ماہی وے
قسط نمبر 13
ان کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور اسی کے ساتھ دوسرا سمیسٹر بھی ختم ہو چکا تھا ۔ تیسرا سمیسٹر نئے سال پر شروع ہونا تھا یونیورسٹی بھی آج ، کل بند تھی ۔ اب فلک تھی اور کھانا تھا ،دانیال تھا اور موویز تھیں ،نور تھی اور ناول تھے اور رہ گئی امل تو وہ تھی اور کچن کی شامت آئی ہوئی تھی ۔کیوں کہ آریان کے کہنے پر بھر پور عمل کرتے وہ کھانا پکانا سیکھ رہی تھی ۔ عالیہ اور صارم عمرے کے لیے جا چکے تھے ۔ بڑوں کی اپنی محفل رات گئے تک جاری رہتیں مردوں کے عام موضوع سیاست ، کھیل اور بزنس اور عورتوں کی اپنی ناختم ہونے والی باتیں ۔۔۔
۔==============
آریان اور فہد دونوں پانچ دن کی چھٹی پر آئے تھے ۔ شاہزیب مینشن سے بھی سب کے سب وہیں گئے ہوے تھے ۔ امل اور نور اب تک گھر ہی تھیں ۔ نور بیڈ پر بیٹھی موبائل چلا رہی تھی اور گاہےبگاہے ایک نظر امل پر بھی ڈال لیتی جو ڈرائر سے بال سکھانے میں مصروف تھی ۔ کالا سوٹ اس کی گوری رنگت پر سج رہا تھا ۔ چہرے پر مسکان چھائی ہوئی تھی اور وہ خود مگن سے انداز میں بال سکھا رہی تھی ۔ نور نے مسکراہٹ دبائی اور کھانسی مگر وہ ہنوز مگن سی مصروف تھی ۔
"سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے ۔۔۔"
نور اونچی آواز میں گانے لگی ۔ امل چونکی اور اسے گھورا جو آنکھیں بند کیے یوں لہک لہک کر گا رہی تھی جیسے باقی سب سنگر اس کے سامنے دودھ بیچنے والے ہیں ۔
"اففف نور چپ کر جاؤ پلیز ۔۔۔۔"
امل نے اپنے بال کیچر میں قید کیے جو اب اس کی کمر تک پہنچتے تھے ۔
"تم اتنا تیار کیوں ہو رہی ہو ؟"
نور نے ابرو اچکائی ۔ امل نے سر نفی میں جھٹکا یوں جیسے اس کی بات اسے ناگوار گزری تھی ۔
"کیا میں نے میک اپ کیا ہے ؟"
امل نے سنجیدگی سے پوچھا اور بیڈ پر ایک طرف پڑا اپنا ڈوپٹہ اٹھا کر شانوں پر اوڑھا ۔
"کالا سوٹ پہن لیا پیچھے کوئی کثر بھی تو نہیں چھوڑی ۔"
نور نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر ہنسی روکی ۔
"ہاں تو اپنے شوہر کے لیے تیار ہوئی ھوں"
امل نے مسکراتے ہوے کہا اور باہر کی طرف چل دی پیچھے نور ارے، ارے کرتی رہ گئی ۔
"معملا گڑبڑ ۔۔"
نور ہنستے ہوے اس کے پیچھے ہو لی ۔
وہ دونوں ایک ساتھ صدر دروازے سے اندر داخل ہوئیں ۔ سب کھانا کھانے میں مصروف تھے ۔ نور نے مڑ کر امل کو گھورا جس نے اس کی طرف مسکراہٹ اچھالی ۔
"السلام علیکم "
وہ دونوں ایک ساتھ بولیں ۔ آریان نے سر اٹھا کر امل کو دیکھا اسے کالے جوڑے میں بلکل اپنی آئیڈیل کی طرح دیکھ کر آریان کے ہونٹ سیٹی کے انداز میں گول ہوئے ۔امل جھینپ سی گئی ۔آریان نے جلدی سے خود کو کمپوز کیا اور سلام کا جواب دے کر کھانا کھانے لگا ۔
"تم دونوں اتنی لیٹ کیوں ہو گئیں ؟؟"
اسما بیگم نے فلک اور دانیال کی طرف کھیر کا باول پاس کرتے ہوے ان دونوں سے پوچھا جو کرسی پر اپنی جگہ سمبھال رہی تھیں ۔
""وہ دراصل بات یہ ہے کہ یہ جو امل ہے نا یہ تیار ہو رہی تھی اور ۔۔۔۔"
اس نے امل کی طرف دیکھا جو اسے آنکھیں دکھا رہی تھی ۔مگر اب نور بی بی چپ کر جائیں ایسا ممکن ہی کہاں تھا ؟
"اور خاصے اہتمام سے تیار ہو رہی تھیں "
امل نے شرمندہ مسکراہٹ چہرے پر سجا کر سب کو دیکھا ۔
"مگر مجھے تو کوئی تیاری نظر نہیں آرہی تمہاری طرح اس نے بھی صرف کپڑے ہی تبدیل کیے ہیں "
آریان امل کی شرمندہ صورت دیکھتے ہوے بولا ۔امل نے تشکر سے اسے دیکھا جس نے سب کے سامنے اس کی عزت رکھی تھی ۔آریان نے نرم مسکراہٹ چہرے پر سجا کر اسے دیکھا ۔ وہ بھی جواباً مسکرا کر اپنی پلیٹ پر جھک گئی ۔نور نے بھی سب کے دیکھنے پر کندھے اچکا دیے۔
"جی ۔۔؟؟ میں نے کیا کیا ہے ؟"
معصوم سی صورت بنا کر وہ صرف اتنا ہی بول سکی اور سب اس کے انداز پر ہنس دیے ۔لیکن اب بھی امل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا ۔
"تم گھر چلو بچو "
امل نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا ۔خوش گوار ماحول میں سب نے کھانا کھایا ۔کھانے کے بعد چائے اور گپ شپ کی محفل چلی جو رات گئے دیر تک جاری رہی ۔ اس دوران امل اور آریان مزید بات چیت ہی نا کر سکے ۔ نور بھی ایک طرف خاموشی سے بیٹھی سب کی باتیں سن رہی تھی جب بور ہونے لگتی تو تھوڑی دیر کے لیے موبائل چلا لیتی ۔ دانیال، آریان کے سر چڑھا ہوا تھا اور مسلسل اسے امل میں آئے بدلاو سے آگاہ کر رہا تھا ۔ امل اس سب سے بےخبر بیٹھی فلک سے کوئی بات کر رہی تھی اگر اسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ دانیال آریان کو کیا بتا رہا ہے تو وہ کبھی بھی اتنے سکون سے نا بیٹھتی ۔وہ خود پر آریان کی مسکراتی نظریں محسوس کر رہی تھی مگر وہ ان نظروں کا مطلب سمجھنے سے قاصر تھی ۔
۔۔۔۔۔ ===========۔۔۔۔
وہ تینوں اس وقت لاؤنج میں تھے ۔ ایل۔ای۔ڈی پر وائٹ ہاؤس ڈاون فلم چل رہی تھی ۔نور سامنے والے صوفے پر دانیال کے برابر میں بیٹھی کم لیٹی زیادہ ہوئی تھی ۔ امل نیچے فلور کشن پر بیٹھی تھی ۔ دانیال اور نور دونوں نے ہاتھوں میں پاپ کارن کے پیکٹ پکڑ رکھے تھے ۔نیچے اور ٹیبل پر بھی پاپ کارن بکھرے پڑے تھے ۔ امل تہذیب کے دائرے میں بیٹھی کھا اور دیکھ رہی تھی۔
"لکھوا لو یہ مارٹن غدار ہے "
نور نے پاپ کارن کا پیکٹ ایک طرف رکھا اور سکون سے بولی ۔
"نہیں یار وہ تو اچھا لگ رہا ہے پریذیڈنٹ کے ساتھ بھی سنسیر ہے "
امل ماننے کو تیار ہی نا تھی ۔
"نور ٹھیک کہ رہی ہے ۔۔۔ سامنے دیکھو "
دانیال کے کہنے پر ان دونوں نے سکرین پر دیکھا اور سکرین پر دیکھتے ہی امل کا منہ کھلا تھا جب کہ نور اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔
"آخر اتنے ڈیڈیکٹر ناول پڑھتی ھوں "
نور نے ایک ادا سے کہا اور کندھے اچکائے ۔
"ہنن مجھے بھی پتا چل گیا تھا "
امل نے ناک سکوڑا ۔وہ پچھلے دو دن سے نور سے ناراض تھی ۔اب اس کی تعریف تو کر نہیں سکتی تھی۔ دانیال نے پاپ کارن منہ میں ڈالا ۔ اور ٹیک لگائے سکون سے بیٹھ گیا اب وہ فلم کے بجائے لائیو فلم دیکھنے والا تھا ۔
"تم کتنی بدتمیز ہو نور "
امل نے اسے تیکھی نظروں سے دیکھا ۔
"میں نے کیا کیا ہے ؟"
نور نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں ۔امل نے منہ بسورا ۔
"دیکھا ۔۔یہی ، یہی کہہ رہی ھوں میں اب تمہے یہ بھی یاد نہیں کہ تم نے کیا کیا ہے ؟ کیا تمہے واقعی یاد نہیں ؟""
امل رکی ۔دانیال نے ان دونوں کو دوبارہ دیکھا پھر کوک اٹھا کر پینے لگا ۔اسے زیادہ مزہ اس فلم کو دیکھنے میں آرہا تھا ۔
"مجھے تو نہیں یاد یار کیا بات کر رہی ہو ؟"
"بد تمیز ، بندری ،چول ، لعنت ہو تم پر ۔بات نا کرنا اب مجھ سے پچھلے دو دن سے تمہے یاد ہی نہیں آرہا کہ تمہاری غلطی کیا تھی تم ۔۔رکو میں بتاتی ھوں ۔۔"
امل اٹھ کر نور کی طرف آئی ۔نور پیچھے کو کھسکی مگر امل اس سے پہلے ہی اس کے بال پکڑ چکی تھی اب وہ دونوں ایک دوسرے کو پیٹ رہی تھیں نور نے بھی امل کے بال پکڑ لیے تھے ۔ لاؤنج کے دروازے میں کھڑے آریان ،فہد اور فلک کے منہ کھل گئے ۔ اور ایک دم وہ تینوں ہنسے ۔ دانیال جو سکون سے بیٹھا ان دونوں کو بلیوں کی طرح لڑتا دیکھ رہا تھا پچھلے دو دنوں سے یہی ہوتا آرہا تھا ۔ وہ چونکا اور لاؤنج کے دروازے کی طرف دیکھا جہاں وہ تینوں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے ۔ امل اور نور بھی رکیں ان دونوں کی نظریں ایک ساتھ دروازے تک گئیں اور پھر وہ دونوں شرم سے پانی پانی ہو گئیں ۔ امل جلدی سے کھڑی ہوئی اور اپنے بال ٹھیک کیے ۔ نور نے جلدی سے اپنی کیپری نیچے کی جو ٹھڈے مارتے وقت اوپر چڑھ چکی تھی ۔ فہد مسکراہٹ دبائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ سب سے پہلے فلک آگے آئی ۔
"اوہ ہم نے آدھا شوو مس کر دیا "
فلک افسوس بھرے لہجے میں بولی ۔ آریان امل کے پاپ کارن اٹھائے صوفے پر ہی بیٹھ گیا ۔ ایک نظر امل کو دیکھا جو خفت سے سرخ پڑ گئی تھی ۔ آریان ایک دن بعد آج اسے دوبارہ دیکھ رہا تھا ۔ وہ اس دن بھی اس سے بات کرنا چاہتا تھا اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس نے اسے کتنا یاد کیا تھا ،اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ اسے اس طرح کس قدر خوبصورت لگی ہے اس کے بڑھے بال اس پر کتنے سجتے ہیں ۔پیاری تو وہ اسے ھر حال میں ہی لگتی تھی مگر اب اس طرح اس کے آئیڈیل کے روپ میں تو وہ اسے پاگل کر دینے کے در پر تھی ۔ کل وہ سارا دن فہد کے ساتھ تھا شام میں گھر آنے پر اسے ارفع بیگم کی زبانی معلوم ہوا تھا کہ امل اس کے لیے براؤنیز بنا کر لائی تھی ۔وہ واقعی اس کے کہنے پر کھانا پکانا سیکھ رہی تھی اس بات نے تو جیسے اسے مزید خوشی دی تھی ۔وہ اس سے ملنے جانا چاہتا تھا اور اسے بتانا چاہتا تھا کہ اس کی بنائی براؤنیز میں کس قدر لذت اور محبت تھی ۔ مگر وہ یہ بات اسے فون پر نہیں بتانا چاہتا تھا ۔ اس نے سر جھٹکا اور دانیال کی طرف متوجہ ہوا جو فلک کو امل اور نور کی لڑائی سے آگاہ کر رہا تھا ۔ فہد بھی مسکراتے ہوے اسے سن رہا تھا جب کہ نور مروتاً مسکراتے ہوے دانیال کو برداشت کرنے پر مجبور تھی ۔
"کچھ کھلا دو بھوک سے برا حال ہے "
آریان نے وہیں بیٹھے بیٹھے صدا لگائی ۔صبح ناشتے کے بعد سب بڑے ایک فوتگی پر چلے گئے تھے اور شام سے پہلے ان کی واپسی نہیں تھی ۔ اور یہ فلک مادام کا ہی آئیڈیا تھا کہ امل سے کچھ بنوا کر کھاتے ہیں اس لیے فہد ،اور آریان کو ساتھ لیے وہ انہی کی طرف چلی آئی ۔
"امل کچھ بنا دو کھانے کو کچھ اچھا سا "
دانیال بھی ندیدوں کی طرح بولا ایک دم اس کی بھوک بھی جاگ اٹھی تھی ۔
"ٹھیک ہے پھر آج میں چکن جلفریزی بناوں گی "
امل خوش ہوتے ہوے بولی اور اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ۔
"کوئی میری ہیلپ کروانا چاہے گا ؟"
وہ کچن کے دروازے پر رکی اور مڑ کر ان سب سے پوچھا مگر نظریں آریان پر تھیں آریان اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہی اٹھا ۔
"میں آرہا ھوں "
امل سر ہلا کر پلٹ گئی ۔وہ بھی کچن کی طرف چل دیا ۔ نور مسکرائی ۔
"ہاو رومانٹک "
وہ ہاتھ ٹھوری تلے رکھے بولی پھر فہد کو دیکھا جو ابرو اچکائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی نور کو اس کی کچھ عرصہ پہلے کی گئی بات یاد آئی ۔
"چھچھورا ۔۔۔"
وہ زیر لب بڑبڑآئی ۔ فہد ہنسا ۔
"کیا ہوا ؟"
دانیال نے حیرانگی سے پوچھا ۔
"کچھ نہیں مووی دیکھ رہا ھوں "
فہد نے نفی میں سر ہلا کر اسے مطمئن کرنا چاہا ۔
"ہیں ؟؟؟اس میں ہنسنے والی بات کیا ہے ؟ یہ تو ساری ہی فائٹنگ والی ہے ؟"
دانیال بڑبڑایا ۔
۔۔۔۔۔=======۔۔۔
امل مسکرائی اور خود کو داد دی ۔ اس نے آج صبح ہی چکن نکال کر باہر رکھ دیا تھا جو وہ کل داد بخش (نوکر ) سے منگوا چکی تھی ۔ اس کا ارادہ آج صبح سے ہی جلفریزی بنانے کا تھا ۔ ۔ ۔ وہ جلدی سے سنک کی طرف آئی اور چکن کو ایک باول میں نکالا ۔ آریان ایپرن اٹھائے اس کی طرف چلا آیا ۔
"کیسی ہو ؟؟"
اسے ایپرن پہناتے ہوے وہ بولا ۔
"ٹھیک ھوں تم کیسے ہو ؟"
وہ ہاتھ دھوتے ہوے بولی ۔ چکن تو دھو کر ہی فریز کیا تھا اب صرف ایک دفع پانی سے نکالا تھا ۔
"میں بھی ٹھیک ھوں ۔تمہے بہت یاد کیا میں نے "
"اہ ۔۔واقعی میں نے تو تمہے یاد نہیں کیا بلکل بھی "
امل کے کہنے پر آریان نے ہونٹ دانتوں تلے دبائے مسکراہٹ ضبط کی اور خود دوسرا ایپرن پہنا ۔ اسے دانیال کی باتیں یاد آرہی تھیں کہ کیسے امل اسے یاد کرتے پہروں گزار دیتی ۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتی بقول دانیال امل تو اسے یاد کر ، کر کے امربیل کی طرح سوکھ گئی تھی ۔
"واقعی نہیں کیا ؟؟"
آریان نے افسوس بھرے لہجے میں پوچھا ۔ اور سبزیاں نکالنے لگا ۔ امل نے نفی میں سر ہلایا اور آریان سے سبزیاں پکڑ کر ٹوکری میں رکھنے لگی ۔
"بہت بے مروت ہو تم یار ۔۔۔۔۔" وہ رکا ۔ "پر مجھے تو دانیال نے کچھ اور ہی بتایا تھا "
وہ محتاط انداز میں بولا ۔
"دانی کے بچے ۔۔۔"امل نے دانت پیسے ۔
"میں نے تمہے بہت یاد کیا آریان "
وہ آہستہ آواز میں بولی ۔آریان کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ ابھری ۔
"میں جانتا تھا "
وہ وثوق سے بولا۔امل جواباً خاموش رہی ۔
"ویسے آج کس معصوم پر بمب گرانے کے ارادے ہیں ؟"
وہ امل کو دیکھتا ہوا بولا جو ریڈ ٹی شرٹ میں بلکل ایک گڑیا ہی لگ رہی تھی ۔
"تم پر ۔۔میں یعنی کہ بمب بذات خود چل کر تمہارے پاس آئی ھوں کیا مجھے پھٹنے کی اجازت ہے ؟"
وہ شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سجائے بولی ۔
"نہیں نہیں مجھ معصوم پر اتنا ظلم مت کرنا ۔ ہم معصوم آپ کے کاری وار نہیں سہہ پائیں گے سو ہم پر مہربانی کریں اور کہیں اور جا کر پھٹیں ۔"
وہ کٹنگ بورڈ پر پیاز کاٹ رہا تھا ۔امل ایک طرف کھڑی ہنس رہی تھی ۔ وہ خود بھی کھڑی شملہ مرچ کاٹنے میں مگن تھی ۔
"نہیں اب تو کسی اور کا آپشن بچا ہی نہیں ہے "
اس نے سادگی سے کندھے اچکائے ۔آریان ایک دم چھری سمیت اس کی طرف مڑا ۔وہ خوف سے ایک قدم پیچھے ہوئی ۔
"کسی اور کے بارے میں سوچنا بھی مت میں کافی ھوں تمہارے لیے "
وہ شرارتی لہجے میں بولا ۔
"تم مجھے مارنے والے تھے ؟"
امل کی سوئی بس ایک ہی چیز پر اٹکی ۔ باقی کسی بات پر اس نے غور ہی نہیں کیا ۔
"میں تمہے نہیں مار سکتا ۔ تم خدا کی طرف سے میرے لیے ایک انمول تحفہ ہو اور تحفوں کی قدر نا کرنے والے ناقدرے ہوتے ہیں میں ناقدرا نہیں ھوں "
وہ سادہ اور عام سے لہجے میں مسکراتے ہوے بولا ۔ امل جواباً خاموش رہی ۔ آریان نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ سر جھکائے پین میں چمچ ہلا رہی تھی ۔
"میں بھی ناقدری نہیں ھوں "
وہ چولہے کی آنچ مدھم کرتی باہر کو چل دی ۔ آریان بھی مسکراتے ہوے اس کے پیچھے ہو لیا ۔
وہ کچن سے نکلی تو سامنے سے شازو چلی آرہی تھی ۔
"انٹی پلیز جلدی سے روٹیاں بنا دیں "
شازو سر ہلاتی کچن کی جانب چل دی ۔ وہ سب باتوں میں معروف ہو چکے تھے ۔آریان اب مطمئن سا سر جھکائے بیٹھا موبائل چلا رہا تھا ۔ فہد مسلسل مسکراتے ہوے نور کو چڑا رہا تھا ۔ فلک اور امل اپنی باتوں میں مصروف ہو چکے تھے ۔ اپنی مصروفیت میں انھیں دانیال کے اٹھ کر جانے اور واپس آکر بیٹھنے کا علم ہی نہیں ہوا ۔
"امل بی بی روٹیاں بنا دیں ہیں ۔"
"اوہ ٹھیک ہے آپ نے کھانا کھا لیا ؟"
"جی بی بی میں تو کھا چکی ھوں۔ سالن اچھا تھا "
"شکریہ "
امل مسکراتے ہوے بولی ۔
"آجاو سب میں کھانا لگا رہی ھوں "
وہ کچن کی طرف چلی گئی ۔اسے ابھی برتن بھی لگانے تھے ۔
"بھئی سب سے پہلے آریان کھائے گا اور اپنی رائے پیش کرے گا "
دانیال کرسی کی پشت سے ٹیک لگاے مطمئن انداز میں بولا ۔
"ٹھیک ہے کھاؤ ؟"
سب آریان کی طرف متوجہ ہوے ۔آریان نے ایک نظر امل کو دیکھا جو ہاتھ مسل رہی تھی وہ خاصی کنفیوز نظر آرہی تھی ۔آریان نے مسکرا کر جیسے اسے تسلی دی اور پلیٹ میں جلفریزی نکالی ۔پھر ہاٹ پاٹ سے روٹی نکالی ۔ پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہی اس نے نظر اٹھا کر امل کو دیکھا ۔ جو ہونٹ چباتے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔آریان نے بمشکل نوالہ نگلا ۔ پھر دوسری نظر دانیال پر ڈالی جو سیٹی کے انداز میں ہونٹ سکیڑے ادھر ادھر نظریں گھما رہا تھا ۔آریان نے مٹھیاں بھینچ لیں ۔
"رک جاؤ "
آریان کے کہنے پر سب نے حیرت سے آریان کو دیکھا ۔امل نے پریشانی سے آریان کے لال ہوتے چہرے کو دیکھا ۔دانیال کی مسکراہٹ گہری تھی ۔
"کیوں ؟"
نور نے ایک نظر امل کو دیکھ کر پوچھا ۔
"یہ بہت اچھا ہے اس لیے ۔۔۔"
کہتے ہی آریان نے ڈونگا اٹھایا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
"یہ سارا میں اکیلا کھاؤں گا اس میں میری بیوی کے ہاتھ کی محبت اور ذائقہ ہے جو صرف میں ہی محسوس کر سکتا ھوں تم لوگ نہیں کر سکتے ۔ "
یہ الگ بات تھی کہ تیکھی لال مرچ سے اس کا نا صرف چہرہ لال ہوا تھا بلکہ اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی نے اس کو اٹھا کر لال مرچ کے ڈبے میں ڈال دیا ہے انتہا کی لال مرچ ڈالی گئی تھی ۔وہ جلفریزی ڈونگے سے نکال کر پین میں منتقل کر رہا تھا ۔ امل مسکرائی اسے خوشی محسوس ہوئی تھی کہ آریان کو سالن اس قدر پسند آیا کہ اس نے دوسروں کو بھی کھانے نہیں دیا ۔
"تو کیا ہم بھوکے رہیں گے ۔۔دے ادھر ہمیں ۔۔"
فہد اس کی طرف چلا آیا ۔
"وہیں رک جاؤ تم نہیں کھا سکتے بلکل بھی نہیں ۔یہ میرا ہے صرف میرا "
"آریان تم اس وقت اس بچے کی طرح ایکٹ کررہے ہو جس کو اس کے مما بابا کچھ لا دیں اور وہ دوسروں کو وہ چیز دینے سے منع کرتے ہوے کہتا رہتا ہے "۔۔یہ میرا ہے صرف میرا " شودا سا "
فلک کو آریان کا شودا پن ایک آنکھ نا بھایا ۔نور بھی منہ بسورے بیٹھی تھی ۔
"میں تم لوگوں کے لیے پیزا آرڈر کروا دیتا ھوں "
آریان کے کہنے پر دانیال کی باچھیں کھل گئیں ۔ اسے بے اختیار آریان پر پیار آیا اور خود کو اس نے داد دی تھی ۔
"اچھا ٹھیک ہے "
فلک احسان کرنے والے انداز میں بولی ۔ لیکن دل چھلانگیں مار رہا تھا ۔ آریان نے پین اٹھا کر داد بخش کو پکڑایا اور اسے کوئی ہدایات دیں ۔
"کیا کہہ رہے تھے اسے ؟؟"
وہ جیسے ہی ان کی طرف واپس آیا فلک نے اس سے پوچھا ۔
"تم سے مطلب اپنے کام سے کام رکھو جان بوجھ کر ھر بات میں ٹانگ آڑاتی رہتی ہو اور کوئی کام نہیں ہے فارغ لوگ ۔۔۔"
آریان اس کی اچھی خاصی بےعزتی کر چکا تھا ۔اسے رہ رہ کر لال مرچ کا ذائقہ اپنے منہ میں محسوس ہو رہا تھا اوپر سے دل کہہ رہا تھا کہ دانیال کو کچا چبا لے ۔فلک نے سب کو گھور کر دیکھا جن کے چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ تھی ۔
"دیکھو ۔۔۔۔میں سر پھری ھوں مجھ سے مت الجھو ۔"
فلک سر جھٹکتی ایک طرف چلی گئی ۔
"اب آرڈر کروا بھی دو آریان "
نور صوفے پر سیٹ ہو کر بیٹھی ۔
"اور کیا بھوک سے میرا برا حال ہے چوہے میرے پیٹ میں ہاتھیوں کے ساتھ مل کر ڈسکو کر رہے ہیں "
فہد پیٹ پکڑے بیٹھا تھا ۔ نور نے سر نفی میں ہلایا ۔
"یہ آدمی ۔۔۔"
وہ دل ہی دل میں بولی ۔
"کرواتا ھوں ۔۔"
"روکو روکو پہلے کوئی مزہ نا کر لیں ؟؟"
"مطلب ؟؟"
نور کے کہنے پر آریان نے حیرانگی سے پوچھا ۔
"بس اب دیکھو مجھے یہ کام میں نے انگلینڈ میں بہت کیا ہے "
نور نے فرضی کالر اٹھائے ۔
"ہاں سارے الٹے کام کرنے کا تجربہ ہے محترمہ کو "
فہد بڑبڑایا ۔جسے نور نے سراسر اگنور کیا ۔اور موبائل نکال کر ایک نمبر ملایا ۔پھر سب کی طرف دیکھا اور مسکراہٹ اچھالتے ہوے موبائل سپیکر پر ڈالا ۔
"السلام علیکم ۔۔"
فون سپیکر سے آواز آئی ۔
"جی مجھے آرڈر کروانا ہے ہوم ڈلیوری ؟"
"جی میم شیور "
"دیکھیں مجھے ڈلیوری ٹائم پر ہی چاہیے ۔"
"جی میم آپ آرڈر کروائیں ؟"
سب حیرانی سے بیٹھے تھے یہ کیا کرنے والی تھی ؟؟
"دیکھیں ۔۔۔ ایک منٹ کی بھی دیر نہیں کرنی ۔۔ورنہ میں ٹپ کاٹ لوں گی ابھی آپ کو میرا پتا نہیں ہے "
"میم آپ آرڈر کروا دیں پلیز ۔۔ہم فارغ ہرگز نہیں ہیں "
"کیا ۔۔۔؟؟؟ آپ میری بے عزتی کر رہے ہیں ۔ان ڈائریکٹلی مجھے فارغ کہا ہے ؟؟"
"میم آپ کو مسلہ کیا ہے ؟"
"مجھے مسلے تو بہت ہیں پر آپ کو کیوں بتاؤں ؟؟ ڈاکٹر کو بتاؤں گی آپ کو تھوڑی نا بتاؤں گی ۔؟ کیوں آپ ڈاکٹر ہیں کیا ؟"
"میم ۔۔۔"
مقابل نے دانت پیسے ۔
"آ۔۔۔۔۔رکیں ۔۔آرڈر تو لکھ لیں ۔''
""شکر "
موبائل سپیکر سے آتی آواز سن کر سب دبی دبی آواز میں ہنسے ۔
"آپ کے پاس سپریم پیزا ہے ؟"
"جی ؟"
"فجیتا ؟"
"جی ؟ لارج سائز ؟ مڈل یا سمال ؟''
"کولڈ ڈرنک ہے ؟"
"نہیں ہم تو کولڈ ڈرنک رکھتے ہی نہیں ایوں ڈھابہ کھولا ہوا ہے "
وہ تپ ہی گیا تھا ۔
"اچھا پھر ایسا کریں ایک عدد منرل واٹر کی بوتل ڈلیور کروا دیں "
اب کی بار سب کا قہقہہ گونجا ۔ مقابل کو بھی سمجھ آگئی کہ اسے بہت بری طرح ماموں بنایا گیا ہے ۔
"پاگل عورت "
اور ٹھک سے فون رکھ دیا گیا ۔پھر وہ سب ہنسنے لگے ۔
"روکو اب میری باری ۔۔"
دانیال نے نور سے نمبر لے کر وہی نمبر ملایا ۔
"یس ؟"
موبائل سپیکر سے آواز آئی لیکن آواز میں دبا ،دبا غصہ تھا ۔
"مجھے آرڈر کروانا ہے ۔ہوم ڈلیوری "
"جی ؟"
" چکن مینچورین ، فجیتا پیزا لارج ، لزانیہ ، چائنیز سوپ ، فرائز فیملی پیک ،زینگر برگر تین اور ساتھ میں دو ڈھائی لیٹر کی کوک "
" سر شیور ۔۔۔ ایڈریس ؟"
"جہنم ۔۔"
"جی ؟؟"
اسے لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے ۔
"بیٹا جس لڑکی نے ابھی آپ کو مامو بنایا ہے نا ؟ میں اس کا کزن ھوں ۔گڈ آفٹرنون "
ہنستے ہوے دانیال نے فون کاٹ دیا ۔ سب ہنس رہے تھے ۔
"بس کرو بس کرو میرا پیٹ دکھ رہا ہے ۔سمجھ نہیں آرہا کہ بھوک سے دکھ رہا ہے یا پھر ہنسنے سے آریان آرڈر کروا دو "
امل نے ہنستے ہوے کہا ۔اسے بھوک محسوس ہو رہی تھی ۔اب کی بار آریان نے انھیں دوبارہ فون کیا ۔
"جی سر ؟"
"وہ مجھے آرڈر کروانا تھا ۔ہوم ڈلیوری ؟"
آریان نے اب سپیکر نہیں کھولا تھا ۔ وہ سب اب اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔
"سر ایک منٹ پہلے یہ بتا دیں آپ پرانک تو نہیں کر رہے نا ؟"
"نہیں میں کیا پاگل ہوں ؟"
آریان ہنسا ۔
"آرڈر لکھیں ۔۔"
پھر آرڈر کروانے کے بعد وہ آپس میں باتیں کرنے لگے ۔ آریان اٹھ کر کچن کی طرف چلا گیا ۔منہ میں موجود مرچ کا ذائقہ بھی کم کرنا تھا ۔فریج میں سامنے ہی آدھا کیک بچا پڑا تھا ۔آریان کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آئی ۔اسے معلوم ہو گیا تھا کہ یہ کیک کس نے اپنے لیے بچا اور چھپا کر رکھا ہے ۔ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس نے کیک نکالا ۔پھر کچھ دیر بعد وہ واپس لاؤنج میں آکر بیٹھ چکا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ڈلیوری بوائے بھی آگیا آریان داد بخش کے کہنے پر اٹھ کر باہر چل دیا ۔ دانیال اور فلک نے فورا میز پر پلیٹ ،چھری اور چمچ رکھ کر اپنی جگہ سمبھالی ۔ نور بھی موبائل چلاتی اپنی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔ فہد اس کے برابر میں ہی بیٹھ گیا ۔ آریان اندر آیا تو اس کے ہاتھ میں چار پیزا کے ڈبے دیکھ کر فلک اور دانیال نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
"دو ڈبے ہمیں دے دو تم لوگوں کو تو دو بھی پورے آجائیں گے "
دانیال اپنے گھٹنوں پر کپڑا بچھاتے ہوے بولا ۔
"لو تم دونوں جنگلیوں کے لیے ہی دو منگوائے ہیں "
"دل کر رہا ہے تیرا منہ چوم لوں مگر جراثیم لگ جائیں گے "
"ہاں واقعی مجھے جراثیم لگ جائیں گے"
آریان نے کندھے اچکائے اور امل کے برابر میں بیٹھا ۔ دانیال نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ فلک نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسے روکا اور اس کا دھیان زیادہ اہم چیز پر مبذول کروایا ۔یعنی کہ "پیزا" اور دانیال بھی جھٹ سے سر ہلاتا پیزا کی طرف متوجہ ہوا ۔پیزا کھانے کے بعد دانیال اور فلک کچن کی طرف چلے گئے ۔ آریان نے ادھر ادھر دیکھا اور خاموشی سے اٹھ کر ان دونوں کے پیچھے چل دیا ۔
"ہااا ۔۔۔دانی مطلب تم نے ؟؟ امل کی محنت ضائع کر دی ؟"
فلک نفی میں سر ہلاتے ہوے بولی ۔ آریان چھپ کر دونوں کو دیکھ رہا تھا ۔
"یار کچھ نہیں ۔۔۔ بس اس دن مجھے امل نے بریانی بنا کر کھلانے سے انکار کر دیا تھا آج فوراً شوہر کے کے لیے جلفریزی بنا دی تو بس ۔۔"وہ رکا اور ایک پلیٹ اون سے نکالی ۔
"یہ دیکھو میں نے بچا لی تھی پلیٹ میں تھوڑی سی ویسے بنائی بہت زبردست ہے ۔دن بہ دن اس کی کوکنگ اچھی ہوتی جا رہی ہے "
آریان نے اسے گھورا ۔ وہ دونوں جلفریزی کھا رہے تھے ۔
"اممم بہت ٹیسٹی ہے یار "
فلک انگلیاں چاٹتے ہوے بولی ۔
"ابھی تو صبر کرو میں نے ہم دونوں کے لیے کیک بچا کر بھی رکھا ہے "
دانیال خوشی خوشی کہتا اٹھا ۔
"ہائے میرا کنگ فو پانڈا ۔۔صدقے جاؤں میں تم پر "
فلک تو اس پر صدقے واری جا رہی تھی ۔دانیال نے فریج کھولا اور اس کا منہ بھی کھل گیا ۔
"فلک کیک ؟؟"
وہ حیرت سے مڑا پھر نظر کیبنٹ سے ٹیک لگاے کھڑے آریان پر پڑی ۔
"وہیں ہو گا دیکھو "
فلک آریان کی موجودگی سے یکسر ناواقف تھی ۔
"ویسے چوری کے مال کا اپنا ہی مزہ ہے ۔امل کے ہاتھ میں ذائقہ ہے "
"فلک ؟؟؟"
فلک آریان کی آواز پر بوکھلا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"تم۔۔ وہ۔۔ میں۔۔ یہ۔۔ وہ ۔۔۔وہ دراصل دانی ۔۔۔وہ میں ۔۔میرا مطلب ہے کہ کیک ۔۔جلفریزی نہیں۔۔۔ ''
فلک بوکھلا کر بولتی چپ ہوئی کیوں کہ دانیال اسے آنکھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا اشارہ کر رہا تھا ۔
"کیک ؟؟ کھانا تھا؟ہیں نا ؟ وہ تو میں کھا چکا ھوں "
آریان سکون سے بولا ۔
"ہا ۔۔۔تمہے ہمارا احساس نہیں ہوا ؟"
"نہیں ۔۔"
وہ مزے سے کہتا وہاں سے چل دیا اب بدلا پورا ہوا تھا ؛ دانیال اور فلک نے رونے والا منہ بنا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
۔________________
۔______________
ایک دن بعد ۔۔۔
"آفندی مینشن " کے صدر دروازے کے آگے ہال کی تمام بتیاں چل رہی تھیں ۔ رات پونے گیارہ کا وقت تھا ۔ پورا لاؤنج اس وقت ایک خوبصورت پارٹی تھیم میں تبدیل ہو چکا تھا اور تھیم "برتھڈے " کا تھا ۔ دیوار پر بڑا سا "چیرز ٹو ٹوئنٹی ون " لگا ہوا تھا ۔ لاؤنج میں صوفوں پر میز پر اور ارد گرد دیواروں پر بلیک ،گولڈن اور وائٹ غبارے پڑے اور لگے ہوے تھے ۔ لاؤنج کے میز پر تحفے پڑے تھے ایک دیوار پر ڈوری کی مدد سے کئی تصویریں لگی ہوئی تھی جو کہ امل ،آریان ،دانیال اور فلک کی بچپن اور اب کی کی تصویریں تھیں ساتھ میں ان چاروں کے نکاح کی تصویر بھی تھی۔
"سارا انتظام پورا ہے نا ؟"
فلک نے آریان کی طرف دیکھا جو فہد کی مدد سے غبارے لگا رہا تھا ۔
"ہاں ہو گیا ہے "
آریان آخری غبارا لگاتے ہوے بولا ۔
"واہ کتنا اچھا لگ رہا ہے نا سب ؟؟"
فلک نے ارد گرد دیکھتے ہوے کہا ۔
"ہاں پندرہ منٹ رہ گئے ہیں جلدی کرو منہ تو دھو لو "
فلک کے کہنے پر آریان دھوڑتا ہوا اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔ بارہ بجنے میں پندرہ منٹ رہتے تھے اور ایک نیا دن شروع ہو جانا تھا امل اور دانیال کی سالگرہ تھی ۔ان دونوں کو سرپرائز پارٹی دینے کا ارادہ سب کا تھا وہ دونوں ہی اس بات سے انجان تھے باقی سب جانتے تھے ۔آریان کے واپس آنے تک سب آچکے تھے ۔اب صرف تین منٹ باقی تھے ۔پلان کے مطابق فلک نے امل کو فون ملایا ۔ امل نے نیند میں مندی ،مندی آنکھیں کھول کر سائیڈ پر پڑا موبائل اٹھایا ۔اوپر فلک کی کال دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی ۔
"ہاں فلک خیریت ۔؟فلک کیا ہوا فلک کچھ بولو ۔۔۔۔"
مگر اسے صرف فلک کی ہیچکیوں کی آوازیں آرہی تھیں ۔
"امل تم سب ہماری طرف آسکتے ہو پلیز ۔سوال مت کرنا سب آجاؤ "
پھر فلک نے ایک لمبی ہچکی لے کر کال کاٹ دی ۔آریان نے اسے اس کی اداکاری پر داد دی ۔امل کمبل ہٹاتی جلدی سے اٹھی اور لائٹ چلائی ۔ پھر اسٹڈی کا دروازہ کھولا نیچے فلور کشن پر نور بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ مونگ پھلی کھا رہی تھی ۔
"امل خیریت ؟"
وہ بھی پلان کی مطابق انجان بنی ۔
"یہ تم اتنی تیار کیوں ہو ؟"
امل نے سر تا پاؤں اسے دیکھا وہ اس وقت بہت پیارا نیلا کرتا جین پہنے ہوے تھی ۔
"آں ۔۔۔" وہ رکی "وہ ہیروئن نے ایسا پہنا تھا اس لیے "
"چھوڑو اسے فلک کا فون آیا ہے جلدی جا کر مما بابا کو جگاؤ ایک منٹ کی بھی دیر نا ہو میں دانیال کو لا رہی ھوں "
امل نے جلدی سے اپنے نائٹ سوٹ کو جیسے سیٹ کیا پھر دانیال کے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔وہ بیٹھا فلم دیکھ رہا تھا ۔
"دانی فلک کا فون آیا ہے اس نے ہم سب کو بلایا ہے وہ رو رہی تھی "
دانیال مطمئن سے انداز میں اٹھا ۔
"شک تو تھا مجھے کل سے ہی بیٹا لکھوا لو ہمارے لیے پارٹی ہے "
"کیا بکواس ہے دانی وہ رو رہی تھی چلو اب "
امل دانیال کو کالر سے پکڑے باہر گھسیٹ کر لے گئی ۔
"یار کہہ رہا ھوں نا دیکھ لینا بہت ہی گھسا پٹا سا آئیڈیا ہے میں اسی لیے جاگ رہا تھا مجہے پتا ہے "
"چپ ایک دم چپ "
امل کی آنکھیں دکھانے پر دانیال نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا ۔
"مما لوگ تو چلے گئے ہیں ۔۔۔جلدی چلو "
وہ دونوں فوراً باہر کی جانب بڑھے ۔جس وقت وہ دونوں لاؤنج میں داخل ہوے بارہ بج چکے تھے ۔سامنے کا منظر دیکھ کر امل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا امل نے مر کر دانیال کی طرف دیکھا وہ اسے انہی تاثرات سے دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو "میں نے کہا تھا نا ؟"
اچانک ، فلک ،آریان اور فہد سامنے سے آئے اور ان پر شوٹر پھوڑے ۔ پیچھے سب بڑے انھیں وش کر رہے تھے ۔امل مسکرا رہی تھی اور دانیال اسے تو بس کیک کاٹنے کی جلدی تھی ۔پھر دونوں نے بھر پور تالیوں میں کیک کاٹا ۔ جس پر ایک طرف پرنسیس تھیم تھا اور ایک طرف پرنس ۔ دانیال نے پرنس والی طرف سے کیک کاٹا سب سے پہلے خود کھایا اور پھر باری باری سب کو کھلایا ۔امل چونکہ اس سے دس منٹ چھوٹی تھی اس لیے اس نے کیک بعد میں کاٹا ۔سب سے پہلے نور نے امل کو گفٹ دیا ۔جسے امل نے مسکراتے ہوے پکڑ لیا ۔
"میرا ؟"
دانیال نے منہ بسورا ۔
"آپ کون ؟"
نور اسے تنگ کرتے ہوے بولی ۔
"میں بتاؤں تمہے تمہارے موبائل کو آگ لگا دوں گا "
دانیال نے شرارتی انداز اپنایا ۔
"لو بھائی پکڑو اتنی سنگین دھمکی تو مت دو نا "
نور نے ایک ڈبہ دانیال کی طرف بڑھا دیا ۔
پھر فلک ،فہد سب بڑوں نے اور آریان نے دونوں کو گفٹ دیے ۔
"کھولیں ؟؟"
امل اور دانیال نے اشارے ملتے ہی زمین پر بیٹھ کر اپنے اپنے گفٹ کھولنے شروع کر دیے ۔سب سے پہلے نور کے گفٹ کی باری تھی ۔نور نے امل کو بہت پیاری راڈو(RADO) کی گھڑی گفٹ کی تھی اور دانیال کو بھی راڈو (RADO) ہی کی گھڑ دی تھی ۔ فہد نے امل کو ایپل کا لیپ ٹاپ گفٹ کیا تھا اور دانیال کو پرفیوم ، اور گھڑی ، آریان نے امل کو ایک ٹیڈی بیر گفٹ کیا تھا ۔جس لمحے آریان نے دانیال کے ہاتھ میں گاڑی کی چابی دی تھی دانیال کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔فلک کا تحفہ دیکھ کر دانیال کا دل کیا کہ وہ جھومے کیوں کہ فلک نے اسے پورا ڈبہ چاکلیٹ سے بھر کر دیا تھا اور امل کو پرفیوم اور بہت ہی خوبصورت اور نفیس ڈیکوریشن پیس دیا تھا ۔اس کا علاوہ امل کے دیگر گفٹ کی فہرست میں شال ،سوٹ ،میک اپ کا سامان ، اور چاکلیٹ شامل تھیں ۔اور دانیال کے گفٹ میں موبائل ، جیکٹ ،شرٹ ، گھڑیاں شامل تھے ۔سب بیٹھ کر بچوں کے بچپن کی باتیں کرنے لگے ۔
"دانی آریان ایک کیک ایکسٹرا لایا ہے وہ لے کر رات دو بجے گھر کے پیچھے آجانا "
فلک کا مسیج پڑھ کر دانیال مسکرایا سر اٹھا کر فلک کو دیکھا اور بے آواز ہونٹ ہلائے ۔
"جو حکم سرکار " آریان نے امل کو اٹھنے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اٹھی اور اس کے پیچھے چل دی ۔ سب نے مسکرا کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔آریان امل کا ہاتھ پکڑے اسے باہر لان کے کونے میں بنے چھوٹے سے فارم ہاؤس میں لے گیا ۔
"آریان یہ ۔۔۔"
امل مسکرائی اور آریان کے ہاتھوں۔ میں پکڑے پنجرے کو دیکھا جس میں طوطوں کی خوبصورت جوڑی تھی ۔
"آریان یہ بہترین تحفہ ہے "
امل نے پنجرے کو پکڑا ۔
"امل یہ پرندے ہیں۔ پر رکھتے ہیں ، مگر اڑ نہیں سکتے کیوں کہ یہ قید ہیں، میں بس تمہیں کہنا اور دکھانا چاہتا تھا ،کہ تم بھی ہمیشہ اسی طرح میری محبت کے حصار میں رہو گی چاہے میں کہیں بھی ھوں "
آریان اس کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھتے ہوے محبت سے بولا ۔
"کیا یہ ایسے ہی میرے پاس ہمیشہ رہیں گے ؟"
امل نے سر اٹھا کر پوچھا ۔
"جب تک میں لوٹ نہیں آتا تب تک ہاں ،مگر، ایک دن ہم دونوں خود انہیں آزاد کریں گے اس دن جب ہم ایک ہو جائیں گے ۔۔۔ کیوں کہ تب اور اس دن کے بعد سے انہیں بھی آزاد رہنے کا حق ہو گا ۔ تب تم میرے پاس ہو گی اور پھر ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت کے حصار میں رہیں گے تب ان کی ضرورت نا ہو گی مگر جب میں یہاں نہیں ھوں گا تب ان کی ضرورت ہو گی یہ لمحہ بہ لمحہ تمہیں میری محبت کا یقین دلا ئیں گے اور تم مجھے میری آئیڈیل کے روپ میں بہت اچھی لگی ہو "
امل نے مسکرا کر اپنا چہرہ جھکا لیا ۔
۔۔۔۔___________۔۔۔۔
اور پھر تیسرا سمیسٹر شروع ہو گیا ۔ آریان اور فہد واپس چلے گئے ۔امل ،دانیال فلک اور نور کی وہی روٹین شروع ہو گئی ۔یونیورسٹی سے گھر اور گھر سے ایک دوسرے کے گھر ۔۔۔صارم اور عالیہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد واپس آچکے تھے ۔ صارم دوبارہ آفس جوائن کر چکا تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔__________۔۔۔
وہ چاروں اس وقت کیفے میں بیٹھے سموسے اور کولڈ ڈرنک سے انصاف کر رہے تھے ۔
"آو ۔۔۔ گل خان ۔اور سناؤ شادی کب کر رہے ہو ؟"
یہ فلک تھی جو ہنستے ہوے پوچھ رہی تھی ۔
"اللّه اللّه۔۔۔ باجی کچھ خدا کا خوف کرو ۔۔ام کو شرم آتا ہے "
وہ جلدی جلدی میز سے چیزیں اٹھاتا پلٹ گیا یہ باجی روز اسے تنگ کرتی تھی اور باقی سب اس پر ہنستے تھے ۔
"یار ۔۔۔کوئی فوجی مل جائے جو میری زندگی میں آے ۔۔۔اور پھر ہماری شادی ہو جائے ۔ہائے ۔۔۔"
یہ نور تھی ۔جس نے حال ہی میں پرواز ہے محبت ناول پڑھا تھا اور اب اس کے سر پر ایک آرمی آفسر سے شادی کا بھوت سوار ہو چکا تھا ۔
"لو جی کر لو بات ۔۔۔پچھلے ہفتے تو تمہے گینگسٹر چاہیے تھا ۔تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔میری تو دعا ہے اللّه تمہے ایسا بندہ دے دے جو کم از کم تمہے انسان تو بنا دے "
دانیال ہنستے ہوے بولا ۔ نور نے سر جھٹکا ۔
"دیکھ لینا میرا شوہر بہت اچھا ہو گا وہ میرے ساتھ ناول بھی پڑھے گا ۔"
"ان ڈایریکٹلی ۔۔۔یہ فہد کا کہہ رہی ہے ۔"
دانیال کہتے ہی اپنا بیگ اٹھاتا کرسی سے اٹھا ۔نور نے اپنا جوتا اٹھایا اور اب پوری یونیورسٹی میں دانیال آگے آگے اور نور اس کے پیچھے پیچھے تھی ۔سب ہنستے ہوے انھیں دیکھ رہے تھے ۔
"ہاتھ آؤ ذرا بد تمیز ،چول "
نور نے بڑبڑاتے ہوے جوتا پہنا اور ناک سکوڑتی کیفے کی طرف چلی گئی ۔
"بلا ٹلی "
دانیال منہ پر ہاتھ پھیرتا اپنا شکار ڈھونڈھنے نکل پڑا ۔جاری ہے ۔۔۔۔
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...