جو لاحاصل ٹھہرا

2.8K 141 22
                                    

ماہی وے
قسط 16
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ھر بار کی طرح سب نے آج بھی دوپہر کا کھانا "آفندی مینشن " میں اور رات کا کھانا "شاہزیب مینشن " میں کھایا ۔عالیہ بھی آئی تھی مگر بعد ازاں اس کی طبیعت کے مد نظر اسے اور صارم کو گھر واپس بھیج دیا گیا تھا ۔ امل ،نور اور فلک نے تو عیدی لوٹی ہی لوٹی تھی دانیال بھی ان کی پارٹی میں شامل ہو گیا تھا اور تب تک پیچھے نہیں ہٹا جب تک ان تینوں سے زیادہ جمع نا کی ۔ان کے برابر عیدی جمع کرنا مشکل تھا مگر دانیال کے لیے نہیں ۔جو باہر کالونی کے چار پانچ بچوں کے پیسے بھی چھین لایا تھا ۔ انھیں بہلانے کی خاطر دو ،دو لولی پاپ بھی دے آیا تھا ۔اور ان بچوں کو لولی پاپ پیسوں سے زیادہ لگ رہے تھے ۔ بیچارے ۔۔۔!!!۔چائے کا دور چلنے سے پہلے ہی فہد اور بینش بھی آگئے تھے ۔ بینش گھر میں سب سے پہلی بار مل رہی تھی ۔اسے ان سب کو اکھٹا دیکھ کر خوشی ہوئی تھی ۔دل میں کہیں حسرت بھی جاگی ۔کیوں کہ ساری عمر وہ اکیلے ہی رہی۔ یوں ایک ساتھ کبھی کوئی تہوار خاندان کے ساتھ نہیں منایا ۔ کوئی خوشی کا موقع بھی ہمیشہ خود سے ہی بانٹا ،اسے بانٹنے کے لیے کوئی بھی ساتھ نا ہوتا تھا ۔،نا غم بانٹنے کے لیے کوئی ساتھ تھا ۔سب کے درمیان بیٹھ کر باتیں اور اچھا وقت گزارتی بینش کو آج شدت سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ خاندان انسان کی زندگی ،اس کی خوشی،اس کی بقا ، کے لیے بہت ضروری ہیں ،خاندان کے دائرے میں انسان محفوظ رہتا ہے اس دائرے سے نکلتا ہے تو اس کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا ۔آج اسے شدت سے ایک خاندان کی کمی محسوس ہوئی تھی ۔اسے ان لوگوں کے درمیان رہنا اچھا لگ رہا تھا ۔
"بیٹا آپ کون سے ڈیپارٹمنٹ سے ہو ؟"
یہ سوال اسما بیگم کی طرف سے آیا تھا جنہے فہد کی زبانی ابھی علم ہوا تھا کہ بینش یونیورسٹی سٹوڈنٹ ہے ۔
"یہ ہمارے ساتھ پڑھتی ہے ۔ہم ایک ہی ڈیپارٹمنٹ سے ہیں ۔ یہ کلاس فیلو ہے ہماری "
بینش کے بجائے جواب دانیال کی طرف سے آیا تھا ۔وہ چاروں ابھی واک کر کے لوٹے تھے لیکن نور نے جانے سے منع کر دیا تھا سو وہ گھر ہی تھی ۔بینش بس یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی اور اپنے بے تاب دل کو سکون پہنچا رہی تھی ۔ تصویریں دیکھ کر قرار کہاں آتا ہے ؟
"بینش بتاؤ پہلے دن کیا ہوا تھا ؟"
دانیال نے ہنس کر کہتے ہوے بینش کو چڑانا چاہا ۔
' بینش ؟"
دانیال نے دوبارہ اسے پکارا ۔ فہد نے بغور اسے دیکھا ۔وہ جیسے ایک دم چونکی ۔
"ہممممم ؟؟؟ کیا کہہ رہے تھے ؟"
اس نے اتنی بے خودی پر خود کو کوسا ۔
"آنن ۔۔۔۔کچھ نہیں "
دانیال خود ہی ساری باتیں بتانے لگا ۔بینش جیسے وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھی ۔کسی اور نے غور کیا ہو یا نہیں فہد نے ضرور کیا تھا اور وہ بینش سے بات کرنے کا ارادہ کر چکا تھا ۔ سارے وقت میں بینش کسی نا کسی بہانے سے دانیال کو دیکھتی رہی ۔اس سے کچھ فاصلے پر امل ،فلک اور نور بیٹھی تھیں ۔باقی سب ایک طرف بیٹھے اپنی باتوں میں مصروف تھے ۔ نور کو تو رہ رہ کر فہد پر غصہ آرہا تھا ۔
"،ہنن ۔۔۔آیا بڑا محبت و پیار کے دعوے کرنے والا ۔۔۔اب عید مبارک بھی نہیں کہا گیا حد ہے ۔۔!!!۔ سنگلز کی بھی کوئی عید ہے ۔۔۔منگلز کی ملاقاتیں کرواتے رہو بس ۔ خود کو اپنا نام نہاد عاشق عید مبارک بھی نا کہہ سکے ۔ اب ذرا بات تو کرے منہ نا توڑ دیا تو مجھ پر ہی لعنت ہو "
وہ دل ہی دل میں کڑتے ہوے اسے صلواتیں سنا رہی تھی ۔فہد کو انگلینڈ سے اپنے وکیل کا فون آیا تھا ۔ وہ آجکل اپنی ماں کی جائیداد کے کاغذات بنوا رہا تھا ۔اسے یہ جائیداد بیچ کر اس کی رقم پاکستان میں کسی یتیم خانے یا این۔جی۔او کو دینا تھی ۔وہ یہ کام اپنی ماں کے ایصال ثواب کے لیے کرنا چاہتا تھا ۔ اور آدھی رقم اسے خود اپنا گھر لینے کے لیے چاہیے تھی ۔وہ اپنی پوسٹنگ کے فورا بعد ایک نیا گھر لینے کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔وہ سب سے معذرت کرتا فون سننے کے لیے باہر چلا گیا ۔
نور ۔۔۔!!!
اسما بیگم کی آواز پر نور اٹھ کر کچن کی طرف چلی آئی ۔ جہاں اسما بیگم ملازمہ کے ساتھ مل کر چائے اور دیگر لوازمات ٹرولی میں سیٹ کر رہی تھیں ۔
"جی میری پیاری سے خالہ جانی ۔۔۔؟؟؟ فرمائیں ؟"
نور نے لاڈ سے ان کے گلے میں بانہیں ڈالیں ۔
"خیر ہے ؟ بڑا پیار آرہا ہے تمہے مجھ پر ؟"
"ہی ۔۔۔ہی خالہ آپ بھی نا ؟ "
اسما بیگم نے مشکوک انداز میں اسے گھورا جو ان کے گھورنے پر آنکھیں گھما رہی تھی ۔
"کیا چاہیے ؟"
نور دو منٹ خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی ۔پھر کھسیا کر بولی ۔
""یہ ہوئی نا بات آپ کتنی اچھی ۔۔۔اصلی والی خالہ ہیں جو بغیر کہے سب جان جاتی ہیں "
وہ دانت نکوستے ہوے بولی ۔
اس کے اصلی کہنے پر اسما بیگم نے اسے گھورا ۔
"اصلی کیوں ؟؟ تمہے میں چین کا مال لگتی ھوں ؟خیر ۔۔مقصد بتاؤ اپنا ؟؟؟"
وہ سر جھٹک کر بولیں ۔
"مجھے نا خالہ جانی آپ کا موبائل چاہیے ۔ میں نے تصویریں بنانی ہیں اور میرے موبائل کی میموری فل ہو گئی ہے "
اس کی بات پر اسما بیگم کا منہ کھلا ۔
"یا اللّه ۔۔۔!!! لڑکی ۔۔ آئی فون کی میموری سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔اور تم کہہ رہی ہو تمہارے آئی فون کی میموری ختم ہو گئی ۔۔؟ وضاحت دو کہ ایک سو ساٹھ جی بی کہاں گئی؟ کیسے گئی ؟"
اشارے سے انہوں نے ملازمہ کو چائے لے جانے کا کہا ۔
"خالہ جانی ۔۔اب دیکھیں ۔۔ایک تو ہو گئی کینڈی کرش ۔ٹھیک ہے نا ۔؟ باقی میرا انسٹاگرام ،فیس بک ،ٹویٹر ،واٹسپ ، یو ٹیوب ،پب جی ، میرے ھر ایونٹ کی تصاویر جن کی میموری کل چوبیس جی بی ہے ۔۔بس ۔۔"
بس کہنے پر اسما بیگم کی آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہ گئی ۔
"ہممممم ۔۔۔ٹھیک ہے اور باقی ؟"
"باقی میرے ناولز "
وہ دانت نکالتے ہوے بولی ۔
"استغفراللّه "
وہ بڑبڑائیں ۔
"لے لینا فلحال مالی بابا کو کھانا دے آو ۔ شرفو ،رضیہ اور بچے تو کھا چکے ہیں "
مالی بابا پچھلے دس سالوں سے انہی کے ہاں سرونٹ کواٹر میں اپنے پورے خاندان کے ساتھ رہ رہے تھے ۔خاندان تھا ہی کتنا صرف پانچ لوگ تھے ۔مالی بابا کا نام تو دین محمّد تھا مگر سب شروع سے انھیں مالی بابا ہی کہتے تھے ۔ ان کی بیوی کو مرے تو بارہ سال گزر گئے تھے ۔ ایک بیٹا شرفو تھا جسے سب شرفو کاکا کہتے تھے وہ گیٹ کیپر تھا اور بہو رضیہ تھی جو انہی کے ہاں کام کرتی تھی ۔ شرفو اور رضیہ کے دو بچے تھے ۔ عید پر شرفو ،رضیہ اور بچوں کو ان کے ننھیال لے جاتا تو مالی بابا کے کھانے پلانے کی ساری ذمہ داری انہی کی ہوتی تھی ۔نور مالی بابا کے کھانے کی ٹرے لیے سرونٹ کواٹر کی طرف چلی آئی ۔سامنے ہی چارپائی پر مالی بابا لیٹے ہوے تھے ۔
"سلام مالی بابا "
"وعلیکم السلام ۔۔۔ آو دھی رانی "
"یہ رہا آپ کا کھانا "
نور نے ان کے سامنے ٹرے رکھی ۔
"پتر پاکستان میں تیری پہلی عید تھی ۔کیسی گزری ؟"
مالی بابا اٹھ کر ایک کونے میں لگے بیسن سے ہاتھ دھونے لگے ۔
"اچھی گزری بابا جی "
وہ چارپائی پر ہی بیٹھ گئی ۔اسے ہمیشہ ان سے باتیں کر کے اچھا لگتا تھا ۔
"ماشاء اللّه ۔۔"
وہ دھیرے سے بولے پھر کھانا کھانے لگے ۔
"آپ کی عید کیسی گزری ؟"
"الحمدلللہ پتر اچھی گزر گئی ۔۔۔ اب کیا عید پتر کیا وہ جوانی والی موجیں ؟ اب تو بس دن گن رہا ھوں زندگی کے ۔ عید تو جوانی میں ہوتی تھی جب زوہرا زندہ تھی ۔ ہائے چلی ۔۔۔بڑا پیار کرتی تھی مجھ سے "
وہ گہرا سانس بھر کر بولے ۔ جھریوں زدہ چہرے پر بھی اپنی شریک حیات کو یاد کر کے مسکراہٹ پھیلی تھی ۔
"تو آپ نہیں کرتے تھے ان سے پیار ؟"
"پتر میں پیار سے زیادہ اس کی عزت کرتا تھا ۔ مجھے وہ بڑی پیاری تھی ۔کاش رب سے تھوڑی اور عمر لکھوا کر آئی ہوتی ۔ اس عمرے بیٹھ کر ہم باتیں کرتے ۔۔۔ مگر رب کے فیصلے وہی جانے "
آنکھوں میں مسکراہٹ کے دیے بجھے تو نمی تیرنے لگی ۔
"آپ اداس ہو رہے ہیں بابا جی ؟"
"نہیں پتر ۔۔۔ بلکل نہیں ۔۔۔ میں راضی ھوں رب کی رضا پر ۔۔اور پتر بندہ سیکھ لے نا رب کی رضا پر راضی ہونا پھر وہ رب اسے بڑے بڑے غم برداشت کرنے کا حوصلہ وی دے دیتا ہے "
"کیا بات ہے بابا جی بڑی اچھی باتیں کرتے ہو آپ ۔۔۔ کبھی ناول لکھنے کا ارادہ بنا تو ساری ایسی باتیں آپ سے ہی پوچھ کر لکھوں گی "
"ہاہاہا ۔۔"
اس کی بات پر بابا ہنسنے لگے ۔
"خیر آپ کھانا کھائیں ۔شب بخیر "
"جیتی رہ بیٹا خوش رہ سدا "
"آمین "
وہ مسکرا کر کہتی باہر چلی آئی ۔ سامنے کچھ دور فہد گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جھکا کچھ نکال رہا تھا ۔ وہ اسے سرونٹ کواٹر میں جاتا دیکھ چکا تھا ۔ اندھیرے کے باعث وہ دیکھ نا پائی کہ فہد کے ہاتھوں میں کیا تھا ۔ جس جگہ وہ کھڑی تھی وہ مین گیٹ سے کچھ فاصلے پر تھی اور پورے گھر کی نسبت وہاں روشنی کم تھی ۔ فہد ارد گرد دیکھتا اسی کی طرف چلا آیا ۔
"یہاں کیا کر رہی تھی ؟"
فہد کا پہلا سوال ۔نور نے آنکھیں گھمائیں ۔
"خشک بندہ "
دل میں ہی لقب دیا ۔
"تمہے اس سے کیا ؟؟ کام سے آئی تھی "
وہ ناک سکوڑ کر بولی ۔
"لعنت ہے مجھ پر "
وہ دل ہی دل میں بولی ۔ فہد نے گہری سانس لی ۔
"ناراض ہو ؟"
نور لاتعلقی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔فہد کے سوال پر نظروں کا زاویہ اس کی طرف موڑا ۔
"نہیں ہونا چاہیے ؟ بندہ ایک میسج ہی کر دیتا ہے ۔عید مبارک تک نہی کہا تم نے مجھے "
وہ غصے سے بولی ۔
"بندہ میسج چیک کر لیتا ہے "
فہد نے اپنے موبائل پر واٹسپ کھول کر اسے موبائل پکڑایا ۔سامنے ہی فہد کی اور اس کی چیٹ تھی ۔ اس نے نور کا نمبر اپنے موبائل میں "مائن " لکھ کر سیو کیا تھا ۔نور نے اس پر ایک ابرو اچکا کر فہد کو دیکھا ۔مگر فہد تو آرام سے ادھر ادھر دیکھنے میں مگن تھا جیسے پتا نہیں باز کی نظر اس کے پاس ہے کہ اندھیرے میں بھی سب دیکھ لے گا ۔آخری میسج رات بارہ بج کے دس منٹ کا تھا ۔جس میں فہد نے اسے عید مبارک وش کیا ہوا تھا ۔ نور نے موبائل اسے واپس پکڑایا ۔
"واٹسپ نہیں چلایا تھا آج میں نے "
وہ ادھر ادھر دیکھ کر شرمندگی دور کر رہی تھی ۔
"کوئی بات نہیں ۔تمہارے لیے کچھ ہے میرے پاس "
"کیا ہے ؟ جلدی دو پلیز "
نور خوشی سے چیخ مارتے ہوے بولی ۔
"آہستہ یار "
فہد نے اسے آنکھیں دکھائیں مگر وہ نور ہی کیا جس پر اس کا اثر ہو جائے ۔
"جلدی گفٹ دو مجھ سے صبر نہیں ہو رہا ۔"
"ہاں دکھ رہا ہے "
اس کے بےصبرے انداز کو دیکھ کر فہد نے وہ گفٹ پیک اس کے سامنے کیا ۔
"میں اس کے لیے شکریہ بلکل نہیں کہوں گی "
وہ اٹھلائی ۔ اور اسے آنکھ ماری ۔
"میں سنوں گا بھی نہیں"
وہ ہنس کر کہتا اندر جانے لگا پھر کچھ یاد آنے پر مڑا ۔
"سنو ۔۔۔ میرا مان رکھنے کے لیے شکریہ ۔ یہ مہندی تمہارے ہاتھوں پر بہت سجی ہے "
وہ مسکرایا ۔
"میں بھی شکریہ نہیں سنوں گی "
نور نے ہنس کر کہتے ہوے فہد کے گال پر چٹکی بھری ۔
"اوو ۔۔۔میرا باگڑ بلا "
فہد نے حیرت کی زیادتی سے کھلا اپنا منہ بند کیا ۔
"پہلے تندوری چکن ، پھر مسٹر ٹشو ،پھر پردے والا ، اور اب باگڑ بلا "
اس نے مسکرا کر اپنے بالوں میں ہاتھ چلایا ۔
" تم کیا چیز ہو یار "
وہ بڑبڑایا ۔
"میں چیز بڑی ھوں مست مست "
نور زبان نکال کر کہتی گفٹ ڈوبٹے تلے چھپائے یہ جا اور وہ جا ۔
"یا اللّه مستقبل قریب میں میرا کیا ہو گا ؟"
وہ آسمان کی طرف دیکھ کر بڑبڑایا ۔
۔۔۔۔***********۔۔۔۔
آج اتوار تھا ۔ آج شام آریان اور فہد کو واپس جانا تھا ۔ اب کی بار واپسی پر ان کی ٹریننگ مکمل ہو جانا تھی ۔بلکہ اب کی بار ان کی پوسٹنگ بھی ہو جانا تھی ۔ "بخت ولا " میں نوکر اپنے معمول کے مطابق اپنا اپنا کام کرنے میں مصروف تھے ۔مگر کچھ تو تھا جو معمول کے مطابق نہیں تھا ۔ ۔ بخت قریشی فون کان کو لگائے اپنے کمرے میں ادھر ادھر اضطرابی حالت میں چکر لگا رہا تھا ۔
"وہ ایسا کیسے کر سکتا ہے ؟ ۔۔گالی ۔۔۔""خبر پکی ہے نا ؟ کیا ؟؟؟؟؟؟؟"
بخت قریشی نے الماری سے وائن کی بوتل نکالی اور سائیڈ پر پڑے گلاس میں اسے انڈیلا ۔ اب وہ چلتے چلتے گھونٹ ،گھونٹ وائن حلق میں اتار رہا تھا ۔
" وہ جائیداد میری ہے ۔۔۔ آفٹر آل وہ اس باسٹرڈ کی ماں بعد میں میری بیوی پہلے تھی اور اس کی موت کا افسوس مجھے بھی تھا ۔۔ ہاہاہاہا "
بات کے آخر میں اس نے بےڈھنگے انداز میں قہقہہ لگایا ۔
"پر آپ اتنی دولت کا کیا کریں گے ؟"
اس کے مخبر نے تجسس سے پوچھا ۔
"میں بہت دولت مند بننا چاہتا ھوں سب سے امیر ۔۔اتنا امیر کہ سب میرے سامنے چیونٹیاں لگیں ۔ اور یہی میرا مقصد ہے اور میرے مقصد کی راہ میں کوئی بھی آیا میں اسے اپنے راستے سے ہٹا دوں گا۔ سہیل اور فرحان مجھ سے بزنس علیحدہ کر کے سوچتے ہیں جیسے میں فقیر ہو جاؤں گا ان کے بغیر ۔۔ہاہاہاہا ۔میرے مقصد کی راہ میں آنے والا مارا جائے گا ۔ وہ چاہے میرا سگا بیٹا ہو یا بیٹی ۔ ۔۔۔ میں سب سے امیر ہونا چاہتا ھوں ۔۔۔۔یو بلڈی باسٹرڈ تم ہوتے کون ہو مجھ سے پوچھنے والے "
بخت قریشی نشے میں آکر سب بولتا گیا پھر ایک دم غصے میں آکر چیخا اور فون زمین پر دے مارا ۔ فون کی سکرین چکنا چور ہو گئی ۔ اس سے اب تک یہ ہضم نہیں ہو رہا تھا کہ فہد اس جائیداد تک پہنچ چکا ہے ۔کئی بار اس نے بہانے سے کاغذ سائن کرانے چاہے مگر ھر بار قسمت فہد کا ساتھ دے دیتی ۔ اب اسے جلد از جلد کچھ کرنا تھا ۔غصہ دماغ پر حاوی ہونے لگا تھا ۔کچھ نشے کا اثر تھا ۔ اس وقت بخت قریشی ساری پریشانیوں کو پس پشت ڈالنا چاہتا تھا ۔اس نے سائیڈ پر پڑا اپنا دوسرا موبائل اٹھایا ۔
" نگہت میں آرہا ھوں ۔مجھے آج تمہارے کوٹھے کی سب سے حسین اور کم عمر لڑکی چاہیے ۔پیسے تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائیں گے "
کال کاٹنے کے بعد وہ اپنی گاڑی لیے چلا گیا ۔ معمولی نشے بخت قریشی کو کچھ نہیں کہتے تھے ۔ اب بھی وہ آرام سے ڈرائیونگ کرتا اپنی آخرت برباد کرنے چلا آیا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔.
فہد جانے سے پہلے بینش سے بات کرنا چاہتا تھا ۔اس لیے وہ تیار ہو کر اسی کے کمرے میں چلا آیا ۔ناک کرنے کے بعد بھی کوئی جواب نا آیا تو وہ پریشان ہو کر یونہی اندر چلا آیا ۔بینش سر جھکائے بیڈ پر گم سم بیٹھی تھی ۔ سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا ۔وہ ناجانے کس چیز کو بڑے غور سے دیکھ رہی تھی ۔فہد کو تجسس ہوا ۔وہ بیڈ کی دوسری طرف سے آیا ۔اس سے پہلے بینش لیپ ٹاپ بند کرتی فہد اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک چکا تھا ۔ بینش نے آنکھیں زور سے میچ لیں اور سر جھکا کر بیٹھ گئی ۔ سکرین سامنے تھی جس پر دانیال کی کوئی تصویر تھی ۔ فہد کا شک یقین میں بدل گیا ۔اس نے گہری سانس لی ۔ اس معاملے کو نرمی سے سمبھالنا تھا کیوں کہ اب معاملا دل کا تھا ۔
"بھائی ۔۔وہ ۔۔میں بس ایسے ۔۔۔"
فہد نے بینش کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی ۔
"کب سے محبت کرتی ہو ؟"
فہد نے ہی تو اسے پالا تھا ۔بینش کی ماں اس کا سب کچھ فہد ہی تو تھا ۔اسے بھی کچھ نا بتاتی تو کہاں جاتی ۔بینش سر جھکا گئی پھر آہستہ آواز میں بولنے لگی ۔
"شاید پہلے دن سے ہی ۔۔۔ دو سال پہلے سے ۔یونیورسٹی شروع کرنے سے چار ماہ پہلے میں نے اسے ایک شاپنگ مال میں دیکھا تھا ۔وہ کسی بات پر ہنس رہا تھا اور مجھے لگا میں نے اس سے زیادہ خوبصورت لڑکا اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا ۔ مجھے اپنا آپ اس کے ڈمپل میں ڈوبتا محسوس ہوا ۔ وہ یوں ہوا کے جھونکے کی طرح میرے برابر سے گزرا مگر اس کی خوشبو میرے چار سو پھیل گئی ۔مجھے یوں لگا جیسے میں جی اٹھی ھوں ۔ کسی نے اس کا نام لیا تو مجھے بس اتنا ہی معلوم ہو سکا کہ اس کا نام دانیال ہے ۔آگے ،پیچھے کیا ہے میں نہیں جانتی تھی ۔اسی دن میں نے اس کی آئی ڈی ڈھونڈی اور مجھے وہ مل گئی ۔میں یوں خوش ہوئی جیسے مجھے خزانہ مل گیا ہو ۔ پھر وہ کہیں بھی جاتا تو اپنی ٹائم لائن میں مینشن کرتا ۔میں بھی فورا اس جگہ پہنچ جاتی ۔اسے دیکھنا ،اس کی باتیں اور اس کی ہنسی دیکھنا میرا معمول بن گیا ۔میرا غرور کہیں جا سویا ۔ختم نہیں ہوا بھائی کیوں کہ یہ ہمیشہ میری ذات کا حصہ رہا ہے ۔ غرور تو اب جا کر مٹی میں ملا ہے بھائی ۔ پھر چار ماہ بعد میں نے اسی یونیورسٹی میں ایڈمشن لیا جہاں وہ لینے والا تھا ۔ ۔ ورنہ میرا ارادہ باہر ملک جانے کا تھا ۔ میں کبھی بزنس جیسا سبجیکٹ نا پڑھتی مگر وہ پڑھ رہا تھا میرے لیے یہی کافی تھا ۔۔پھر یونیورسٹی کے پہلے دن وہ آکر مجھ سے ہی پتہ پوچھنے لگا ۔ مجھے لگا جیسے مجھے کنارہ مل گیا ۔ میں بے تکلف بھی ہوئی مگر وہاں فلک آگئی ۔۔۔ نہیں وہ تو ہمیشہ وہیں تھی ۔ہمیشہ سے اپنی جگہ میں ان کے بیچ آگئی ۔وہ تو محبت کرتے تھے ایک دوسرے سے ۔بس میں انجان رہی ۔ اور پھر میری محبت مجھے لیے عشق کا سفر طے کرنے نکل پڑی ۔ سوائے دکھ ،اذیت کے مجھے کچھ نہیں ملا ۔میرا دامن زخموں سے چور ہے ۔۔ یہاں اس دل میں درد ہوتا ہے انھے ساتھ دیکھ کر ۔۔۔ہنن ۔۔دونوں بہت چاھتے ہیں ایک دوسرے کو ۔۔مگر میں کیا کروں ؟؟؟ میں بھی تو بہت چاہتی ھوں اسے ۔ دیوانگی کی حد تک ۔۔ اس کی خوشی میں خوش ہو کر صبر کیے بیٹھی ھوں ۔مگر میرے اس دل میں طوفان چل رہے ہیں میری دھڑکنیں طوفان کی زد میں ہیں ۔میں جب انھیں ایک ساتھ دیکھتی ھوں تو مجھے لگتا ہے کہ اب میرے جینے کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔"
فہد بس حیران سا اس کی دیوانگی کو دیکھ رہا تھا ۔وہ تو سمجھا تھا ابھی آغاز محبت ہے وہ اپنی بہن کو کھینچ لائے گا اس سفر سے واپس مگر وہ تو ایک لاحاصل سفر پر نکلی تھی ۔ اس کی دیوانگی دیکھ کر فہد کو خوف محسوس ہوا ۔
"تم لاحاصل کے پیچھے دھوڑ رہی ہو "
"جانتی ھوں "
وہ انگلی سے بیڈ شیٹ پر ڈیزائن بنا رہی تھی ۔ مسلسل گول ،گول گھومتے دائرے تھے ۔ ارد گرد سے رنگ برنگے اور بیچ میں آکر وہ سیاہ ہو جاتے تھے ۔بیچ میں سیاہ رنگ ایک گہرے کنویں سا لگ رہا تھا ۔ وہ انگلی اس پیٹرن پر گھما رہی تھی ۔ھر رنگ کے ختم ہونے کے بعد دائرہ مزید چھوٹا ہو جاتا ۔
"پھر بھی ۔۔؟؟ اس سفر پر نکل آئی ۔تمہاری دیوانگی مجھے خوف زدہ کر رہی ہے ۔مجھے تمہاری اس دیوانگی سے خوف محسوس ہو رہا ہے "
"مجھے خود کو بھی میری دیوانگی ڈراتی ہے "
دائرہ مزید تنگ ہو رہا تھا ۔فہد کی نظریں بھی اس کی انگلی کے ساتھ حرکت کر رہی تھی ۔ اس سے پہلے کے وہ گہرے سیاہ رنگ کا کنواں آتا فہد نے سرعت سے اس کا ہاتھ تھامہ ۔
"میں تمہے ڈوبنے نہیں دوں گا بینش ۔۔۔ میں تمہے یہ سیاہ کنواں نہیں بنانے دوں گا ۔ تم تاریکی کی نہیں اجالوں کی حق دار ہو ۔۔۔ ہوش کرو ۔۔۔تم بینش قریشی ہو فلک آفندی نہیں ۔ حاسد نا بنو ۔ کسی کی محبت کو نا نظر لگاؤ ۔۔۔اپنے بھائی کا مان رکھ لو ۔اس تاریک راستے سے پلٹ آو ۔ اس جذبے کو سر پر سوار نا کرو ۔وہ کسی اور کا ہے ۔ خود کو اس کے سامنے بے مول مت کرو ۔ خدارا ۔!!! "
وہ التجائیہ انداز میں بول رہا تھا ۔بینش کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔
"بھائی ۔۔۔آپ مجھے موت کا مرثیہ سنا رہے ہیں ۔۔۔"
"نہیں میں تمہے بے موت مرنے سے بچا رہا ھوں "
"یہ موت ہے بھائی ۔۔اس کی یادوں سے نکلنا ۔۔۔اسے بھولنا ۔۔۔اس کی باتیں چھوڑنا ۔۔یہ موت ہے "
وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی ۔
"نہیں بینش لا حاصل کے پیچھے نا دھوڑو ۔یہ ریت کی طرح تمہاری مٹھی سے پھسلتا جائے گا ۔تہی دامن رہو گی ۔لوٹ آو ۔"
"واپسی ہی تو ممکن نہیں ہے "
"اس سے محبت کرتی ہو ؟ "
"ہاں "
"اس کی خوشی عزیز ہے ؟"
"ظاہر سی بات ہے ۔میرے لیے اس کی خوشی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے "
وہ الجھن بھرے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی ۔آخر فہد اسے کہنا کیا چاہ رہا تھا ۔
"اور دانیال شاہزیب کی خوشی کیا ہے ؟کون ہے ؟"
"فلک "
سرسراتی آواز اس کے ہونٹوں سے نکلی ۔
"تو مت چھینو اس سے اس کی خوشی "
"بھائی "
وہ اس کے گلے لگے ہیچکیوں سے رو رہی تھی ۔۔۔۔
"بھائی ۔۔بینش مر جائے گی "
"بینش اس راہ پر چل کر بھی مر جائے گی "
وہ اس کا سر تھپتھپا رہا تھا ۔آہستہ آہستہ ۔۔۔ وہ اپنی بہن کو اندھیری راہوں کا مسافر نہیں بننے دینا چاہتا تھا ۔
"رو لو ۔۔۔دو تین دن مزید رو لو ۔۔۔ لیکن جس دن مجھے فون کرو اس دن دو سال پہلے والی بینش بن کر فون کرنا ۔"
"خدا حافظ "
وہ اس کا سر تھپک کر اٹھا اور ایک نظر اسے دیکھتا چلا گیا اور پیچھے بینش منہ پر ہاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبا رہی تھی ۔ کمرے کے دروازے کے باہر کھڑے فہد کے دل نے اس پل شدت سے دعا کی ۔
"اللّه میری بہن کو ہمت و صبر دے "
۔۔۔۔۔۔۔۔_۔۔۔__۔۔۔۔_۔۔
آریان اور فہد کو گئے ایک ماہ گزر گیا تھا ۔اگلے دو دن بعد ان دونوں کی پوسٹنگ ہو جانا تھی ۔ دونوں نے ہی سی۔ایس۔ایس کرنے کے بعد محکمہ پولیس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ قوی امکان تھے کہ ان کی پوسٹنگ بھی لاہور میں ہوتی ۔ کیوں کہ اس بارے میں وہ دونوں پہلے ہی سے بات کر چکے تھے ۔ عالیہ اور صارم کے ہاں "صائم آفندی " کی آمد ہو چکی تھی ۔گول مٹول سے اس بچے میں سب کی جان تھی ۔۔۔ یہ گھر کا پہلا بچہ تھا ۔۔۔اور ھر طرف سے محبتیں سمیٹ رہا تھا ۔ سب سے زیادہ تو دانیال خوشی سے پاگل تھا ۔ اس نے پہلی بار اپنے پیسے دل کھول کر خرچ کیے تھے اور اب تو روز کبھی اس کے لیے کوئی کھلونا ،کبھی پھول ،کبھی ٹافی اور چاکلیٹ ۔۔۔غرض جو ملتا اٹھا لاتا تھا سارا دن تو صائم کے ساتھ کھیلتا ہی کھیلتا تھا رات کو بھی بخشتا نا تھا ۔آدھی رات کو اسے زبردستی کھینچ کر لانا پڑتا تھا کہ اب تو بس کر جاؤ ۔ دوسری طرف ان چاروں کا فائنل سمیسٹر بھی اگلے ماہ ختم ہونے والا تھا ۔ بینش نے اب تک فہد سے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا ۔ دوسری طرف بھی خاموشی ہی چھائی ہوئی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
سورج کی کرنیں صبح سے بادلوں کے ساتھ چھپن چھپائی کھیل رہی تھیں ۔۔۔ کبھی دو پل کے لیے سورج چھپ جاتا تو کبھی ایک لمحے بعد ہی نکل کر بادلوں کو منہ چڑھاتا ۔۔۔ قوی امکان تھا کہ شاید بارش بھی ہو جائے ۔ سورج کی نارنجی کرنیں اب کی بار ایسا چھپیں کہ بادل فتح یابی سے مسکرا دیے ۔ ۔ ۔ موقع دیکھ کر ایک دم ہی برسنے لگے ۔ لاہور کی سڑکیں دھل سی گئیں ۔ چمن میں پھول،کلیاں جھوم اٹھے ۔
"بخت ولا " میں زندگی کی رمق رتی برابر نظر نہیں آرہی تھی ۔ بائیں طرف سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر دائیں کمرے کی طرف جائیں تو بینش بیڈ پر بیٹھی ہے ۔اس نے نماز کے سٹائل سے ڈوبٹہ باندھ رکھا تھا ۔ وہ عقیدت سے جھکی بیٹھی کلام رب کو پڑھ رہی تھی۔ ھر حرف پڑھنے کے ساتھ ساتھ دل میں اطمینان سا اتر رہا تھا ۔سورت یوسف کی ایک آیت پر آکر وہ رک سی گئی اور اسی کے ساتھ اس کا دل بھی رکا ۔
"بے شک نفس زیادہ برائی کی طرف حکم کرنے والا ہے "
اس نے گہرا سانس لیتے ہوے وہ آیت ادھوری چھوڑی اور قرآن ایک طرف یونہی بند کر کے رکھا ۔پھر سر بیڈ کی پشت سے ٹکا دیا ۔
اِنّٙ النّٙفسٙ لٙاٙ مّٙارٙةُ بِالسُّوُءِ۔ ۔۔۔۔
"بے شک ۔۔نفس زیادہ برائی کی طرف حکم کرنے والا ہے "
"بیشک ۔۔۔۔نفس ۔۔۔"
"برائی کی طرف "
"زیادہ برائی کی طرف "
ھر لفظ بار بار ذہن میں گردش کرنے لگا ۔چپکے سے دو آنسو ٹوٹ کر اس کے گال پر بہہ گئے ۔پھر بلا آخر گر گئے ۔۔وہ آنسو بے مول ہرگز نہیں ہوے تھے کیوں کہ وہ تو پچھتاوے کے آنسو تھے ۔
نفس ۔۔۔۔نفس اور نفس ۔۔۔!!!!
نفس صرف برائی کی طرف حکم نہیں دیتا ۔۔لیکن زیادہ برائی کی طرف ہی حکم دیتا ہے ۔۔۔ لیکن کچھ لوگوں کا نفس انھیں اچھے راستے کی طرف بھی موڑتا ہے مگر یہ لوگ وہی ہیں جن کو اپنے نفس کی ناجائز خواہشوں کو رب کے تابع کرنا آتا ہے ۔ پھر وہ فلاح ہی فلاح پاتے ہیں ۔
"تو کیا میرا نفس بہت کمزور ہے ؟ "
وہ دل ہی دل میں خود سے سوال و جواب کر رہی تھی ۔وہی سوال و جواب جو پچھلے ایک مہینے سے چل رہے تھے ۔۔۔ دنیا کے سامنے خاص کر اس ستمگر کے سامنے خود کو کیسے سمجھا سمجھا کر رکھنا اور ادا کاری کرنا ۔۔یہ اس ایک مہینے میں بینش کو خوب کرنا آگئی تھی ۔۔۔۔ ہم انسانوں کے سامنے تو ادا کاری کر سکتے ہیں لیکن رب کے سامنے نہیں ۔انسانوں کے سامنے خوش رہ سکتے ہے دکھ چھپا کر مسکرا سکتے ہیں ۔مگر رب ان آنسووں کو نکلنے کا بھی راستہ دیتا ہے بس ایک سجدے کی دیر ہے ۔۔۔!!!
"میرے نفس نے دو مہینے پہلے مجھے مجبور کیا کہ میں فلک کو تباہ کر دوں مگر پھر میں رک گئی ۔۔۔۔ جانے کیوں ؟؟؟ شاید ۔۔۔!!! اللّه میرے ساتھ ہیں ۔۔۔ہاں وہی تو میرے ساتھ ہیں ۔ھر وقت ۔ھر لمحے ۔۔انہوں نے میرا دل بدل دیا ۔جیسے اب دانیال کسی گزری ہوئی یاد کی طرح میرے دل سے مٹ رہا ہے ؟ آہستہ آہستہ ۔۔۔!!! ہاں ۔۔وہ مجھے بھولنے لگا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ اب میں اتنا روتی نہیں ۔۔۔ اب دل بھی ویسے نہیں دھڑکتا ۔ ۔۔ رب نے مجھے صبر دے دیا ہے ۔ قرآن میں ہی پڑھی ایک اور بات اسے یاد آئی ۔
"بے شک اللّه صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے "
ہاں مجھے میرے اس صبر کا پھل جلد ہی مل جائے گا ۔بس تھوڑی سی فیزیوتھراپی اور رہ گئی ہے ۔
مسکرا کر اطمینان سے اس نے قرآن کھولا ۔نجانے کیوں جی چاہا وہ آیت دوبارہ پڑھے۔دل کی آواز پر اس نے لبیک کہا اور اب کی بار پوری آیت پڑھی ۔تشکر کے دو آنسو ٹوٹ کر گرے اور پھر وہ مسکرا دی ۔
"بے شک نفس زیادہ برائی کی طرف حکم کرنے والا ہے مگر جب کہ میرا رب رحم فرما دے "
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
وہ خود اپنی کایا پلٹنے پر حیران تھی ۔کل کی بات تھی وہ کیا تھی اور آج ؟؟؟کل اگر وہ ایک بولڈ ،منہ پھٹ اور دوسروں کا بھلا چاہنے والی تھی اور آج وہ ایک کم گو ، اور نرم دل رکھنے والی بن گئی تھی ۔کیا انسان اتنی جلدی بدل جاتے ہیں ؟ شاید ہاں اور نہیں بھی ؟ شاید وہ اس راستے پر آئی ہی اس لیے تھی کہ اس کو ہدایات یونہی ملنا لکھی تھی ۔ نا محرموں کی محبتیں بس باعث تکلیف بنتی ہیں ۔۔۔اور رب کی محبت باعث سکون بنتی ہے ۔۔یہ بات بینش بخت قریشی ان گزرے چند دنوں میں جان گئی تھی کہ رب کے ذکر میں ہی دلوں کا اطمینان ہے ۔
قرآن کو واپس اس کی جگہ پر عقیدت سے رکھنے کے بعد وہ اٹھی اور کھڑکھی کی طرف چلی آئی ۔پھر پردے ہٹا کے نیچے لان دیکھنے لگی ۔بارش کے بعد ھر شے دھل کر نکھر گئی تھی ۔ مالی ایک دو پودوں کو ہلا کر دیکھ رہا تھا شاید وہ بارش کی تیز بوچھاڑ میں ٹوٹ گئے تھے ۔ بارش کو رکے اب چند گھنٹے گزر چکے تھے مالی کو اپنے کام سے محبت تھی ۔۔۔ سو وہ ان پودوں کو نکال کر غالباً نئے بیچ بو رہا تھا ۔ بینش نیچے لان میں چلی آئی ۔
"کیا کر رہے ہیں بابا جی ؟"
"بٹیا یہ ذرا بیچ بو رہا تھا ۔دو پودے ٹوٹ گئے ہیں ابھی مٹی زرخیز ہے نا دل لگا کر اگیں گے ۔ محبت کے ساتھ، لگن کے ساتھ "
"لیکن بیچ اور محبت کا کیا تعلق ؟"
وہ حیران تھی ۔ بھلا بیچ بھی محبت کرنے لگے ہیں کیا ؟ اور وہ کیا کرتے ہیں پھر ۔۔۔؟۔اسے تجسس ہوا ۔
"زر خیز زمین میں بیچ کی نشونما اور زرخیز دل میں محبت کی نشونما ہوتی ہے ۔۔۔ بیچ کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور محبت بھی آنسووں کی بارش مانگتی ہے ۔ بیچ کو گرمی کو ضرورت ہوتی ہے محبت بھی آتش ہجر و دل و جگر سے گرمی حاصل کرتی ہے ۔ بیچ کو زمین میں چھپاؤ ایک دن ظاہر ہو ہی جاتا ہے ۔محبت کو بھی لاکھ چھپاؤ نہیں چھپتی ۔ سمجھی ؟ محبت دل کا سکون ہے کسی ایک کے لیے ختم ہو جائے تو کیا ؟ محبت کا کیا ہے پھر ہو جاتی ہے "
"نہیں ہوتی ۔محبت دوبارہ محبت بس ایک ہی شخص سے ہوتی ہے اور بس "
"ہو جاتی ہے محبت دوبارہ ۔۔۔عورت کا وجود رب نے محبت کی مٹی سے گوندا ہے اور شے چاہے جو بھی ہو اپنا اصل نہیں بھولتی ۔جو رب ایک بار کسی کی محبت ڈالتا ہے وہ دوبارہ بھی ڈال دیتا ہے "
"اور مرد ؟؟؟ اسے دوبارہ محبت نہیں ہوتی کیا؟ اور وفا داری کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا ؟"
"وفا داری کے بارے میں تو بس اتنا جانتا ھوں ۔۔۔کہ جانوروں سے زیادہ وفادار کوئی اور نہیں ہوتا ۔۔۔ باقی انسانوں کی بات کرو تو ۔۔۔میں تمہے اپنے مشاہدے سے جواب دوں گا ۔زندگی کی ساٹھ بہاریں گزار چکا ھوں اور یہی دیکھا ہے کہ انسان اسی سے وفا کرتا ہے جس سے جواباً اسے وفا کی امید ہو ۔۔۔پھر انسان سدا محبت کا بھوکا رہا ہے ۔۔۔۔ اور محبت تو ھر جگہ ہے ۔۔اس کائنات کے ھر ذرے میں محبت ہے ۔۔۔خالق نے ھر شے کو محبت سے تخلیق کیا ہے ۔۔۔ ڈھونڈو تو ھر شے میں محبت ہی محبت ہے ،محسوس کرو تو ھر رنگ میں محبت ہے ، غور کرو تو پرندوں کی ثنا اور حمد میں بھی محبت ہے ، موذن کی اذان میں بھی محبت ہے ، اس پوری دنیا میں ہی محبت ہے ،ھر پھول میں ،ھر خوشبو میں ،ھر پھل میں ، قاری کی تلاوت میں ، اور وہ محبت کس کے لیے ہے ؟؟؟؟ بس ایک ذات کے لیے ۔ ۔۔۔ جو ہمیشہ رہنے والی ہے ۔۔۔جو حقیقی محبت کے لائق ہے۔ جسے فنا نہیں ہے ، رب تعالیٰ کی محبت ۔۔۔۔ باقی تو دائمی ہیں ،محبتیں بھی۔ ،سہارے بھی اور انسان بھی ۔۔۔ انسان مٹ جائیں گے ،ختم ہو جائیں گے ، انسان کو فنا ہے ۔ انسان کی محبت کو فنا ہے ،رب کو نہیں ہے پتر ۔۔۔۔ انسان کی محبت رسوا کرتی ہے ،جگ ہنسائی کرواتی ہے ، لیکن رب کی محبت نہیں ۔۔رب کی محبت تو سرخرو کر دیتی ہے انسان کو ۔رب کی نظر میں بھی اور اللّه کی نظر میں بھی ۔محبت روح کی تسکین کا نام ہے ۔اگر وہ آپ کو تسکین نہیں دیتی تو وہ محبت کسی کام کی نہیں ہے ۔اگر وہ آپ کے لیے باعث دکھ ،اذیت اور ملال ہے تو اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہے ۔اس لاحاصل محبت کے پیچھے حاصل محبتوں کو گنوانا نہیں چاہیے ۔"
بینش نے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا تھا ۔۔۔ پھر بغیر مالی کی طرف دیکھے وہ اندر کی جانب دھوڑی ۔ بینش بخت لاحاصل کے پیچھے حاصل گنوانا نہیں چاہتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔
راولپنڈی کا موسم بھی آج خاصہ خوش گوار تھا صبح سے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں ۔
فہد جس لمحے کمرے میں آیا ، آریان پیکنگ میں مصروف تھا ۔ کل ان دونوں نے واپس لاہور جانا تھا ۔ارادہ سب کو سرپرائز دینے کا تھا انہوں نے کی کو بھی اطلاع نہیں دی تھی ۔ کمرے میں جابجا سامان پڑا تھا کیوں کہ پیکنگ بلاشبہ ایک تھکا دینے والا کام ہونے کے ساتھ ، ساتھ محنت طلب کام بھی ہوتا ہے کوئی چیز رہ نا جائے ،یا کوئی چیز دوسرے بیگ میں نا رکھ لی جائے اور وغیرہ وغیرہ ۔اس کمرے میں شروع دن سے وہ دونوں رہ رہے تھے جب سے ان کی ٹریننگ کا آغاز ہوا تھا ۔ کمرے میں دو سنگل بیڈ تھے دائیں جانب دروازہ تھا اور بائیں جانب کھڑکھی تھی جہاں سے ٹریننگ سینٹر کا عقبی حصہ نظر آتا تھا ۔ دوسری جانب ڈریسنگ اور باتھروم تھا ۔ غرض یہ کمرہ ھر لحاظ سے پرفیکٹ تھا ۔
"شہزادے فون بج بج کر تھک گیا تمہارا ۔کدھر تھے ؟""
"نہیں ذرا باہر کی ہوا کھانے گیا تھا ۔"
"کھا چکے ہو تو پیکنگ بھی کرو اور فون بھی سنو ۔۔۔ "
"پیکنگ کے لیے تو جو ہے میری جان کر دے شاباش ۔۔چل "
"ایک بار واپس چل تیرے سارے کس بل نکالوں گا میرے انڈر ہی ہے نا بچے ۔۔۔گن گن کر لوں گا بدلا "
آریان نے ڈی ۔ایس ۔پی کی پوسٹ سمبھالنے پر ترجیح دی تھی ۔مقامی تھانے کا ڈی ۔ایس ۔پی ریٹائر ہونے والا تھا ۔جب کہ فہد نے کہیں اور پوسٹنگ سے صاف منع کر دیا تھا ۔اب صرف ایک ہی آپشن تھا اور وہ یہ کہ کہ وہ اے۔ایس۔پی بن جائے ۔ کہیں اور پوسٹنگ کروانے سے بہتر یہی تھا کہ فہد ،آریان کے ماتحت ہی کام کر لے ۔۔ فہد نے گویا ناک سے مکھی اڑائی ۔
"چھپ کر کے پیکنگ کر "
وہ آریان کو حکم دیتا باہر کو چل دیا ۔شام کو ان دونوں نے شاپنگ کے لیے بھی تو جانا تھا ۔گھر میں سب کے لیے تحفے بھی لینے تھے ۔آریان دانت پیس کر رہ گیا ۔فہد دروازہ بند کرتا نیچے عقبی حصہ میں ہی چلا آیا ۔ ایک دفع پھر فون بجنے لگا ۔ فہد نے سکرین سامنے کی تو آنکھوں میں پہلے حیرانی ،پھر حیرت ابھری ۔
"میری بینش واپس آگئی ۔یا اللّه تیرا شکر ہے "
آسمان کی طرف مشکور نگاہ اٹھانے کے بعد اس نے کال اٹھائی ۔
"بھائی ۔۔۔"
"وعلیکم السلام "
فہد کی سنجیدہ آواز سپیکر سے ابھری ۔بینش نے زبان دانتوں تلے دبائی ۔
"السلام علیکم "
"وعلیکم السلام ۔۔"
سنجیدہ آواز فون سپیکر میں سنائی دی ۔
"بھائی آئی لو یو ۔۔۔ آئی لو یو سب سے زیادہ "
فہد ہنس دیا ۔بینش جب چھوٹی ہوتی تھی تو توتلی زبان میں اسے سارا دن ایسے ہی کہتی رہتی تھی ۔
"پر بھائی نہیں کرتا پیار تم سے "
"جانتی ھوں ۔۔کیوں کہ بھائی تو مجھ سے عشق کرتا ہے نا "
وہ کھلکھلائی ۔ فہد نے آنکھیں بند کیے دل سے اس آواز کو محسوس کیا ۔ آج اس کی آواز میں لڑکھڑاھٹ نہیں تھی نا ہنسی کھوکھلی تھی ۔
"بھائی ھر چیز کے لیے شکریہ "
"مجھے یاد کیا ؟"
فہد نے بات بدل دی ۔
"نہیں "
بینش نے بلکل سچ بولا تھا ۔ حالات ہی ایسے تھے کہ اسے اپنے ماتم کے سوا کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا تھا ۔
"ہاہاہا ۔۔بے مروت "
"لیکن اب کر رہی ھوں آپکو یاد ۔۔آپ کب آئیں گے ؟"
"ایک ماہ تک "
اب فہد نے جھوٹ بولا ۔وہ بہت خوش تھا ۔بہت زیادہ خوش ۔
"پلیز جلدی آئیں ۔۔۔۔ نا "
"سوچوں گا ۔۔۔ "
"ضرور سوچیے گا ۔۔۔ اب میں فون رکھتی ھوں ۔خدا حافظ "
"خیال رکھنا ۔خدا حافظ "
فون بند کرنے کے بعد فہد نے ایک بار پھر رب کا شکر ادا کیا تھا ۔اور وہاں بینش کے دل سے بہت بڑا بوجھ ہٹا تھا ۔ اب بس اسے مزید صبر مانگنا تھا ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
جب کوئی منتظر نا ہو تو پکارنا اچھا نہیں لگتا
یونہی خود کو کسی کے قدموں میں ڈالنا اچھا نہیں لگتا
میں بکھر جاتی ھوں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ،کرتے
وہ نظر بھر کر دیکھنے کا بھی روادار نہیں ہوتا
(ازقلم مریم )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔___۔۔۔۔۔۔____۔۔۔۔۔۔
آریان اور فہد کا اچانک آنا ، سب کے لیے باعث مسرت تھا ۔اور سب سے بڑی خوشی کی بات تو ان کی ایک ہی جگہ پوسٹنگ تھی ۔فہد کچھ دیر پہلے ہی گیا تھا ۔ فلک ،دانیال اور نور پہلے ہی گھر جا چکے تھے ۔امل لائبریری تھی ۔دو دن بعد فائنلز شروع ہونے والے تھے زیادہ وقت لائبریری میں گزرتا ۔اب بھی دانیال کو یہ کہہ کر بھیجا تھا کہ دو گھنٹے بعد لینے آجاے ۔وہ کہاں ۔اور وہاں گھر سب ایک ساتھ لاؤنج میں بیٹھے تھے ۔کچن سے طرح طرح کی خوشبویں امڈ امڈ کر باہر آرہی تھیں ۔ آریان صائم کو اپنی گود میں لیے بیٹھا تھا ۔برابر میں دانیال بیٹھا تھا ۔شاید رس کر کیوں کہ اس کا کہنا تھا کہ وہ واحد انسان ہے جو صائم پر حق رکھتا ہے (عجیب ہے ۔۔۔مگر وہ دانیال تھا اس سے کچھ بھی امید رکھی جا سکتی ہے ۔جو بچوں کے سنیکس چھین کر کھا لے اس کا کیا بھروسہ ؟)
"صائم میرے پرنس ۔۔میں تمہارا ماموں ھوں ۔۔ادھر دیکھو میری طرف ادھر نا دیکھو ادھر بندر بیٹھا ہے "
آریان کا اشارہ دانیال کی جانب تھا ۔صائم آریان کی گود میں بیٹھ کر بھی دانیال کو ہی دیکھ ،دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔
"دیکھ لے ۔۔۔۔ دیکھ لے ۔۔۔دیکھ لے "
"اب تو زیادہ فہد مصطفیٰ نا بن "
آریان نے اسے گھورا ۔
"صائم ۔۔۔ادھر دیکھو گندی چیزیں نہیں دیکھتے "
آریان کو نہیں پتا تھا کہ اس نے بھیڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ۔دانیال تو پہلے سے ہی بھرا بیٹھا تھا فورا سے پہلے صائم کو اٹھا کر عالیہ کو دیا اور اب دانیال اور آریان تھے اور پورے پانچ منٹ بعد لاؤنج کا نقشہ بدل گیا تھا ۔
"کمینہ ہے تو ۔۔۔میں تجھے اپنی بہن نہیں دوں گا "
"ہم بھی نہیں دیں گے "
آریان نے آنکھ میچی ۔دانیال تو تپ ہی گیا ۔سب ہنس ہنس کر بے حال ہو رہے تھے ۔
"ایک تو یہ وٹہ سٹہ ۔۔۔"
"جو کرنا ہے کر لو بھائی اب تو ہم اپنی بہن نہیں دیں گے "
آریان بھی اپنے نام کا ایک تھا ۔
"لے لینا میری بہن ویسے بھی وہ میرے کسی کام کی نہیں ہے ۔۔۔ مگر یہ ظلم نا کرنا "
وہاں سب کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
"مطلب پرست ۔۔۔دھوکے باز ۔۔۔ بہن کچھ نہیں لگتی تمہاری ؟؟"
آریان حیرانی سے بولا ۔
"اب بندہ ڈائلاگ بھی نہیں مار سکتا ابھی تم بیچ میں نا بولتے تو مجھے پورا یقین تھا میں ایکٹنگ میں شاہ رخ خان کو بھی پیچھے چھوڑنے والا تھا ۔سب نے اسے گھورا ۔۔دانیال کبھی سنجیدہ نہیں ہو سکتا یہ تو طے تھا ۔ مگر کون جانے ؟

جاری ہے ۔۔۔۔۔

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now