ،کینٹین والا اتنے مہنگے سموسے دیتا تھا اور بس !"
بس ؟؟کیا یہ بس تھا ۔؟
عائشہ بیگم نے افسوس سے کہا انھیں گویا بہت  صدمہ ہوا تھا ۔
"تم تینوں میری بات دھیان سے سنو ۔ آئندہ' ۔ ۔ ۔ ۔ "
اللّه حافظ انکل ۔۔!!
"انٹی پراٹھے بہت مزے کے تھے اب ہم چلتے ہیں "
فرحان صاحب کی بات ادھوری رہ گئی ۔
دانیال چابیاں نکالتا باہر کو لپکا۔اس کے پیچھے امل اور فلک بھی دھوڑیں۔ لیکچر سننے کا ان کا موڈ بلکل بھی نا تھا۔
فرحان صاحب ،عائشہ بیگم اور صارم نے نفی میں سر ہلاتے ہوے بیرونی دروازے کی طرف دیکھا اور سر جھٹکتے مسکرا دیے۔
ان کی نکمی اولاد کبھی سدھر نہیں سکتی تھی ۔اور یہ بات وہ جانتے تھے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
افف آج تو بال بال بچے!!
امل نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوے گہرا سانس لیا۔
"اور نہیں تو کیا ؟ بابا کا تو ہمیں لیکچر دینے کا پورا دل تھا "
فلک نے بیگ رکھتے ہوے کہا۔
"احسان مانو میرا ۔۔ میں نے تم دونوں کو بچا لیا"
دانیال نے سٹیرنگ گھماتے ہوے کہا ۔
ہاں ہاں ضرور کہو تو پاؤں چھو لیں تمہارے؟
فلک نے چڑ کر کہا۔
"نا میری ماں رہنے دو اور ویسے بھی اس سے ہتک آمیز بات ہو بھی کیا سکتی ہے کہ تم جیسی چھچھندری میرے پاؤں پڑے"
کیا ؟کیا ؟میں ۔ ۔ میں تمھے چھچھندری لگتی ہوں ۔
فلک کا منہ صدمے کی کیفیت میں کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"فلک ڈیر منہ بند کر لو ۔ورنہ تمہارے منہ میں جراثیم چلے جانے ہے اور پھر تم بیمار پڑ جاؤ گی اور فائنلی تم مر جاؤ گی "
امل نے ہاتھ جھاڑتے ہوے  گویا جان چھوٹنے کا اشارہ کیا۔
"تم نا اپنی بکواس بند کرو باندری  کہیں کی ۔جیسا بھائی ویسی بہن۔ ہہنن "
فلک نے ناک سکوڑا ۔
"اب ہم یونیورسٹی نہیں جا رہے میرا ارادہ بدل گیا ہے "
دانیال نے سنجیدگی سے کہا۔وہ انھیں تنگ کرنا چاہتا تھا ۔
"کیا مطلب ہے تمہارا ؟یونیورسٹی نہیں جا رہے ؟ تو پھر کدھر جا رہے ہیں ؟
فلک کو دانیال کی بات پر ایک دم سے  غصہ آگیا۔
زو ۔۔!
دانیال نے اطمینان سے کہا۔
"کیا ؟زو ؟ یو مین چڑیاگھر ؟
امل نے حیرانی سے پوچھا۔
"بی بی اب ہم اتنے بھی کوئی پینڈو نہیں ہیں کم از کم زو کا مطلب تو سمجھ ھی سکتے ہیں نا؟ آخر کو ہم جانور جو ہوئے "
دانیال نے اطمینان سے طنز کیا۔
"ہم جانور ؟یہ کیا بیہودہ بات ھوئی ؟ تم دونوں کے بارے میں میں شیور نہیں ہوں  البتہ الحمداللّه میں انسان ہوں "
فلک نے دونوں کو گھورتے ہوے کہا۔
"نہیں محترمہ اب دیکھیں نا  ۔ ۔ ۔ "
دانیال کی بات ادھوری رہ گئی
ہاں تو محترم دکھاؤ نا ؟
فلک نے تپ کر کہا۔
"دیکھو تم تو ھوئی اک چھچھندری، کل تم نے مجھے اک چمپینزی بنایا تھا اور آج امل کو اک باندری ،تو عزیز از جان خاتون کیا آپ کو واقع لگتا ہے کہ اک چھچھندری ،اک چمپینزی اور اک باندری زو کے بجائے یونیورسٹی جائیں گے ؟؟"
دانیال نے سٹیرنگ گھماتے ہوے کہا۔
ہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ بہت ہنسی آئی چلو چپ کرو اور آرام سے گاڑی چلاؤ ۔ہنن آیا بڑا زو کا کچھ لگتا۔"
فلک نے دانیال کو دھپ رسید کرتے ہوے کہا۔
(ویسے پوائنٹ تو اس کا بلکل ٹھیک تھا ہنن جنگل سے بھاگا چمپینزی !!!)
فلک نے دل ھی دل میں سوچا ۔
"اچھا جب لوگوں کو سمجھ نہیں آتا کہ کیا کہیں تو وہ ایسے ھی دامن بچاتے ہیں "
دانیال نے دل جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے بیک مرر سے فلک کا پھولا ہوا منہ دیکھا۔
جواباً فلک نے اسے کچھ کہنے سے پرہیز کیا اور بڑبڑاتے ہوے رخ موڑ لیا۔
امل نے تاسف سے دونوں کو دیکھا۔
"یہ کبھی نہیں سدھریں گے"
مسکراتے ہوے اس نے دل میں سوچا۔
"اچھا چھوڑو یار تم دونوں لڑنا بند کرو اک اہم موضوع کی طرف چلتے ہیں۔مجھے یہ بتاؤ کیا تم لوگوں نے گفٹز رکھ لیے ہیں ؟ کیوں کے ہماری ریگینگ نا ہو یہ تو امپوسیبل ہے "
امل نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔
"ہاں ہاں سب سے پہلے بیگ میں رکھے ھی گفٹ پیک تھے بکس تو بعد میں ڈالی تھیں۔"
فلک نے فخر سے بتایا گویا بکس آخر میں ڈال کر بہت عظیم کام کیا تھا۔
چلو یہی بہت تھا کہ بکس رکھ لی گئی تھیں!
چلواترو میں گاڑی پارک کر لوں۔
دانیال کے کہنے پر امل اور فلک اپنے اپنے بیگ سمبھالتی ہوئیں گاڑی سے نکلیں۔
واہ  یار کیا یونیورسٹی ہے ۔۔!
امل نے توصیفی نگاہ ارد گرد ڈالی۔
وہ دونوں یونیورسٹی کے داخلی دروازے پر دانیال کی منتظر کھڑی  تھیں۔
"چلو کہ آج مراقبے میں رہنے کے ارادے ہیں تم دونوں کے ؟"
دانیال نے ان کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوے کہا۔
"آہ چلو ۔ ۔ ۔ "
کئی توصیفی نظریں ان کی طرف اٹھی  تھیں چونکہ وہ سیم ڈریسنگ کیے ہوے تھے سو بہت خوبصورت لگ رہے تھے ۔
مگر وہ ارد گرد سے بےنیاز بس یونیورسٹی کا دیدار کر رہے تھے۔
گیٹ  سے داخل ہوں تو دائیں اور بائیں دونوں طرف چھ ،چھ کنال کے  وسیع گراؤنڈ تھے۔ درمیان سے اک سیدھا  راستہ ایڈمن بلاک کی طرف جاتا تھا ایڈمن بلاک کی دائیں  اور بائیں جانب مختلف ڈیپارٹمنٹز تھے۔ان سے قدرے فاصلے پر لائبریری اور کیفےٹیریا تھا۔
گراؤنڈ میں کئی بینچ نسب تھے۔ کچھ لوگ گھاس پر نیچے بیٹھے اپنے مطالعے میں مشغول تھے،اور کچھ بینچ پر بیٹھے اپنا کام کر رہے تھے۔
اوائل مارچ کے دن چل رہے تھے۔فضا میں تھوڑی سی خنکی برقرار تھی مگر موسم گرما کا سورج اپنی حدت پر تھا اور سرما کی خنکی کو ختم کر رہا تھا۔
وہ تینوں گھومتے ہوے پوری یونیورسٹی کا جائزہ لے رہے تھے۔گو کہ کلاس شروع ہونے میں ڈیڈھ گھنٹہ پڑا تھا سو وہ تینوں مطمئن تھے ۔مگر نہیں !!! وہ چوکنا بھی تھے۔
سنو تم تینوں ۔۔۔!
اپنے عقب سے اتی آواز پر وہ پلٹے ۔
جی آپ نے ہمیں مخاطب کیا ؟
دانی نے معصومیت سے پوچھا۔
ہاں تو اور کون چلو آو ہمارے ساتھ!
ان میں سے اک لڑکا کرخت لہجے میں بولا۔
پر کہاں ؟؟؟
امل نے حیرانی سے پوچھا۔
چپ کر کے چلو!
تینوں نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اک دوسرے کو دیکھا۔
اور ان کے پیچھے ہو لیے۔
وہ لوگ انھیں قدرے ویران جگہ پر لائے۔یہ جگہ یونیورسٹی کی بیک پر تھی۔وہاں ان کے علاوہ چار ڈرے،سہمے سے سٹوڈنٹس بھی کھڑے تھے۔ان کی حالتیں بتا رہی تھیں کہ وہ بھی نیو ایڈمشن تھے۔مگر وہ ان تینوں کی طرح ہرگز بھی ریلیکس نہیں تھے۔انہوں نے حیرت سے امل،فلک اور دانیال کو دیکھا جو قدرے ریلیکس نظر ارہے تھے۔
"جی آپ ہمیں یہاں کیوں لائے  ہیں ؟"
آنکھیں گھماتے ہوے امل نے معصومیت سے پوچھا۔
"ایکچولی بچو ہم تم لوگوں کے سینئرز ہیں ہم نے سوچا کیوں نا کچھ تعارف ہو جائے ؟سو اٹ از شو ٹائم"
ہاتھوں کو آپس میں ملاتے ہوے اک قبول صورت لڑکا بولا۔
"جی بلکل اٹس شو ٹائم"
فلک آہستگی سے بڑبڑآئی۔
"دیکھیں ہم نے کیا کیا ہے ؟ ہم تو معصوم سے بچے ہیں ھم معصوموں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے پلیز ہمیں جانے دیں نا"
امل لجاجت سے بولی۔
اس وقت وہ اتنے معصوم لگ رہے تھے کہ معصومیت  بھی ان سے پناہ مانگ رہی تھی ۔
وہ چاروں سٹوڈنٹ بھی انھے حیرانی سے تک رہے تھے۔
" اتنی جلدی بھی کیا ہے چلے جانا۔ اے تم ہاں جلدی ادھر آؤ "
امل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوسرے لڑکے نے اسے بلایا۔
امل نے دانیال اور فلک کی طرف دیکھا اور مخصوص اشارہ پاتے ہی وہ ان کی جانب لپکی ۔
" جی فرمائیے!!
"کوئی اچھا سا گانا گاؤ میرے لیے!!
انہی میں سے ایک لڑکے نے سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔
" خاص آپ کے لیے "
امل نے مسکراتے ہوئے کہا۔
" ہاں سناؤ"
اس نے اپنے بال سیٹ کرتے ہوئے سگریٹ کا گہرا کش لیا۔
"اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ۔ ۔ ۔ "
بسسس!!!!!
لہک کر گاتی امل دھاڑنے کی آواز پر خاموش ہوئی۔
کک کیا ہوا؟ اچھا نہیں لگا میں اور گاتی ہوں۔
"ماؤں کی دعا پوری ہوئی اور ہمیں اتنی پیاری دنیا میں گھر مل گیا "
سب ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔
"ابے چپ کر جا میری ماں خدا کا واسطہ ہے تجھے! سیگریٹ پیروں تلے مسلتے ہوئے اس نے منت آمیز لہجے میں کہا۔
"یہ نغمہ ہے بے وقوف "
اس نے امل کی جنرل نالج میں اضافہ کرنا چاہا۔
" مگر میں تو ایسے ہی سنتی ہوں میں گانے نہیں سنتی میں یہی سنتی ہوں "
امل نے معصومیت سے کہا۔
"دیکھیے میری بہن بہت معصوم ہے آپ اسے کچھ مت کہیں آپ ایک کام کریں ہمیں چھوڑ دیں پلیز "
دانیال نے منت آمیز انداز اپنایا ۔
کیوں کس خوشی میں؟ کوئی دولت ہے تیرے پاس جو چھوڑ دیں ؟"
انہی میں سے ایک لڑکے نے آبرو اچکا کر پوچھا۔
"ہم ۔ ۔ ۔ ہم آپ کو گفٹ دیں گے ویسے تو ہمارے  فرینڈ کے لیے تھے اس کی برتھڈے تھی۔ مگر آپ لے لیں۔"
فلک نے معصومیت سے کہا۔
"اچھا تو سمجھ رہی ہے ہم تیری باتوں میں آجائیں گے تو شاید تو  ٹھیک ہی سمجھ رہی ہے لا نکال دے گفٹ"
اس کے دونوں دوست جو اپنے دوست کی غیرت پر سینے چوڑے کر کے کھڑے تھے ایک دم ڈھیلے پڑے اور حیرت سے منہ کھول کر اسے تکنے لگے ۔
امل فلک کو دانیال نے اپنے اپنے بیگ سے تین پیک شدہ گفٹز نکالے اور ابھی وہ نکال کر سیدھے ہی ہوئے تھے کہ ایک لڑکا اچھل کر فلک کے پاس آیا اور اس کے ہاتھ سے گفٹ چھیننے والے انداز سے لیا (چونکہ فلک کا گفٹ پیک سب سے بڑا تھا )
امل فلک اور دانیال نے افسوس بھری نگاہ اس کے ناک پر ڈالی
( آف یہ لالچ انسان سے کیا کیا نہیں کرواتا)
پھر سر جھکتے ہوئے دوسرے لڑکوں کی طرف متوجہ ہوئے ان دونوں نے منہ بناتے ہوئے اپنے، اپنے گفٹ لیے اور حسرت شدہ نظریں بڑے گفٹ پر مرکوز کیں۔ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ اپنے، اپنے گفٹس کی طرف متوجہ ہوئے ہاتھ میں بڑا گفٹ پیک پکڑے اس لڑکے نے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور اپنی قسمت پر نازاں  اس نے جلدی سے  گفٹ ریپر  اکھاڑا ۔جوں ہی اس نے ڈبہ کھولا تو زوردار لوہے کا پنچ اس کی ناک کی ہڈی توڑ گیا  ۔
"ہائے میں مر گیا ۔ ہائے ماں بچاؤ! میری ناک کٹ گئی۔ بچاؤ"
اپنی ناک پر ہاتھ رکھتا وہ فرش پر بیٹھتا چلا گیا۔
"د ۔۔۔  دیکھو تم لوگوں نے ہمارے ڈبوں میں کیا ڈالا ہوا ہے؟"
ایک لڑکے نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
انہیں ان تینوں سے ایسی امید نہیں تھی شکل سے تو وہ معصوم ہی لگ رہے تھے۔
" نہیں آپ لوگ فکر مت کریں آپ لوگوں کے ڈبوں میں گفٹ ہی ہیں ارے یار پریشان نہ ہو جب ہم اپنے فرینڈ کو گفٹ دیتے ہیں تو ایک گفٹ ایسا ضرور رکھتے ہیں اب ان کی قسمت "
کندھے اچکاتے ہوئے دانیال نے ایک نظر زمین پر کراہتے ہوے  اس لڑکے کو دیکھا ۔
"آپ لوگ اپنے  گفٹ کھولیں نا پلیز !!!"
امل نے خلوص دل سے مشورہ دیا ۔
کیوں؟
وہ لڑکے حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے ۔
ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی بھی  دی ۔
"دیکھوں پہلے تم کھولو" 
شاید دوست کی محبت غالب آگئی تھی ۔
جوں ہی اس نے اپنا گفٹ کھولا  تو ایک فلک شگاف چیخ اس ویران کونے میں گونجی ۔کیوں کے ڈبے سے نکلا مینڈک اچھل کر اس لڑکے کے کندھے پر بیٹھا سلامی دینے لگا تھا ۔اس لڑکے نے حیرت سے اپنے کندھے پر بیٹھی اس ٹرٹر  کرتی مخلوق کو دیکھا اور اگلے ہی لمحے اچھلنے لگا۔ اپنے دونوں دوستوں کی درگت بنتے دیکھ کر تیسرے لڑکے نے اپنا گفٹ کھولے بغیر ہی امل اور دانیال ،فلک کی طرف پھینک دیا جو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔  ایک طرف وہ تھا جو گانا سننا چاہ رہا تھا اور اب زمین پر سجدہ ریز تھا اور دوسرا جو خود کو بہت سمارٹ سمجھتا تھا مینڈک کے  ساتھ ہی ادھر ادھر پھدک رہا تھا گویا مینڈک صاحب تو پھدکنا چھوڑ کر ان کی کندھے پر پوری شان و شوکت سے براجمان تھے اور ان کے ساتھ ھی اوپر نیچے  ادھر، ادھر ہلتے ہوے ٹرٹر کرتے گویا یہ کہ رہے تھے:
"ارے واہ جانیمن کیا جھولے دیتے ہو تم؟ "
مگر وہ بیچارے صاحب بہادر تو ادھر ادھر پھدکتے پھر رہے تھے اور مسلسل چیخ و پکار بھی کر رہے تھے ۔
"ہاہاہاہا دیکھا میرے والا سب سے مزے کا تھا اسے دگنی کا ناچ نچوا دیا افف میرا بھی کوئی  جواب نہیں ؟"
دانیال نے فخر سے کالر اکڑائے۔
" ہاں واقعی یہ بہت مزے کا ہے"
امل اور فلک ہنستے ہوئے بولیں۔انہوں نے شاید پہلی بار دانیال کی تعریف کی تھیدانیال مزید چوڑا ہوا ۔
" تو اور کیا ؟"اتنی محنت کی تھی میں نے پرسوں ہی پرانے محلے کی جوہڑ سے پکڑا ہے"
دانیال نے راز  آشکار کیا ۔(گویا یہ حرکت مزید تعریف بٹورنے کو تھی)
جبکہ ایک طرف کھڑے وہ چاروں سٹوڈنٹ ہونق بنے  کب سے انہیں تکتے جا رہے تھے۔
"ارے آپ نے میرا گفٹ واپس کر دیا ۔۔کھولیں نا پلیز"
امل نے تیسرے لڑکے کو کہا جو کہ حیرت سے منہ کھولے تینوں کو دیکھ رہا تھا۔
" میں نے نہیں کھولنا جاؤ تم سب چلے جاؤ اپنا یہ فضول قسم کا گفٹ لے کر مجھے نہیں چاہیے۔
وہ لڑکا چلاتے ہوئے بولا  ہوئے بولا۔
"نا کھولیں ہممممم "
امل  نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔اور  ڈبہ کھولا جس کے اندر سے تین لالی پوپ نکلے اس نے ایک،ایک  لالی پاپ دانیال اور فلک کو دیا اور ایک خود کھول کر منہ میں ڈال لیا ۔ امل دانیال اور فلک ہنستے ہوئے ان کی طرف ایک ادا سے فلائےکس اچھالتے اس جگہ سے باہر نکلے اور ان کے پیچھے ہی وہ چاروں سٹوڈنٹ بھی ایک ٹرانس کی کیفیت میں نکلے۔ یوں وہ پہلے ہی دن ریگینگ کر چکے تھے۔
۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"یار دانی ٹائم کیا ہوا ہے؟"
  فلک نے  کوئی تیسری بار یہی سوال دہرایا تھا۔
  "ابھی ایک گھنٹہ رہتا ہے کلاس اسٹارٹ ہونے میں اب چپ کر جاؤ یہ میرے جڑے ہاتھ  دیکھ لو میری ماں "
دانیال نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
وہ لوگ چلتے ہوئے یونیورسٹی کے وسط تک پہنچے۔
" فلک کہاں جا رہی ہو؟ "
فلک کو بائیں طرف جاتا دیکھ کر دانیال  نے پوچھا ۔
"کام ہے مجھے ایک چھوٹا سا کچھ دیکھنا ہے ۔میں آتی ہوں "
بیزاری سے جواب دیتی فلک بائیں جانب بنی لائبریری کی طرف بڑھ گئی .دانیال نے حیرانگی سے امل کو دیکھا جس نے کندھے اچکا دیے۔
۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت لائبریری کے سامنے ایک بینچ پر بیٹھا تھا ایک طرف کافی کا کپ رکھے اور دوسرے ہاتھ سے اسائنمنٹ پیپر بنا کر رہا تھا دفعتاً کسی نسوانی ہاتھ نے اس کی آنکھوں کو روشنی سے لا تعلق کیا ۔
"سامنے آو فلک "
وہ مسکرایا تھا۔ فلک پاؤں پٹختی ہوئی اس کے سامنے آئی ۔
"کیا ہے یار تم ہر بار مجھے پہچان لیتے ہو؟"
وہ روٹھے لہجے میں بولی اس کا روٹھا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ ہنسنے لگا۔
" ہاہاہا اپنا موڈ ٹھیک کرو لڑکی ہر بار اس لئے پہچان لیتا ہوں کیونکہ تمہارا سٹائل یہی ہے۔"
اوہ ویری فنی!!
فلک دانت نکالتے ہوئے بولی ۔دور کھڑے دانیال نے اپنا غصہ ضبط کیا ۔
"امل تم دیکھ رہی ہو کیسے فلک اس لڑکے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہے؟ کیسے اس نے اس لڑکے  کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ؟میں اس لڑکے کا منہ توڑ دوں گا میں اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا  جن پر فلک نے ہاتھ رکھے میں اس کے دانت توڑ دوں گا جنہے یہ فلک کی باتوں پر نکال رہا ہے میں اس کی ناک  ۔۔۔ ۔ "
بسس!!!
دانیال مزید بھی بولتا مگر امل نے  اس کے پاؤں پر اپنا جوتا اس قدر زور سے مارا کہ وہ بیچارہ بلبلا کر رہ گیا۔
اف اللّه پوچھے تم سے منہوس!!
دانی نے جھوٹ موٹ کے آنسو صاف کیے۔
"یہاں کھڑے ہو کر بکواس کرنے سے بہتر ہے وہاں جا کر اس پر عمل کرو"
امل کا مشورہ دانیال کو بہت پسند آیا۔
" ہاں چلو آج یہ نہیں بچے گا سالا "
شرٹ کے بازو ٹانگتے ہوے دانیال جارحانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھا جس کا نیم رخ اس کی جانب تھا امل بھی اس کے ساتھ ہی بھاگی ۔
" اف آگیا"
فلک بیزاری سے بولی ۔ تو اس نے فلک کی نظروں کے تعاقب میں رخ موڑ کر اپنے طرف آتے دانیال اور اس کے ساتھ آتی امل کو دیکھا وہ آج اس دشمنِ جان کو کتنے عرصہ بعد دیکھ رہا تھا؟دل نئے انداز میں دھڑکنے لگا اپنی دل کی حالت سے گھبرا کر وہ فورارخ موڑ کر کھڑا ھو گیا ۔ایسے کہ فلک کی جانب اس کا نیم رخ تھا جبکہ دانیال اس کے سامنے اور امل کی جانب اس کی پشت تھی جو فلک کے ساتھ آکھڑی تھی ۔
"السلام علیکم!! میں منگیتر ہوں فلک کا، دانیال شاہ زیب کہتے ہیں لوگ مجھے"
دانیال نے چبا چبا کر الفاظ ادا کیے۔وہ غصے میں تھا ورنہ مقابل پر غور کرتا ۔آتے ہی وہ ڈائریکٹ جھوٹ بولنے لگا ۔ کچھ لمحے تو آریان کو سمجھ ہی نہ آئی مگر جب اسے دانیال کے رویے کی سمجھ آئی تو وہ قہقہ لگا کر ہنسنے لگا ۔اور نیم رخ سے ہی فلک کو دیکھ کر ابرو اچکائی ۔
"مسٹر دانیال ۔۔۔خوشی ہوئی آپ سے مل کر "
وہ دانستاً امل کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا ۔
ہشش ۔۔۔ یہ کون ہے؟
امل نے فلک کے کان میں گھستے ہوئے پوچھا۔
" کزن میرا "
چھن سے امل کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا۔
اوہ کیا یہ وہی ہے؟
دماغ نے پوچھا۔
"نہیں پتا"
دل نے جواب دیا ۔
"تو جانو نا"
دماغ نے اکسایا۔
"تو کیا وہ لوٹ آیا اپنا وعدہ پورا کرنے؟"
دل عجیب کشمکش کا شکار ہوا۔
"تو اور کیا وعدہ کر کے گیا تھا پورا تو کرنا ھی تھا "
دماغ جھنجھلایا تھا۔
کک ۔ ۔ ۔ کس ریلیشن سے؟
امل نے اٹکتے ہوے پوچھا۔
"ٹھہرو ذرا"
فلک اس وقت عجیب کشمکش کا شکار تھی۔وہ بھی دل و دماغ کی جنگ لڑتے ہوے دانیال کی جانب دیکھ رہی تھی ۔دل اور دماغ دونوں مختلف دلائل دیتے ایک دوسرے کو مطمئن کر رہے تھے ۔
(افف دانیال کتنا بڑا جھوٹا ہے )
"اس نے یہ تمہارے لیے کیا ہے "
دل سے آواز آئی ۔
"ہمممممم میرے لیے کیوں کرے گا جھوٹا کہیں کا اس کی تو عادت ہے "
دماغ نے اک منٹ میں دل کو جھوٹا ثابت کر دیا تھا۔
آریان کے ہنسنے پر امل نے اس کی پشت کو گھور کر دیکھا
"بندے کو ہنسنا آتا ہوں تو کوشش بھی نہ کرے یونانی دیوں کی طرح ہنستے ہیں تمہارے کزن"
امل نے فلک کے کان میں گھستے ہوئے کہا مگر جو بھی کہا وہ باآسانی آریان اور دانیال کے  کانوں تک پہنچ گیا ۔
"آپ کی تعریف؟ "
دانیال کو وہ انسان سخت برا لگا تھا۔
" یہ اریان آفندی ہے میرا کزن یاد تو ہو گا نا تم لوگوں کو "
فلک نے دانیال کو گھورتے ہوئے کہا اشارہ یہ تھا کہ حد کرتے ہو تم بندہ پہلے پوچھ لیتا ہے مگر بس تعارف  ٹھوکی جاؤ ۔
" آریان!!!!!"
وہ زیرلب بڑبڑآئی ۔
وہ کیسے نا اس شخص کو پہچانتی؟
پورے چھ سال اس نے اس شخص کا انتظار کیا تھا۔آریان بھی اب سیدھا ھو چکا تھا اور امل کو دیکھنے لگا جو گومگوں کیفیت میں تھی ۔ اس نے چونک کر آریان کی طرف دیکھا اور اسے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ اس کی اس حرکت پر آریان  کے عنابی ہونٹوں پر ایک خوبصورت مسکان ٹھہری ۔
دانیال نے کچھ چونکتے ہوئے آریان کی طرف دیکھا پھر نفی میں سر ہلاتے ہوئے فلک کی طرف دیکھا جس نے کندھے اچکا دیے۔
کمینے یہ تو ہے ۔۔؟
دانیال نے آریان کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
آریان نے دانیال کو دھکا دے کر سائیڈ پہ کیا۔
" شرم کر میں بڑا ہوں تجھ سے ۔ کمینہ نا بول مجھے، مجھ سے بڑا کمینہ تو، تو ہے اور  کتنے بے شرم ہو تم دونوں مجھے پہچانا تک نہیں؟"
آریان خفگی سے  بولا۔اب کہ اس نے امل کو بھی گفتگو میں شامل کیا۔
" نہیں یار تم بچپن میں تو اتنے پیارے نہیں تھے اب بس اسی لیے تم پہچانے نہیں گئے "
دانیال نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔
"بدتمیز انسان کم از کم تم سے زیادہ خوبصورت تھا"
آریان نے دانیال کی کمر پر دھموکا رسید کیا۔وہ بلبلا کر رہ گیا ۔
"ہائے قسم سے یقین ھی نہیں آرہا ہم تم سے مل رہے ہیں یار سچی میں سوچتا تھا کہ شاید ہم دوبارہ مل نہیں پائیں گے "
دانیال نے سنجیدگی سے کہا۔
"مجھے تو ایک دن واپس  آنا ھی تھا کسی سے کیا وعدہ پورا کرنا تھا۔"
آریان امل کی طرف دیکھ کر شرارتی لہجے میں گویا ہوا۔
اور یکدم ھر شے غائب  ہو گئی۔
ہر آواز ۔۔۔!!
ہر تصویر  ۔۔۔!!
وقت امل اور آریان دونوں کو چھ سال پیچھے لے گیا۔ پھر سے کچھ انمول یادوں کو دہرانے کے لیے۔۔کچھ مدفن رازوں کو آشکار  کرنے کے لیے۔۔۔۔!!
شام کے سائے گہرے ہو چکے تھے کالونی کی پارک میں اکا،دکا لوگ ھی موجود تھے ۔وہ تیرہ سال کی خوبصورت سی گہری کالی آنکھوں والی بچی دھوڑتی ھوئی اس کی طرف آرہی تھی۔
ہاتھ میں پکڑی آئسکریم پگھل چکی تھی مگر اسے پروا نہیں تھی وہ دھوڑتی ھوئی اس طرف آئی جہاں درخت کے  سائے  میں ایک چودہ سال کا لڑکا سر جھکائے کھڑا تھا۔
وہ اس کے قریب آکر رکی۔
کالی آنکھوں میں پانی جمع تھا جو باہر چھلکنے کو بیتاب تھا۔اور اس نے ان آنسوؤں کو روکا بھی نہیں نکلنے دیا۔
آہٹ پر سر اٹھا کر اس نے اپنے سامنے کھڑی امل کو دیکھا۔
"آریان  ۔۔۔۔"
اس کے لبوں سے سرسراتی ھوئی آواز نکلی۔
ہشش ۔ ۔ ۔ " مت رو پلیز میں وعدہ کرتا ہوں میں واپس آجاؤں گا۔بس حالات ٹھیک ہونے دو "
وہ کمزور لہجے میں اسے  تسلی دے رہا تھا ۔
تم واپس آو گے نا ؟ میرے لیے؟
وہ بہت مان سے پوچھ رہی تھی۔
"ہاں میں ضرور واپس آوں گا۔۔۔تمہارے لیے!ہمارے لیے!  مجھے یاد کرو گی ؟"
محبت بھرے لہجے میں پوچھا گیا۔
"بھولوں گی تو یاد کروں گی نا "
وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوے بولی۔
وہ دونوں چند لمحے ارد گرد سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔
یوں جیسے اک دوسرے سے ان کی یہ آخری ملاقات ہو ۔۔۔۔!!!
یوں جیسے اک دوسرے کے چہروں کو حفظ کر لینا چاہتے ہوں ۔۔۔!!
یوں جیسے آخری دیدار ہو ۔۔۔!!
پھر امل نے آریان کی  ہتھیلی پکڑی اور اپنے گلے میں پہنی چین نکال کر اس کے ہاتھ میں تھما دی ۔
"جب واپس آنا تو اسے لے کر آنا اور یاد رکھنا کہ تمہاری امل تمہارا انتظار کر رہی ہے "
مسکراتے ہوے اپنے آنسو پونجھ کر وہ پلٹ گئی۔
تیز تیز قدم اٹھاتی وہ پارک کا دروازہ عبور کر گئی ۔اس نے مڑ کر بھی نا دیکھا کہ کہیں پتھر کی ھی نا ہو جائے۔آخر کو تھی تو وہ ایک انسان "
ہوا قدرے تیز چلی تھی کہ درختوں کے زرد پتے زمین پر جا بجا بکھر گئے تھے۔ تھڑتھڑاتے ہوے بارش کی بوندیں برسنے لگیں ۔اک اور موسم خزاں اپنے اختتام کو پہنچنے والا  تھا۔ مگر صرف ایک اور  ۔۔۔!!!
کتنے خزاں باقی تھے وہ نہیں جانتے تھے۔
چین ہاتھوں میں لیے کھڑے اداس سے اس لڑکے اور فٹ پاتھ پر خاموشی  سے آنسو بہا کر چلتی اس لڑکی میں صدیوں کا فاصلہ تھا۔اور فاصلے ہوتے ھی طے کرنے کو ہیں ۔
خزاں کا موسم گزر چکا تھا اور شاید واقع گزر چکا تھا ۔
ماضی کا سفر طے ہوا تو امل نے چونک کر آریان کو دیکھا۔وہ اسے دیکھتے ہوے مسکرا رہا تھا۔
کیسی ہو امل ؟
کس قدر محبت تھی اس کے لب و لہجے میں۔امو کی جگہ امل لے چکی تھی ۔وقت بہت بدل دیتا ہے یا شاید سب کچھ ۔۔؟
"میں ٹھیک ہوں تم کیسے ہو ؟"
امل نے مسکراتے ہوے پوچھا۔
"میں ٹھیک ہوں "
آریان نے مسکراتے ہوے اسی کے انداز میں کہا۔
"آریان وہ فلک سے میری منگنی ہو چکی ہے "
دانیال نے فلک کو دیکھتے ہوے کہا۔
"ہممممم منگنی مائی فٹ آریان کو بار … بار ایک ھی بات مت کہو  بے فکر رہو  یہ پہلے سے ھی کمیٹیڈ ہے  "
فلک نے دانت نکالتے ہوے کہا۔
دانیال نے سکون کا سانس لیا۔
(شکر ہے اللّه کا )
کیا سچی ؟؟؟کون ہے ؟
دانیال نے مسکراتے ہوے پوچھا۔اپنی ٹینشن ختم ھوئی تو دوسروں کا خیال آیا ۔
امل نے جھٹکے سے اپنا سر اٹھایا۔
"اہ میری کلاس کا ٹائم ہو گیا ہے  ۔ ۔ "
آریان اس سوال سے بچنا چاہ رہا تھا سو اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
"اوکے بائے ۔۔کلاس کے بعد ملتے ہیں"
آریان مسکراتے ہوے اک نظر امل کو دیکھتا اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گیا۔
"کون ہے وہ ؟"
امل نے بےصبری  سے پوچھا۔
"پتا نہیں مجھے ایک دو دفع میں نے پوچھا تھا پر اس نے کبھی نہیں بتایا ۔۔بتانا تو دور اس نے اس کا نام بھی نہیں بتایا "
فلک نے کندھے اچکاتے ہوے کہا۔
"اچھا چلو کلاس کا ٹائم ہونے والا ہے ۔"
دانیال کے لیے اتنا ھی بہت تھا کہ فلک آریان میں انٹرسٹڈ نہیں تھی۔
"افف چلو جلدی ۔"
فلک بت بنی کھڑی امل کو گھسیٹتے ہوے بولی۔
(کہیں وہ مجھے بھول تو نہیں گیا ؟افف اب اتنی پرانی بات بھی نہیں ہے )
سر جھٹکتے ہوے وہ ان کے پیچھے ہولی۔
۔ ******
"یار کیا مصیبت ہے ؟کب سے تم ہمیں کبھی ادھر کبھی ادھر گھما رہے ہو؟ اک جگہ ٹک جاؤ منحوس افسوس تمہے ابھی تک بزنس ڈیپارٹمنٹ ھی نہیں ملا "
فلک دانیال پر چلاتے ہوے بولی۔
"اف چپ کرو تم کتنا بولتی ہو وہ بھی نان  اسٹاپ بندری کہیں کی"
دانیال دائیں جانب مڑتے ہوے بولا۔انھیں یوں باتیں کرتے دیکھ پلر کی اوٹ میں چھپا ایک وجود سامنے آیا ۔
"ایکسکیوز می  ۔ ۔۔"
اپنے بازو پر نسوانی ہاتھ محسوس کر کے دانیال حیرت سے مڑا ۔
"جی ؟"
"وہ میں کافی دیر سے دیکھ رہی ہوں تم کبھی ادھر کبھی ادھر گھوم رہے ہو کیا میں تمہاری کچھ مدد کر سکتی ہوں۔"
اک ماڈرن مگر خوبصورت سی لڑکی مسکراتے ہوے بولی ۔
ہیلو ۔۔!! آئی ایم دانیال شاہزیب ۔نیو ایڈمشن غالباً آپ بھی نیو ایڈمشن ہیں ؟ایکچولی کیا آپ مجھے بزنس ڈیپارٹمنٹ تک گائیڈ کر سکتی ہیں ؟"
کن اکھیوں سے اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی فلک کو دیکھا جو غصہ ضبط کرتی سرخ پڑ رہی تھی۔
"اوہ آئی سی ۔۔۔ ہیلو دانی آئی ایم بینش قریشی ۔میں بےشک نیو ایڈمشن ہوں مگر میں اس یونیورسٹی کا چپا چپا جانتی ہوں۔
آو ڈیر تمھے بزنس ڈیپارٹمنٹ تک گائیڈ کر دوں۔"
دانیال کے کندھے پر اپنا بازو پھیلاتے ہوے وہ بےتکلفی سے بولی۔دانیال کو وہ سخت بری لگی تھی ۔
" دانی کے بچے تم یہاں کھڑے ہو میں کب سے تمھے ڈیپارٹمنٹ میں تلاش کر رہی تھی ۔"
فلک کی برداشت کی حد صرف اتنی تھی جبھی تو ایک ھی سانس میں آن تک پہنچی۔
"ڈیر یہ کون ہے ؟"
بینش نے فلک کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا۔اسے فلک کی آمد ناگوار گزری تھی ۔صاف پتا چل رہا تھا کہ بینش محترمہ دانیال صاحب پر لٹو ہو چکی تھیں ۔
"میں دانیال کی وائف ہوں فلک دانیال خان کیوں کیا ہوا ؟"
فلک نے دانیال کے جواب دینے سے پہلے ھی کہا اور معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاآئیں ۔یہ جواب سن کر بینش کی آنکھوں میں چنگاریاں جلنے لگی ۔کچھ کھونے کا خوف آنکھوں میں نظر آنے لگا ۔دانیال نے اک نظر شاک میں کھڑی بینش کو دیکھا۔اور اک نظر فلک کو دیکھا جو چہرے پر دل جلانے والی مسکراہٹ سجائے اسے ھی دیکھ رہی تھی ۔دانیال کو ایک لمحہ لگا ساری بات سمجھنے میں وہ آریان والی بات کا بدلہ لے رہی تھی ۔
(ہنن کمال ہے میں نے منگیتر کہا تو پتنگے لگ گئے تھے اب سیدھا شوہر بنا دیا مجھے )
"فلک ڈیر میرے خیال سے اب ہمیں چلنا چاہیے ۔"
بینش کا ساکت ہاتھ اپنے شولڈر  سے ہٹاتے  ہوے وہ فلک کی طرف بڑھا ۔
"ہاں جلدی کرو ویسے بھی تم نے مجھے ٹریٹ دینی ہے رات میں اپنی شرط جو جیت گئی تھی۔"
فلک نے مسکراتے ہوے کہا۔
"بینش آپ بھی ہمیں جوائن کر سکتی ہیں آخر کو میں آپ کی بھابھی اور یہ آپ کے بھائی ہیں ۔بھائی بھابھی کی اتنی سی بات نہیں مان سکتی آپ ؟؟"
فلک نے معصومیت سے کہا اور دانیال اس کے اس قدر فرفر جھوٹ بولنے اور اوپر سے اتنی اعلی ایکٹنگ پر حیران سا کھڑا تھا ۔
"ہنہن  ۔ ۔ بھائی… بھابھی سنو لڑکی میرا ایک ھی بھائی ہے اور اگر میں سب کو بھائی بنا لوں گی تو شادی کس سے کروں گی ؟"
بینش نے فلک کو گھورتے ہوے کہا ۔وہ چلائی تھی آواز میں گہرا دکھ ہلکورے کھا رہا تھا ۔کچھ تھا جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔کوئی راز ،کوئی بھید ۔۔؟
"کیوں کیا آپ نے سب سے شادی کرنی ہے ؟"
فلک نے حیران ہوتے ہوے پوچھا۔

ماہی وے ✔Dove le storie prendono vita. Scoprilo ora