بے اعتباری کی گرد

3.5K 180 53
                                    

ماہی وے قسط 19
بقلم مریم ،علیشا
دن به دن موسم میں خنکی بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔ گرمیوں کو الوداع کرنے کے بعد برسات کا موسم بھی کب سے رخصت ہوچکا تھا ۔ شاہ زیب صاحب اب ریٹائرمنٹ لیے گھر آرام فرما رہے تھے ۔ آجکل وہ ،سہیل اور فرحان صاحب کے ہمراہ سوات کی سیر کو گئےہوے تھے ۔ دانیال نے باقاعدہ اور اعلانیہ طور پر کمپنی کے ہیڈ کا عہدہ سمبھال لیا تھا ۔علی کی حالت تو قابل رحم تھی بیچارہ سارا دن گھن چکر بنا رہتا تھا ۔ ان کی شادی کو دو ماہ رہتے تھے ۔ عورتوں کی شاپنگ عروج پر تھی ۔ ہفتے میں قریباً دو تین دن تو بازار کی نظر ہو جاتے ۔ امل ،فلک اور نور مکمل طور پر سگھڑ بننے کی کوششوں میں تھیں ۔ سارا دن یا کچن ،یا پھر ناول ،ڈراموں کی نظر ہوتا ۔ آریان اور فہد وہ کیس نپٹا چکے تھے جس نے ان کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی ۔ بینش سنان کو لاہور گھمانے میں مصروف تھی اسی بہانے اس کی بھی اوٹنگ ہو جاتی ۔
۔۔۔۔۔۔۔_______۔۔۔۔۔۔۔۔
آج موسم خاصہ خوش گوار تھا ۔ اسما بیگم دو بجے کے بعد ہی "آفندیز " کے ہاں چلی گئی تھیں ۔فلک اور نور صبح سے امل کے کمرے میں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھیں ۔دانیال آفس تھا۔ آریان کو آج اپنی طبیعت ذرا بوجھل محسوس ہو رہی تھی ۔پچھلے کچھ دنوں سے وہ ٹھیک طریقے سے سو نہیں پایا تھا ۔ فہد کی ذمہ داری پر سب کام چھوڑ کر وہ گھر چلا آیا ۔ رضیہ اسے لان میں ہی مل گئی ۔
"صاحب کھانا لگا دوں ۔؟ گھر میں کوئی نہیں ہے سب بازار گئیں ہیں "
رضیہ نے اس کے پوچھنے سے پہلے ہی ساری تفصیل بتادی ۔
"آپ رہنے دیں میں ان تینوں کے پاس جا رہا ھوں "
آریان فریش ہونے کے بعد "شاہزیب مینشن " چلا آیا ۔کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں ۔وہ سیدھا کچن کی طرف ہی چلا آیا ۔ جانتا تھا امل کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا ۔اور تو اور آخری بار امل کا دیدار بھی چار روز پہلے ہی نصیب هوا تھا ۔
"السلام علیکم "
۔امل جو کوکنگ رینج کے پاس کھڑی تھی چونکی ۔ایک دم ہی مڑ کر اس نے دیکھا ۔آریان کچن کے دروازے میں کھڑا تھا ۔ وہ نیلی بند گلے کی شرٹ کے ساتھ خاکی پینٹ پہنے ہوے تھا ۔ دونوں ہاتھ پینٹ کی پاکٹس میں ڈالے وہ ہلکے ،ہلکے قدم اٹھاتا اس تک آرہا تھا ۔ سنجیدہ گہری آنکھیں اسکا جائزہ لینے میں مصروف تھیں ۔ میرون رنگ کے شلوار قمیض میں ایپرن پہنے بالوں کا رف سا جوڑا بنائے وہ حیران کھڑی نظر آرہی تھی ۔آریان اس سے دو قدم کے فاصلے پر آرکا ۔ امل نے گلا تر کیا ۔ وہ کنفیوز سی اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔
"لوگ کہتے ہیں کہ عاشق کو اپنا محبوب ھر حال میں اچھا لگتا ہے ۔ چاہے وہ جیسا بھی ہو ،جس حال میں بھی ہو "
امل نے اثبات میں سر ہلایا ۔ آریان سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا ۔
"پھر مجھے کیوں نہیں لگ رہا "
وہ سوالیہ انداز میں بولا ۔
"کیا ؟"
امل انگلیاں چٹخاتے ہوے بولی ۔
"محبوب پیارا کیوں نہیں لگ رہا ؟"
آریان کا لہجہ سنجیدہ تھا مگر اس لہجے میں موجود شرارت کی رمق کو امل اپنی خفگی کے زیر اثر محسوس ہی نہیں کر پائی ۔
"بتاؤں ؟؟؟"
وہ خونخوار تیور لیے اس کی طرف بڑھی ۔
"مذاق کر رہا ھوں جنگلی بلی ۔۔۔ "
آریان دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوے سرنڈر کرنے کے انداز میں بولا اور اس کے ہاتھ سے توا پکڑا ۔
"بڑی کوئی حسن پرست ہو تم "
آریان اسے تنگ کرنے کے پورے ، پورے موڈ میں تھا ۔ ساری تھکن تو اسے دیکھ کر کہیں دور جا سوئی تھی ۔ جب آپ انتہا سے زیادہ تھک جائیں تو ایسے میں آپ کی تھیراپی آپ کے بہت ہی عزیز کی ہلکی سے مسکراہٹ یا دیدار ہی ہوتی ہے ۔
"بڑے کوئی کنجوس ہیں آپ "
امل دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
"کیسی کنجوسی کی ہے میں نے ؟"
آریان نفی میں سر ہلاتا خفگی سے بولا ۔
"تعریف نہیں کر سکتے کسی کی ۔۔۔کتنی کنجوسی دکھاتے ہیں "
وہ ہنوز خفا تھی ۔
"تو اگلا بندہ اس لائق بھی تو ہو "
آریان نے نچلا لب دانتوں میں دبائے بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو چھپایا ۔امل شاک کے انداز میں پورا کا پورا اس کی طرف گھومی ۔
"کیا کہا ؟ "
کمر پر دونوں ہاتھ ٹکائے وہ لڑاکا انداز میں بولی ۔
"کچھ نہیں کہا وائفی ڈارلنگ "
آریان نے اس کی گال پر چٹکی بھری ۔امل نے جھینپ کر آریان کے اسی ہاتھ پر چپت لگائی ۔
"ش۔۔شرم کر لیں "
وہ اسے گھورتی ،شرماتی دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔
" نہیں آتی "
وہ شیلف سے ٹیک لگاتے ہوے بولا ۔
"اور کیوں نہیں آتی ؟"
امل نے برگر بن ایک طرف کیے اور اسے گھورا ۔
"جب اپنوں سے بات کی جائے تو شرمانا کیسا ۔اور تم تو پھر میری بہت ہی اپنی ہو ۔ جو ساری عمر میرے ساتھ رہنے والی ہے اور میرے ساتھ بوڑھی ہونے والی ہے "
آریان نے امل کے کاٹے ہوے سلاد سے کھیرے اچکتے ہوے کہا ۔
"سنو "
"ہممممم ۔۔۔"
امل اس کی بات کے جواب میں خاموش رہی تو بلاآخر وہ خود ہی بول اٹھا ۔
"تم جب بوڑھی ہو جاؤ گی میں تب بھی تم سے پیار کروں گا ۔میرا مطلب ہے میں ہرگز حسن پرست نہیں ھوں ۔یعنی کہ تمہارے منہ پر جب جھریاں پڑیں گی اور تمہارے دانت نہیں رہیں گے آنکھیں بھی شاید ہی کام کریں ۔۔۔"
وہ ہولناک نقشہ کھینچتے ہوے گاہے بگاھے اسے بھی دیکھ رہا تھا جس کا منہ شاک کے زیر اثر کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
"آریان بس کریں ورنہ یہ پین آپ کے سر پر دے ماروں گی "
امل نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا ۔ساتھ ہی دوسری طرف پڑے پین کی طرف اشارہ کیا ۔
" آپ بہت برے ہیں بہت برے "
امل برگر بن سینکتی ہوئی خفگی سے بولی ۔
"یار ۔۔۔ مذاق کر رہا تھا ۔۔آئی سویر ۔صرف تنگ کر رہا تھا اور کچھ نہیں "
آریان نے اسے کندھوں سے تھاما ۔
"میری نظر میں تم دنیا کی پہلی اور آخری خوبصورت لڑکی ہو ۔ بے پناہ خوبصورت ۔بے انتہا خوبصورت ، اور سب سے خوبصورت دل کی مالک لڑکی "
وہ اس کی گہری آنکھوں میں جھانک رہا تھا ۔
"آریان کیا آپ ساری زندگی مجھ سے یونہی محبت کرتے رہیں گے ؟"
"اور اگر جواب نا ہوا تو ؟"
وہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا ۔
"اور نا کرنے کی وجہ ؟"
وہ تحمل سے بولی ۔
"امم ۔۔۔ شاید کوئی اور لڑکی مجھے پسند آجائے ۔ہوسکتا ہے "
وہ کندھے اچکاتے ہوے بولا ۔
"ہنن ۔۔جان نا لے لوں میں آپ کی اور اس کے بعد اس لڑکی کی بھی ۔خبر دار جو مجھ سے محبت کرنا چھوڑی ۔ میں اینٹ سے اینٹ بجا دوں گی سب کی "
غصے میں اس کی چھوٹی سی ناک سرخ ہو چکی تھی ۔آریان نے نچلا لب دانتوں میں دبائے۔ اپنی بے ساختہ امڈ آنے والی مسکراہٹ کو روکا تھا ۔
"ہاہاہا ۔۔۔سو کیوٹ"
آریان نے اس کی ناک کھینچی ۔
"کیا ہے پیچھے ھوں ۔فری ہونے لگے ہیں ایویں ۔"
امل نے چمچ اس کے ہاتھ پہ دے مارا ۔
"سہی ڈی ۔ایس ۔پی کی بیوی لگ رہی ہو "
اس کی بات پر امل کا قہقہہ بے ساختہ تھا ۔
" جلدی سے یہ برگر بنا لاؤ اور ساتھ میں میرے لیے کافی بھی لے آنا ۔میں ان چڑیلوں کے پاس جا رہا ھوں ۔"
اس کے جانے کے بعد امل سر جھٹک کر ہنس دی ۔
۔..._____....____
نور کے لیے فہد کا رشتہ آیا تھا ۔ بہن ہونے کا فرض بینش نے ہی پورا کیا تھا اس نے اتنی شائستگی سے سب کے سامنے اپنا مدعا رکھا کہ کوئی انکار نہیں کر پایا ۔ فہد دیکھا بھالا بچہ تھا اور آریان کا دوست اس سے زیادہ کسی کو کیا چاہیے تھا کسی کو بخت قریشی سے کوئی غرض نہیں تھی ۔عدالت کے فیصلے کے بعد اب وہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا ۔ بھٹکنے میں ایک لمحہ لگتا ہے مگر اس بھٹکے لمحے کی تلافی میں ساری زندگی گزر جاتی ہے۔ اس نے جو کیا وہ اس کا انجام پا چکا تھا ۔ فہد کو اس بات پر کوئی ملال نہیں تھا کیوں کہ اس نے وردی پہنتے وقت وطن سے وعدہ کیا تھا کہ وطن کی عظمت کی راہ میں اس کا کوئی بہت اپنا ہی کیوں نا آئے یا کوئی اپنا ہی مجرم کیوں نا ہو ،وہ حقدار کو اس کا حق اور گناہ گار کو اس کی سزا دے کر رہے گا ۔ اور وہ وعدہ پورا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا تھا ۔ زندگی میں کبھی بھی کچھ انسان کی اپنی مرضی سے نہیں ہوتا ،جو ہوتا ہے اس میں رب کی رضا ہوتی ہے ۔
۔۔۔۔____۔۔۔۔____۔۔
موسم اگرچہ بہت سرد نہیں ہوا تھا مگر موسم کی شدت بہت سرد تھی ۔ بہار رخصت ہوے خزاں کا دور چلا آیا تھا ۔درختوں پر بہار دکھاتے پتے اور پودوں پر رنگ بکھیرتے پھول جھڑ چکے تھے ۔ پاؤں تلے آئے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ خوب آواز پیدا کرتی تھی ۔ ایسی ہی اداس رخصت ہوتی شام وہ نارنجی اوورکوٹ پہنے مفلر خوب اچھے سے اپنے ارد گرد لپیٹے ڈوبتے سورج کا منظر دیکھنے میں محو تھی ۔ آج سنان کی واپسی تھی اور وہ اور فہد اسے ایئرپورٹ چھوڑنے کے بعد "باغ جناح " چلے آئے تھے ۔فہد جانتا تھا اس کا موڈ ٹھیک نہیں وہ سنان کے جانے پر اداس تھی ۔ اتنے دن وہ دونوں ایک ساتھ پورا لاہور گھومتے رہے ۔ وہ آج اس کی واپسی پر دکھی تھی ۔ فہد اس کا موڈ ٹھیک کرنا چاہتا تھا ۔ اسی لیے وہ اسے یہاں لایا تھا ۔بینش کو پھول چونکہ بہت پسند تھے اور اگر کثرت میں ہوتے تو اور بھی زیادہ ۔ وہ جانتا تھا اب پھول دیکھنے لائق کہاں رہے ہیں مگر پھولوں ،درختوں کی بے رونق موجودگی بھی بینش کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہوتی تھی ۔فہد نے سر جھٹکا اور اس تک آیا ۔ ہاتھ میں پکڑا کافی کا کپ اسے تھمایا جس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے قبول کر لیا ۔ فہد نے کافی کی چسکی لیتے ہوے اس کی طرف دیکھا جو سپاٹ نظروں سے ارد گرد دیکھنے میں مگن تھی۔
"بینش گڑیا ؟؟؟"
"ہمممم ۔۔؟؟؟"
بینش چونکی اور اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔
"کیا تم ۔۔۔ دانیال ۔۔۔میرا مطلب ہے دانیال کو بھول چکی ہو نا ۔میں جانتا ھوں یہ آسان نہیں ہے تمہارے لیے کہ تم اسے بھولو مگر میں جاننا چاہتا ھوں تم نے مجھے راولپنڈی فون کسی دباو میں یا میری محبت میں آکر کیا تھا کیا ؟"
فہد سنجیدگی سے اس کی طرف مڑا ۔ وہ فل یونیفارم میں تھکا ،تھکا نظر آرہا تھا ۔بینش نے گہرا سانس لیا ۔
"بھائی بسا اوقات انسان اسی میں صبر کرنا جان لیتا ہے جو اسے رب دیتا ہے اور رب جو دیتا ہے وہ بے مثال ہی دیتا ہے ۔ کوئی زندگی سے جاتا ہے اس کی جگہ کوئی اور آتا ہے جو آپ کو ہنساتا ہے ،مسکراتا ہے اور جینا سکھاتا ہے اور بعض اوقات ہمارے پاس پہلے ہی وہ انسان ہوتا ہے اور میرے لیے وہ آپ ہی تھے جس نے مجھے جینے کا مطلب بتایا ۔ پتا ہے مجھے اب وہ یاد نہیں آتا ۔میں اسے یہ سوچ کر بھول چکی ھوں کہ اس میں میرے رب کی مصلحت تھی ۔ میں لاحاصل کو مٹھی میں دبا کر نہیں رکھنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ میرے لیے ریت کی مانند تھا جسے جتنا قابو میں کرنا چاہ رہی تھی وہ اتنا ہی بے قابو ہو رہا تھا ۔وہ ہمیشہ سے فلک کا تھا اور اسی کا رہے گا "
بینش نے کافی کے کپ پر نظریں جماتے ہوے عام سے لہجے میں کہا ۔
"کیا سچ میں ؟"
"ہاں بلکل بھائی ۔۔۔ اللّه کچھ لیتا ہے تو بدلے میں بہترین دیتا ہے ۔ میرے لاحاصل کے پیچھے آپ مجھ سے دور چلے جاتے تو میں تہی دامن رہ جاتی ۔ کجا کہ انسان کے پاس سب ہو مگر اگر رشتے نا ھوں تو اس انسان کی شناخت نہیں ہوتی ۔ مجھے دانیال کی لاحاصل محبت نے رب کی محبت عطا کر دی ہے جو میرے بہت کام آنے والی ہے ۔ خیر میں بھی نا ۔ ۔ ۔ "
اس نے سر جھٹکا اور مسکرا کر فہد کو دیکھا پھر آہستہ آہستہ کافی کے گھونٹ بھرنے لگی ۔فہد دل سے مسکرایا ۔آج وہ بہت زیادہ سکون میں تھا دل میں جو پھانس چبھا رہ گیا تھا وہ بھی نکل گیا تھا ۔
" مجھ پر بھروسہ ہے ؟"
"سب سے زیادہ بھروسہ آپ پر ہی ہے بھائی "
بینش نے محبت پاش نظروں سے فہد کو دیکھا جس نے اس کا سر ہولے سے تھپتھپایا ۔ کافی کے کپ لیے وہ ڈسٹ بن تک گیا ۔بینش اس سارے عرصے میں اپنے جان سے پیارے بھائی کو دیکھتی رہی ۔
"اور اگر میں تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ کروں ؟"
وہ کافی کے خالی کپ ڈسٹ بن کی نظر کرنے کے بعد واپس آیا تو ادھر سے ہی بات جاری کرتے ہوے بولا ۔
"تو یہ کہ آپ سے بہترین فیصلہ میرے لیے کوئی کر ہی نہیں سکتا "
بینش نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو فہد بھی اس کے ساتھ ہولیا ۔
"تو سمجھو تمہارے لیے میں فیصلہ کر چکا ھوں "
فہد نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔
"کیسا فیصلہ ؟؟"
بینش نے حیرانی سے اسے دیکھا جو مسلسل مسکرا رہا تھا ۔
"تم یورپ جا رہی ہو ۔ تمہیں پی ایچ ۔ڈی کرنی ہے۔ از ڈیٹ کلیر ؟"
آخر میں فہد حاکمانہ انداز میں بولا ۔
"یس سر "
بینش ایک ہاتھ ماتھے تک لے جا کر ہنستے ہوے بولی ۔ شام دونوں بہن بھائیوں کی محبت اور ان کے قہقہوں کی گواہ بنتی تاروں بھری تاریکی کی نظر ہونے لگی ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔_ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ تینوں ایک ساتھ شاپنگ کرنے آئی تھیں۔صارم انھیں ڈراپ کر کے جا چکا تھا ۔برائیڈل ڈریسس تو انھیں آخر میں ہی لینا تھے مگر آج وہ دوسرے تمام فینسی سوٹ لینے آئی تھیں ۔ باقی سب تو گھر کی بڑی عورتیں خرید رہی تھیں مگر وہ چاہتی تھیں کہ کپڑے وہ اپنی مرضی سے لیں ۔فلحال نور کا صرف نکاح ہونا تھا اور رخصتی تین سال بعد ہی ہونا تھی ۔ اس دوران نور کا ارادہ کچھ نئے کورسز کرنے کا تھا ۔وہ تینوں شاپنگ کے بعد سیلڈ بار چلی آئیں ۔
"یار کچھ منگواو بہت بھوک لگ رہی ہے "
نور دہائی دیتے ہوے بولی ۔
"وہی دیکھ رہی ھوں "
امل نے مینو کارڈ اس کے سامنے لہرایا اور پھر دوبارہ سے مینو کارڈ پر نظریں دھوڑانے لگی ۔نور نے بے زاری سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر موبائل نکال کر اس میں مصروف ہو گئی ۔فلک کاؤنٹر پر کچھ دیر بات کرنے کے بعد انہی کی طرف چلی آئی ۔
" میں پے منٹ کر آئی ھوں ۔ آو پہلے رشین سیلڈ لے آئیں ۔ "
"پوانٹ "
نور نے ستائشی انداز میں کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔سب سے پہلے امل ہی باول بھر کر فارغ ہوئی ۔ امل اپنا باول سمبھالتی واپس اپنی جگہ پر آبیٹھی ۔رخ موڑ کر اس نے ان دونوں کو دیکھا جن کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ دونوں باول پر ایفل ٹاور کھڑا کر لیتیں ۔چمچ سے ھر چیز دبا ،دبا کر وہ نا جانے کون سا ٹاور بنا رہی تھیں ۔
"اہ رشین سیلڈ کی دیوانی عوام "
امل نے آنکھیں گھمائیں اور آنکھیں تو اس وقت پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب وہ دونوں باول پر برج خلیفہ کھڑا کرنے کے بعد سمبھل ،سمبھل کر اس کی طرف آرہی تھیں ۔ امل نے پلکیں جھپکائیں اور غور سے انھیں دیکھا جو بلکل بھی مطمئن نظر نہیں آرہی تھیں ۔
"ویسے تمہارا باول مزید بھر سکتا تھا ۔"
فلک نور کے باول کو دیکھتے ہوے بولی ۔ منہ میں سیلڈ ہونے کی وجہ سے اس سے ٹھیک بولا نہیں جا رہا تھا ۔اس کے ایسے کہنے پر نور نے اثبات میں سر ہلایا ۔جب کہ ان دونوں کو کھاتا کم ٹھونستا زیادہ دیکھ کر امل اپنا سر پیٹ کر رہ گئی ۔
۔۔۔۔۔_____،۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔
بادل آسمان پر پوری شان و شوکت سے براجمان تھے ۔نیلگوں آسمان پر چھائے بادل سورج کی نارنجی کرنوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہے تھے ۔ بادلوں کے دامن سے جھانکتا سورج بادلوں کے سامنے بے بس سا نظر آرہا تھا بلاآخر بادلوں کی جیت ہوئی ۔ سیاہ بادل اس کثرت سے جمع ہوے کہ برسے بغیر نا گئے ۔ شام کو شروع ہونے والی یہ بارش رات بھی وقفے ،وقفے سے برستی رہی اگلی صبح بہت اجلی اور روشن تھی ۔بارش نے ھر شے کو دھو کر نکھار بخشا تھا دھلے پت جھڑ کے پتے ، خالی شاخوں والے درخت دھل کر نکھرے محسوس ہو رہے تھے ۔ہوا میں بسی مٹی کی خوشبو ناک کے نتھوں سے ٹکراتیں تو روح کو تازگی سی ملنے لگتی ۔ ہوا اگر چہ بہت سرد تھی ۔ اپنے ٹیرس سے لان اور ارد گرد جھانکتی امل نے گہرا سانس کھینچ کر اس خوشبو کو محسوس کیا ۔ ڈیوٹی پر جاتا آریان اپنی گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے لمحہ بھر کو رکا اور اسے بغور دیکھا ۔ خود پر کسی کا نظروں کا مسلسل ارتکاز محسوس کرتی امل نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا ۔ آریان کی خود پر جمی نظریں دیکھ کر اس کے گال تپنے لگے ۔ وہ فل یونیفارم میں تیار کھڑا بال ایک طرف سیٹ کیے بہت خوبرو لگ رہا تھا ۔پولیس یونیفارم اس کے کسرتی بدن پر بہت چجتا تھا ۔امل اسے کبھی بتا نہیں پائی ۔ سر جھٹک کر امل ہوش میں آئی ۔وہ آنکھیں سکیڑے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ بوکھلاتی ہوئی وہ آریان کو ایک نظر دیکھتی جھپاک سے کمرے میں چلی گئی ۔آریان ہونٹ ایک طرف پھیلائے مسکرایا ۔جان لیوا ڈمپل ابھر کر معدوم ہوا ۔اپنی جیپ میں بیٹھنے اور ڈرائیور کو چلنے کا حکم دینے کے بعد اس نے جیب سے اپنا موبائل نکالا ۔ امل جب سے کمرے میں آئی تھی اپنے دھڑکتے دل کو سمبھال رہی تھی ۔ وہ دور کھڑی ہو کر بھی ان گہری آنکھوں کے ڈھیر سارے جذبات کو محسوس کر سکتی تھی ۔ دفعتاً اسکے موبائل پر کوئی میسج آیا ۔اس نے لپک کر ڈریسنگ سے موبائل اٹھایا ۔ سکرین پر آریان کا میسج جگمگانے لگا ۔ پلک جھپکنے سے پہلے ہی اس نے میسج کھولا اور پڑھنے لگی ۔
"اتنی سردی میں یوں ایسے بغیر جرسی کے کس خوشی میں کھڑی تھی ؟ کم از کم جرسی تو پہن لیتی ۔ٹھنڈ لگ جاتی تو پھر ٹھیک رہتی کیا ؟"
امل نے آنکھیں گھمائیں ۔اس شخص کا مشاہدہ بہت گہرا تھا ۔ وہ ھر حال میں بنا جتائے اس کا خیال رکھنے کے فن میں ماہر تھا ۔اس کے بارے میں سوچتے ،سوچتے بے ساختہ امل کے لب دھیرے سے مسکرائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔
سرمئی دوپہر میں ہوا کی خنکی کے باعث سورج کی تپش نا ہونے کے برابر تھی ۔ شاہزیب کمپنی میں بھی معمول کے مطابق ورکرز اپنے کاموں میں مشغول تھے ۔ دانیال کے کیبن میں خاموشی تھی ۔مقابل اپنا مدعا من و عن اس کے سامنے پیش کر چکے تھے ۔
"تو اب کیا چاھتے ہیں آپ ؟"
دانیال نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوے پرسکون انداز میں پوچھا ۔سامنے کرسیوں پر دو لوگ بیٹھے تھے جو سنجیدگی سے اپنا مدعا بیان کر رہے تھے ۔یہ شاہزیب انڈسٹری میں ان کا تیسرا چکر تھا جو وہ پچھلے تین دن سے لگا چکے تھے ۔
"ابھی تو آپ کو بتایا ہے ، آپ "علی انڈسٹری " کا ٹینڈر ہمیں دلا دیں اور بدلے میں آپ کو اگر کبھی کسی بڑی کمپنی کا ٹینڈر چاہیے ہوا تو ہم آپ کو دلا دیں گے "
اصغر رحمانی نے زبردستی مسکراہٹ چہرے پر سجا رکھی تھی ۔ حیرت کی بات تھی کہ "رحمانی گروپ اف انڈسٹری " کے اصغر رحمانی جو آج تک کبھی "شاہزیب انڈسٹری " آئے تک نہیں تھے آج یوں چل کر نا صرف خود آئے بلکہ اپنے بیٹے اسد رحمانی کو بھی ساتھ لائے تھے اور مقصد صرف اس ٹینڈر کا حصول تھا ۔ پچھلے تین دن سے مسلسل یہاں آرہے تھے ۔
"اور مجھے کیا کرنا ہو گا ؟"
دانیال نے اپنی سٹبل کھرچی اور میز پر آگے کو جھکتا سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔
"کچھ خاص نہیں بس انکار کر دیں اس پروجیکٹ کو کرنے سے ۔ علی صاحب کی نظر کرم خود بخود ہمیں پر آٹھہرے گی "
اسد ان کا بیٹا جو تمام گفتگو میں خاموش تھا ایک دم دانیال کو دل چسپی لیتا دیکھ کر بولنے لگا ۔ دانیال نے ابرو اچکاتے ہوے اس کی طرف دیکھا ۔
"رئیلی ؟"
دانیال کا انداز صاف مذاق اڑاتا ہوا تھا ۔
"جو میں نے کیا ،یا جو مجھے ملا وہ سب میری محنت کا صلہ تھا ۔ علی صاحب نے یقیناً کچھ سوچ کر یہ پروجیکٹ ہمیں دیا ہے اگر وہ آپ لوگوں میں ذرا سی قابلیت دیکھتے تو کبھی ہمیں یہ ٹینڈر نہیں ملتا یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی "
دانیال نے سنجیدگی سے کہا۔ "رحمانی صاحب کی کمپنی پچھلے پروجیکٹ کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھی اب وہ ایک اچھے پروجیکٹ سے مارکیٹ میں دوبارہ نام بنانے کے چکر میں تھے ۔یہ بات دانیال کو علی کی زبانی معلوم ہوئی ۔
"آپ کا انکار سب بدل دے گا ۔ آپ بس ۔۔۔"
دانیال نے ہاتھ اٹھا کر انھیں ٹوکا ۔
"میں انکار نہیں کر رہا مگر ہاں میں آپ کو انکار ضرور کر رہا ھوں ۔یہ پروجیکٹ میرا ہے اور اسے مجھے کرنا ہے ھر حال میں ۔۔۔ قابلیت ،قابلیت کی بات ہے "
دانیال نے کندھے اچکائے ۔اور میز کی دائیں جانب پڑا جوس کا ڈبہ اٹھایا ۔
"کل کا آیا لڑکا ہمیں بتائے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ؟اور یہ کہ قابلیت کیا ہے ؟"
اصغر رحمانی غصے میں آپے سے باہر ہوتے چلا اٹھے ۔
"نہیں اگر کہیں تو لکھ کر بھی دکھا دوں گا مگر وہ کیا ہے نا میرا پاس اتنا فالتو ٹائم نہیں ہے ضائع کرنے کے لیے "
دانیال سکون سے جوس پیتے ہوے بولا انھیں تپا گیا ۔ اسد جھٹکے سے اپنی کرسی سے اٹھا ۔
"یو باسٹرڈ۔۔۔ بابا تم سے عزت سے بات کر رہے ہیں اور تمہیں عزت راس نہیں آرہی ۔ "
دانیال انتہائی سکون سے اپنی کرسی سے اٹھا ۔
"زبان سمبھال کر مسٹر اسد رحمانی ، ورنہ کہنے کو بہت کچھ ہے جو میں بھی کہہ سکتا ھوں ۔مگر کیا ہے نا اپنی تربیت کی وجہ سے خاموش ھوں ۔ اور دوسری بات ۔۔۔دانیال شاہزیب کو عزت راس نہیں آتی ۔میں مطلبی لہجوں کا عادی نہیں ۔"
دانیال اس کی کرسی کے ہینڈل پر ہاتھ دھرے سکون سے بولتا اس کی گال تھپتھپاتا اپنی کرسی پر واپس جا بیٹھا ۔ایک نظر دونوں باپ بیٹوں کے دھواں ،دھواں چہرے دیکھے ۔مگر جب بولا تو آواز سرد تھی ۔
"اب آپ جا سکتے ہیں "
"جائیں ۔۔۔"
انھیں اپنی جگہ پر جما دیکھ کر وہ چلا اٹھا ۔
"دیکھو ایک ۔۔۔۔"
اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کر پاتے دانیال انٹر کام پر علی کو طلب کر چکا تھا ۔بہت ضبط سے مسکراہٹ دبائے اس نے علی کو دیکھا ۔
"مسٹر علی ۔۔۔ ۔۔۔ گارڈز کو بلا دیں یہاں دو بچے ہیں جو خود چل کر جا نہیں سکتے انھیں گیٹ تک چھوڑنا ہے "
دانیال کو ہنسی تو بہت آرہی تھی مگر ضبط کر رہا تھا ۔ سیریس رہنا بہت مشکل تھا ۔علی نے بھی مسکراہٹ دبائی ۔وہ فورا پلٹا اور باہر کو چل دیا ۔
"مسٹر دانیال شاہزیب ۔۔۔ابھی نئی ،نئی پرواز شروع کی ہے تم نے اڑ لو جتنا اڑ سکتے ہو مگر میں وہ شکاری ھوں جو پر کاٹ کر تمہیں اڑنے لائق نہیں چھوڑے گا اور یہ وعدہ ہے میرا ۔ اپنی بے عزتی اور انکار کا بدلہ میں تم سے لوں گا اور خوب لوں گا جسے تم یاد رکھو گے ۔"
اصغر رحمانی غصے کی شدت سے کانپ رہے تھے ۔دانیال نے ہاتھ کا اشارے کیا جس کا مطلب تھا دفع ہو جاؤ ۔ تنفر سے کوٹ جھٹک کر اٹھنے والے اصغر رحمانی تھے اور اس کے پیچھے ہی اسد بھی دانیال کو کٹیلی نظروں سے دیکھتا چلا گیا ۔دانیال نے سر جھٹک کر لیپ ٹاپ سامنے کیا ۔ وہ پروجیکٹ کے لیے ھر چیز بہترین چاہتا تھا ۔تاکہ کسی کو شکایت تو کیا بولنے کا موقع بھی نہیں ملے ۔پھر ہاتھ بڑھا کر اس نے انٹرکام پر علی کو بلایا جو اچھے سے اپنے بلائے جانے کا مقصد جانتا تھا ۔اپنے کیبن میں بیٹھی عائشہ نے علی کو منہ بسورتے دانیال کے کیبن میں جاتے دیکھا ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔..._ _____۔۔۔۔۔
دن جیسے پر لگا کر اڑنے لگے ۔شاہزیب ،سہیل اور فرحان صاحب واپس آگئے تھے ۔آج کل وہ لوگ کبھی ایک ساتھ "آفندی مینشن " تو کبھی "شاہ زیب مینشن "پائے جاتے تھے ۔ شادی میں بس ڈیڈھ ماہ رہ گیا تھا ۔ امل ،فلک اور نور بھی سب کے ساتھ مل کر شاپنگ میں ہی مصروف رھتیں ۔دانیال "علی انڈسٹری "کے ساتھ مل کر اپنے نئے پروجیکٹ پر جی جان سے محنت کر رہا تھا ۔ وہیں دوسری طرف اسے لاتعداد دھمکی بھرے فون کالز آتے جن کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ دانیال اس پروجیکٹ سے منہ موڑ لے ۔دانیال جانتا تھا یہ واہیات کام رحمانی صاحب کی کروا رہے ہیں ۔وہ چاہتا تو مینٹل ہراسمنٹ کا کیس باآسانی رحمانی صاحب پر درج کروا سکتا تھا مگر فلحال وہ خاموش تھا اور اپنی برداشت آزما رہا تھا ۔ وہ اس وقت اپنے کیبن میں بیٹھا تھا جب علی بغیر دستک دیے اندر آگیا ۔ دانیال نے حیرت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا جو بہت زیادہ خوش نظر آرہا تھا ۔ابرو اچکائے اس نے گویا وجہ دریافت کی ۔ علی نے اپنی سانس بحال کی ۔پھر بولا تو آواز خوشی سے چہک رہی تھی ۔
"الحمد اللّه ۔۔سر پروجیکٹ کامیاب رہا ہے ۔ علی انڈسٹری سے ابھی فون آیا ہے ۔ وہ اگلا پروجیکٹ بھی ہمارے ساتھ کرنا چاھتے ہیں ۔"
"الحمد اللّه ۔۔"
تشکر سے آنکھیں میچے وہ بھر پور خوشی سے بولا ۔
"سر بہت مبارک ہو آپ کو ۔۔یہ سب کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔"
علی عقیدت سے بولا ۔
"نہیں علی یہ ہمارے ٹیم ورک کا نتیجہ ہے ۔ سارے آفس میں اعلان کروا دو میں دو دن کی چھٹی دے رہا ھوں تم سب کو ۔۔اور دوپہر کا لنچ میری طرف سے ہے ۔اسٹاف سے کہو جہاں بھی وہ کھانا چاہیں وہاں جا سکتے ہیں ۔"
دانیال اپنی چیزیں سمیٹنے لگا ۔
"سر آپ بھی ہمیں جوائن کریں پلیز ہمیں خوشی ہو گی ۔"
دانیال دو منٹ اس کی طرف دیکھتا رہا ۔پھر مڑ کر اپنا کوٹ اسٹینڈ سے اٹھایا ۔
" ٹھیک ہے چلتا ھوں ۔۔۔نیکی اور پوچھ ،پوچھ ۔۔۔ میں رزق کی بے حرمتی نہیں کرتا تمہیں تو معلوم ہے ۔ دس منٹ تک میں آتا ھوں تب تک تم اسٹاف سے پوچھ لو انھیں کہاں جانا ہے ؟"
علی سر ہلاتا پلٹ گیا ۔ تبھی دانیال کی نظر بلنک ہوتی سکرین پر پڑی ۔ ایک بار پھر کسی اور نمبر سے فون آرہا تھا ۔دانیال نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوے کال اٹھائی آج وہ رحمانی صاحب کی طبیعت درست کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔
"جی فرمائیں ؟"
دانیال نے جھنجھلاتے ہوے پوچھا ۔
"بہت پچھتاو گے تم دانیال شاہزیب بہت زیادہ ۔آج کی شام تمہاری زندگی میں تباہی لانے والی ہے۔ "
سپیکر سے رحمانی کی سفاک آواز سنائی دی ۔
"آپ کا مسلہ کیا ہے جناب ۔؟ بزنس کو آپ نے شطرنج سمجھ رکھا ہے کہ جب چاہو مہرے کے خانے تبدیل کرواتے جاؤ ۔؟حد ہوتی ہے کسی بات کی میں آپ کو نظر انداز کرتا آرہا ھوں اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ میں ھر بار آپ کو نظر انداز کروں گا ۔ایسا نہیں ہو گا ۔!"
وہ سخت لہجے میں بولا ۔ ایسا لہجہ جو مقابل کو گنجائش دینے سے عاری تھا ۔
"تم نے جو کرنا تھا کر لیا اب میری باری ہے اور میں یہ بتا دوں تم مجھ سے زیادہ پچھتاو گے ۔"
"ہو گیا آپ کا ؟"
دانیال تحمل سے بولا ۔ ورنہ دل تو کر رہا تھا اس آدمی کو پٹخ ،پٹخ کر دیوار میں دے مارے اور پھر سنیکس کھاتے ہوے مزے لے ۔جو خواہ مخواہ اس کے پیچھے پڑگیا تھا ۔
"میری بات کو ہلکا مت لو ۔لکھ لو آج کی شام تمہاری بربادی ہے "
دانیال دل کھول کر ہنسا ۔
"بزنس میں کوئی کسی کا سگا نہیں ہوتا رحمانی صاحب ۔ بزنس کو آپ جیسے لوگوں نے نا جانے کیا سے کیا بنا دیا ہے ۔ گھر بیٹھیں آرام کریں ۔آپ کا دماغ لوگوں کی منتیں کر کر کے گھس چکا ہے ۔رکھتا ھوں "
دانیال نے فورا فون بند کیا ۔اور سر جھٹکا ۔کچھ سوچ کر اپنا سامان سمیٹتا وہ اپنے کیبن سے نکلا ۔ راہداری سے گزرتے ہوے سارا سٹاف اسے مبارک بعد دے رہا تھا ۔ جس کا جواب وہ مسکرا کر دیتا علی تک آیا جو فون پر کوئی ہدایات دے رہا تھا ۔ دانیال کے آنے پر بات سمیٹ کر اس کی طرف مڑا ۔
"جی سر ؟"
"علی میں معذرت خواہ ھوں ۔میں تم لوگوں کے ساتھ نہیں جا سکتا ۔ مجھے کسی ضروری کام سے جانا ہے تم لوگ چلے جاؤ اور انجوئے کرو ۔ ایک دن باس کے بغیر "
آخر میں دانیال ہنسا ۔ علی نے اس کی مجبوری سمجھتے ہوے سر ہلایا ۔
"میں سمبھال لوں گا سب سر "
دانیال اس پر ایک نظر ڈالتا اپنا کوٹ بازو پر ڈالتا موبائل پر کوئی نمبر ڈائل کرتا لفٹ کی طرف بڑھ گیا ۔ علی کندھے اچکاتے ہوے اسٹاف کو ساری خبر دینے چل دیا ۔
۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔
درمیانے سائز کے کمرے میں دائیں اور بائیں جانب الماریاں تھیں جن میں لاتعداد فائل پڑی تھیں ۔ سامنے کی جانب درمیان میں ایک میز پڑا تھا جس کے ایک طرف بڑی سی آرام دہ کرسی اور دوسری طرف دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں ۔ میز کے پیچھے دیوار پر گھڑی نصب تھی جس کی سویاں ٹک ،ٹک کر رہی تھیں ۔دائیں جانب ایک کونے میں دروازہ تھا جو باتھروم کا تھا ۔ میز پر تین فائلز کھلی ہوئی تھیں ۔ میز پر ایک طرف ڈبے میں بہت سے قلم رکھے ہوے تھے دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا اور ساتھ ہی ساتھ چھوٹی سی نیم پیلیٹ بھی تھی جس پر "ڈی ۔ایس ۔پی آریان آفندی " نصب تھا ۔ میز پر سر جھکائے آریان فائل پڑھنے میں مشغول تھا ۔ دفعتا موبائل بجنے لگا ۔ فائل ایک طرف کرتے ہوے اس نے موبائل اٹھایا ۔
"السلام علیکم "
آریان کے لہجے میں حیرانی نمایاں تھی۔ دانیال اسے بمشکل فون کرتا تھا ۔
"وعلیکم السلام ۔تم اپنے آفس میں ہو ؟"
"ہاں ھوں خیریت ؟"
آریان سیدھا ہو کر بیٹھا ۔دانیال کا لہجہ غیر معمولی تھا ۔
"ہاں ۔۔۔ ایسا کچھ ہے جو میں سمجھتا ھوں تمہیں پتا ہونا چاہیے "
"ہاں ٹھیک ہے تم آجاؤ "
آریان نے الوداعی کلمات کے بعد کال کاٹی پھر پی ۔اے کو بلا کر کچھ ہدایات دیں ۔ظاہر سی بات تھی دانیال بھوکے پیٹ تھوڑی جانے والا تھا ۔ دانیال کیا بتانا چاہتا ہے ۔۔ ؟ لاتعداد سوچوں کو جھٹک کر وہ اپنے کام میں دوبارہ مصروف ہو گیا ۔ یہ فائل کل پولیس سٹیشن سے فہد ہی دے کر گیا تھا اور اسی فائل کو وہ ریڈ کر رہا تھا ۔
۔۔۔۔___۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔۔_____
آفس روم میں خاموشی تھی اور اس خاموشی میں وقفے ،وقفے سے چائے کی چسکیاں بھرنے کی آواز آتی ۔ ۔
"سڑررر ۔۔۔"
اب کی بار دانیال نے خاصی لمبی چسکی بھر کر آریان کو دیکھا جو پر آنکھیں سکیڑے اس کے موبائل کے کال لوگ کا جائزہ لے رہا تھا ۔وہ میز جدھر پہلے فائلز پڑی تھیں اب وہ پیزے ،برگر اور دیگر چیزوں کے ڈبے کے ملبے کے نیچے دب کر رہ گئی تھیں ۔ دانیال اطمینان سے سب کھا اور بتا کر اب چائے پی رہا تھا ۔ آریان کا پی۔اے بھی اس دیو جتنا کھانے والے انسان کو دیکھ کر گھوم گیا تھا ۔
"کب سے آرہیں ہیں کالز ؟"
کچھ لمحے کے توقف کے بعد آریان سنجیدگی سے بولا ۔
"تقریباً پچھلے ایک ماہ سے ۔۔۔"
دانیال نے نارمل انداز میں کندھے اچکائے ۔
"کیا ؟؟ اور تم نے ہمیں بتانا ضروری نہیں سمجھا "
آریان دبے ، دبے غصے میں بولا ۔
"اتنی خاص بات نہیں تھی مگر اب رحمانی مرنے مارنے کی باتیں کرنے لگا ہے تمہیں تو پتا ہے مجھے اتنی جلدی نہیں مرنا اور کنوارا تو ہرگز نہیں اوپر سے جب میں نے دنیا کی اتنی مزے ،مزے کی چیزیں نہیں کھائیں تب تو ہرگز نہیں "
وہ معصومیت سے آنکھیں گھماتا بولا۔ انداز اور آنکھوں میں شرارت تھی ۔
"یا اللّه ۔۔۔تم ھر بات کو مذاق میں کیوں لیتے ہو ؟"
"یار اب والی کو نہیں لیا تمہارے پاس آگیا نا ب۔۔ورنہ میرا کیا تھا اب بھی نہیں آتا ۔"
اس نے کندھے اچکائے ۔آریان کا جی چاہا اس ڈفر کو گھما گھما کر تھپڑ دے مارے ۔مگر ضبط کیے بیٹھا رہا آخر کو سالہ صاحب نے اس مسلے کا نیا پہاڑ جو کھڑا کر دینا تھا ۔
"جوتیوں کی کمی ہے تمہیں"
آریان غصے سے بولا ۔
"سیم ٹو یو جانو "
دانیال نے آنکھ دبائی ۔آریان مزید تپا ۔
"دیکھ دانیال ۔۔۔ سیریس ہو "
دانیال لبوں پر انگلی جمائے سیدھا ہوا اب انداز ہوا کہ آریان اس سے ناراض ہو گیا تھا ناراضگی میں وہ اسے اس کے پورے نام سے پکارتا تھا ۔
"ہاں بولو "
وہ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا ۔آریان اسے گھورنے لگا ۔زیادہ دیر دانیال بھی سنجیدہ نہیں رہ سکا ۔ اگلے ہی لمحے وہ ہنس رہا تھا ۔ آریان نا چاھتے ہوے بھی ہنس دیا ۔
"اگر تو میرا سالہ نا ہوتا تو اب تک باہر ہوتا ۔ "
آریان سنجیدگی سے بولا ۔ دانیال منہ بسور کر اسے دیکھنے لگا ۔
"ہا۔۔۔زبان سمبھال ۔۔۔تو خود کیا ہے تو بھی تو میرا سالہ ہے "
دانیال نے فخریہ کالر اٹھائے ۔ آریان نے آنکھیں گھمائیں ۔
"سالے صاحب اصغر رحمانی کو میں دیکھ لوں گا ۔مجھے لگتا ہے مجھے ان کی طبیعت درست کرنا ہو گی "
"تو کیا تم فون کرو گے یا براہ راست ملو گے ؟"
دانیال نے ابرو اچکاتے ہوے پوچھا ۔
"براہ راست "
آریان کہہ کر موبائل پر جھکا ۔
"خود جاؤ گے ؟"
دانیال تجسس سے بولا ۔
"نہیں برات لے جاؤں ؟"
آریان سخت تپا ہوا تھا ۔
"افففف ۔۔۔۔تو لے کر تو جا ۔۔تیری اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا میں خبر دار جو میری بہن کے علاوہ کسی اور کے بارے میں سوچا تو "
اس کے انداز سے آریان کے ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹ پھیل گئی ۔بے ساختہ اسے امل کا انداز یاد آیا ۔ دونوں بہن ،بھائی ایک جیسے ۔سوچتے ہوے آریان نے توبہ کی ۔ کیوں کہ جو بھی تھا امل ،دانیال سے لاکھ درجہ بہتر تھی ۔
"،آے کدھر ؟"
دانیال نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا ۔
"سوچ رہا تھا تم دونوں بہن بھائی آپس میں کتنا ملتے ہو کچھ عرصے پہلے امل نے بھی ہو بہو ایسے ہی دھمکی دی تھی مجھے ۔پھر یاد آیا وہ تو تجھ سے لاکھ درجہ بہتر ہے تیری طرح ہر وقت چرتی نہیں رہتی "
آریان آخر میں شرارت سے ہنسا ۔ دانیال جو اس کی بات کو انجوئے کر رہا تھا آخری بات پر فورا سیدھا ہوا ۔
"تو اس بھوتنی کو مجھ سے مت ملا "
"مت بھول وہ میری بیوی ہے "،
آریان جتاتے لہجے میں بولا ۔دانیال نے ناک چڑہائی ۔
"اور تو مت بھول میری بہن ہے وہ اور ہاں یاد آیا زینب آپی کیسی ہیں ؟"
ایک دم ہی شرارت سے دانیال کے لب پھیلے ۔دونوں گالوں کے ڈمپل اپنے شیطان سرکار کو گھورنے نکلے ۔
"تو بھولنے ہی کب دیتا ہے مجھے کہ تو اس کا بھائی ہے ۔۔یہ میرے جڑے ہاتھ دیکھ ۔پہلے بھی بتایا تھا زینب صاحبہ وکیل ہیں اور مجھ سے بڑی ہیں خدا کا واسطہ امل کو کچھ نا بتانا "
آریان چڑ کر بولا ۔دانیال نے پرسوچ انداز میں اس کی طرف دیکھا ۔
"ایک شرط پر ؟"
دانیال کچھ سوچتے ہوے بولا ۔آریان نے گہرا سانس بھرا ۔
بالوں میں ہاتھ پھیر کر وہ اس شیطان سرکار کو دیکھنے لگا ۔
"کیا کھانا ہے ؟"
آریان نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
"فرائز منگوا دو "
دانیال ہنس کر بولا ۔
"ویسے آریان ؟"
"ہممممم ؟؟؟"
وہ جو پی ۔اے کو فرائز کا کہنے کے بعد فون رکھ رہا تھا اس کی جانب دیکھنے لگا ۔
"تو کتنا جانتا ہے مجھے "
وہ دانت نکوستے ہوے بولا ۔
"وہ اس لیے کہ کسی کا تیرے جیسا بے غیرت اور پیٹو سالہ نہیں ہو گا "
آریان سخت تپا ہوا تھا ۔
"مینشن نوٹ "
دانیال نے فخریہ انداز میں داد وصول کی ۔ آریان اپنا سر پکڑ کر رہ گیا ۔اور دانیال اگلے دو گھنٹے وہیں بیٹھا آریان کا سر کھاتا رہا ۔
۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔______۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھڑی نے پانچ کا ہندسا عبور کیا تو سرمئی شام کے سائے گہرے ہوتے چلے گئے ۔ بڑھتی تاریکی سب نگلنے کے در پر تھی ۔ شام کے سائے ایسے گہرے ہوے جیسے اس شام کسی مقدر کو گرہن لگنے والا ہو ۔ آفندی مینشن کے لاؤنج میں موت سے بھی بدتر سناٹا تھا اور ھر کوئی اپنی جگہ سناٹوں میں گھرا تھا اور فلک کی ذات زلزلوں کی زد میں تھی ۔ صوفے پر شاہزیب صاحب گہری خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھے تھے ۔ عالیہ صائم کو گود میں لیے فلک کے بائیں جانب بیٹھی تھی ۔ امل ورطہ حیرت تھی ۔وہ گو مگو سی کیفیت میں بیٹھی فرش تکتی جا رہی تھی ۔ کسی میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ نظر اٹھا کر کسی دوسرے کو دیکھ لیتا ۔ ارفع بیگم ، اور عائشہ بیگم خاموشی سے آنسو بہاتی اسما بیگم کو سمبھالنے میں ہلکان ہو رہی تھیں ۔ تبھی داخلی دروازے سے دانیال شوخ سی سیٹی بجاتا اندر داخل ہوا ۔ پھر ٹھٹھک کر رکا ۔ سب سے پہلے اس کی طرف اٹھنے والا چہرہ شاہزیب صاحب کا تھا ۔
"خیریت آج کیا ہوا ہے سب کو ؟"
وہ عام سے انداز میں بولتا آگے آیا ۔کہ شاہزیب صاحب کی آواز پر اسے رکنا پڑا ۔
"وہیں رک جاؤ "
دانیال نے حیرت سے انھیں دیکھا جیسے جاننا چاہ رہا ہو کہ کیا ہوا ۔
"اچھا ضرور آپ لوگ مجھے کوئی سرپرائز دینے والے ھوں گے ۔۔۔ پتا چل ہی گیا آپ کو کہ میں اپنے پہلے پروجیکٹ میں کامیاب رہا ھوں اور ۔۔۔۔"
وہ ایک دھن میں بولتا شاہزیب صاحب کی طرف آیا جو چند قدم چل کر اس کے مقابل آٹھہرے ۔ فلک کے سوا سب کی نظریں ان دونوں پر تھیں ۔ھر نظر میں افسوس اور دکھ کی تحریر رقم تھی ۔
"چٹاخ ۔۔۔!!!"
تھپڑ کی آواز پورے لاؤنج میں گونجی ۔ اسما بیگم زور و شور سے رونے لگیں ۔ اپنے خوبرو چہرے پر ہاتھ رکھے حیرت سے پھٹی آنکھوں سمیت دانیال نے شاہزیب صاحب کو دیکھا ۔ مگر وہ رکے نہیں ۔
"چٹاخ۔۔۔چٹاخ ۔۔۔!!!"
نا جانے کتنے تھپڑ تھے جو وہ پے در پے اسے مارنے لگے ۔ وہ خاموشی سے آنکھیں جھکائے کھڑا ان کی مار سہتا رہا ۔جو بھی تھا وہ اپنے باپ کی بہت عزت کرتا تھا ۔ کچھ تو تھا جس نے انھیں اس حد تک مجبور کیا تھا مگر کیا تھا وہ ؟آج تک انہوں نے کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا اور آج ایسا کیا تھا کہ وہ ۔۔
نظریں فلک کی طرف اٹھیں تو ان آنکھوں میں اسے بس غصہ ،بےاعتباری اور اپنے لیے نفرت ہی نظر آئی ۔اس کا دل کٹ کر رہ گیا ۔
"آج کی شام ۔۔۔۔"
"آج کی شام تمہاری بربادی ہے "
اصغر رحمانی کی باتیں اس کے کانوں میں گونجنے لگیں ۔ کس بربادی کی بات کر رہا تھا وہ ؟
"میرا قصور "
وہ فقط اتنا ہی بول پایا ۔
"یہ ہے تمہارا قصور ،یہ دیکھو "
شاہزیب صاحب غضب ناک لہجے میں اس کے چہرے پر کچھ تصاویر اچھالتے ہوے بولے ۔جھک کر دانیال نے وہ تصاویر اٹھائیں تو آنکھیں حیرت کی زیادتی سے پھٹ کر رہ گئیں ۔ تصاویر میں ایک لڑکی کے ساتھ انتہائی شرم ناک حالت میں کوئی اور نہیں وہ خود تھا ۔ اسے اچھے سے یاد تھا کہ کچھ روز قبل آفس سے واپسی پر وہ میٹنگ کے لیے ہوٹل گیا تھا ۔جبھی دروازے سے اندر داخل ہوتے ایک لڑکی اس سے ٹکرائی تھی جسے سمبھالتے ،سمبھالتے وہ خود بھی امبیلینس ہوتا اس کے ساتھ گرا تھا ۔ نتیجتاً اس لڑکی نے رونا پیٹنا شروع کر دیا ۔ دانیال نے معذرت کی اور ایک نظر اسے دیکھتا چل دیا ۔ اسے لڑکی کا رویہ بہت عجیب لگا ۔کیوں کہ گرتے وقت تو بڑے دلفریب انداز میں وہ مسکرا رہی تھی اور نیچے گرنے کے بعد رونے لگی ۔لیکن اب اسے سمجھ آئی کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا ۔ تصاویر اس مہارت سے ایڈٹ تھیں کہ کسی بھی چیز کی نفی نہیں کی جا سکتی تھی ۔ اس نے بے یقین نظریں اٹھا کر سامنے فلک کو دیکھا ۔نظروں کا تصادم زبردست تھا ۔ ایک کی آنکھوں میں مان تھا کہ سامنے والا اس بات پر یقین نہیں کرتا ہو گا اور دوسرے کی آنکھوں میں نفرت اور بےاعتباری تھی ۔سب کی خود پر جمی نظریں دیکھ کر دانیال زمین میں گھڑنے لگا ۔شرم سے پانی ۔پانی ہونا کسے کہتے ہیں اس کا ادراک دانیال کو آج ہوا تھا ۔
"بابا یہ جھوٹ ہے ۔ایسا کچھ نہیں ہے میرا یقین کریں یہ سازش ہے میرے خلاف ۔۔رحما۔۔۔"
اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی ۔جب شاہزیب صاحب بول اٹھے ۔
"بسسسسسس ۔۔۔!!! مجھے بتاؤ کہ ایسا ہوا تھا؟ "
انہوں نے ھر احساس سے عاری آواز میں پوچھا ۔ دانیال کی ہمت ٹوٹنے لگی ۔
"بابا میری بات ۔۔۔"
وہ منمنایا ۔
"ہاں ۔۔۔یا ۔۔۔۔نا ؟؟؟؟؟"
وہ کٹھور لہجے میں بولے ۔
"ایکسیڈنٹ تھا وہ ۔۔۔"
دانیال نے بولنا چاہا ۔
"ہاں ۔۔۔۔یا ۔۔۔۔۔نا ؟؟"
وہ بہت سخت انداز میں بولے ۔
"ہاں پر ایسا نہیں ہے جیسا دکھایا ۔۔۔"
دانیال نے وضاحت دینا چاہی ۔
"چٹاخ ۔۔۔!!!!"
اس تھپڑ نے دانیال کو بہت تکلیف دی تھی ۔ اس تھپڑ نے اسے اس کی اوقات کا تعین کروایا تھا ۔ کیونکہ یہ تھپڑ وہاں سے آیا تھا جہاں سے اس نے امید بھی نہیں کی تھی ۔زخمی نظریں اٹھا کر اس نے سامنے کھڑی اپنے جان جہاں کو دیکھا ۔ دل اس کی بے اعتباری پر قہقہے لگاتے ہوے ہنس رہا تھا اور دماغ اسے چڑا رہا تھا کہ دیکھ لو دانیال شاہزیب یہ ہے تمہاری محبت۔۔۔ یہ سنگ دل ہے تمہاری محبت ۔
"جھوٹے ،ذلیل میری زندگی برباد کر دی تم نے میں نے تم سے محبت کی تھی دانیال شاہ ۔۔اور تم نے مجھے اس کا یہ صلہ دیا۔ تم ایک گرے ہوے انسان ہو جو محبت کے لائق نہیں تم جیسے لوگ کیا جانیں محبت کیا ہوتی ہے ۔ تف ہے تم پر اور مجھ پر بھی جو اپنی زندگی برباد کرتی رہی ۔افسوس میں تم سے محبت کرتی رہی ۔۔۔ "
فلک ترش لہجے میں بولی ۔لہجہ آنسووں سے بھیگا ہوا تھا ۔ آنکھوں سے ٹپ ، ٹپ بہتے آنسو گال بھیگو رہے تھے اور دانیال شاہزیب کی محبت کو آفرین تھی جو ایسے وقت میں بھی اس کے لفظوں سے دکھی نہیں اس کے آنسووں سے دکھی ہو رہا تھا ۔
"تم رو مت فلک ۔۔۔یہ سب جھوٹ ہے حقیقت کچھ اور ہے "
وہ آگے بڑھتے ہوے بولا ۔فلک نے اذیت بھرے انداز میں قہقہہ لگاتے ہوے تالی بجائی ۔
"واقعی حقیقت کچھ اور ہے ۔تمہاری حقیقت کچھ اور ہے دانیال شاہ "
آنکھوں کے پپوٹے رونے کے باعث سوجھے ہوے تھے ۔دانیال خود بھی حیرت سے کنگ تھا ۔اپنے کردار کی صفائی کے لیے گویا سب الفاظ ختم ہو گئے تھے ۔
"فلک میری بات سنو ۔۔فلک میرا یقین کرو یہ جھوٹ ہے "
دانیال شاہزیب کی ہستی طوفانوں کی زد میں تھی ۔مگر شاید آج قدرت اس پر مہربان نا تھی ۔فلک رخ موڑے کھڑی آنسو بھا رہی تھی ۔دانیال نے کسی کی پروا کیے بغیر اس کا رخ اپنی جانب کرنا چاہا ۔
"فلک ۔۔دیکھو "
وہ اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کا دانیال ایسا نہیں ہے ۔ وہ اس کے علاوہ کسی کو دیکھتا تک نا تھا کجا کہ ؟
"ہاتھ مت لگاؤ مجھے دانیال "
فلک نے اپنے کندھے پر جمے اس کے ہاتھ کو جھڑکا ۔
"فلک مجھے سزا دو ۔۔جو کہنا ہے کہو مگر یہ مت کرو "
فلک اذیتی انداز میں مسکرائی ۔
"سزا برداشت کر لو گے دانیال شاہ ؟"
انتہائی سرد لہجہ تھا اس کا ۔دانیال کو کچھ غلط ہونے کا ادراک ہوا ۔مگر وہ اس وقت صحیح غلط جانے ،سمجھنے کی حالت میں نہیں تھا ۔
"ہاں ۔۔لیکن یوں مت کرو بولو کیا ۔۔۔۔"
"طلاق دے دو مجھے "
دانیال کی بات بیچ میں رہ گئی تو فلک کی سرد آواز دانیال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کرتی گئی ۔ جسم میں دھوڑتے خون کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی ۔ دماغ جیسے پھٹنے کے در پر تھا۔ دو منٹ خاموشی سے وہ اس کی طرف یک ٹک بے یقین نظروں سے دیکھتا رہا ۔ویسے ہی جیسے کچھ دیر پہلے وہ اسے دیکھ رہی تھی ۔ سب کی نظریں ان دونوں پر تھیں جو ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے ۔ دانیال مرد تھا اسے رونے کی اجازت نہیں تھی مگر وہ صنف نازک تھی ۔وہ رو رہی تھی ۔ دانیال کی آنکھیں برداشت کے باعث سرخ ہو گئی تھیں ۔
"دو طلاق مجھے ۔۔"
دانیال کا ہاتھ اٹھا تھا لیکن دل کے ہاتھوں بے بس اس نے نامحسوس انداز میں ہاتھ واپس گرا لیا ۔لاؤنج میں مکمل سناٹا تھا ۔ شاہزیب صاحب ان دونوں کے درمیان اکھڑے ہوے ۔
"نا جانے میری تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی کہ آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ۔عورت پر ہاتھ اٹھانے لگے تھے تم ۔۔۔عورت پر ؟؟ ایک تو گناہ بھی خود کیا اور اوے چھپا ایسے رہے تھے ۔ایسے ؟؟؟ تف ہے تم پر اور مجھ پر جو تم جیسے شخص کا باپ ھوں ۔ میں پہلے ہی سب کو منہ دکھانے لائق نہیں رہا اس حرکت کے بعد کیا چاھتے ہو تم ۔۔۔؟؟ کیا چاھتے ہو کہ مر جاؤں ۔۔؟ مر جاؤں میں؟؟جس کی اولاد تم جیسی ہو اسے مر ہی جانا چاہیے ۔"
"بابا جان "
دانیال نمناک لہجے میں بول اٹھا ۔وہ ضبط کھونے لگا تھا ۔ حالت تو اسما بیگم کی بھی خراب ہوتی جا رہی تھی جو جوان بیٹے اور شوہر کو یوں مقابل کھڑا دیکھ رہی تھی ۔
"نہیں ھوں تمہارا باپ میں ۔ مر گیا وہ شاہزیب جسے تم جیسے بیٹے کے ہونے پر غرور تھا ۔ ملا دیا میرا غرور خاک میں تم نے ۔۔۔خاک کر دیا مجھے ۔ ...چلے جاؤ یہاں سے ۔نکل جاؤ یہاں سے "
وہ ڈھیٹ بن کر بولے ۔اسما بیگم تڑپ کر رہ گئیں ۔ امل دھوڑ کر ان کے پاس آئی ۔
"بابا جانی ایسا مت کریں ۔۔ آپ ایک بار صرف ایک بار دانی کی بات سن لیں ۔ہمارا دانی ایسا نہیں ہے ۔۔بابا ہمارا دانی نہیں ہے ایسا ۔۔۔"
وہ چلاتے ہوے بولی ۔ دانیال نے نظریں اٹھا کر اپنی بہن کو دیکھا جو اس کے ساتھ کھڑی تھی ۔ چاہے سب اس سے رخ موڑ رہے تھے مگر اسے بھروسہ تھا اپنے بھائی پر ۔امل فلک کی جانب مڑی ۔
"فلک ۔۔۔تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو ؟ کہ دانی ایسا کرے گا ۔ پوری زندگی اس نے تمہارے سامنے ہمارے سامنے گزاری ہے ۔۔۔ مگر اس کا کردار کورے کاغذ کی مانند رہا ہے صاف اور شفاف ۔۔۔ ہمارا دانی ایسا نہیں ہے ۔وہ صرف تم سے محبت کرتا ہے "
امل اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوے بولی ۔
"امل بس ۔۔۔کر دو ۔۔۔اور تم ابھی تک یہیں کھڑے ہو نکل جاؤ ۔۔چلے جاؤ میری نظروں سے دور ہو جاؤ ابھی اور اسی وقت "
شاہزیب صاحب نے اسے دھکا دیا وہ گرتے ،گرتے سمبھلا ۔
"شاہزیب ایسا مت کریں ۔وہ بچہ ہے کدھر جائے گا ۔"
اسما ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوے بے بس سی بولیں ۔
"یہ تو اس بچہ کو ایسا کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا ۔ "
وہ سخت لہجے میں بولے ۔
"نکلو یہاں سے ۔۔اس سے پہلے میں گارڈز بلاؤں ۔۔دفع ہو جاؤ "
وہ دانیال کی طرف مڑے ۔ دانیال نے نظریں اٹھا کر فلک کی طرف دیکھا ۔جو روتے ہوے اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی ۔
"فلک تم پچھتاو گی مگر پھر میں تمہیں معاف نہیں کروں گا ہرگز نہیں "
وہ اونچی آواز میں چلایا ۔اپنے کمرے کے دروازے سے لگ کر کھڑی فلک کا دل ڈوب کر ابھرا ۔ دانیال نے باقی سب پر نظر ڈالی ۔ فرحان صاحب رخ موڑے بیٹھے تھے وہیں سہیل صاحب نے بھی نظریں چرا لیں ۔دانیال نے آگے بڑھ کر اسما بیگم کے ماتھے پر لب رکھ دیے ۔ انہوں نے آنکھیں موندے اپنی ممتا کی پیاس بجھائی ۔ پھر وہ امل کی طرف مڑا جو سیدھا اس کے گلے آلگی ۔
"مجھے تم پر بھروسہ ہے دانی ۔۔۔ فکر مت کرنا ۔نمبر اون رکھنا ۔آریان سب دیکھ لیں گے ۔اللّه کی امان میں ۔سب ٹھیک ہو جائے گا "
وہ اس کے کانوں کے پاس آہستہ آواز میں بولی پھر علیحدہ ہو کر آنسو پونجھے ۔ دانیال نے شاہزیب صاحب کی طرف دیکھا شاید وہ اس کی بات سن لیں ۔
"بابا ۔۔"
اس نے آخری کوشش کرنا چاہی ۔
""دفع ہو جاؤ "
"آپ لوگ پچھتائیں گے "
وہ دھیمے لہجے میں بولا ۔
"،کہاں جائے گا وہ "
اسما بیگم کو دوہری پریشانی نے آگھیرا ۔
"میری بلا سے مر جائے ۔"
شاہزیب صاحب سخت لہجے میں بولے مگر لہجے کی کپکپاھٹ واضع تھی ۔
دانیال تھکے ،تھکے قدم اٹھاتا دہلیز پار کر گیا ۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی پہلی کامیابی اس کے لیے اتنی بڑی تباہی لانے والی ہے ۔آج کی شام واقعی اس کی بربادی لائی تھی ۔ دانیال شاہزیب سڑک کنارے لٹے ہوے مسافر کی طرح تہی دامن چل رہا تھا ۔ قسمت نے اس کے ساتھ کیسا مذاق کر دیا تھا کہ وہ قسمت کے اس مذاق پر خود بھی حیران و پریشان تھا ۔ناجانے کیوں دل کو امید تھی کہ کوئی اس کا اعتبار کرے نا کرے وہ دشمن جان ضرور کرے گی ۔مگر وہ تو اسے بری طرح زخمی کر چکی تھی ۔اپنے لہجے ،اپنی باتوں اور اپنی بے اعتباری سے ۔ دانیال شاہزیب بے موت مر چکا تھا ۔دل میں کوئی بھی جذبہ محسوس نہیں ہو رہا تھا ۔ دھڑکنیں تھم ،تھم کر چل رہی تھیں ۔ اسے نا منزل کی خبر تھی نا راستے کی ۔بس تھکے قدم ،شکستہ دل جہاں لے جا رہا تھا وہ وہیں چل رہا تھا ۔
"جھوٹے ،ذلیل میری زندگی برباد کر دی تم نے"
فلک کی آواز کہیں بہت دور سے آرہی تھی ۔آوازوں کا شور تھا کہ بڑھنے لگا ۔
" تم ایک گرے ہوے انسان ہو جو محبت کے لائق نہیں"
"تمہاری حقیقت کچھ اور ہے دانیال شاہ "
"طلاق دے دو مجھے "
"طلاق دو مجھے ۔"
"طلاق دو ۔۔۔"
اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔ ایک قطرہ ،پھر دوسرا اور پھر آنسو متواتر اس کی آنکھوں سے بہنے لگے ۔
"اتنا بے اعتبار تو نہیں تھا میں ۔اللّه جی کیوں ؟"
وہ ناچاھتے ہوے بھی شکوہ کرنے لگا ۔بے خیالی میں سڑک پار کرتے ہوے وہ ایک بار پھر رکا ۔شاہزیب صاحب کی آواز اب کی بار سنائی دی ۔
"میں پہلے ہی سب کو منہ دکھانے لائق نہیں رہا اس حرکت کے بعد کیا چاھتے ہو تم ۔۔۔؟؟ کیا چاھتے ہو کہ مر جاؤں ۔۔؟ مر جاؤں میں؟؟جس کی اولاد تم جیسی ہو اسے مر ہی جانا چاہیے ۔"
"ملا دیا میرا غرور خاک میں تم نے ۔۔۔خاک کر دیا مجھے ۔ ...چلے جاؤ یہاں سے ۔نکل جاؤ یہاں سے "
"میری بلا سے مر جائے ۔"
ہارن کی آواز پر وہ چونکا ۔ دھندلی آنکھوں کے پار اس نے دیکھا کہ ایک ٹرک بہت تیزی سے اس کی طرف آرہا ہے ۔ موت لمحہ بہ لمحہ اس کے قریب ہوتی چلی جا رہی تھی ۔ اور اس لمحے دانیال شاہزیب نے بےاعتبار زندگی سے زیادہ موت کو ترجیح دی تھی ۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!

آخری قسط تک انتظار کریں ۔۔🤐خاصہ سسپینس ۔۔۔۔اففف ۔😂
کیا ہو گا اب ؟؟؟ 🙄۔۔۔!!!

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now