راہِ یار میں دھول ہوئے

3.1K 148 25
                                    

ماہی وے
قسط #17

امل لائبریری سے اپنی کتابیں سمبھالتی نکلی ۔ نظریں سیدھی سامنے پروفیسر سے بات کرتے آریان پر گئیں ۔ پہلے تو آنکھوں کو یقین ہی نہیں آیا ۔
"اففف میرا دماغ خطرناک حد تک خراب ہو چکا ہے ۔مجھے ھر جگہ وہی کیوں نظر آتے ہیں ؟"
بڑبڑاتی ہوئی امل آریان کے برابر سے گزری ۔
"یہ ضرور میرا خواب ہے "
خود کو دل میں سمجھایا ۔ آریان نے پروفیسر سے الوداعی کلمات کہے اور اس کے پیچھے ،پیچھے چلا آیا ۔
"امل "
آریان نے اسے آواز دی ۔امل جو سوچوں میں گم تھی ایسے ہی چلتی رہی ۔آریان کو حیرت ہوئی ۔وہ ابھی دانیال سے لڑائی ختم کرنے کے بعد امل کو لینے آیا تھا ۔مگر امل کے تو مزاج ہی نہیں مل رہے تھے نجانے کس بات پر ناراض تھی ۔؟ وہ اس سے زیادہ تیز قدم اٹھاتا اسی کے سامنے اکھڑا ہوا ۔ امل سوچوں میں گم ایک دم کسی دیوار سے ٹکرائی ۔آنکھیں کھولنے پر معلوم ہوا وہ آریان ہے ۔
"اب دیوار بھی آریان ؟"
وہ دل ہی دل میں خود سے پوچھ رہی تھی ۔ آنکھیں سکیڑ کر اس نے سامنے بازو باندھے کھڑے آریان کو دیکھا ۔آریان اسی کی جانب نرم نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا ۔ امل تو اس کی کچی عمر کی پکی محبت تھی اور اب اس کی منکوحہ ۔۔۔ ، نیلی گھیرے دار فراک اور چوڑی دار پاجامے کے ساتھ نیلا ہی ڈوبٹہ شانوں پر اچھے سے پھیلا رکھا تھا ۔ کمر تک آتے بالوں کو ڈھیلی پونی میں جکڑ رکھا تھا میک اپ سے مبرا ،صاف و شفاف چہرہ ۔آریان نے بمشکل خود کو اس کے سحر میں گرفتار ہونے سے روکا ۔۔۔ اب موقع محل بھی تو کسی چڑیا کا نام ہے ۔۔جو اس وقت تو کہیں نہیں تھی ۔امل کو یقین نہیں آرہا تھا کہ سامنے آریان ہے ۔وہ قدم قدم چلتی آریان کے بلکل پاس آرکی ۔
"آریان یہ آپ ہیں نا ؟ اصلی والے نا ؟مجھے یقین نہیں آرہا ۔"
امل آنکھیں پٹپٹائے معصومیت سے بولتی سیدھی اس کے دل میں اتر رہی تھی ۔۔دل میں تو پہلے ہی تھی ۔۔۔یہ کہنا بہتر تھا اس کے دل کی گہرائی میں اتر رہی تھی ۔آریان نے اس کے گال زور سے کھینچے ۔ ۔ امل جھینپ سی گئی ۔پھر جلدی جلدی ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔ یونیورسٹی اوف ہوے اب تو تین گھنٹے ہو گئے تھے ۔یونیورسٹی خالی تھی البتہ کوئی اکا دکا سٹوڈنٹ موجود تھے ۔
"ہاں پرنسیس یہ میں ہی ھوں ۔۔۔چلیں ؟؟"
"جج ۔۔جی "
وہ بوکھلا ہی گئی تھی ۔آریان کا تو آج لہجہ اور انداز دونوں بدلے ہوے تھے ۔
۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
گاڑی میں خاموشی تھی ۔ امل کو عجیب سی گھبراہٹ ہونے لگی ۔ہاتھ بڑھا کر اس نے میوزک پلیئر اون کیا ۔راحت فتح علی خان کی آواز نے گاڑی کی خاموشی کو توڑا ۔
رب میرے یار نو آکھاں سانویں رہن دے
رج یا نہیں دل ہلے ہور تک لیں دے ۔۔ہور تک لیں دے ۔۔۔
"اففف ۔۔۔"
امل کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے ۔آریان اس کی ایک ایک حرکت کو بخوبی دیکھ رہا تھا ۔گانے کے بول اوپر سے ماحول امل نے جلدی سے پلیئر اوف کیا ۔
"اہمم ۔۔۔"
امل نے گلا کھنکھارا ۔جب وہ بہت کنفیوز ہوتی تو ایسا ہی کرتی تھی ۔
"آپ ۔۔اچانک ؟ کیسے آنا ہوا ؟"
وہ بلاآخر بول اٹھی ۔
"مجھے تو آنا ہی تھا یاد نہیں پچھلی بار کیا کہہ کر گیا تھا ۔؟"
اور چھن سے امل کو سب یاد آیا ۔اسی وجہ سے تو وہ کب سے کترا رہی تھی ۔
یہ آریان کے جانے سے ایک دن پہلے کی بات تھی ۔ امل آریان کو چائے دینے اس کے کمرے میں آئی تھی کیوں کہ ارفع بیگم کی زبانی اسے معلوم ہوا تھا کہ آریان کے سر میں درد ہے اور وہ چائے کا بول کر اپنے کمرے میں چلا گیا ہے ۔ارفع بیگم نے اسے ہی چائے لے جانے کو بولا ۔ وہ ڈوبٹہ سر پر جماتی دل سمبھالتی اسے چائے دینے چلی آئی ۔ ناک کرنے کی زحمت بھی گوارا نا کی آخر کو اس کا شوہر اندر تھا وہ کیوں ڈرتی ۔ سامنے ہی بیڈ پر وہ سر ہاتھوں میں دیے لیٹا تھا ۔امل کو شدت سے احساس ہوا کہ آریان کے سر میں شدید قسم کا درد ہے وہ چائے ایک طرف رکھتی اس کی طرف چلی آئی ۔
"آریان آپ ٹھیک تو ہیں ؟ زیادہ سر درد ہے تو میں دبا دوں ؟"
وہ ساری شرم بالا طاق رکھ کر بولی ۔بھاڑ میں گئی شرم ۔آریان سے زیادہ کیا ہے ؟
" ۔۔۔پلیز ۔۔۔!!!"
امل فورا اس کے پاس چلی آئی اور بیڈ کی کنارے پر ٹک گئی ۔ آریان نے اپنا سر اس کی گود میں رکھا تو امل شرم سے کٹ کر رہ گئی . آریان اس سب سے بے خبر آنکھیں موندے لیٹا تھا ۔ امل آہستہ آہستہ اس کا سر دبانے لگی ۔
"امل اگلی بار جب آوں گا تو ہمیشہ کے لیے آؤں گا ۔ٹریننگ ختم ہو جانی ہے ۔پھر میں بغیر کسی تاخیر کے فورا تمہاری رخصتی کرواؤں گا ۔ اب اس کمرے کو میرے دل کو ۔۔۔بھی ۔۔آباد ہونا ہے "
غنودگی میں کی گئی بات سن کر امل کے چھکے چھوٹ گئے ۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی ،بولنا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے ہی آریان سو چکا تھا ۔ امل کچھ لمحے تک یونہی اس کے وجیہہ چہرے کو دیکھتی رہی ۔
ہلکی ہلکی سٹبل ،کھڑی مغرور ناک ، آنکھیں جن میں امل کے لیے جذبات کا ایک گہرا دریا ہوتا تھا اس وقت بند تھیں ، ہونٹ سختی سے آپس میں بینچے ہوے تھے ۔ چہرے پر سکون ہی سکون تھا ۔ امل کا دل چاہا اس کی بند آنکھوں کو چھو کر دیکھے ۔دل کی آواز پر لبیک کہہ کر اس نے ہاتھ بڑھایا اور باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو چھوا ۔ پھر سرعت سے ہاتھ واپس کھینچا اور آریان کا سر اپنی گود سے اٹھایا اور احتیاط سے سرہانے پر منتقل کیا ۔ پردے برابر کرنے کے بعد وہ لائٹ بند کرتی چائے کا ٹھنڈا کپ اٹھائے باہر چلی گئی ۔
"کہاں کھو گئی ؟"
آریان نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا ۔وہ ایک دم ہوش میں آئی ۔ اور گڑبڑا کر آریان کی طرف دیکھا ۔دل علیحدہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا ۔اس نے گھبرا کر نظریں جھکا لیں ۔ آریان کی آواز پر نظریں اٹھا کر دوبارہ اسے دیکھا ۔
"فائنلز کب شروع ہو رہے ہیں تمہارے ؟"
"دو ۔۔دو دن بعد "
وہ ہکلاتے ہوے بولی ۔
"اور ختم کب ھوں گے ؟"
آریان نے سٹیرینگ ویل گھماتے ہوے سرسری سا امل کی جانب دیکھا تھا جو گود میں رکھے ہاتھوں کو گھور رہی تھی ۔
"اس ماہ کے آخر تک "
"اوہ یہ تو بہت اچھا ہو گیا "
"کّک ۔۔کیوں ؟"
وہ سخت گھبرا رہی تھی ۔
"ارے اب تمہاری رخصتی ہو جانی چاہیے "
امل نے محسوس کرنا چاہا کہ آریان کے لہجے میں مذاق کی کوئی رمق ہو ۔مگر وہاں تو اتنی سنجیدگی تھی کہ امل کے اوسان خطا ہونے لگے ۔ اے سی کی کولنگ میں بھی اسے ٹھنڈے پسینے لگے ۔
"آئس کریم کھاؤ گی ؟"
کچھ لمحے آریان انتظار کرتا رہا کہ امل کچھ بولے مگر وہ خاموش رہی ۔
"ہاں کھانی ہے "
آئس کریم کے نام پر اس نے زور و شور سے سر ہلایا ۔ ایک آئس کریم اور دوسرے نوڈلز یہی تو بیچاری کو کمزور کر دیتے تھے ۔ اور پھر تھوڑی دیر تک آریان کے ساتھ بیٹھی آئس کریم کھاتے وہ اسے ھر فلیور کے بارے میں اپنی پسندیدگی سے آگاہ کرتی کہیں سے بھی کچھ دیر پہلے کی گھبراتی ہوئی امل نہیں لگ رہی تھی ۔
"آریان آپ کو پتا ہے مجھے آئس کریم کے سارے فلیور پسند ہیں ۔ کوئی ایک بھی ناپسند نہیں ہے "
"اچھا ۔۔۔اور ایسا کیوں ہے ؟"
آریان بس اسے کچھ دیر پہلے کی گھبراہٹ کے اثر سے باہر لانا چاہتا تھا ۔امل سے بات کر کے تو اسے ہمیشہ خوشی ہی ملتی تھی ۔اس کی معصوم باتیں بے ساختہ آریان کو اپنا دل تھامنے پر مجبور کر دیتیں تھیں ۔ اس کی جانب دیکھتے وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا تھا ۔ھر سانس رب کی شکر گزار تھی ۔
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ آئس کریم تو آئس کریم ہوتی ہے نا چاہے کسی بھی فلیور میں ہو "
وہ بولتے بولتے رکی ۔آریان کو اپنی جانب یک ٹک دیکھتا پا کر وہ پھر سے بوکھلا گئی ۔ بوکھلاہٹ میں ہی اس نے بال سنوارنے چاہے مگر خالی ہاتھ اٹھانے کے بجائے بیچاری نے آئس کریم والا ہاتھ بالوں اور منہ پر پھیر لیا ۔آئس کریم کی کون ہی ہاتھ میں تھی باقی آئس کریم کچھ منہ پر کچھ بالوں پر اور جو رہ گئی تھی وہ نیچے کپڑوں پر ۔ اپنی اس حالت پر ہوش میں آتے ہی اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔ اس کی جانب دیکھتے آریان کا منہ بھی حیرت سے کھلا تھا اور اگلے ہی لمحے وہ بے تحاشہ ہنس رہا تھا ۔ڈمپل بھی اس کا خوب ساتھ دے رہے تھے ۔ امل نے اسے گھورا ۔
"ہنسنا بند کریں ۔آپ کی وجہ سے ہوا ہے "
وہ نروٹھے لہجے میں بولتی اپنی آئس کریم کی خالی کون کو دیکھنے لگی ۔ کتنا کچھ سوچا تھا کہ پہلے آئس کریم ختم کرے گی پھر نیچے کون کے ساتھ ساتھ اندر والی آئس کریم بھی کھائے گی ۔دکھ آئس کریم کے ضائع ہونے پر ہوا تھا ۔
"میری وجہ سے ؟"
آریان کے لہجے میں حیرت تھی ۔
"ہاں آپ کی وجہ سے ۔۔اتنے اُس طریقے سے دیکھتے ہیں ۔۔۔میں کیا کروں ؟"
آریان نے نچلا لب دانتوں میں دبائے چہرے پر آنے والی بے ساختہ مسکراہٹ کو روکا ۔
"کس طریقے سے ؟"
"نہیں وہ بہت برا طریقہ ہوتا ہے "
"کیسا برا ؟"
آریان کو اسے چھیڑنے میں مزہ آرہا تھا اور اوپر سے اس کے معصوم جواب ۔۔۔
"وہ جیسے فلم میں نشہ کر کے ہیرو دیکھتے ہیں نا وہ والا گندا "
"واٹ ؟؟؟"
اس کی بات پر آریان جھٹکے سے سیدھا ہوا ۔
"کیا ہوا ؟"
آئس کریم پگھل کر بہہ رہی تھی منظر خاصہ مضحکہ خیز ہو چکا تھا ۔ آریان نے امل کو دیکھا جو اسے نشئی ہیرو کی طرح دیکھنے والا کہہ کر اب مگن سی کون کھا رہی تھی ۔ "بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی "۔اس محاورے پر وہ بھرپور طریقے سے عمل کرتی نظر آرہی تھی ۔آریان نے سر جھٹکا ۔پھر ٹشو باکس سے ٹشو نکالے اور ڈیش بورڈ پر رکھی اپنی آئس کریم اٹھا کر امل کو دی ۔وہ اپنے لیے چاکلیٹ فلیور لایا تھا گاڑی ریورس کرنے سے پہلے اس نے آئس کریم ڈیش بورڈ پر رکھی تھی ۔امل نے چمکتی آنکھوں سے آئس کریم پکڑی اور کھانے لگی ۔آریان نے ٹشو سے اسے پہلے اس کے بال صاف کیے ۔پھر چہرہ صاف کیا ۔ایسا کرتے وہ امل کے کافی قریب جھکا ہوا
تھا مگر امل جناب کو آئس کریم سے فرصت ملتی تو کچھ اور دیکھتی ۔ اور اس سے بے خبر آریان اس کے چہرے کے ھر نقش کو دل میں بسا رہا تھا ۔ آئس کریم کھانے کے بعد امل کو ایک دم ہوش آیا ۔اس نے گڑبڑا کر آریان کو دیکھا وہ پہلے ہی اس کی جانب دیکھ رہا تھا ۔ امل کی تھوڑی پر آئس کریم لگی ہوئی تھی ۔آریان نے احتیاط سے اس کی تھوڑی صاف کی ۔ امل کو اب حقیقتاً گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔
"کّک ۔۔کیا کر رہے ہیں آپ ؟"
اس کی بوکھلاہٹ پر آریان تپا ۔حد ہے اب آئس کریم صاف کر رہا تھا ۔ہاں ٹھیک ہے دیکھ رہا تھا ۔مگر اپنی بیوی کو دیکھنے پر کیا گناہ ملنا تھا ۔وہ اسے گھورنے لگا ۔
"ایسے کسی لڑکی پر رومانس جھاڑنا اچھی بات نہیں ہوتی "
"ہاں بشرطیہ کہ وہ آپ کہ بیوی نا ہو "
کندھے اچکا کر کہتا وہ دوبارہ گاڑی سڑک پر ڈال چکا تھا ۔
"بہت ناشکری ہو تم "
وہ ناراض لہجے میں بولا ۔
"ہاااا ۔۔۔میں نے کیا کیا ہے ؟"
"میری آئس کریم کھا کر مجھے ہی باتیں سنا رہی ہو "
"اوہ ہیلو ۔۔میں نے آپ کی آئس کریم نہیں کھائی اپنے شوہر کی کھائی ہے ۔آپ منہ دھو کر رکھیں اپنا ہنن ۔۔۔"
"ہا ۔۔۔۔ بڑا جگرہ ہے تمہارے شوہر کا ؟ ایسے کسی غیر کے ساتھ سفر کی اجازت دے کیسے دیتا ہے وہ تمہیں ؟"
"خبر دار ان کے بارے میں کچھ کہا ۔وہ چاہے جیسے بھی ھوں ۔۔۔ اس سے آپ کو مسلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ اور ویسے بھی میرے دل نے آج کہا کہ انھے ایک پنچ دے ماروں "
"ہائے کیوں ،؟"
آریان نے مصنوعی حیرانی دکھائی ۔
"مجھے بغیر بتائے آئے ۔۔۔کم از کم بتانا تو چاہیے تھا نا ۔بھائ ۔۔۔۔"
اس نے بے ساختہ زبان دانتوں میں دبائی ۔
"امل چپ ایک لفظ نہیں بولنا اب "
آریان نے اسے گھورا ۔
"وہ بس ۔ ۔ ۔"
امل نے معصوم سی صورت بنا کر اسے دیکھا ۔وہ کچھ زیادہ ہی سیریس ہو گئی تھی ۔
"یار تم کیا کہنے لگی تھی ؟ افف ابھی رشتہ مکروہ کر دیتی پاگل ۔"
"تمہارا شوہر تم سے بہت محبت کرتا ہے شاید وہ تمہے سرپرائز دینا چاہتا ہو "
آریان نے اس کی اسی بات کو اچکا ۔
"اور اس سے کیا ہوتا ؟"
"یار اس نے سوچا ہو گا کہ کیا پتا خوش ہو کر بیوی سیدھا گلے آلگے "
آریان نے اسے چھیڑا ۔ وہ شرما گئی ۔
"آریان آپ بھی نا ۔۔۔"
وہ اس کے بازو پر مکا جڑتے ہوے بولی ۔پھر سرخ چہرہ لیے وہ اپنے کپڑے صاف کرنے لگی ۔
"یہ کیا کرنے لگی ہو ؟"
وہ کھڑکھی کھولے ٹشو پھینکنے کو تھی جب آریان کی آواز پر اس کی جانب مڑی ۔
"یہ پھینکنے لگی تھی "
اس نے ٹشو اس کے سامنے کیے ۔
"کیا میں نے ٹشو پھینکے تھے باہر ؟"
"نہیں ۔کہاں پھینکے ؟"
"یہ شاپر میں ڈالے ہیں "
اس نے ڈیش بورڈ پر پڑا شاپر اٹھا کر اس کے سامنے کیا ۔
"پر باہر پھینکنے میں کیا مسلہ ہے ؟"
وہ چڑ کر بولی ۔
"مسلہ تو کوئی نہیں ہے ۔۔۔ تم پھینک سکتی ہو ۔ تم باہر بھی پھینک سکتی ہو اور اس شاپر میں بھی ۔یہ اب تم پر انحصار کرتا ہے کہ تم پلوشن پھیلانے والی بننا چاہتی ہو یا ذرا سا خود کو تکلیف دے کر ان لوگوں کی فہرست سے نکلنا چاہتی ہو ۔ امل بھیڑ کا حصہ نا بنو ۔۔ایسی بنو کہ بھیڑ میں نمایاں نظر آو ۔ مرنے کے لیے تو ہم سب آتے ہیں ۔زندہ رہنے کے لیے مرو ۔میں یہ نہیں کہتا بہت عظیم کام کرو ۔ایسا کرو کہ جو کسی نے نا کیا ہو یا کچھ اور ... ،لیکن تم چھوٹے چھوٹے کام کر کے بھی بہت کچھ کر سکتی ہو ، ضروری نہیں دنیا میں آپ کا نام رہے اس کے لیے آپ بہت بڑے ،بڑے کارنامے سرانجام دو ، قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے "
وہ سنجیدگی سے بول رہا تھا ۔
"قسم سے کئی بار مجھے لگتا ہے کہ آپ میں کسی بوڑھے سیانے کی روح آجاتی ہے "
امل نے ہنستے ہوے ٹشو شاپر میں ڈالا ۔ارادہ گھر جا کر ڈسٹ بن میں ڈالنے کا تھا ۔جو بیچاری سڑک کنارے بھی خالی پڑی ہمارا منہ دیکھ رہی ہوتی ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔۔
آریان نے ایک ہفتے بعد جوائننگ دینا تھی اور فہد نے تین ہفتے بعد دینا تھی ۔ فہد نے اپنا نیا گھر خرید لیا تھا جو "آفندی مینشن" کے بلکل پیچھے تھا ۔ اول روز سے فہد کی یہی کوشش تھی کہ اسے بھی اسی ٹاؤن میں گھر مل جائے ۔اور پچھلے دنوں ہی آریان نے اسے بتایا تھا کہ سراج صاحب (جن کا گھر فہد نے خریدا تھا ) اپنا گھر بیچنا چاہتے ہیں ۔ فہد نے اسی روز اس گھر کو دیکھا تھا ۔ بظاھر سب ٹھیک تھا بس فرنیچر اور انٹیریر تبدیل کرنا تھا ۔آجکل وہ یہی کام کر رہا تھا اور بینش انٹریر ڈیزائننگ دیکھ رہی تھی ۔ اسے شروع سے ایسے کاموں کا شوق رہا تھا اس لیے وہ جی بھر کر ساری کسریں پوری کرتی سارا دن کام میں لگی رہتی ۔کبھی بازار کبھی گھر ،آجکل وہ گھن چکر بنی ہوئی تھی ۔صبح سے شام بس فہد کے گھر کی سیٹنگ کرتی رہتی اور رات بستر پر گرتے ہی پہلی یاد ستمگر کی ہوتی ۔ پھر پہلی فرصت میں نفل یا قرآن پڑھنے بیٹھ جاتی ۔ فہد جانتا تھا کہ بینش صبر کا مفہوم جان گئی ہے اور یہ بھی کہ صبر کیسے کرنا ہے ۔ فائنلز ختم ہونے میں تین روز رہتے تھے ۔امل اس دن کے بعد آریان سے نہیں ملی ۔ آجکل تو وہ سب کمرہ بند رہتے تھے ۔نور کا موبائل اسپیشل سروس کے ہتنے چڑھا ہوا تھا یعنی کہ اسما بیگم کے ۔ اور فائنلز کے بعد ہی واپس ملنا تھا ۔ نور اس بات پر جلتی کلستی دو تین ڈائجسٹ چوری کر کے چھپا چکی تھی ۔ کیوں کہ یہ سدھرنے والی قوم ہی نا تھی ۔ایک امل ہی تھی جو پڑھائی کو سنجیدہ لے رہی تھی ۔
___۔۔۔۔۔۔____۔۔۔۔۔۔۔___
آج سورج اپنے جوبن پر تھا ۔ بادلوں کا نام و نشان تک نا تھا ۔خاصہ خشک دن تھا ۔اگست کی سایں سایں کرتی گرم ہوائیں درختوں کے پتوں سے گزرتی تو سرسراہٹ پیدا ہوتی ۔ پولیس موبائل سڑک پر دھواں چھوڑتی جا رہی تھی ۔ سائرن کی آواز دور دور تک جارہی تھی ۔ سامنے ڈرائیونگ سیٹ پر کانسٹیبل احمد بیٹھا گاڑی چلا رہا تھا اس کے ساتھ والی سیٹ پر اے۔ سی ۔پی فہد قریشی بیٹھا تھا ۔۔پیچھے پولیس کے دو ڈالے اور بھی تھے ۔ گاڑی کے شیشے کھلے ہوے تھے ۔فہد نے آنکھوں پر چشمہ پہن رکھا تھا مگر پھر بھی ونڈ سکرین سے آتی دھوپ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔ ہلکی ہلکی شیو اس کے وجیہہ چہرے پر بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی ۔ آنکھوں میں سنجیدگی اور لب آپس میں بھینچے ہوے تھے ۔وہ اپنی ڈیوٹی پر تھا اور آج پہلا مجرم گرفتار کرنے جا رہا تھا جو کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ تھا ۔ بخت قریشی کے گناہوں کی لسٹ خاصی لمبی ہو چکی تھی اور گناہگار چاہے جیسے بھی اپنے گناہوں کو چھپانے کی کوشش کرے اس کا گناہ چھپا نہیں رہتا ۔۔۔ پرسوں رات ہی سنسان سڑک کنارے ایک کمسن لڑکی کی لاش ملی تھی جسے درندگی کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ ۔ ۔ بخت قریشی بھول گیا کہ اللّه سب دیکھنے والا ہے لیکن اس وقت وہاں موجود ایک آدمی نے بھی یہ سب دیکھا تھا۔ فہد اور آریان موقع کی تلاش میں تھے جو انھیں خود بخت قریشی نے فراہم کیا تھا ۔ اور پھر سالوں پرانی بند پڑی فائلوں کو کھولا گیا اور بخت قریشی کے خلاف اب اریسٹ وارنٹ جاری ہو چکے تھے ۔یہ فہد کی خواہش تھی کہ وہ خود اریسٹ کرنے جائے گا ۔
"علی اور حامد کو فورا انفارم کرو کہ بخت ولا سے ایک کلو میٹر پیچھے گاڑیوں کے سائرن بند کر دیں "
کچھ دیر بعد فہد کی سنجیدہ سی آواز آئی ۔
"پر سر کیوں ؟"
احمد کا انداز حیرانی لیے ہوا تھا ۔
"جتنا کہا ہے اتنا کرو "
"یس سر "
احمد نے وائرلیس پہ پچھلے دونوں ڈالوں کو چلاتے کانسٹیبل علی اور حامد کو آگاہ کیا ۔پھر خود ہاتھ بڑھا کر سائرن بند کر دیا ۔فہد نے آج صبح ہی بینش کو اپنے ہاں چھوڑ دیا تھا ۔ اس لیے وہ جانتا تھا کہ بخت قریشی اکیلا گھر موجود ہے ۔ صرف فہد کی گاڑی گیٹ سے اندر گئی باقی سب ایک ساتھ باہر پتھریلی روش پر آرکیں ۔ فہد گاڑی سے نکلا اور باقی سب کو وہیں ٹھہرنے کا اشارہ کیا ۔ گارڈ دروازے پر کھڑے تھے انھیں لگا کہ شاید فہد ڈیوٹی پر ہے اور ویسے ہی گھر کا چکر لگانے آیا ہے ۔ فہد نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا ۔بخت ولا پورے طمطراق سے کھڑا تھا ۔ دل کی حالات عجیب سے عجیب تر ہو رہی تھی ۔جو بھی تھا وہ شخص اس کا باپ ہی تھا ۔
"کاش میرا باپ بھی دوسروں جیسا ہوتا "
اس نے گہرا سانس کھینچا پھر داخلی دروازہ پار کرتا اندر آیا ۔ سارا گھر سائیں ،سائیں کر رہا تھا ۔ وہ بخت قریشی کے کمرے کی طرف چلا آیا پھر ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولا ۔دروازہ کھولتے ہی فہد کی آنکھیں بھی کھل گئیں ۔سامنے بخت قریشی ایک لڑکی کے ساتھ انتہائی نازیبا حالت میں تھا ۔ بخت قریشی نے نظریں اٹھائیں اور موڈ خراب ہونے پر منہ بنایا لڑکی کو اشارہ کیا ۔وہ لڑکی اپنا آپ سمبھالتی اٹھی اور فہد کی سائیڈ سے ہوتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ فہد کی نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں ۔ اس لڑکی کے جانے کے بعد فہد نے زخمی نظریں اٹھائیں۔
"باہر آئیے فورا "
وہ کہتا باہر چلا گیا اس کا دم گھٹ رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد بخت قریشی فریش،فریش خوشبویں بکھیرتا باہر نکلا ۔کچھ دیر پہلے جو ہوا اس کا اثر وہ زائل کر چکا تھا ۔ لیکن فہد کو خود سے ہی نفرت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ اس شخص کا خون ہے ۔
"بولو ؟"
وہ صوفے کے قریب چلا آیا اور سگار جلایا ۔فہد نے افسوس سے اسے دیکھا جسے ذرا بھی شرمندگی نہیں تھی ۔
"بابا ۔۔۔۔آخری اور پہلی بار مجھے گلے سے لگا لیں ۔۔۔اور ایک بار مجھے بیٹا کہہ دیں ۔"
فہد کی دلی خواہش تھی کہ ایک دفع بخت اسے گلے لگا لے اور اسے بیٹا کہے ۔بخت قریشی نے سگار بجھائی اور عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا جیسے اس کی بات کا مطلب نا سمجھ پا رہا ہو ۔
"خوب کہی ۔۔۔بہت خوب ۔۔۔اپنی ماں کم*** کی آدھی جائیداد بیچ کر ،جو میری تھی ، تم نے جو کیا ۔،یعنی میری جائیداد پر ڈاکا ڈالا اس کے بعد بھی امید رکھتے ہو رذی* آدمی کہ میں تمہے گلے لگاؤں ؟"
وہ تمیز کی ساری حدیں پار کرتا غرایا ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے ۔فہد کی آنکھوں میں چنگاریاں سی جل رہی تھیں مگر دل ایک معصوم بچے سا ہو رہا تھا ایک دس سال کے بچے سا ۔جو باپ کی شفقت و محبت کا طلبگار رہتا ہے ۔۔۔ ،
"بابا ایک بار گلے سے لگا لیں ۔۔۔ جو چیز آپ کی ہے وہ آپ کو ملے گی ، میں آپ کو دوں گا "
فہد کا اشارہ جیل اور سزا کی طرف تھا لیکن بخت قریشی کو لگا وہ پراپرٹی کی بات کر رہا ہے ۔
"سچ کہہ رہے ہو ؟"
اس نے ابرو اچکائی ۔
"ہاں بلکل "
فہد نے کچھ بھی تو جھوٹ نہیں کہا تھا ۔بخت قریشی اٹھا اور فہد کو گلے لگایا ۔ فہد نے آنکھیں بند کر کے اس لمس کو محسوس کیا ۔مدتوں اس نے اس لمحے کا انتظار کیا تھا ۔ اور آج ؟ یہ وقت آیا بھی تو کیسے ۔؟
"بابا ۔۔۔۔ کاش آپ اچھے ہوتے مگر سارا مسلہ اسی کاش کا ہے۔ یہ آخری بار تھا کہ آپ کے گلا لگا "
وہ دھیرے سے علیحدہ ہوا اور بخت قریشی کی طرف دیکھا ۔داخلی دروازہ زور سے کھلا اور پولیس کی بھاری نفری اندر داخل ہوئی ۔ بخت نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا ۔
"بخت قریشی تم قانون اور میری نظر میں مجرم ہو۔تمہارے اریسٹ وارنٹ "
اس نے کہتے ہی اریسٹ وارنٹ اس کے سامنے کیے ۔
"کیا بکواس ہے یہ تم ۔۔تمہاری اوقات ہی کیا ہے ۔۔بہت دیکھے تم جیسے ۔۔۔تم میں ہمت کہاں کہ مجھے اریسٹ کر سکو "
"میں اے ۔ایس ۔پی فہد قریشی ۔۔۔تمہے اریسٹ کرنے کا پورا اختیار رکھتا ھوں ۔تمہارے گناہوں کی لسٹ بہت لمبی ہے ۔۔سالوں گزر جائیں گے مگر پھر بھی ختم نہیں ھوں گے ۔۔۔ جیل میں تفصیل سے دن رات سارے قصے سناؤں گا "
بخت قریشی حیرت سے کنگ تھا ۔
"ذلیل ۔۔۔انسان تمہاری اتنی ہمت ۔۔۔میرے وکیل کو بلاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔عارف ۔۔!!!!!"
اس نے اپنے پی اے کو آواز دی ۔
"خاموش بخت قریشی "
فہد دھاڑا پورے لاؤنج میں اس کی دھاڑتی آواز گونجنے لگی ۔
"میں تجھے چھوڑوں گا نہیں "
وہ فہد پر جھپٹا ۔اور اس سے پہلے فہد کچھ کرتا وہ فہد پر پے در پے مکے برسانے لگا ۔ پاس کھڑے پولیس والے دھوڑ کر آئے اور بخت قریشی سےعلیحدہ کیا ۔
"مبارک ہو ۔۔۔تمہارے گناہوں میں اور اضافہ ہو گیا ۔ اون ڈیوٹی پولیس آفسر پر ہاتھ اٹھایا ہے تم نے ۔"
فہد نے سمبھل کر اپنا کالر درست کیا ۔
"سر لے چلیں اسے ؟"
احمد نے ہتھکڑی نکالی ۔بخت قریشی نے ادھر ادھر دیکھا وہ چاروں طرف سے پولیس کے نرغے میں تھا ۔بچت مشکل نظر آرہی تھی ۔ تبھی دماغ میں ایک جھماکا ہوا ۔
"فہد میرے بیٹے ۔۔۔میں تمہارا باپ ھوں تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو ؟ میرے فادی نہیں؟ "
"معاف کریں بخت صاحب پہچانا نہیں ۔ "
فہد نے بے مروتی سے کہا اور احمد کے ہاتھ سے ہتھکڑی لی ۔بخت قریشی ہونق بنا کھڑا تھا ۔آخری داؤ پیچ بھی کسی کام نا آیا ۔
" قانون کے ،اور بہت سے معصوم لوگوں کے مجرم کو میں اپنے ہاتھ سے ہتھکڑی ڈالنا چاہوں گا ۔"
فہد نے کہتے ہی آگے بڑھ کر بخت قریشی کے ہاتھ میں ہتھکڑی ڈالی ۔ دونوں کی نظریں ملیں ۔ایک کی نظر میں غصہ و نفرت تھی تو دوسرے کی نظروں میں بےگانگی ،بے اعتنائی اور شناسائی کی کوئی بھی رمق نا تھی ۔ فہد نے اگلے ہی پل اپنی سرد نظریں اس سے ہٹائیں ۔ اور پھر اسے کھینچتے ہوے باہر لے گیا۔ باہر پریس کا ایک بڑا ہجوم تھا ۔بخت قریشی غلیظ گالیاں دے رہا تھا ۔ لیکن فہد چپ تھا اور یہ چپ کسی طوفان کا پیش خیمہ تھی ۔
___۔۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔۔_____
دوسری طرف اسی گرم موسم میں "آفندی مینشن " کے لاؤنج میں سہیل صاحب اور فرحان صاحب بیٹھے تھے ان کے برابر میں ہی عائشہ بیگم اور عالیہ بھی بیٹھی تھی ۔ عالیہ بے زاری سے چینل سکرول کر رہی تھی ۔ ارفع بیگم اسما بیگم کے ہاں گئی ہوئی تھیں ۔انھے سوجی کا حلوا بنانا تھا جو وہ دونوں مل کر بنا رہی تھیں ۔صائم ،صارم کے ساتھ باہر گیا تھا ۔ لاؤنج میں اے۔سی کی خنکی سے باہر کے ماحول کا اندازہ لگانا مشکل تھا ۔ اچانک عالیہ سیدھی ہوئی ۔ سکرین پر چلتی نیوز پر سب اسی طرف متوجہ ہوے ۔ سامنے سکرین پر اینکر گلا پھاڑ ،پھاڑ کر بول کم چلا زیادہ رہی تھی ۔
"ناظرین آپ کو ایک اہم خبر سے آگاہ کرتے جائیں ۔جانے مانے مشہور بزنس مین بخت قریشی کو آج پولیس نے اپنی حراست میں لے لیا ہے ۔حراست آج ان کے گھر سے ہی عمل میں لائی گئی ہے ۔ اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوے اے ۔سی ۔پی فہد قریشی نے پریس کو آگاہ کیا ہے کہ بخت قریشی ،دھوکہ دھڑی ،فراڈ ، زنا کاری ،ریپ اور قتل میں ملوث رہے ہیں ۔اسی کے ساتھ وہ غیر قانونی طریقوں سے دوسروں کی جائیداد کو ضبط کرنے اور سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں ۔واضع رہے کہ اے ۔سی ۔پی فہد قریشی ۔۔،ملزم بخت قریشی کے صاحبزادے ہیں ۔۔۔ مگر انہوں نے قانون کا ساتھ دیا اور ھر رشتے کو پس پشت ڈال دیا ۔ہمارے نمائندے کے مطابق خود اے ۔سی ۔پی فہد نے بخت قریشی کو ہتھکڑی پہنائی اور خود گھسیٹ کر لائے ۔ناظرین یہاں آپ کو ایک اور خبر سے آگاہ کریں کہ دو رات قبل ریلوے پھاٹک کے پیچھے موجود سنسان علاقے سے برآمد ہونے والی کمسن بچی کی لاش بھی بخت قریشی کی درندگی کا منہ بولتا ثبوت ہے "
"شکریہ ۔۔نازش ہمیں آگاہ ۔۔۔۔۔۔۔"
سکرین پر اب ہوسٹ موجود تھی ۔ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔
"اور چالیں چلتے رہے وہ لوگ لیکن ہے اللّه بہترین تدبیر کرنے والا ہے "
آج ایک مجرم اپنے انجام کو پہنچا تھا ۔ کسی کے ساتھ برا کر کے اپنی باری کا انتظار ضرور کرنا چاہیے ۔کیوں کہ کسی کے ساتھ کی گئی برائی کے نتیجہ میں زندگی آپ کے ساتھ کبھی اچھائی نہیں کرتی اور نا ہی آپ کو اس کا انتظار کرنا چاھیے ۔
۔۔۔۔___۔۔۔۔_____۔۔۔
"شاہزیب مینشن " میں بھی سناٹا چھایا ہوا تھا ۔ صوفے پر بیٹھی نور جو فائلر سے ناخن تراش رہی تھی اب منہ کھولے سکرین دیکھ رہی تھی۔ دانیال نیچے فلور کشن پر بیٹھا تھا ۔ اینکر گلا پھاڑ ،پھاڑ کر خاموش ہوئی تو دانیال نے مڑ کر نور کو دیکھا ۔اور پھر کچن کی طرف دھوڑا اور ساری اپڈیٹس دینے کے بعد انھیں بھی لیے لاؤنج میں آگیا ۔
"بڑی ہمت ہے فہد بھائی کی ۔۔۔ماشاءاللّه سے خاصے مضبوط اعصاب کے مالک واقع ہوے ہیں اب تو میں جان گیا ھوں کہ وہ آفت کی بہت بڑی پرکالا کو بھی سمبھال سکتے ہیں "
دانیال نے اشارے میں جو بات کی وہ امل اور نور کو سمجھ آگئی لیکن اسما بیگم اور ارفع بیگم حیرانی سے انھے دیکھ رہی تھیں انھیں شاید سمجھ نا آتی اگر نور مادام اپنی زبان بند رکھتیں مگر ہائے رے سارا قصور ہی اس زبان کا ہے ۔
"میں کب آفت کی پرکالا ھوں ؟"
نور فورا بولی ۔امل اور دانیال نے مسکراہٹ دبانے کے لیے سر جھکالیا ۔ نور کو جب احساس ہوا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔اب بیچاری کہاں کمان سے نکلا تیر واپس لا سکتی تھی ۔
"دانی کے بچے ۔۔۔"
نور نے پاؤں میں پہنا سلپر اتار لیا ۔دانیال آگے آگے اور نور اس کے پیچھے پیچھے دھوڑ رہی تھی ۔خفگی سے چہرہ سرخ پڑ گیا تھا ۔ناجانے خالہ اور آنٹی کیا سوچیں گی میرے بارے میں ۔؟ یہ سوچ ذہن میں آتے ہی پاؤں کو فراری کا انجن لگا اب وہ لان میں ایک دوسرے کے پیچھے دھوڑ رہے تھے ۔داخلی دروازے کے پاس وہ تینوں کھڑیں حیرانی سے انھے دیکھ رہی تھیں ۔نور نے جلد ہی دانیال کو جا لیا ۔دانیال اب پوری طرح بے بس تھا ۔پیچھے اونچی دیوار تو سامنے خون خوار بلی ۔بچت نا ممکن ہی تھی ۔
"دیکھ لو نور پھر پچھتانا مت "
اس سے پہلے وہ دانیال کی زلفوں کو اپنی مٹھی میں لیتی دانیال نے اسے وارن کیا ۔
"میں کیوں پچھتاوں ؟"
نور نے اسے گھورا ۔
"نہیں میرا مطلب ہے یہ سوچ کر کہ کاش میں دانیال کو سب بتا دیتی کہ میں اس سے کتنی طوفانی محبت کرتی ھوں اتنی دھواں دار محبت کرتی ھوں ۔کاش میں اسے نا مارتی ۔کہو تو فہد سے بات کروں ۔۔پھر تم مجھ سے دوسری شادی کر لینا ۔میں ایک سخی آدمی ھوں "
دانیال نے کالر کھڑے کیے ۔فخر کے مارے سینے چوڑا کیے اس نے سر اٹھا کر دوسری جانب رخ موڑ کر کہا تھا تبھی سامنے کھڑی فلک کو نا دیکھ سکا ۔اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دونوں اس پر جھپٹ پڑیں ۔اور پھر ان تینوں کے ساتھ ساتھ پورے "شاہ زیب مینشن " نے بھی دانیال کی چیخیں سنیں ۔
"پلیز اب آپ ہی بچا سکتی ہیں ۔میری جی۔ ایف نہیں آپ ؟"
دانیال نے دور کھڑی ارفع بیگم کو کہا ۔
"اب چاھتے ہو چاچو کو بھی بلا لوں ۔؟ وہ بھی تم پر ہاتھ صاف کر دیں ویسے بھی وہ موقع کی تلاش میں ہیں "
فلک نے ہاتھ جھاڑتے ہوے پوچھا ۔نور بھی سارا غصہ نکال کر اب پر سکون سی اندر کی طرف چلی گئی ۔امل بھی سر جھٹکتی اندر چلی گئی ۔
دانیال لڑکھڑاتا فلک کو گھورتا اس کے پاس آیا ۔
"ہنن ۔۔ہم میسر کیا ہوے لوگ قدر کرنے کا مفہوم ہی بھول گئے "
"بات تو تب کرو ۔نا ۔۔کہ پہلے میں تمہاری عزت کرتی تھی۔آیا بڑا ۔ "
"قدر کرو ، لیکن نہیں ،انسان کو کسی دوسرے کی قدر و قیمت کا اندازہ تبھی ہوتا ہے جب وہ اس سے بچھڑ جاتا ہے "
دانیال سنجیدگی سے بولا ۔فلک نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔پھر دانیال اس کے برابر سے ہو کر نکل گیا ۔ مقصد اسے تنگ کرنا تھا ۔پیچھے وہ ہونق بنی اس کی پشت تکتی رہ گئی ۔
"یہ کیا تھا ؟"
اس نے دھڑکتے دل سے سوچا ۔
۔۔۔۔______۔۔۔۔_____۔۔۔
بینش سارا دن کام میں مصروف رہی ۔چائنیز بنانا اسے آتا تھا سو وہ بنا لیتی ۔آج اس نے پاستا بنایا ۔نہانے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد وہ ڈائجسٹ لے کر بیٹھ گئی ۔ویسے بھی آخری پیپر دو روز بعد تھا ۔ فہد نے بینش کا روم خود ڈیکوریٹ کروایا تھا ۔بینش کی ضرورت کی ھر چیز یہاں موجود تھی ۔وہ جب یہاں آتی اسی کمرے میں رہتی تھی ۔ اسے اس کمرے کی بالکونی بہت پسند تھی جو پیچھے گازیبو میں کھلتی تھی ۔ گازیبو بھی سارا کا سارا خود بینش نے سجایا تھا ۔ کھڑکھی کے ساتھ ایک بیل لٹکی ہوئی تھی جو بل کھاتی نیچے گازیبو میں ہی جاکر پھیلتی تھی ۔ خاص کر صبح کے وقت جب سہانی سورج کی کرنیں اندر داخل ہوتیں اور کھڑکھی سے پرندوں کے مدھر چہچہانے کی آواز آتی ۔ وہ منظر بہت دل فریب ہوتا تھا ۔ وہ بیٹھی ڈائجسٹ پڑھنے میں مشغول تھی جب اس کا فون بجا ۔ ڈائجسٹ ایک طرف رکھ کر اس نے فون اٹھایا ۔ رافیہ (اس کی دوست ) کی کال تھی ۔
"السلام علیکم "
"وعلیکم السلام ۔جلدی سے ٹی وی چلاؤ ۔"
"پر کیوں ؟"
"کہا نا چلاؤ ۔۔"
رافیہ نے اسے نیوز چینل چلانے کا کہا ۔ بینش نے دھک دھک کرتے دل کو سمبھالتے ہوے ٹی وی چلایا ۔ سامنے چلتی خبریں اور بخت قریشی کی اصلیت پر بمشکل اس نے اپنا چکراتا سر سمبھالا ۔ لڑکھڑاتے ہوے وہ بستر پر آگری ۔
۔۔۔۔۔_____۔۔۔۔_____۔۔۔۔
آہستہ آہستہ سورج جا کر چھپا تو ستارے چمچماتے ہوے سیاہ چادر اوڑھے آگئے ۔ ٹیکسی گیٹ کے سامنے رکی ۔ اس نے گاگلز ہٹا کر سامنے گھر کی پلیٹ کو دیکھا جس پر فہد کا نام لکھا ہوا تھا ۔
"کیا کروں ؟ کال کر کے بتا دوں ؟ نو سرپرائز دوں گا "
اس نے دل میں سوچا ۔ پھر ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ دیا ۔ آج وہ پہلی بار پاکستان آیا تھا۔یہاں ھر طرف موجود قدرتی مناظر ،کو دیکھ کر وہ مبہوت ہو گیا تھا ۔وہ فہد کو سرپرائز دینے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ پچھلی بار فہد جب انگلینڈ گیا تھا تو اسے تبھی معلوم ہوا کہ اس کی مما کی کزن مشعل خانزادہ ادھر ہی رہتی ہیں وہ تب ان سے ملنے گیا تھا ۔تبھی اس کی ملاقات اپنے چلبلے سے کزن سے ہوئی تھی ۔ سنان اپنے مرحوم والد "رحمان خانزادہ " کا بزنس سمبھالتا تھا ۔ان کا امپورٹ ایکسپورٹ کا خاصہ بزنس تھا ۔ وہاں فہد نے سب کو یہی بتایا کہ وہ گھومنے آیا ہے ۔نکلنے سے پہلے اس نے سنان کو پاکستان آنے کی دعوت دی تھی ۔وہ فون پر ایک دوسرے سے ان ٹچ میں تھے اور دونوں کی خاصی دوستی بھی ہو گئی تھی ۔ سنان اب اسے سرپرائز دینے آیا تھا ۔اسے کیا پتہ تھا ایک سرپرائز پہلے ہی اس کا منتظر ہے ۔اس نے ٹیکسی سے اپنا سوٹ کیس نکالا اور گیٹ کے سامنے آرکا ۔
"صاحب کس سے ملنا ہے آپ کو ؟"
گیٹ پر کھڑے بخشو کاکا نے حیرت سے اس چوبیس سالہ خوبرو نوجوان کو دیکھا ۔
"آئی ایم کزن اف فہد "
اسے کچھ سمجھ نہیں آیا کے کیا کہے ۔ویسے بھی اردو بولنے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا ۔
"جی ؟"
بخشو کاکا کے سر سے گزرا ۔
"فہد ادھر ہا ؟"
اس نے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں جو آتا تھا کہا ۔
"نہیں صاحب گھر نہیں ہیں ۔"
اسے بخشو کاکا کے نفی میں سر ہلانے پر صرف یہی سمجھ آئی کہ فہد گھر نہیں ہے ۔
"تم فہد کو ناہی بتاو گا میں گھر آیا اس کے میں سرپرائز دے گا اس کو "
بخشو کاکا نے افسوس سے اس اردو کی بےحرمتی کرنے والے کو دیکھا مگر وہ ببل گم چباتا بے نیاز کھڑا تھا ۔
"ہم آپ کو اندر نہیں جانے دے سکتے "
"بٹ کیو ؟"
"آپ کا نام ؟"
"سنان خانزادہ "
بخشو کاکا فورا سیدھے ہوے ۔اس نے بخشو کاکا کو گھورا ۔جو اسے اندر جانے ہی نہیں دے رہے تھے ۔
"مشعل خانزادہ کے بیٹے ؟"
بخشو کاکا نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا ۔ فہد کے ساتھ وہ شروع سے تھے۔فہد یہاں آتے وقت انھیں بھی ساتھ لایا تھا وہ اکثر بخشو کاکا کو اپنے دکھ سناتا اور کوئی خوشی کی خبر بھی انھیں ہی پہلے دینا پسند کرتا وہ اس کے باپ کی جگہ تھے ۔ غرض ھر موضوع پر ان سے بات کرتا فہد نے انھیں انگلینڈ میں اپنی والدہ کی کزن مشعل خانزادہ اور ان کے بیٹے کے بابت بھی بتایا تھا ۔
بخشو کاکا کے پوچھنے پر اس نے زور و شور سے سر ہلایا ۔
"آو بچے اندر "
انہوں نے اسے اندر آنے کا کہا ۔وہ سکون کا سانس لیتا اندر آیا ۔
"تھینک یو ۔ "
وہ مبہم مسکرایا اور داخلی دروازہ کھولتا سوٹ کیس لیے اندر آگیا ۔
"واو ۔۔"
لاؤنج کی سجاوٹ دیکھ کر وہ سجانے والے ہاتھوں کی داد دیے بغیر نا رہ سکا ۔وہ بینش کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا ۔کبھی اس کی فہد کی اس نہج پر بات ہی نہیں ہوئی تھی ۔
"وہی کمرہ لوں گا جس میں بالکونی ہو گی "
اس نے دل میں سوچا ۔ نیچے لاؤنج کے ساتھ ایک ڈرائنگ روم ،اوپن کچن اور ایک طرف دو کمرے تھے ۔مگر اسے تو بالکونی والا کمرہ چاہیے تھا ۔ اس لیے وہ اپنا سوٹ کیس سمبھالتا اوپر ہی آگیا ۔ اوپر بھی ایک کھلا لاؤنج تھا ایک طرف ٹیرس تھا جس کی بہت خوبصورت انداز میں سجاوٹ کی گئی تھی ۔ آمنے سامنے دو کمرے تھے ۔ سب سے پہلے وہ فہد کے کمرے میں گیا ۔
"اوہ یہ تو فادی کا کمرہ ہے "
ارد گرد لگی فہد کی تصویریں دیکھ کر اسے اندازہ ہو چکا تھا ۔ کسی کے کمرے میں گھسنا غیر اخلاقی حرکت تھی وہ فورا سے باہر نکلا سوٹ کیس لاؤنج میں ہی پڑا تھا ۔ اب اس کا رخ دوسرے کمرے کی جانب تھا ۔ اب یہ کمرہ فہد کا نہیں ہو سکتا تھا ۔ سیٹی پر کوئی دھن بجاتا وہ اندر داخل ہوا ۔پھر ٹھٹھک کر رکا ۔سامنے ہی بستر پر ایک لڑکی ہوش و حواس سے بےگانہ پڑی تھی ۔ٹی وی بھی چل رہا تھا ۔پہلے اس نے ٹی وی بند کیا ۔پھر وہ لپک کر اس تک گیا ۔
"اوہ مائی گاڈ "
اس نے پاس پڑے جگ سے پانی گلاس میں انڈیلا ۔ پھر فورا اس کی جانب مڑا اور اس کے چہرے پر پانی کے چند قطرے گرائے ۔وہ کسمسائی اور اپنے کمرے میں ایک اجنبی کو دیکھ کر جھٹکے سے اٹھی ۔بینش نے ہوش میں آتے ہی اپنے ڈوبٹہ ڈھونڈھا اور اپنے ارد گرد لپیٹا ۔وہ پریشان نظروں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی ۔پھر گھڑی کی جانب دیکھا جو رات کے نو بجا رہی تھی یعنی اب تک فہد گھر نہیں آیا تھا اور ملا زمہ بھی جا چکی تھی تبھی اس کے کمرے میں کوئی نہیں آیا تھا اور وہ دوپہر سے ایسے ہی بے ہوش تھی ۔اس نے دوبارہ اس اجنبی لڑکے کی طرف دیکھا ۔پھر ہمت کرتی بول اٹھی ۔
"کون ہو تم ؟"
" فہد کزن "
وہ ہچکچایا ۔
"یو فرام ؟"
بینش سمجھ گئی وہ اردو نہیں بول سکتا ۔
"فرام انگلینڈ "
"اوہ "
بینش نے سر ہلایا ۔ایک دم اسے سب یاد آیا اپنے بے ہوش ہونے کے بارے میں بھی سب یاد آیا ۔کچھ بھی بولنے سمجھنے کا دل نہیں تھا ۔ سر الگ دکھ رہا تھا ۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی پھر چکرا کر دوبارہ بستر پر بیٹھنے کے انداز میں گری ۔
"یو اوکے ؟؟؟"
سنان کو اس معصوم لڑکی پر ترس آرہا تھا شاید یہ فہد کی بیوی ہے ۔ پہلی سوچ ذہن میں یہی آئی ۔
"نو "
بینش سر بیڈ کی پشت سے ٹکا گئی ۔سنان نے اسے ایک نظر دیکھا ۔شاید اسے کچھ ہلکا پھلکا کھانا چاہیے ۔شاید اس نے کچھ نا کھایا ہو ۔یہی سوچ ذہن میں آتے وہ اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا ۔سیڑھیاں پھلانگتا وہ کچن میں آیا ۔ میز پر پھل ٹوکری میں پڑے ہوے تھے ۔ ایک باول کو ڈھک کر رکھا ہوا تھا سنان نے ڈھکن ہٹایا تو اس میں پاستا تھا ۔
"یہ تو اس کے لیے ہیوی ہو جائے گا "
اس نے دل میں سوچا ۔پھر نظر پھلوں پر گئی ۔
"فریش جوس "
یہ خیال ذہن میں آتے ہی وہ پھلوں کی طرف لپکا ۔ اس نے سیب اٹھائے انھیں دھونے کے بعد اس نے جلدی سے ہاتھ چلاتے ہوے جوس بنایا ۔ چینی کا ڈبه ڈھونڈنے میں خاصی محنت کرنی پڑی ۔
"دے لو سرپرائز تم سنان میاں۔۔۔ یہاں تو مزید بڑا سرپرائز تھا ۔اس فہد نے شادی کر لی اور بتایا بھی نہیں ۔ مگر یہ علیحدہ کمروں میں ۔۔؟؟؟ خیر مجھے کیا"
اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا ۔اور جوس لیے اس کے کمرے میں آگیا ۔لیکن اب کی بار دروازہ بجانا نہیں بھولا ۔
"جوس "
"تھینک یو "
اس نے تشکر سے اسے دیکھا اور اس کے ہاتھ سے گلاس لیا ۔
"وہیر از فہد ؟"
"فہد کہاں ہے ؟"
وہ چاہ کر بھی پوچھ نا سکا کہ وہ کون ہے ۔
"ڈونٹ کنو "
"نہیں پتا "
بینش نے اس کی جانب گلاس بڑھاتے ہوے کہا ۔
"آئی تھنک آئی شوڈ لیو "
"مجھے لگتا ہے مجھے جانا چاہیے "
وہ گلاس تھام کر باہر چل دیا ۔ دروازہ بند کر کے اس نے گہرا سانس کھینچا اب وہ تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا ۔ ایک تو انتہا کا لمبا سفر اس پر تضاد آتے ہی اسے جو جھٹکا ملا ۔اب اس کا ارادہ سونے کا تھا ۔بالکنی والا کمرہ لینے کا اس کا خواب چکھنا چور ہو چکا تھا ۔ منہ بسورے گلاس اور سوٹ کیس سمبھالے وہ نیچے چلا آیا ۔ کچن میں گلاس رکھنے اور پانی پینے کے بعد اس نے گلاس اور جوسر مشین دھوئی ۔ پھر سوٹ کیس سمبھالتا سیڑھیوں کے دائیں جانب بنے کمرے میں ہی چلا آیا ۔ کمرے کو دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکنے لگیں ۔ کمرے کی واحد بڑی کھڑکھی چھوٹے انتہائی خوبصورت گازیبو میں کھلتی تھی ۔رات کے وقت گازیبو میں لگی ننھی ننھی فینسی لائٹس بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں ۔ اس نے کھڑکھی کے پٹ یونہی کھلے رہنے دیے ۔ فریش ہونے کے بعد وہ بستر پر گرا ۔ چھت کو دیکھتے ہوے اس نے کپڑے کل الماری میں سیٹ کرنے کا ارادہ کیا اور دھیرے ،دھیرے اس کی آنکھیں بند ہوتی گئیں پھر وہ نیند کی گہری وادیوں میں اتر گیا ۔
۔۔۔_____۔۔۔۔_____۔۔۔۔
فہد سارا دن یونہی سڑکوں پر گاڑی بھگاتا رہا ۔ ایک آگ تھی جو اسے اندر باہر سے بس جلا رہی تھی ۔ بار بار آنکھوں کے سامنے وہی منظر گھوم رہا تھا ،ایک کمسن لڑکی کی لاش ۔ بخت قریشی کا یہ رخ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اور اس رخ نے فہد کی ذات کے غرور کو مٹی میں ملا دیا تھا ۔ درد تھا کہ جس سے سینہ پھٹا جا رہا تھا ۔ جب سے بخت کی حقیقت معلوم ہوئی تھی تب سے اسے خود گرفتار کرنے کی خواہش فہد کے دل میں آئی تھی اور اب جب کہ وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنا چکا تھا تو دل کی تکلیف سوا نیزے پر تھی ۔ باپ ،باپ ہی ہوتا ہے وہ چاہے جیسا بھی ہو ،اولاد اپنے باپ سے کبھی بھی نفرت نہیں کر سکتی ۔چاہ کر بھی نہیں ۔کیوں کہ ان کے لیے دل میں موجود محبت کا جذبہ کبھی نفرت کے جذبے کو غالب نہیں آنے دیتا ۔ فہد چاہ کر بھی اس شخص سے نفرت نہیں کر پا رہا تھا ۔ مگر پھر اس کی نظروں کے سامنے روتے ،بلکتے لوگ آئے اس لڑکی کی لاش آئی ۔جھٹکے سے اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روکی ۔
"نہیں ۔۔۔۔ میں بھلے اس سے نفرت نہیں کر پا رہا مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ شخص میرا باپ ہے ،مجھے اس کی اولاد ہونے پر افسوس ہے ،مجھے ہر بات پر افسوس ہے ۔"
وہ بڑبڑایا ۔ پھر فون اون کیا ۔ اسے وہ صبح نکلنے سے پہلے ہی سوئچ اف کر چکا تھا ۔ سامنے سکرین پر لاتعداد میسج تھے ۔ آریان کی ناجانے کتنی کالز تھیں ۔ فہد جانتا تھا آریان اس کے لیے فکر مند تھا ۔ میسج میں اس نے بار بار پوچھا تھا کہ تم کہاں ہو ؟ فہد نے تشکر سے آنکھیں میچیں ۔ ایک رشتہ گیا تو کیا ہوا اس کے پاس تو اور بھی بہت بیش قیمتی رشتے تھے جو اس کا احساس کرتے تھے اور رشتے صرف خون کے نہیں ہوتے بلکے رشتے تو محبت و احساس کے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے ہمدردی کے ہوتے ہیں ، آپ کسی راہ چلتے اجنبی کی مدد بھی کر دیں تو یقین جانے آپ نے اس شخص کے ساتھ بھی ہمدردی کا رشتہ جوڑا ہے ۔کسی کو پیسے بھی دیے اور مشکل وقت میں اس کے کام آے تو یہ بھی آپ کے عظیم ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ،کون کہتا ہے کہ پیدا کرنے والی ماں اور محبت کرنے والے باپ یا بہن و بھائی سے ہی خون کا رشتہ ہوتا ہے یقین جانیں آپ نے اگر کسی کو خون کی بوتل بھی عطیہ کی تو آپ نے اس کے ساتھ بھی خون کا رشتہ جوڑا ہے ۔۔۔
فہد نے تمام سوچوں کو جھٹکا ۔ فلحال اپنوں کو اطمینان دلانا تھا ۔ پہلی فرصت میں اس نے آریان کو کال ملا کر اپنی خیریت سے آگاہ کیا ۔آریان کی محبت اور فکر مندی پر اس کے لب مسکراہٹ کے سانچے میں ڈھلے ۔بینش نے نا ہی کوئی کال کی تھی اور نا ہی میسج ۔وہ جانتا تھا بینش دکھی ہے اور اس لمحے کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی ۔وہ اسے اس کے حال پر چھوڑنا چاہتا تھا تاکہ اس کے دل کا سارا غبار نکل جائے ۔جس وقت وہ "فہد ولا " پہنچا رات کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا . گیٹ پر موجود گارڈ نے آگے بڑھ کر گیٹ کھولا ۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد وہ خاموشی سے اندر بڑھ گیا ۔وہ پانی پینے کچن کی طرف چلا آیا۔ فریج میں پانی کی بوتل واپس رکھتے وقت سامنے باول میں پڑا پاستا اسے نظر آیا ۔ صبح سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا ۔پاستا اون میں گرم کرنے کے بعد کوک کا کین لیے وہ اوپر چلا آیا ۔ایک نظر بینش کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھا ۔لائٹ بند تھی مطلب وہ سو چکی تھی ۔کندھے اچکاتا وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
۔۔۔۔۔___۔۔۔۔______۔۔۔____
جاری ہے

ماہی وے ✔Where stories live. Discover now