ماہی وے
قسط 15
یونہی ،ہنستے مسکراتے وقت گزرتا جا رہا تھا ۔ تین ماہ بعد عالیہ اور صارم دو سے تین ہونے والے تھے ۔ آریان کی یاد ھر لمحہ امل کے ساتھ رہتی تھی ۔ وہ ابھی واپس نہیں آسکتا تھا کیوں کہ ہفتے بعد اسے اور فہد کو عید کی چھٹیاں ہونا تھیں۔ عید الفطر آنے والی تھی ۔مگر فلحال رمضان کا بابرکت ماہ چل رہا تھا ۔ اس بار ان سب نے پورے روزے رکھے تھے ۔ اس پر سب گھر والے بےحد خوش تھے ۔دانیال نے تو باقاعدہ ھر نماز خود بھی پڑھی اور سب کو بھی پڑھائی ۔ امل ،فلک اور نور نے ناجانے کتنے عرصے بعد قرآن کھولا تھا ۔۔بچپن میں قرآن مکمل کرنے کے بعد انہوں نے دوبارہ کبھی قرآن نہیں کھولا تھا ۔اور اب ان تینوں کو یوں لگتا تھا کہ گویا انھیں اطمینان قلب نصیب ہو گیا ہے ۔بےشک اللّه کے ذکر میں ہی دلوں کا سکون ہے ۔ ماہ رمضان کی فضیلت و برکت ہی ایسی ہے کہ ھر مسلمان نیک کام کرنے کا خواہاں ہوتا ہے ۔۔اور بڑھ چڑھ کر نیکیاں کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ دونوں گھر ۔۔، عید سے ایک ہفتہ پہلے کی تمام افطاریاں ایک ساتھ کرتے تھے ۔ آج آفندی مینن کے سب مکینوں کی افطاری "شاہزیب مینشن" میں تھی ۔ فلک عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد قرآن پاک لے کر لان کے پچھلے حصہ میں چلی آئی ۔اسے ہمیشہ یہاں بیٹھ کر قرآن پڑھنے کا مزہ آتا تھا ۔ سب سے علیحدہ سکون میں ۔۔۔ وہ قرآن پاک لیے وہاں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔ آج اس نے ستائیسواں پارہ شروع کرنا تھا ۔ وہ وہاں بیٹھی ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک پڑھ رہی تھی ۔ دانیال ابھی نماز ادا کر کے اپنے کمرے میں گیا تھا ۔ کھلی ہوا میں سانس لینے کے لیے وہ کھڑکھی کھول کر باہر آیا ۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ پھر اس نے نظریں سکیڑ کر دیکھا ۔۔فلک نماز کے انداز میں ڈوبٹہ لیے بیٹھی قرآن پاک پڑھ رہی تھی ۔ دانیال نے دیکھا اس کے چہرے پر سکون تھا وہ ایسے بیٹھی تلاوت کرتی سیدھا دانیال کے دل میں اتر رہی تھی ۔ وہ اس سے محبت تو بہت پہلے سے ہی کرتا تھا مگر اس لمحے دانیال کو یوں لگ رہا تھا کہ اس کی محبت ۔۔۔ عشق کی منزل تک جانے والے راستے پر قدم رکھ چکی ہے ۔ ۔۔ اور دانیال شاہزیب اس لڑکی کے عشق میں پوری طرح گرفتار ہونا چاہتا تھا وہ اس کے عشق میں ڈوب جانا چاہتا تھا ۔جہاں "میں " کے ختم ہو جانے کے بعد بس محبوب کا حکم سر آنکھوں پر ہونا تھا ۔ جہاں خودی اور انا نے ختم ہونا تھا ۔وہ کوئی غیر نا تھی وہ دانیال کی بیوی تھی ۔اس لمحے وہ استحقاق سے کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔آنکھوں کے ذریعہ دل میں اتارتا رہا ۔اور اس لمحے دانیال شاہزیب نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے ساتھ عشق مجازی کے بعد عشق حقیقی کا سفر بھی طے کرے گا ۔ کیوں کہ وہ لڑکی رب نے اس کی قسمت ۔اس کے نصیب میں لکھ دی تھی ۔۔۔وہ اس کا ساتھ چاہتا تھا ھر جگہ ،اس جہاں میں بھی اور اس جہاں میں بھی ۔وہ اسے جنت میں بھی اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا ۔دانیال شاہزیب کو حوروں کی تمنا نہیں تھی اسے بس فلک کا ساتھ چاہیے تھا ۔ھر حال میں ،ھر قیمت میں ۔۔۔ اس نے خود کو روکا نہیں وہ ناجانے کتنے لمحے وہاں کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔ یہاں تک وہ اس سب سے بے خبر قرآن اٹھائے اندر جا چکی تھی ۔ اور دانیال اس بات سے بےخبر تھا کہ یہاں دانیال زندگی بھر کے لیے فلک کا خوبصورت ساتھ پانے کی دعا کر رہا تھا ۔وہ دعا کر رہا تھا کہ فلک کے ساتھ وہ عشق کی ساری منازل طے کرے اور وہاں ، بینش بخت قریشی یہ دعا کر رہی تھی کہ فلک ، دانیال شاہزیب کے دل سے اتر جائے ۔اور اس کا رب دانیال کے دل میں بینش کی محبت ڈال دے ۔ وہ نہیں جانتی تھی جس راہ کا انتخاب اس نے کیا ہے وہ سوائے کانٹوں کے کچھ نا رکھتا تھا ،نا کوئی گل ،نا کوئی پھول ۔نا کلی ۔نا محبت کے حسین قہقہے ،نا دانیال اور نا محبت ۔۔۔اس راہ میں تو بس کانٹے تھے ،تکلیفیں تھیں جنہے بینش کے غرور کو مٹی کرنا تھا ۔ اس کا اپنی ذات پر گھمنڈ ملیا میٹ کرنا تھا ۔۔۔ اس راہ کا انتخاب اس نے خود کیا تھا ۔۔اور اب اسے خود اپنی منزل ڈھونڈنا تھی ۔۔نا محرم کی محبت کا انتخاب اس نے خود کیا تھا مگر محبت پر کس کا بس چلتا ہے ۔۔۔؟ اس منہ زور جذبے کی لگام انسان کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہوتی ۔۔۔اس سب تماشے میں تو وہ خود ایک کٹ پتلی ہوتا ہے ۔۔۔۔محبت بھی وہ جو عشق کی حد تک ہو ۔۔
۔۔۔۔۔_________۔۔۔۔۔
جب بھی آتی ہے بے دھڑک ہی چلی آتی ہے
ھر بار تمہاری یاد دستک دینا بھول جاتی ہے
(مریم )
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
آج آریان اور فہد نے آنا تھا ۔کل عید تھی ۔۔۔ امل ،نور اور فلک کی ساری تیاری مکمل تھی مگر ھر سال کی طرح چوڑیاں اور مہندی لینے ان سب نے چاند رات کو ہی جانا تھا ۔ھر سال دانیال ہی انھیں لے کر جاتا تھا ۔ آج آخری روزہ تھا جہاں وہ عید کے لیے خوش تھے وہیں وہ سب اس بات پر بھی اداس تھے کہ رمضان ختم ہو گیا ۔۔برکتوں کا مہینہ ختم ہو گیا تھا ۔آج ان سب نے آفندی مینشن میں افطاری کرنا تھی ۔ کچن میں امل بھی سب کے ساتھ مل کر افطاری کی تیاری کر رہی تھی ۔۔۔ باہر لاؤنج میں سب مرد بیٹھے تھے ۔۔عالیہ کمرے میں آرام کر رہی تھی ۔۔ فلک ، اور دانیال باہر لان میں ہی تھے ۔۔۔
"اتنی خوش کس بات پر ہو ؟"
دانیال نے فلک کا ٹمٹماتا ہوا چہرہ دیکھا ۔دل میں اس کی نظر اتاری ۔۔
"کل عید ہے اس وجہ سے "
"اوہ ۔۔۔رمضان ختم ہو گیا میں اس بات پر اداس ھوں مگر تم اس بات پر اداس نہیں لگ رہی ۔۔۔کیا تمھے پتا ہے رمضان کے ختم ہونے پر کون اتنا خوش ہوتا ہے ؟"
وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا مگر لہجے میں بلا کی شرارت تھی ۔
"کون ؟؟؟؟
وہ چونکی ۔پھر اسے گھورا ۔
"۔۔۔۔دانیال شاہ "
وہ دانت پیستے ہوے بولی ۔ وہ سمجھ چکی تھی ۔ان ڈایریکٹلی وہ اسے شیطان کہہ رہا تھا ۔ دانیال نے اس کا ناک کھینچا ۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ جب وہ اس پر غصہ ہوتی تھی تو اس کا پورا نام ہی لیتی تھی ۔
"جی جانِ دانیال ؟؟؟ ایک بات ہے یہ ہمارے نکاح کے بعد ہماری پہلی عید ہے "
وہ محبت بھرے لہجے میں بولا ۔فلک اسے گھور کر رہ گئی ۔
"دانیال ۔۔۔"
وہ تنبیہی انداز میں بولی ۔ دانیال نے اس کے گود میں رکھے ہاتھ نرمی سے تھامے اور انھیں اپنے ہونٹوں تک لے گیا ۔جھک کر اس نے اس کے ہاتھوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی تھی ۔ فلک تو ہق دق رہ گئی ۔چہرے پر حیا کی لالی پورے آب و تاب سے چمکنے لگی ۔۔۔ پہلی بار اس نے دانیال کے محبت بھرے لمس کو محسوس کیا تھا ۔
"شرم کر لو روزہ مکروہ کروا دو گے تم میرا بھی اور اپنا بھی "
وہ بمشکل خود پر قابو پاتے اٹھی اور اپنا اعتماد بحال کیا ۔دانیال جانتا تھا وہ شرما رہی ہے ۔۔۔ یہ سب اس سے بےاختیاری میں ہوا تھا ۔۔ وہ اسے مزید تنگ کرنا نہیں چاہتا تھا ۔آجکل ویسے ہی یہ لڑکی اس کے حواسوں پر زیادہ چھا رہی تھی ۔
"جاؤ اندر "
اس کے کہنے پر وہ فورا اندر بھاگی تھی ۔دانیال کو اپنی کچھ دیر پہلے کی حرکت اور اس پر فلک کا ردعمل یاد آیا تو وہ ہنس دیا ۔اندر دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی فلک کا دل دھک ، دھک کر رہا تھا ۔کچن میں امل کھڑی سموسے اور کباب بنا رہی تھی ۔۔۔ وہ بڑی مہارت سے اپنے کام میں مگن تھی ۔ اب تو وہ کوکنگ کے معاملے میں خاصی اچھی ہو چکی تھی ۔بلکہ عید کے بعد سے فلک اور نور بھی اس سے کوکنگ کلاسس لینے کا ارادہ رکھتی تھیں ۔ نور ایک طرف کرسی پر بیٹھی سلاد بنا رہی تھی ۔ اس نے آج ریشین سیلڈ بھی بنایا تھا اور اس پر وہ خاصہ خوش تھی ۔اسما بیگم بریانی کو دم دے کر باہر چلی گئیں تھی کیوں کہ اب ان کی ہمت جواب دے گئی تھی ،ارفع بیگم سکنجبین بنا رہی تھیں سردائی وہ پہلے ہی بنا کر فریج میں رکھ چکی تھیں ۔ عائشہ بیگم قورمہ بنا رہی تھیں۔ ۔ باقی ساری تیاریاں مکمل تھیں ۔ آریان نے فہد کو بہت اسرار کیا کہ وہ اندر آجائے مگر اس نے سہولت سے منع کر دیا تھا ۔ دانیال ایک دم اپنی کرسی سے اٹھا اور آریان کی طرف چلا آیا ۔
"کمینے ۔۔۔۔انسان "
اور دانیال اس کے گلے لگ گیا ۔وہ دانیال کی گرم جوشی پر ہنس دیا ۔
"السلام علیکم "
آریان اس سے علیحدہ ہوا ۔
"بس کر دے ہڈیاں توڑنا تھیں میری۔ "
وہ اسے گھورتے ہوے بولا ۔
"لو جی پولیس کی ورزش نے تمھے خاصہ دل گردے والا بنا دیا ہے ۔۔۔میں دیکھ رہا ھوں کیا کسرتی بدن ہو گیا ہے تمہارا ۔"
دانیال نے ہنستے ہوے اس کے کسرتی بدن پر چوٹ کی ۔
"خود تو جم جا ،جا کر تم نے اپنا حال ایسا کیا ہے ۔۔۔ میں نے تو پھر ورزشوں سے ایسا حال کر لیا ہے ۔ خیر چھوڑو اسے بیگ اٹھاؤ میرا اور اندر آو ۔عزت کرو میری تمہارا بہنوئی ھوں میں "
آریان اترا کر کہتے ہوے اندر کی طرف چل دیا ۔
"بہنوئی ھوں تمہارا ۔۔ہننہہ "
دانیال نے سر جھٹکا ۔پھر زمین پر پڑا اس کا بیگ اٹھایا اب کوئی اور چارہ بھی تو نا تھا ۔
"ہاہ۔۔۔۔ میں نے اسے منہ توڑ جواب کیوں نہیں دیا ؟ میں بھی تو اس کا بہنوئی ھوں ۔۔لعنت ہے ایسی باتیں مجھے بعد میں یاد آتی ہیں "وہ خود کو کوس رہا تھا ۔
آریان آگیا تھا اس کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہو گئی تھی ۔۔دھک ،دھک کرتے دل کو سمبھالتے وہ ڈوبٹہ سر پر جماتے ہوے باہر آئی جہاں آریان سب سے ملنے میں مصروف تھا ۔وہ چھ ماہ بعد آیا تھا ۔امل نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا ۔۔دل کی دھڑکن رفتار پکڑنے لگی ۔۔وہ کس قدر خوبرو ہو چکا تھا ، اس کی شخصیت نکھر گئی تھی ۔۔۔ وہ امل کی خواہش پوری کر رہا تھا امل کو پولیس والا پسند تھا اور وہ اس کی پسند پر ایمان لے آیا تھا ۔۔۔ یہ شخص کس قدر محبت کرتا تھا اس سے ؟
"السلام علیکم "
سب کے سامنے اس کو سلام کہتے عجیب حجاب نے گھیرا تھا ۔وہ ایسی تو نا تھی ۔ اف ۔۔یہ محبت انسان کو کیسا بنا دیتی ہے ۔؟ کیا ہوتا ہے وہ اور کیا بن جاتا ہے ؟
"وعلیکم السلام ۔۔۔!!! کیسی ہو امل ؟"
"جی میں ٹھیک ھوں آپ سنائیں ؟"
آریان نے مسکراہٹ دبا کر اسے دیکھا اس نے پہلی بار اسے آپ کہا تھا شاید سب کے سامنے شرم و حجاب نے اسے آگھیرا تھا ۔اس کے "آپ " کہنے پر دانیال کو کھانسی کا زبردست دورہ پڑا تھا ۔مگر آریان کی گھوری پر وہ ٹھیک ہو گیا تھا ۔
"عالیہ آپی کہاں ہیں ؟"
وہ ادھر، ادھر دیکھتے ہوے پوچھ رہا تھا اسے عالیہ کو مبارک باد دینا تھی ۔۔۔ اسے یہ بات ارفع بیگم نے فون پر کچھ دن پہلے ہی بتائی تھی ۔آریان کو اپنے ماموں بننے کی خبر سن کر بہت خوشی ہوئی تھی ۔صارم کو وہ گلے ملتے وقت ہی مبارک باد سے چکا تھا ۔
"کمرے میں ہے آرام کر رہی ہے اب طبیعت خاصی خراب رہتی ہے اس کی آجکل "
عائشہ بیگم آہستہ آواز میں بتا رہی تھی ۔۔ امل دو منٹ وہاں کھڑی رہی پھر شرم و حیا نے آگھیرا تو وہ کچن کی طرف چل دی ۔آریان کے ہونٹوں پر تبسم پھیل گیا ۔ وہ فریش ہونے چل دیا اس کا ارادہ فریش ہونے کے بعد عالیہ سے ملنے جانے کا تھا ۔امل ،نور اور فلک نیچے مل کر میز پر کھانا لگا رہی تھیں ۔فریش ہو اس نے لوز ٹی شرٹ اور ٹراوزر پہنا ۔پھر بالوں میں ہاتھ چلاتا اپنے کمرے سے نکلا اور نیچے عالیہ اور صارم کے کمرے کی طرف چلا آیا ۔ اندر سے عالیہ کی اجازت ملنے پر وہ اندر چلا آیا ۔وہ بیڈ پر سیدھی ہو کر بیٹھ رہی تھی ۔ چہرہ اٹھنے کی کوشش میں گلابی ہو رہا تھا ۔۔۔ بھرا، بھرا وجود اور صارم کی محبت کے بخشے مان نے اسے نکھار دیا تھا ۔۔۔ آریان نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری ۔
"مبارک ہو آپ کو بہت ،میں بہت خوش ھوں "
وہ اس کے ماتھے پر بوسہ دینے اور سلام کرنے کے بعد اس کے پاس ہی بیٹھ گیا ۔
"خوش ہیں آپ ؟"
وہ اس وقت ایک بہت خیال رکھنے والا بھائی لگ رہا تھا عالیہ کو بے اختیار اس پر ٹوٹ کر پیار آیا ۔
"ہاں بہت ۔۔بہت زیادہ اپنے لیے بھی اور تمہارے لیے بھی "
وہ اس کے بال بھکیرتے ہوے بولی ۔
" طبیعت ٹھیک رہتی ہے ؟"
اب وہ اس کا ہاتھ تھاما ہوے تھا ۔
"ہاں ٹھیک رہتی ہے "
"چلیں آرام کریں اب "
وہ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اٹھ گیا اور پھر مسکراتے ہوے کمرے سے باہر آیا ۔
"شکر ہے۔۔۔!!! آپی خوش ہیں یا اللّه وہ ہمیشہ ایسے ہی رہیں ۔۔(آمین )"
اس کے دل سے بےاختیار دعا نکلی .
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
شام ہو چکی تھی ۔گیٹ کھلا تو فہد نے گاڑی پارک کی ۔فہد جس وقت اندر پہنچا بخت قریشی کھانا کھا رہے تھے ۔وہ بیگ ایک طرف رکھتا انہی کی طرف چلا آیا ۔زیادہ شاک اسی بات پر لگا تھا کہ انہوں نے روزہ نہیں رکھا تھا ۔
"السلام علیکم ۔۔۔کیا آپ نے روزہ نہیں رکھا ؟"
وہ حیران ہوا تھا ۔ بخت نے سے اٹھا کر اسے دیکھا ۔
"وعلیکم۔۔!!! ۔۔۔ نہیں ۔۔۔میں روزے نہیں رکھ سکتا ۔مجھ سے بھوکا نہیں رہا جاتا ۔"
وہ اپنے ہونٹ ٹشو سے تھپتھپا کر اٹھا ۔ فہد کو دکھ ہوا انہوں نے اسے گلے تک نہیں لگایا ۔جو بھی تھا سگا باپ اتنا بے حس کیسے ہو سکتا ہے ؟
"اچھا ۔ ۔ اور بینش کدھر ہے ؟"
وہ خاموش رہا کیا کہہ سکتا تھا بھلا ۔؟ اسے یہ حق ہی کب ملا تھا ۔
"اپنے کمرے میں ہے آج کل اس پر نیا ، نیا اسلام اترا ہے ۔۔۔ روزے رکھے ہیں سارے اس نے "
وہ نخوت سے بولے اور اٹھ کر چلے گئے ۔فہد نے افسوس سے اس طرف دیکھا جہاں دروازے سے ابھی وہ باہر نکلے تھے ۔ وہ بینش کے روزے رکھنے پر جتنا حیران تھا اس سے کہیں زیادہ خوش تھا ۔وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور فریش ہو کر بینش کے کمرے میں چلا آیا ۔بینش نماز پڑھ رہی تھی ۔۔۔فہد کو جھٹکا لگا ۔وہ کاوچ پر بیٹھ کر اس کی نماز کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا ۔ سلام پھیرنے کے بعد وہ اٹھی اور اس فہد کو دیکھا وہ حیران تھی اسے اتنے عرصے بعد سامنے دیکھ کر ۔
"بھائی ۔۔"
وہ اس کے گلے آلگی ۔۔جو بھی تھا ، وہ اس کا بھائی تھا ۔۔دانیال شاہ کے عشق نے بینش بخت قریشی کو لفظ محبت اور احساس سے روشناس کروایا تھا ۔ ۔ اب مزید وہ محبتوں کو کھونے کا ضبط نہیں رکھتی تھی ۔فہد کو اگر اس دنیا میں اپنی ماں کے بعد کسی سے بے انتہا محبت تھی تو وہ بینش تھی ۔۔اس چھوٹی گڑیا نے اسے جینا سکھایا تھا ۔۔۔اس کی کوئی غلطی نہیں تھی جو وہ اس سے دور رہ کر اسے سزا دیتا ۔ غلطی بخت قریشی کی تھی جس نے اس کے ذہن میں یہ خناس بھرا تھا ۔
"میں خوش ہوا ھوں بہت ۔۔۔تمہے ایسے دیکھ کر "
بینش اس کے اشارے کو سمجھ چکی تھی مگر خاموش رہی ۔
"اس تبدیلی کی وجہ ؟"
وہ خوش تھا بے انتہا خوش ۔
"کچھ چیزیں حاصل کرنا انسان کے بس میں نہیں ہوتیں وہ صرف رب کے بس میں ہوتیں ہیں ۔سکون کی تلاش میں تھی ۔۔اس طریقے سے غضب کا سکون ملتا ہے "
وہ عجیب سے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔ فہد نے چونک کر اسے دیکھا ۔کچھ گڑبڑ تھی ۔مگر اس سے پہلے وہ کچھ اور بولتا وہ اٹھی ۔
"میں افطاری کا انتظام کرواتی ھوں ۔ آپ آرام کریں "
"ہممممم ۔۔"
فہد نے سر ہلایا ۔وہ گہری سوچ میں تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
افطاری کرنے اور نماز ادا کرنے کے بعد وہ سب لاؤنج میں بیٹھ گئے ۔۔۔ امل اور نور کچن میں تھیں ۔امل چائے بنا رہی تھی اور نور کافی بنا رہی تھی ۔۔۔ کیوں کہ نور ،دانیال اور فلک نے کافی ہی پینا تھی ۔۔
"آریان ،دانیال بیٹا تم دونوں بچیوں کو لے جاؤ بازار اور چوڑیاں ۔مہندی دلوا لاؤ ۔تم لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کی بھی اوٹنگ ہو جائے گی ۔ "
ارفع بیگم کے کہنے پر امل ،فلک اور نور جلدی جلدی اپنی شکلیں سنوارنے چلی گئیں جو کام کرتے ، کرتے خاصی بگڑ چکی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔
بازار میں "چاند رات " کے باعث خاصا رش تھا ۔ چاند دکھنے کی خوشی میں ڈھول پیٹا جا رہا تھا وہیں ہلکی ہلکی آواز میں گانے بھی چل رہے تھے ۔۔۔ اور لوگوں کے شور، قہقہوں کے سبب ، گانے کی خاص آواز بھی نا تھی ۔ امل ،فلک تو پہلے بھی آتیں تھیں مگر نور ؟ وہ پہلی بار آئی تھی ۔۔۔ وہ آنکھوں میں چمک لیے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے ارد گرد ھر منظر کو اشتیاق سے دیکھنے میں مگن تھی ۔۔۔
"امل ۔۔فلک ۔۔مجھے مہندی لگوانی ہے "
نور خوشی سے چلائی ۔
"آو چلیں ۔۔۔"
وہ تینوں دانیال ،آریان کو وہیں چھوڑ کر ایک طرف چلی آئیں جہاں پہلے ہی بہت ساری بچیاں اور لڑکیاں بیٹھی مہندی لگوا رہی تھی ۔۔۔
"واو ۔۔۔یار یہ کتنی پیاری لگ رہی ہے نا ؟؟ "
نور نے ایک مہندی کے ڈیزائن کی طرف اشارہ کیا جو بہت خوبصورت تھا ۔
"روکو سب ۔۔"
نور نے فرنٹ کیمرے کھولا اور دھڑادھڑ سیلفیاں لینے لگی ۔۔سب مسکرا کر اس کا ساتھ دے رہی تھیں ۔تصویریں لینے کے بعد نور ایک طرف بیٹھ گئی جب کہ امل اور فلک مہندی لگوا رہی تھیں ۔۔۔نور سب تصویریں انسٹاگرام پر پوسٹ کر چکی تھی ۔ امل گلابی کرتا ،کیپری پہنے ہوے تھی ۔بالوں کی چٹیا کر رکھی تھی اور فلک نیلی فراک اور جین پہنے ہوے تھی بالوں کی ڈھیلی پونی بنا رکھی تھی ۔۔۔ دونوں مہندی لگواتی مسکرا رہی تھیں ۔آنکھوں میں خوشی کے ستارے ٹمٹما رہے تھے ۔۔۔ اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔۔۔ نور نے محبت سے انھیں دیکھا اور دونوں کی تصویر لی پھر دانیال اور آریان کو وہ تصویر بھیجی ۔اس سے پہلے کے وہ مہندی لگواتی اس کے موبائل کی نوٹیفکیشن ٹیون بجی ۔
"ایک منٹ "
فلک نے مہندی لگانے والی لڑکی کو روکا اور موبائل نکالا ۔سامنے فہد کا میسج تھا ۔ اس نے جلدی سے میسج کھولا ۔ کتنے عرصے بعد فہد نے کوئی میسج کیا تھا ۔وہ میسج پڑھنے لگی ۔
"سنو وہ جو ہاتھ پر گول سا دائرہ بناتے ہیں نا جسے تم لوگ پتا نہیں کیا کہتی ہو ۔۔؟ وہ بنوانا ۔ تمہارے ہاتھوں کی خوبصورتی بڑھ جائے گی ۔۔۔ اس دائرے کے محور میں ہم دونوں کی ذات ہو گی "
نور کے گال تپ گئے ۔
"بلکل ناول والی فیلنگ آرہی ہے "
اس نے ہاتھ جھلائے ۔بنا رپلاے کے موبائل واپس رکھا ۔
"وہ یہ ڈیزائن رہنے دو ۔۔اور ۔۔اور ۔۔ووو۔۔وہ ٹکی بنا دو دونوں طرف "
نور ایسے شرمائی جیسے سامنے فہد ہو ۔
پھر مہندی لگوانے ، چوڑیاں خریدنے کے بعد وہ تینوں آریان اور دانیال کی طرف چلی آئیں ۔۔۔
"وہ سامنے دکان ہے چوڑیوں کے پیسے دے آو ۔"
نور نے سامنے دکان کی طرف اشارہ کیا ۔امل چوڑیاں پکڑے ہوے تھی کیوں کہ اس نے مہندی سب سے پہلے لگوائی تھی اس لیے اس کی مہندی سوکھ چکی تھی ۔
"تم ہمارے ساتھ آو "
امل نے دانیال کی طرف اشارہ کیا ۔وہ چاروں گاڑی کی طرف چل دیے ۔ آریان پیسے ادا کرنے دکان کی طرف آیا ۔ اسی وقت سامنے سے فہد آیا ۔
"جناب کدھر ؟"
آریان پیسے ادا کرنے کے بعد اس کی طرف مڑا ۔
"بینش کو چوڑیاں دلوانے اور مہندی لگوانے آیا تھا ۔"
اس کے کہنے پر آریان نے ایک نظر پیچھے بینش کی طرف دیکھا جو سفید شلوار سوٹ پہ خاکی ڈوبٹہ لیے اشتیاق سے سامنے چوڑیوں کو دیکھ رہی تھی ۔
"اچھا بدلاو ہے بینش میں ۔۔امید ہے اچھا ہی جو سب "
فہد نے سر ہلایا ۔۔۔
"کل آجانا تم ،بینش کو بھی لے آنا ساتھ "
آریان دو ،ایک باتیں مزید کر کے باہر کی طرف چلا آیا ۔پھر وہ پانچوں گول گپے کھانے کے بعد گھر آئے ۔۔دانیال نے فلک ،آریان نے امل کو گول گپے کھلائے ۔اور بیچاری نور کبھی دانیال کے ہاتھ سے کھاتی کبھی آریان کے ہاتھ سے ۔اور دانیال اور آریان تو آرام سے نور کو کھلا رہے تھے بھئی انھیں اپنی بہن پر بہت پیار آرہا تھا جس نے انھیں اتنی اچھی تصویریں بھیجی تھی ۔ اور دانیال تو صدقے واری جا رہا تھا ۔یہ نور کا خیال تھا کہ اگر وہ اس وقت دانیال سے کوئی خزانہ بھی مانگ لیتی تو شاید دانیال وہ بھی دے دیتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔
اگلے روز گھر میں گہما ، گہمی کا عالم تھا ۔مرد حضرات نماز عید ادا کرنے کے لیے گئے ہوے تھے۔ سب مردوں نے آج سفید سوٹ پہنے تھے ۔ عالیہ لاؤنج میں بیٹھی سب کو ادھر ادھر پھرتے کام کرتے دیکھ رہی تھی ۔وہ بادامی کھلی فراک اور ٹراوزر پہنے ہوے تھی ۔بالوں کا جوڑا کر رکھا تھا ۔گلے میں پینڈٹ اور ہاتھوں میں بریسلٹ پہن رکھا تھا ۔ اسے کسی بھی کام کے کرنے سے منع کر رکھا تھا لہٰذا وہ بیٹھی سویاں کھا رہی تھی ۔ فلک اپنے کمرے میں کھڑی چلا رہی تھی ۔
"امی میری چوڑیاں کدھر ہیں ؟ میں رات کو لائی تھی ۔۔ہائے میری چوڑیاں ۔۔۔۔"
"چلاو مت تمہاری ڈریسنگ کے تیسرے دراز میں ہیں "
عائشہ بیگم نے اس کے کمرے میں جھانکا ۔جو کمرہ کم لگ رہا تھا ، کوئی جنگل زیادہ لگ رہا تھا ۔
"ایسے مت دیکھیں تھوڑا سا گند پھیلا ہے بس "
اس کے تھوڑا سا کہنے پر عائشہ بیگم کا منہ کھلا ۔
"سارا سمیٹ کر آنا "
وہ کڑے تیوروں سے بولیں ۔
"سمجھیں ہو گیا آپ بس میری سویوں کی پلیٹ تیار رکھیں میں آرہی ھوں "
عائشہ بیگم نے اسے گھورا ۔اس لڑکی کی ھر بات کھانے سے شروع ہو کر کھانے پر ہی ختم ہو جاتی ہے ۔
"اچھا ٹھیک ہے "
فلک نے جلدی جلدی چوڑیاں پہنی پھر کھسہ پہنا ۔اور شیشے کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔
"ہائے ماشاء اللّه ۔۔۔ماشاء اللّه "
فلک کہہ کر ہنس دی ۔ مسٹرڈ فراک جو گھٹنوں سے تھوڑا نیچے تھی اور ساتھ مسٹرڈہ ہی کیپری تھی ساتھ گولڈن کھسہ اور ایک ہاتھ میں گلابی چوڑیاں پہنے،گلے میں چوکر تھا اور بالوں کو ڈھیلے جوڑے میں باندھا ہوا تھا اور ہلکی ریڈ لپسٹک لگائے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ ایک نظر کمرے کو دیکھا ۔
"سوری مما "
زبان دانتوں تلے دبائے وہ بولی پھر ٹھک سے دروازہ بند کرتی ایک ساتھ دو ،دو سیڑھیاں پھلانگتی نیچے آئی ۔ جہاں عالیہ بیٹھی تھی ۔عالیہ نے اس کی طرف دیکھا ۔
"ماشاء اللّه ۔"
فلک دھوڑ کر عالیہ تک آئی اور اس کے ہاتھ کا بوسہ لیا ۔
"عید مبارک بھابھی "
عالیہ نے اسی کے انداز میں اسے بھی ایس مبارک کہا ۔
"عید مبارک چوٹخو ۔۔۔"
عالیہ نے ناسمجھی سے فلک کو دیکھا پھر سمجھ آنے پر ہنس دی ۔
"جلدی آجاؤ ۔۔یار پھوپھو مس کر رہی ہے تمہیں "
فلک بے چارگی سے کہتے اٹھی اور کچن کی طرف چلی آئی ۔
"عید مبارک ۔۔۔سب کو۔!!! ۔۔۔میری سویاں ؟؟"
عید ملنے کے بعد وہ اپنی سویوں کے بارے میں پوچھنے لگی ۔ پھر تب تک نا اٹھی جب تک دل بھر کر سویاں نہیں کھائیں بلکے جانے سے پہلے سینڈوچ اٹھا کر لے جانا نہیں بھولی ۔ عیدی لوٹنے کا مشن تو ایک ساتھ شروع کرنا تھا ۔
"اچھا چلتی ھوں ۔۔۔کھانے کے وقت پر یاد کر لینا ۔۔"
وہ "چنا میرے آ " گانے کی ٹانگیں توڑتی یہ جا اور وہ جا ۔
۔۔۔۔۔۔********__
امل کچن میں کھڑی لب شیریں بنا رہی تھی ۔
"استغفر الله ۔۔۔ ماسی جی تیار نہیں ہونا ؟"
فلک نے امل کے حلیے پر چوٹ کی جو رات والا کھلا ٹراوزر اور شرٹ پہنے تھی بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا ۔اور ایپرن پہنے وہ خاصی مصروف تھی ۔
"ہاں بس جا رہی ھوں تیار ہونے ۔۔۔مما کا تو کام ختم ہو گیا تھا وہ تیار ہونے جا چکی ہیں میں بس یہ فریج میں رکھ دوں پھر جا کر تیار ہوتی ھوں ۔ چاول کھاؤ گی ؟"
امل نے باول فریج میں رکھا ۔
"نیکی اور پوچھ پوچھ ؟؟"
فلک نے فورا چمچ پکڑ کر کرسی سمبھالی ۔۔۔ امل نے اسے پلیٹ میں چاول نکال کر دیے ۔
"بہت پیاری لگ رہی ہو میری بھابھی جان "
امل نے اس کی ناک کھینچی ۔
"اوئے میں تمہاری بھابھی بعد میں ھوں دوست اور بہن پہلے ۔۔۔ سو پلیز "
فلک بھرے منہ سے بولی ۔
"اچھا ٹھیک ہے "
امل نے منہ بنایا۔
"پیاری دوست ، بہن اور بھابھی عید مبارک "
امل نے خوبصورت انداز میں بات سمیٹی ۔
"اھہ خیر مبارک ۔۔اور ۔۔۔میری پیاری دوست ،میری بہن اور بھابھی جان آپ کو بھی عید مبارک "
فلک اسی کے انداز میں بولی ۔
"اب جاؤ میرے کھانے کو نظر لگاؤ گی ؟"
فلک نے اسے گھورا ۔
"جا رہی ھوں ۔۔نور کو بھی دیکھوں صبح کی کمرے سے نہیں نکلی ۔بس چاولوں میں چار چمچ مار کر چلی گئی اپنے ہجرے میں "
امل کی بات پر فلک ہنسی ۔
"کمرے میں جانے سے بہتر ہے اسٹڈی میں چیک کرو میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ھوں وہیں بیٹھی ناول پڑھ رہی ہو گی ۔۔اور اب جاؤ "
فلک ہنس کر کہتی آخر میں سنجیدہ ہوئی ۔امل نے آنکھیں گھمائیں اور تیار ہونے چل دی ۔ کمرے میں پہنچ کر کمرے کی حالت نے بتا دیا تھا کہ نور تیار ہو چکی ہے ۔امل نے سارا پھیلاو سمیٹا اور تیار ہونے لگی ۔۔۔۔
فلک نے چاول کھائے پھر فریج سے ٹین پیک اٹھایا اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی ۔ پہلے امل کے کمرے کی طرف جانے لگی پھر مڑی اور دانیال کے کمرے میں چلی آئی ۔ ۔ ۔ کمرے میں دانیال کے کلون کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔کمرہ صاف ستھرا تھا ۔۔"اففف اس کا کمرہ اور میرا کمرہ جسے میں صاف بھی کر کے نہیں آئی ؟؟"
فلک نے بے اختیار جھرجھری لی ۔ وہاں سے دروازہ کھولتی وہ اسٹڈی میں آگئی اور توقع کے عین مطابق وہاں نور بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی ۔
"بس آخری دو پیج رہ گئے روکو "
نور دوبارہ مصروف ہو گئی ۔فلک نے اسے دیکھا جو آج ، روز کے معمول سے ہٹ کر بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔وہ لال اور نیلا بڑے بڑے خانوں والا کرتا اور لال کیپری پہنے تھی ۔۔بالوں کو آج کرل کر کے کھلا چھوڑا گیا تھا ۔۔کرل ایسے تھے کہ اوپر سے سیدھے آتے بال نیچے آکر کرل ہو جاتے ۔ ہاتھوں میں مہندی کے ساتھ ساتھ ہم رنگ لال چوڑیاں بہار دکھا رہی تھی کانوں میں سنہری بالیاں اور سنہرا باریک پینڈٹ پہنے ۔لال ہی لپسٹک لگائے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔
"اوہ جناب لگتا ہے آج کسی کی فرمائش پر تیار ہوئی ہو "
فلک شرارتی لہجے میں بولی ۔
"نہیں تمہارا مطلب کیا ہے ؟؟ "
نور ڈوبٹہ کندھوں پر سیٹ کرتے بوکھلائی ہوئی بولی ۔
"بنو مت ہم سب کی اماں ہو تم ۔۔۔آئی بڑی معصوم بی بی "
فلک نے اسے گھورا۔
"جی ۔۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے "
وہ سر نفی میں ہلاتی معصومیت کا مکمل ڈرامہ کر رہی تھی جس کی حقیقت فلک کو پتا تھی ۔تبھی وہ قہقہہ لگا کر ہنس دی ۔
"اچھا چھوڑو میں تمہے ناول سناؤں ؟"
نور نے بات بدلنا چاہی ۔
"اوفف ۔۔۔۔۔ "
فلک نے نور کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے ۔
"آو امل کو دیکھیں ۔۔تیار ہوئی کہ نہیں ۔۔نیچے دانی وغیرہ تو آچکے ہیں شاید ۔۔"
فلک نے نیچے سے آتی آوازیں سن کر اندازہ لگایا ۔وہ دونوں امل کے کمرے میں آگئیں ۔
"ارے واہ ۔۔۔کیا بات ہے ؟؟"
نور نے امل کو دیکھا جو ڈریسنگ کے سامنے کھڑی ریڈ لپسٹک لگا رہی تھی ۔ پیچ رنگ کے شلوار ،قمیض پر وہ بڑا سا ہم رنگ سنہری کڑھائی والا ڈوبٹہ لیے ہوے تھی جس کی چاروں طرف گوٹی لگی ہوئی تھی ۔ لمبے سیدھے بال کھول کر پشت پر پھیلا رکھے تھے ۔دونوں کلائیوں میں سنہری چوڑیاں پہنی ہوئی تھیں ۔، پیروں میں گولڈن کھسہ اور کانوں میں بڑے، بڑے جھمکے پہنے
ہوے وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔
"چشم بدور.... اللّه تم تینوں کو نظر بد سے بچائے ۔"
اسما بیگم نے ان تینوں کی نظر اتاری ۔وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھیں ۔
"شکریہ امی ۔"
فلک مسکرا کر بولی ۔ فلک کے اسما بیگم کو امی کہنے پر امل اور نور نے ابرو اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ۔ اسما بیگم کو بہت خوشی ہوئی تھی ۔
"میرا دل خوش کر دیا تم نے بیٹا ۔۔"
""پر آپ کی بہو نے کبھی آپکے بیٹا کا تو دل خوش نہیں کیا ۔"
کمرے میں داخل ہوتے دانیال نے اسما بیگم کے آخری لفظ سنے تھے تبھی دل نے کہا اس خوبصورت چڑیل کو چھیڑا جائے ۔
"دانی ۔۔۔"
فلک نے دانت پیسے ۔ غصے میں اس کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔دانیال نے مسکراہٹ ضبط کی ۔
"عید مبارک "
امل اسے گھورتے ہوے بولی ۔اس نے موضوع بدلنا بہتر سمجھا ورنہ ان کا کیا بھروسا تھا کہ لڑائی شروع کر دیتے ۔
"خیر مبارک "
دانیال نے جیب سے جیسے ہی پیسے نکالے امل خوش ہو گئی کیوں کہ دانیال سخی ہو رہا تھا ؟ ورنہ ایک روپیہ دینا اپنی توہین سمجھتا تھا ۔امل نے خوشی سے ہاتھ آگے بڑھائے ۔لیکن دانیال اس کے پاس سے گزر کر اسما بیگم کی طرف چلا آیا ۔
"امی جان میرا صدقہ تو اتر دیں نا اتنا پیارا لگ رہا ھوں سب گھور رہی ہیں "
وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتا ہوا بولا ۔ یوں لگ رہا تھا معصومیت کا خاتمہ اسی پر ہوا ہے ۔امل کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ فلک کا جی چاہا کہ دو ایک ہاتھ تو لگا ہی دے منحوس کو ۔اسما بیگم ہنستے ہوے چلی گئیں ۔
"امل ذرا میرے ساتھ آنا "
نور نے امل کو اشارہ کیا ۔اس کے موبائل پر آریان کا میسج آیا تھا جو چاہتا تھا کہ نور امل کو گھر کی پچھلی طرف بنے باغ میں پہنچا دے ۔دوسری طرف دانیال کی بھی خواہش تھی کہ اسے اور فلک کو تھوڑی دیر اکیلا چھوڑا جائے ۔ خیر آج کل نور آریان اور دانیال کے کام بخوبی کر رہی تھی ۔ان دونوں نے اسے کیا لالچ دیا تھا اس کا پتا صرف ان تینوں کو ہی تھا ۔
ان دونوں کے جانے کے بعد دانیال فلک کی طرف مڑا ۔جو دونوں بازو کمر پر ٹکائے کھڑی اسے خشمگیں نگاہوں سے گھور رہی تھی ۔
"یار مذاق کر رہا تھا ۔سنا ہے خوبصورت چڑیل کو لفٹ کرواؤ تو وہ پیچھے پڑ جاتیں ہیں ۔۔"
وہ مسکرا کر بولا ۔اور اس کی طرف بڑھنے لگا ۔
"دانیال شاہ ادھر ہی رک جاؤ ۔۔۔ورنہ جو ہو گا وہ اچھا نہیں ہو گا "
فلک نے انگلی اٹھا کر اسے وارن کیا ۔مگر وہ تو کچھ سن ہی نہیں رہا تھا ۔
"اچھا مثلاً کیا ؟"
وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوے بولا ۔
"مار کھاؤ گے دانیال شاہ مجھ سے "
"دل و جان سے تیار ھوں "
وہ اس کی مہندی کے ڈیزائن پر انگلی پھیر رہا تھا ۔شاید اپنا نام لکھ رہا تھا ۔
'" ایک مکا پڑا نا ناک پر ساری عاشقی ناک کے راستے باہر نکل آنی ہے "
فلک نے غور کیا وہ واقعی اپنا نام لکھ رہا تھا ۔
"یہ ۔۔کیا کر رہے ہو ۔؟"
"بے فکر رہو ۔۔۔تمہارے دل پر تو میرا نام نقش ہے مگر دیکھ رہا تھا یہاں بھی لکھتی تو ہاتھ غضب ڈھاتا "
دانیال شرارتی لہجے میں بولا ۔
"بڑی خوش فہمیاں ہیں جناب کو ؟"
"آپ کی عطا کردہ ہیں "
دانیال دوبدو بولا ۔
"الزام نا لگاؤ مجھ پر جھوٹے "
فلک نے ہاتھ چھڑا کر اسے مکا مارا ۔
"اچھا سنو ۔۔۔"
"کہو ؟"
"مجھے آپ کہا کرو "
دانیال مسلسل شرارت پر آمادہ تھا ۔
"پی کر تو نہیں آے ؟"
فلک نے شکی انداز میں اسے گھورا ۔
"استغفراللّه "
وہ بدک کر پیچھے ہٹا ۔
"شرم کرو فلک بیگم ایک معصوم سی خواہش تھی وہ بھی تم پوری نہیں کر سکتی ۔"
"ایک بار ہی کہوں گی ۔۔اب تمہاری مرضی ہے ابھی سننا ہے تو سن لو ورنہ پھر کبھی "
"سنو ۔۔۔مجھے ابھی سننا ہے "
دانیال نے اس کا بھر پور جائزہ لیا۔
"آپ بہت فضول آدمی ہیں مسٹر مگر پھر بھی اسے میری مجبوری سمجھیں یا پھر کچھ اور اب مجھے آپ جیسے فارغ انسان کے ساتھ ہی گزارا کرنا ہے ۔۔ظاہری بات ہے کوئی اور آپشن بھی تو نہیں ہے "
وہ کندھے اچکاتے ہوے بولی اور اپنی بات مکمل کر کے دانیال کی طرف دیکھا جو مسکرا رہا تھا ۔
"شکریہ ۔"
دانیال نے اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کی ۔
"عید مبارک بیگم "
جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرنے کے بعد ایک نظر اسے دیکھتا وہ باہر کی طرف چل دیا ۔
"عید مبارک "
فلک نے بے آواز لب ہلائے ۔پھر گال تھتھپاتی باہر کو چل دی ۔
۔۔۔۔۔۔۔**********۔۔۔۔۔۔
نور، امل کو لیے باہر چلی آئی ۔
"نور کہاں لے جا رہی ہو مجھے ؟"
امل نے کوئی تیسری بار اپنا سوال دہرایا تھا ۔
"چپ کرو ایک تو میں کنواری تم چاروں کے درمیان پھس گئی ھوں "
نور بڑبڑائی ۔
"کیا ؟؟کہ رہی ۔۔۔۔"
آگے کی بات منہ میں رہ گئی تھی ۔سامنے آریان کھڑا تھا ۔وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ نور بتیسی کی نمائش کرتی چلی گئی ۔
"ہاہاہا ۔۔۔نور کو کتنے میں خریدا ؟"
امل نے دور جاتی نور کو دیکھا ۔
"زیادہ نہیں بس ہفتے کے تین ناول پر "
آریان نے کندھے اچکائے ۔
"عید مبارک "
امل اس کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی ۔وہ لگ ہی اتنا خوبرو رہا تھا ۔
"خیر مبارک مسز آریان "
"اچھی لگ رہی ہو "
آریان نے اس کے ڈوبٹے کا نیچے لٹکتا پلو اٹھا کر اس کے سر پر دیا ۔۔ امل نے ہاتھ بڑھا کر خود ہی ڈوپٹہ اپنے سر پر جمایا ۔
"کچھ ہے میرے پاس تمہارے لیے ۔"
امل نے سوالیہ انداز میں آریان کی جانب دیکھا ۔آریان نے بنا کچھ کہے جیب میں ہاتھ ڈالا ۔ آریان نے وہ چیز اس کے سامنے کی تو امل کی آنکھوں میں پہلے حیرت ،پھر خوشی اور پھر آنسو آگئے ۔ اور اس کے بعد وہ بے اختیار رو دی ۔
"آریان ۔۔۔"
اس کے لبوں سے سرسراتی آواز نکلی ۔یہ وہی چین تھی جو اس نے آٹھ سال پہلے جدائی کی شام آریان کو تھمائی تھی ۔ وہ بلکل ویسی ہی تھی جیسے امل نے اسے پکڑائی تھی ۔
"آپ ھر بار مجھے حیران کر دیتے ہیں آریان "
وہ آنکھیں رگڑنے کے بعد اس کی جانب دیکھتے ہوے مسکرا کر بولی ۔
"اتنا نہیں جتنا تم مجھے کرتی ہو ڈیر "
امل نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔
""آپ " کا کیا سین ہے ؟ جب سے آیا ھوں حیران کر رہی ہو ایسے ؟"
"کوئی نہیں بس آپ کی عزت کرنے کا دل کیا مگر لگتا ہے آپ کو عزت راس نہیں ہے "
وہ ایک لمحے کے توقف کے بعد بولی ۔آریان نے ابرو اٹھا کر اسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو ۔۔!!!! بڑی بات ہے
"اور یہ عزت کرنے کی وجہ ؟"
"میرا دل کہہ رہا تھا ۔آپکو کوئی مسلہ ہے کیا ؟"
امل تڑخ کر بولی ۔
"اوہو ریلکس ۔ ۔۔۔ میں پہنا دوں ؟"
آریان نے چین کی طرف اشارہ کرتے ہوے پوچھا ۔امل نے آنکھیں جھکا لیں ۔جس کا مطلب اقرار تھا ۔آریان نے مسکراہٹ چہرے پر سجا کرلاکٹ کا چین کھولا ۔امل نے اپنے بال اٹھائے تو آریان نے باآسانی اسے وہ چین پہنا دی ۔پھر اس کا رخ اپنی جانب موڑا ۔
"آج یہ اپنی حقیقی جگہ پہنچ گئی ہے ۔۔"
"آٹھ سال بعد ۔۔۔"
"ہاں آٹھ سال بعد "
آریان دھیرے سے بولا ۔جاری ہے ۔۔۔
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...