"یو بلڈی فول ۔ بےوقوف لڑکی شٹ اپ ۔۔!!!"
بینش پاؤں پٹختی وہاں سے واک اوٹ کر گئی۔
"چلیے ڈیر وائفی"
دانیال نے مسکراہٹ دباتے ہوے کہا۔
"اچھا … اچھا اب زیادہ اور ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ ہلکا سا مذاق تھا"
فلک چڑ کر بولی۔
"ہائے صدقے اگر تمہارا یہ ہلکا سا مذاق میری جان لے لیتا تو؟"
دانیال آبرو اچھکاتے ہوے بولا۔
"ہنن ۔۔۔اتنی تم نازک جان ، اور مر بھی جاتے تو خیر تھی زمین پر چلتا پھرتا بوجھ ہو تم اور تمہارے مرنے سے پاکستان کے وسائل بھی بچے رہیں گے۔"
فلک یوں بولی جیسے اس کے مرنے پر سب سے پہلے شکرانے کے نفل وہی پڑھے گی۔
افسوس صد افسوس!!!
دانیال نے گردن نفی میں ہلاتے ہوے افسوس کا اظہار کیا۔
"اچھا بس بس اب چلو زیادہ اوور نا ہو"
فلک پاؤں پٹختی امل کی جانب بڑھی جو ابھی بھی لائبریری کا خالی بینچ دیکھ رہی تھی۔
(ایک تو امل نے جب سے آریان کو دیکھا ہے مراقبے میں جا کر فوت ھی ہو گئی ہے ہاں یار ظاہری سی بات ہے ابھی تک شاک کے زیر اثر ہے)
فلک دل ھی دل میں سوچتی امل کی جانب بڑھی۔
کلاسز اٹینڈ کرنے کے بعد وہ تینوں کیفےٹیریا کی طرف بڑھے۔پڑھائی کے نام سے تو وہ تینوں پہلے ھی ایسے بھاگتے تھے کہ گویا وہ پڑھائی نہیں ان کی دشمن ہو ۔۔۔!!!
ایسا نہیں تھا کہ وہ فیل ہوتے تھے مگر ان کا کہنا یہ تھا کہ جو مزہ طوفان میں کشتی چلانے کا ہے وہ مزہ ساحل پہ کشتی چلانے میں نہیں آتا۔اسی پرینسیپل پر عمل کرتے ہوے وہ تینوں عین امتحانوں کے وقت پڑھتے تھے۔
بقول دانیال اور فلک کے
"کتابیں دیکھتے ھی ہمارا بی پی لو ہو جاتا ہے "
اور اس وقت بھی وہ اپنے بی پی کو ھی نارمل کرنے کیفے ٹیریا کی طرف آئے تھے۔
اففف یار ۔۔۔!!
امل،دانیال اور فلک نے اپنے بیگز کو ٹیبل پر اس قدر زور سے پٹخا کہ گویا ان میں بمب ہوں۔فلک ،دانیال اور امل نے منہ"اوپس" کے سٹائل میں کھول کر اپنے دائیں جانب دیکھا جہاں پڑھاکووں بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ چشمش بچوں کا گروپ بیٹھا تھا۔دھماکے کی آواز پر انہوں نے ہڑبڑا کر منہ(جو کتابوں کے اندر دیے ہوے تھے) اٹھا کر انھیں گھورا اور ایک ھی فلو میں چاروں نے اپنے چشمے درست کیے (جو ہڑبڑاہٹ میں کسک کر ناک پر پہنچ چکے تھے)
"کیا مسلہ ہے آپ کے ساتھ بھائی؟ پہلے کس کدھر زور سے آپ نے افف کیا اور اب یہ اتنا شور ؟؟"
اک چشمش نے نہایت عزت سے عزت افزائی کرتے ہوے پوچھا۔
"ہنن پڑھ لو ،پڑھ لو پھر تم جیسے ھی ہوتے ہیں جو بعد میں بھائی یہ ٹوپک کروا دیں ،یہ والا بھی کروا دیں کرتے ہمارے پیچھے دم چھلوں کی طرح پھرتے ہیں ۔مگر میں اک بات واضع کر دوں ہمارا شیڈول اینڈ پر جا کر بہت ٹف ہو جاتا ہے اور پھر ہم سمجھاتے اک لفظ نہیں ہیں اس وقت اس لیے بہتر ہے پڑھ لو"
دانیال نے کہتے ہوے گھڑی پر یوں وقت دیکھا کہ گویا ان سے بات کرتے ہوے بھی لارڈ صاحب کا قیمتی وقت برباد ہو رہا ہے۔لڑکوں نے حیرت سے امل اور فلک کو دیکھا جو خود شاک کی کفیت میں تھیں (یہ کیا کہہ رہا ہے؟)
جب کہ لڑکوں کو اپنی طرف متوجہ پا کر وہ تائیدی انداز میں کندھے چوڑے کر کے زور و شور سے سر اثباہت میں ہلانے لگیں گویا دانیال کے کہے پر (جو کہ اک اک لفظ جھوٹ تھا ) یقین کی مہر لگا سکیں۔
"اوہ کوئی بات نہیں سوری ہو جاتا ہے کبھی ، کبھی ایسا"
چشمش لڑکا معذرت کرتے ہوے بولا۔
"ہاں ۔۔۔ہاں ٹھیک ہے اپنا کام کرو۔۔۔!!!"
نخوت سے حکم دے کر وہ تینوں اپنی اپنی کرسیاں کھینچ کر بیٹھ چکے تھے۔اپنے ہمیشہ والے انداز میں(فلک اور دانیال اک دوسرے کے برابر جب کہ امل ان کے سامنے)(دانیال اور فلک کے ساتھ بیٹھنے میں بھی اک لاجک تھا اور بقول فلک کے اگر میں دانی کے سامنے بیٹھ کر کھاتی ہوں تو مجھے نظر لگ جاتی ہے۔اور آج صبح جب اس نے مجھے آلو والے پراٹھے کھاتے دیکھا تھا سامنے بیٹھ کر تب سے ھی میرا پیٹ درد کر رہا ہے)
"یار لیکچرز کافی بورنگ تھے نہیں ؟؟؟؟"
دانیال کے کہنے پر فلک اور امل نے بھی اس کی بات کی تائید کی ۔
ہیلو کیسا گزرا تم لوگوں کا پہلا دن ؟"
مانوس سی آواز پر کھڑکی سے باہر دیکھتی امل نے چونک کر اپنی دائیں جانب دیکھا جہاں آریان انہی سے مخاطب اپنا بیگ سائیڈ پر رکھ کر امل کے ھی برابر کرسی کھینچ کر بیٹھ چکا تھا۔
امل نے گہری سانس کھینچ کر اس کے کلون کی خشبو کو محسوس کیا۔آریان خود پر جمی امل کی نظروں سے باخبر تھا۔
"صحیح ھی تھا بس "
فلک کی آواز پر امل سر جھٹکتی ان کی طرف متوجہ ھوئی۔
"اوہ یہ تو ہو گا آخر کو تم لوگوں نے بزنس جیسا خشک سبجیکٹ سلیکٹ کیا ہے "
آریان نے مسکراتے ہوے کہا۔
"اچھا تو مستقبل قریب میں تم کیا کرنے والے ہو ؟"
دانیال کو یاد آیا وہ کتنا اہم سوال پوچھنا بھول گیا ۔
" ابھی تو فلحال سی۔ایس۔ایس کی تیاری کر رہا ہوں پھر پولیس ڈیپارٹمنٹ جوائن کروں گا"
آریان کی بات پر امل نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
آریان نے بھی رخ موڑ کر اس کے تاثرات جانچے ۔
وقت رکا تھا،
کون کہتا ہے وقت نہیں رکتا؟
وقت رکتا ہے۔۔۔!!! کچھ پرانی یادوں کو دہرانے کے لیے۔۔۔ ۔!!!
حال ماضی میں تبدیل ہوا تھا۔ہر چیز تخیل ہو گئی تھی۔
امو ۔۔۔!!
ہممممم ۔۔؟
نو سال کی امل نے بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوے ہممممم کہنے پر ھی اکتفا کیا۔
"یار تمہے فوجی پسند ہیں یا بزنس مین؟؟؟"
دس سالہ آریان نے ہتھیلی پر ٹھوڑی ٹکائے محویت سے اسے دیکھتے ہوے پوچھا۔
"اممم نا ھی فوجی اور نا ھی بزنس مین ۔مجھے تو پولیس والے پسند ہیں ۔"
امل نے ناک چڑہاتے ہوے کہا۔ایسا کرتے ہوے وہ آریان کو بہت پیاری لگی تھی۔
"اچھا پھر میں پولیس والا بن جاؤں گا "
آریان نے کچھ سوچتے ہوے کہا پھر اک دم دوبارہ بولا ۔
"پر امو پولیس والے رشوت لیتے ہیں وہ برے بھی ہوتے ہیں اب ؟"
آریان نے معصومیت سے پوچھا تو بریڈ کھاتی امل نے اف کے انداز میں ماتھے پر ہاتھ مارا۔
"ارے پاگل سارے تھوڑی نا لیتے ہیں ۔تم اچھے والے بن جانا نا "
"ہاں یہ ٹھیک ہے "
آریان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے کہا۔
"اچھا پھر سے وہی کرنا"
کیا ؟؟؟
"وہ جب تم نے اف کیا تھا ۔"
آریان نے معصومیت سے کہا۔
"اف "
امل نے پھر سے سر پیٹا۔
افففف ""واٹ پولیس ؟
دانیال کی آواز پر امل نے اس کی طرف دیکھا جو اسی کے انداز میں سر پیٹ رہا تھا۔ (کچھ عادتیں نہیں بدلتیں )
ماضی سے حال کا سفر طے کرکے اس نے سٹپٹا کر آریان کو دیکھا جو دانیال کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
آریان اتنی لاتعلقی ؟؟؟
وہ صرف سوچ ھی سکی۔
(اگر اسے کچھ یاد نہیں تو میں کیوں خود کو ہلکان کروں سوچ سوچ کر ؟)
"اچھا اب کچھ منگواو آریان میری تو بھوک سے جان جا رہی ہے "
فلک نے دہائی دیتے ہوے کہا۔
"اور میرا بیپی لوو ہو رہا ہے ہائے میں گیا "
دانیال نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوے دہائی دی۔
"تم لوگوں کا پیٹ ہے یا کنواں ؟ کتنا کھاؤ گے تم دونوں "
امل نے حیرانگی سے پوچھا۔
"اف امل ڈیر مینشن ناٹ ڈیر "
فلک نے دانت نکالتے ہوے کہا۔
اچھا یار آریان کچھ منگواو "
دانیال کے کہنے پر آریان نے مسکراتے ہوے اشارہ کیا تو کچھ ھی دیر میں اک بچہ دھوڑتا ہوا ان کے پاس آیا ۔
"آریان لالا تم کتنے دن بعد آیا ہے "
گل کے خالص پٹھانی لہجے میں کیے گئے شکوے پر امل ،فلک اور دانیال نے بمشکل اپنی ہنسی دبائی ۔
" آریان لالا ! ویسے یہ پورا کا پورا تمہارا دوست ہے؟"
اس نے ان تینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا۔
"ہاں ہم آدھا اس کا دوست ہے اور آدھا بلی کا گوشت ہے "
دانیال نے اسی کے لہجے میں جواب دیا تو سب ہنسنے لگے ۔گل ابھی تک دانیال کی ماری گئی چس کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"ہائے تم کتنا کیوٹ ہے ؟"
فلک نے اس کی گالیں کھینچتے ہوے کہا ۔
"توبہ تم یہ کیا کر رہا ہے ؟"
گل کو تو گویا کرنٹ ھی لگ گیا۔اک دم اچھل کر وہ اک طرف ہوا۔
"کیا کیا میں نے ؟"
فلک نے حیرانگی سے پوچھا ۔
"یہ جو تم نے ابھی کیا "
اس نے اپنی گال رگڑتے ہوے کہا۔
"اچھا یہ "
فلک نے پھر سے اس کی گال کھینچی ۔
"استغفراللّه ۔۔۔ باجی ام تمارے چھوٹے بھائی جیسا ہے "
گل نے روندو صورت بناتے ہوے کہا۔
"اور ام تم سے دس سال چھوٹا بھی ہو گا ۔اماں کہتی ہے لڑکیوں سے دور رہنا چاہیے اور ام رہتا بھی ہے بس ۔۔۔"
گل کا چہرہ یکدم سرخ ہوا۔
"بسس ؟؟؟"
امل نے مسکراتے ہوے پوچھا ۔
"نا کریں ام کو شرم آتی ہے۔"
گل نے اپنا چہرہ چھپاتے ہوے کہا۔
"اؤے چپ کر کے بتا شرم کا بچہ نا ہو تو "
دانیال نے چڑ کر پوچھا۔
"بس ام نا ،ام نا گل رخ سے نہیں دور رہتا"
ہیں؟؟؟یہ گل رخ کون ہے ؟
آریان نے حیرانگی سے پوچھا ۔
وہ ،وہ اماری منگ ہے "
گل نے قمیض کا کونہ منہ میں دباتے ہوے کہا۔
اوہو ۔۔۔۔!!!!
امل ،آریان ،فلک اور دانیال نے مشترکہ ہوٹنگ کی تو بیچارہ گل گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
نا کرو نا ۔۔۔!!! آریان لالا ۔۔۔! آپ نے مجھے آواز کیوں دیا تھا ؟
اس نے گھبرا کر بات بدلی۔
"ہاں گل چار بوتلیں اور چار بریانی کی پلیٹ لے آو۔"
آریان اس کے اس طرح بات گھمانے پر مسکرا دیا۔
"کیا اتنا تھوڑا ؟"
فلک اور دانیال کی دہائی پر امل نے بمشکل اپنی ہنسی کو دبایا۔
"ہیں ؟؟؟"
آریان نے بھی انھے حیرانی سے دیکھا ۔
"گل اک کام کرو ساتھ میں میرے لیے ایک برگر ،دو سینڈوچ ،دو سموسے ،دو رول اور اک چنا چاٹ کی پلیٹ لے آو بس "
فلک نے بازو ٹانگتے ہوے کہا گویا سامنے کھانا پڑا ہے اور وہ اسے للکار کر کہ رہی ہے" مجھ سے بچ کر دکھاؤ "
"اور میرے لیے بھی یہی سب لے آنا "
دانیال نے اپنی ٹانگوں پر رومال بچھاتے ہوے کہا۔
امل ،آریان اور گل منہ کھولے انھے دیکھ رہے تھے ۔
بس ؟؟؟
امل نے صدمے کی کفیت میں پوچھا۔
ہاں ۔۔۔یہ تو ہم بس ٹیسٹ کرنے کے لیے کھانے والے ہیں "
دونوں نے سکون سے جواب دیا۔
"تم کیسے اتنا زیادہ کھاؤ گے؟"
گل نے معصومیت سے دانیال سے پوچھا۔
"یہ اپنے اتنے بڑے ڈایناسور جیسے منہ سے کھائے گا"
فلک نے اطمینان سے جواب دیا ۔
"بکواس بند کرو اپنی"
دانیال نے تنک کر کہتے ہوے اپنی توپوں کا رخ گل کی طرف کیا۔
"تم نے اس سے کیوں نہیں پوچھا یہ بھی تو یہی
سب کھا رہی ہے "
"ادھر آو "
گل نے اشارے سے دانیال اور آریان کو اپنے قریب بلایا۔
"وہ اس لیے ام جانتا ہے لڑکیوں کو چٹپٹی چیز کھانے کا اور چٹخارے لگانے کا بہت شوق ہوتی ہے ۔اور ان باجی (فلک )کو دیکھ کر تو پتا لگ جاتی ہے کہ ان کو دوسروں کا بھی چیھن کر کھانے کی عادت ہے ۔"
گل نے آریان اور دانیال کے کانوں میں گھستے ہوے کہا ۔مگر امل اور فلک بخوبی سن چکی تھیں ۔
"گل کے بچے ۔۔۔!!!"
فلک نے دانت پیستے ہوے کہا۔
"اف ہائے باجی تم کتنی گندی والی باتیں کرتا توبہ ۔۔!! اماری تو ابھی شادی نہیں ھوئی تم نے تو بچہ بھی پیدا کر دیا۔"
اب کہ گل نے اپنی قمیض کے ساتھ ساتھ اپنے ہاتھوں سے بھی منہ چھپا کر کچن کا رخ کر لیا کیوں کہ قمیض اور ہاتھ اس کی شرم کو چھپانے کے لیے ناکافی تھے۔
اس کے جانے کے بعد امل،آریان ،دانیال اور فلک کا قہقہ بےساختہ تھا۔
"تو آج ریگینگ کا تم لوگوں کا بچپن کا شوق بھی پورا ہو گیا ہو گا۔۔۔ نہیں ؟؟"
آریان نے مسکراتے ہوے پوچھا۔
"اور نہیں تو کیا ؟ مزہ آگیا"
دانیال نے مزہ لیتے ہوے کہا۔
"پتا تھا مجھے "
آریان جیسے پہلے ھی جانتا تھا۔
یاد ہے ہم اک دوسرے کا بدلہ کیسے لیتے تھے ؟
امل نے مسکراتے ہوے پوچھا۔
"یار وہ دن بہت زبردست تھے"
فلک اور دانیال نے نے بھی ٹکڑا دیا۔
"ہاں نا یاد ہے کیسے اک دفع اسکول کی مانیٹر نے امل کی نوٹبک کا اک پیج پھاڑا تھا تو فلک نے پوری نوٹ بک پھاڑ دی تھی "
آریان نے ہنستے ہوے کہا۔
"اور کیا ایویں جانے دیتی ہمت کیسے ھوئی تھی اس باندری کی "
فلک نے غصے سے بھرپور لہجے میں کہا۔
"اور جب اک دفع آریان کا کسی لڑکے سے جھگڑا ہوا تھا اور اس نے آریان سے ہاتھا پائی کی تھی پھر کیسے ،میں نے امل نے اور فلک نے مل کر اس کی دھلائی کی تھی "۔
دانیال نے ہنستے ہوے کہا۔
"اور بعد میں انکل انٹی سے تم لوگوں کی دھلائی ھوئی تھی۔"
آریان نے تپانے والی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوے کہا۔
"اور اس نمرہ بیچاری کے ساتھ جو اس امل چڑیل نے کیا تھا وہ تو بھلائے نہیں بھولتا قسمے ۔۔!! بیچاری کی غلطی صرف اتنی تھی کہ اس نے غلطی سے اپنی لمبی چوٹی فلک کے منہ پر مار دی تھی۔اور امل سے فلک کا رونا برداشت نا ہوا تو اگلے روز ھی بیچاری کی پچھلی چیر پر بیٹھ کر اس نے اس کی لمبی چوٹی کو شہید کر دیا تھا جس کی لمبائی اور خوبصورتی کی مثال پوری کلاس میں دی جاتی تھی۔"
دانیال نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔
"تمہے کیوں اس کی اتنی فکر ہو رہی ہے مجھے ابھی بھی یاد ہے ان تعریف کرنے والوں میں تم صف اول تھے ۔"
فلک نے سلگتے لہجے میں کہا۔
"ہاہاہا تم جل رہی ہو میری مچھلی جل کی رانی ۔ ویسے سہی بات ہے خوبصورت تو وہ انتہا کی تھی ،بلا کی تھی ،کمال کی تھی ،جمال کی تھی "
دانیال نے آنکھ دباتے ہوے کہا۔
"بکواس بند کرو بےہودہ آدمی میں جلوں گی ؟ اور وہ بھی تم سے ؟"
فلک پھاڑ کھانے کو دھوڑی ۔
اچھا۔۔۔!! ارادہ ہے تمہارا ؟ پھر کب جلو گی ؟
دانیال نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوے پوچھا۔
"تم دونوں لڑنا بند کرو گے پلیز ؟ ہنن ۔۔۔۔۔ بس موقع چاہیے ہوتا ہے لڑنے کا تم دونوں کو "
امل نے انھیں گھورتے ہوے کہا۔
"میں نہیں لڑتی امو یارر تمہارا یہ بھائی لڑائی شروع کرتا ہے "
فلک نے منہ بسورتے ہوے کہا۔
"کیا ؟؟؟؟؟
میں ؟؟؟
میں لڑائی شروع کرتا ہوں ؟میں لڑتا ہوں ؟
تو شاید واقع میں لڑائی شروع کرتا ہونگا "
دانیال نے ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار بنتے ہوے کہا۔
"چپ اک دم چپ ۔۔۔! کیا ہر وقت بچوں کی طرح لڑتے رہتے ہو ہاں ؟؟؟ اب نا تم بولو گی فلک اور نا یہ "
آریان نے دونوں کو گھورتے ہوے کہا۔جو اس کی بات سن بھی نہیں رہے تھے۔
ان دونوں کی آنکھیں تو پیچھے نظر آتے خوبصورت منظر کو دیکھ کر چمک اٹھیں۔
آریان اور امل نے حیرانی سے اک دوسرے کو دیکھا اور اگلے ھی لمحے چونک کر مڑے۔
کیا ؟؟؟؟؟
آریان اور امل کا منہ کھلا کا کھلا ھی رہ گیا۔
انہوں نے اک نظر پھر فلک اور دانیال کو دیکھا تاکہ ان کے شک کی تصدیق ہو سکے۔فلک اور دانیال نے محبت بھری نظریں گل کے ہاتھوں میں موجود کھانے کے لوازمات پر ڈالیں ۔اور اگلے ھی لمحے ٹیبل پر موجود کھانے کے سامان پر ٹوٹ پڑے۔
"استغفرالله "
آریان اور امل بڑبڑاتے ہوے بریانی کی طرف متوجہ ہوے ۔
دانیال بریانی میں موجود لیگ پیس کا پوسٹ ماٹرم کر رہا تھا تو فلک پورا سینڈوچ اک بار ھی منہ میں گھسانے کی سعی کر رہی تھی ۔وہ دونوں اس طرح کھا رہے تھے کہ گویا دونوں کے بیچ مقابلہ ہو ۔
"اممم ۔!!کھانا تو اچھا ہے ۔۔۔"
دانیال بول بھی رہا تھا اور اپنے منہ سے بریانی کی بارش بھی کر رہا تھا۔
"ہاں ں ں ۔ ۔ ۔ "
فلک نے بھرے منہ سے جواب دیا۔
"صبر سے کھاؤ پلیز"
امل نے منت آمیز انداز اپنایا ۔اب بس ہاتھ جوڑنے کی کثر باقی تھی۔
"یارر صبر سے ھی کھا رہے ہیں "
دانیال نے آدھا رول منہ میں ڈالتے ہوے کہا۔
"ہممممم دکھ بھی رہا ہے امل چلو ہم تو کھائیں "
دانیال اور فلک کو اک نظر دیکھتے ہوے اس نے کہا تو بےاختیار ھی امل کو بھی کہہ ڈالا۔
ہا ۔ ۔ ۔ ہاں
امل نے کوک کا گھونٹ بھرتے ہوے کہا۔
الحمداللّه
دانیال نے ٹانگوں پر بچھایا رومال جھاڑ کر بیگ میں سلیقے سے ڈالا۔
"ہممممم مزہ آگیا ۔"
فلک نے ہاتھ جھاڑتے ہوے کہا۔
"چلیں ؟؟"
آریان نے پیسے پلیٹ کے نیچے رکھتے ہوے پوچھا ۔
وہ اور امل کافی دیر سے ان دونوں کے کھانا کھانے کا انتظار کر رہے تھے ۔
"ہممم چلو "
وہ دونوں بھی اپنے بیگ اٹھاتے ہوے بولے۔
"یار دانیال کچھ کمی سی نہیں لگ رہی ؟"
فلک نے سوچتے ہوے کہا۔
"ہاں مجھے بھی شدت سے کمی محسوس ہو رہی ہے "
دانیال نے پاس سے گزرتی لڑکیوں کے ہاتھ میں موجود ڈیری ملک دیکھتے ہوے کہا۔
"چلو کمی کو پورا کریں نہیں تو وہ کمی احساس کمتری پیدا کر سکتی ہے ۔"
فلک کے کہنے پر وہ دونوں اپنے سے دو قدم آگے چلتے امل اور آریان کو کچھ بتاے بغیر ھی ان لڑکیوں کی طرف بڑھے۔
"ہیلو سمرا ۔۔۔!! پہچانا مجھے یارر ؟ میں کوثر تمہاری جگری یارر ۔ تمہارا گردہ "
فلک نے اس لڑکی کے زبردستی گلے لگتے ہوے کہا
"ہیں؟کوثر ؟ارے آپ کون ؟اور سمرا کون ؟"
اس لڑکی نے حیرانی سے پوچھا۔
"اچھا چھوڑو یار باتیں تو ہوتی رہیں گی پہلے کچھ میٹھا نا ہو جائے ؟"
فلک نے دانیال کو دیکھتے ہوے کہا۔
میٹھا ؟
اس سے پہلے کے لڑکی کچھ سمجھ پاتی فلک نے اچک کر اس کے ہاتھ میں موجود دو ڈیری ملک جھپٹیں اور وہ لڑکی اسے کچھ کہہ پاتی اس سے پہلے ھی وہ دونوں ایک ھی جست میں دھوڑتے ہوے امل اور آریان کی طرف آئے ۔
"حد ہے ویسے ۔ مجھ سے لے لیتے پیسے اور اگر اب چھین ھی لاے ہو تو۔۔۔"
آریان نے غصے سے کہتے ہوے فلک کے ہاتھ سے اک ڈیری ملک کھینچی شڑپ سے ریپر کھول کر ڈیری ملک آدھی کی اور منہ میں ڈالی اور آدھی امل کی طرف بڑھائی جو اس نے فورا پکڑ لی۔
"ایک ہمیں بھی دے دو "
آریان نے ہنستے ہوے جملہ مکمل کیا۔
"اور ہم سمجھے تھے تو شریف ہے "
دانیال نے منہ پھلاتے ہوے کہا۔
(یہ غم ہرگز کم نہیں ہوتا کہ چاکلیٹ آدھی ملے )۔
"شریف ہونے سے کیا ملتا ہے ہم تو سدا کے بدمعاش ھی ہیں "
آریان نے آنکھ دباتے ہوے کہا۔
ہننن """
دانیال نے آدھی سے بھی کم چاکلیٹ کو دکھ سے دیکھا اور یہی غنیمت جانی کہ منہ میں ڈال لے کیوں کے انگلیاں چاٹتی فلک کی نظریں اس کی چاکلیٹ پر جمی تھیں۔
وہ چاروں پارکنگ کی طرف بڑھے ۔
اوکے اللّہ حافظ ۔۔۔!کل ملتے ہیں ۔
آریان مسکراتے ہوے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
===============
وہ کھڑکھی کے ساتھ بیٹھی تھی۔ باہر زوروں کی بارش ہو رہی تھی ویسے ھی جیسا اس کے دل کا موسم تھا برستا ہوا۔بارش کا برستا ہر قطرہ اسے اپنے دل پر گرتا محسوس ہو رہا تھا۔
عزت ،محبت ،چاہت کا وہ لمس وہ آج بھی اپنے ماتھے پر محسوس کر سکتی تھی بھر پور لمس۔، چھ سال بعد بھی وہ وہیں کھڑی تھی۔۔۔۔
ہجر جتنا بھی طویل ہو ہجر ،ہجر ھی ہوتا ہے ،
کوئی کمرے میں داخل ہوا تو اس نے اپنے آنسو صاف کیے۔
"۔۔ السلام علیکم۔۔۔ ۔آج آپ کھانے کے میز پر کیوں نہیں آئیں ؟"
آریان اس کے سامنے کرسی پر بیٹھتے ہوے بولا۔نظریں اس کے اداس چہرے پر تھیں ۔وہ جانتا تھا کہ اس کی بہن کی آنکھیں پچھلے چھ سالوں سے یونہی نم رہتی تھیں ۔ وہ اس کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا اور وہ کر بھی رہا تھا۔
صارم بھائی کو یاد کر رہی ہیں ؟
اس نے ہمیشہ والا سوال پوچھا۔جواب جانتا تھا ۔
"ہاں ۔۔۔۔۔وہ تو کہتے تھے کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں آریان ۔۔۔۔ مگر کیا محبت کرنے والے ایسے کرتے ہیں ؟ یوں جدائی کا مرثیہ سناتے ہیں ؟ آریان وہ میرے محرم تھے وہ مجھے ،مجھ سے بہتر جانتے تھے۔ وہ یہ کیوں نا جان پائے کہ ان کی عالیہ ٹوٹ کر بکھر جائے گی ۔ وہ تو کہتے تھے کہ جلد ہجر کا موسم ختم کر دیں گے۔مگر انہوں نے تو اس ہجر کو میرے نصیب میں تاعمر لکھ دیا ہے"
وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوے کہہ رہی تھی ۔
"حوصلہ کریں آپی ۔۔۔!میں کچھ بتانا چاہتا ہوں آپ کو ۔۔۔!
آریان نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بہن مزید کوئی دکھ اٹھائے ۔
ہممممم کہو ؟؟
عالیہ نے سپاٹ لہجے میں کہا ۔
آپی وہ دراصل ۔۔۔۔طلاق کی بات صارم بھائی نے نہیں تایا ابو نے کی تھی ۔
آریان نے ہاتھ مسلتے ہوے کہا ۔
عالیہ کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکتی اور یہ ہوتا ہے جب ہم خوش ہوں اکثر یہ تب بھی ہوتا ہے۔
تم ۔ تمہیں یہ بات فلک نے بتائی ہے ؟
ہاں جی """ اور ایک بات اور ''آپی تایا ابو پچھلے چار، پانچ سالوں سے صارم بھائی کو کنوینس کر رہے ہے کہ وہ آپ کو طلاق دے دیں مگر صارم بھائی یا تو اس جگہ سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں جہاں یہ بات کی جائے یا پھر انکار کر دیتے ہیں۔"
آریان نے عالیہ کے ہاتھ تھامتے ہوے کہا جو سرد پڑھ رہے تھے ۔
تبھی ؟؟؟ ۔
عالیہ کی سرسرآتی آواز آئی ۔
"جی بلکل یہی وجہ ہے کہ اب تک تایا ابو کچھ نہیں کرپائے ۔ آج فلک تایا ابو کے سامنے اور میں بابا کے سامنے سچ کھولنے والا ہوں ۔"
آریان نے مسکراتے ہوے کہا ۔
"اور چلیں اب اٹھیں شاباش … جا کر وضو کریں اور خدا کا شکر ادا کریں جو اب آپ کا یہ ہجر ختم کرنے والے ہیں۔"
اس نے مسکراتے ہوے عالیہ کے گال کھینچے۔
"تم امل سے ملے ؟کیسی ہے وہ اب ؟"
عالیہ نے اس کے بال بکھیرتے ہوے پوچھا ۔تھوڑی دیر پہلے والے آنسوؤں کی جگہ اب مسکراہٹ لے چکی تھی۔خوبصورت اور اطمینان طلب مسکراہٹ ،، اللّه سے مانگنے والوں اور پھر نوازے جانے والوں کے چہرے پہ یقیناً ایسا اطمینان ھی ہوتا ہے۔
"ہاں جی ملا تھا اب بھی ویسی ھی ہے "
امل کے ذکر پر اس کے ہونٹ مسکرائے۔مگر اگلے ھی لمحے مسکراہٹ کی جگہ سنجیدگی نے لی تھی ۔
آریان اک بات پوچھوں ؟
عالیہ نے اس کے ساتھ بیٹھتے ہوے پوچھا ۔
جی ؟؟
تم آج بھی امل سے محبت کرتے ہونا ؟"
عالیہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے پوچھا ۔
آپی مجھے لگتا ہے میں اس سے محبت نہیں کرتا ۔دوریاں سہہ کر اب پتا ہے مجھے کیا لگتا ہے ؟"مجھے اس سے عشق ہو گیا ہے "
وہ کم ازکم اپنی بہن سے کچھ چھپا نہیں سکتا تھا۔
تو تم نے اسے بتایا ؟"
کیوں ؟"
آریان کے نفی میں سر ہلانے پر عالیہ نے صدمے سے پوچھا۔
آپی ۔۔۔۔! آپ جانتی ہیں کہ شاہزیب انکل تایا کے کتنے اچھے دوست ہیں ۔۔۔!!!ماضی میں جو کچھ ہوا وہ سب کچھ شاہزیب انکل کے ذہن میں ہمارے بابا کا اک ایسا خاکہ بنا گیا ہے جو اک دھوکے باز اور مکار انسان کا ہے۔
کیا وہ ایسے خاندان میں بیٹی دیں گے ؟مجھے ابھی بہت سٹرگل کرنی ہے ۔بابا کی طبیعت سے آپ واقف ہیں ابھی حالات ٹھیک بھی نہیں ہوے میں ایسے میں امل کو کیا امید دلاتا پھروں ؟ "
آریان نے سر جھکاتے ہوے کہا ۔
تو کیا اس سے وہ سکون سے رہ پائے گی یا تم ؟"
"وہ اتنی کمزور نہیں ہے فلحال جو جیسا چلتا ہے چلنے دینا چاہتا ہوں ۔اور رہی میرے سکون کی بات تو آپ جانتی ہیں عرصہ ہو گیا میں نے اپنے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے ۔"
عالیہ نے دکھ سے اپنے سے چار سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو کتنا بڑا ہو گیا تھا ۔وقت وقت کی بات تھی ۔۔۔!!!
وہ سہی تو کہہ رہا تھا عرصہ ھی ہو گیا تھا اس نے اپنے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا تھا ۔ اک عرصے سے وہ اپنے خاندان کے لیے ھی جی رہا تھا اور اب بھی وہ امل سے دستبردار ہو رہا تھا تو صرف اپنے خاندان کے لئے ؟
چھے سال پہلےکے آریان اور اس آریان میں بہت فرق تھا۔
وہ ٹوٹا ہوا بکھرا ہوا لڑکا تھا اور یہ ، یہ اک ایسا لڑکا تھا جو اپنے خاندان کے لیے جی رہا تھا خود کو فراموش کیے۔
اسی آریان نے انھیں سمبھالا تھا تب بھی جب ان کے باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔تب بھی جب ان کا بزنس خسارے میں تھا اور اب بھی وہ انھے ہر لحاظ سے سمبھال رہا تھا۔کتنی مصروف سی زندگی تھی اس کے بھائی کی ؟؟ صبح یونیورسٹی اور شام کو آفس ۔وہ سوچ رہی تھی اور باہر بارش تھم چکی تھی ۔وہ سر جھٹکتی باتھ روم کی طرف بڑھی اسے ابھی وضو بھی کرنا تھا اور اس رب کا شکر بھی ادا کرنا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس سے دور اپنی آفس کی کھڑکھی کے ساتھ کھڑا صارم باہر برستی بارش کو ہزن و ملال سے دیکھ رہا تھا۔
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...