ماہی وے قسط نمبر 11
از قلم مریم ۔علیشاپاکیزہ محبتوں کو حقیقی منزل مل چکی تھی ۔وہ منزل مل چکی تھی جو پاکیزہ محبت کا اصل ہوتی ہے ۔ ان کی محبت کو ایک شرعی رشتہ مل چکا تھا ۔اب وہ ایک دوسرے کے دوست ، ایک دوسرے کے محرم بن چکے تھے ۔ وہ چاروں مسکرا رہے تھے ۔ان کی مسکراہٹ میں ایک سکون ، ایک خوشی تھی جو پاکیزہ اور حلال رشتوں ، اللّه کی قائم کردہ حدود کی پاسداری کرنے والوں کے چہروں پر ہوتی ہے ۔ محبت تو محبت ہوتی ہے ۔۔ دو راستے ہوتے ہیں ۔
حلال ۔۔!!
یا
حرام ۔۔۔!!
یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ آپ کون سا راستہ منتخب کرتے ہیں ۔ حلال حاصل کرنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے ، جی جان لگانا پڑتا ہے ۔حرام ،حرام ہوتا ہے ۔آپ کو کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوگی یہ خود انسان کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس میں اتنی کشش ہوتی ہے ۔اب آپ پر منحصر ہے اپنا دامن حلال نعمتوں سے بھریں گے یا حرام ۔۔
مگر وہ حلال راستہ چن چکے تھے ۔جب دوست تھے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے کبھی ایسی بات نہیں کی اور اب تو ایک دوسرے کے محرم تھے ۔تب بھی دیکھنے کے انداز میں محبت ، احترم اور عزت تھی اور اب بھی دیکھنے کے انداز میں وہی محبت تھی ،وہی احترم تھا اور وہی عزت تھی ۔مگر اب وہ ایک دوسرے کی عزت تھے ۔میاں ،بیوی ایک دوسرے کی عزت ہوتے ہیں مرد کی عزت اس کی عورت میں اور عورت کی عزت اس کے مرد میں ہوتی ہے ۔ منگنی کر کے ہمارے ہاں جوڑے کے بارے میں یہی خیال کیا جانے لگتا ہے کہ بس اب تو کوئی بات نہیں شادی ہو ھی جانی ہے اور پھر فون پر گھنٹوں ایک نامحرم سے بات چیت ہونے لگتی ہے ۔ہمارے ہاں اس بے غیرتی کو ماڈرنزم خیال کیا جاتا ہے مگر اکثر منگنیاں بھی ٹوٹتی ہیں پھر کیسی خیر ؟؟؟ ہم لوگ سمجھتے نہیں جس سے ہم بات کر رہے ہیں وہ ہمارا شوہر نہیں ، ہمارا محرم نہیں ہے اس کے اور ہمارے درمیان شرعی رشتہ نہیں ہے اس کے اور ہمارے درمیان جو رشتہ ہے وہ ایک انگھوٹی کا ہے اور بس ۔۔!!! مگر ان سب باتوں کو سمجھنے کے لیے ہمارے پاس وقت نہیں نا ھی وہ دماغ ہے جو ماڈنزم کو ایک طرف رکھے اور پھر بچوں کے مستقبل کا سوچے ۔ مگر جو سوچتے ہیں ، وہ اچھے رہ جاتے ہیں ،ان کے چہروں کی مسکراہٹ اس میں جھلکتا اطمینان ، خوشی حقیقی ہوتی ہے ۔جب آپ محبت کو پاکیزہ رکھتے ہیں تو محبت خود راستہ بناتی ہے ، وہ راستہ جو منزل کی طرف لے جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔
صارم انکے نکاح کی بید بانٹ رہا تھا ۔وہ جونہی ان کے قریب آیا فلک دانیال کے ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکالتی صارم تک پہنچی اور ہاتھ میں جتنے پیکٹ آسکتے تھے اٹھا لئے ، دانیال بھی کیوں پیچھے رہتا فورا صارم کی طرف آیا اور فلک کی طرح ھی پیکٹ اٹھا لیے ۔
"ایسے نکاح کا فائدہ ھی کیا جب بندہ اپنے ھی نکاح کے چھوارے نا کھائے "
خشک خوبانی کھاتے ہوے دانیال مصروف سے انداز میں بولا ۔کشمش کھاتی فلک نے اسے دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا۔
"یہ کیا کر رہے ھو تم دونوں ؟"
امل اور آریان ان دونوں کی طرف آے ۔
"آرے اپنے نکاح کی بید کھا رہے ہیں ۔ چلو شاباش ہمیں مت ٹوکو اور اپنا اپنا منہ میٹھا کر لو "
فلک انھ سمجھاتی پھر سے کشمش کھانے لگی ۔وہ دونوں بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے اور اگے بڑھ کر صارم کے ہاتھوں سے بید کے پیکٹ لے لیے ۔صارم نے ان چاروں کو گھورا پھر ٹوکری زمین پر رکھتا وہ اٹھا ۔
"کہیں سے لگ رہا ہے میری آج رات مہندی ہے "
وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھے بولا تو وہ چاروں رکے اور اسے دیکھا ۔
"نہیں بھی لگ رہا تو ٹیگ لگا کر گھوم لیں ۔اوپر جلی حروف میں لکھییے گا "میں دولہا ھوں ""
دانیال نے سیانوں کی طرح مشورا دیا اس کے کہنے پر آریان ، فہد مصنوعی کھانسی کھانسی ۔صارم پلٹا اور اپنے پیچھے کھڑے فہد کو زبردست گھوری سے نوازا ۔پھر دانیال کی طرف مڑا ۔
"میں پاگل تھوڑی ھوں "
اس نے کندھے اچکائی ۔
"عقل مند بھی نہیں ہیں ۔"
دانیال برجستہ بولا ۔
"کیا کہا تم نے مجھے ؟؟ تمیز سے بات کرو بچے میں اب تمہارا سالہ بھی ھوں "
صارم نے اپنا کالر سیٹ کیا اور جتاتے لہجے میں کہا ۔
"یار ۔۔!! آپ میرے سالے ہیں ؟ سالا آدھا گھر والا ہوتا ہے "
"بیوقوف وہ سالی ہوتی ہے "
آریان نے اس کی تصیحح کی ۔وہ دانیال کو گھورنے لگا مگر ایک دم جیسے چونکا ۔
"ہائے میں کیا کروں ؟ میری تو کوئی آدھی گھر والی ہے ھی نہیں "
دانیال پیکٹ ایک طرف رکھتا دہائی دیتا زمین پر بیٹھ گیا سب نے اس کی بات پر ماتھا پیٹا ۔فلک ویسے ھی مگن انداز میں کھا رہی تھی ۔پھر ایک تم اس نے دانیال کی بات پر غور کیا اور کڑے تیوروں سے اس کی جانب پلٹی اور اسے کالر سے پکڑ کر اٹھایا ۔
"اتاروں جوتا ؟"
اس کے کہنے پر دانیال نے اس کا کھسہ دیکھا جس پر کافی موتی لگے ہوے تھے ۔"یہ چبنے بھی بہت ہیں "اس نے دل میں سوچا پھر سر اٹھا کر جلدی جلدی نفی میں سر ہلایا ۔اس کی تو سٹی ھی گم ہو چکی تھی ۔
"یا۔۔۔یار ؟؟ کیا کر رہی ہو ؟ میں ابھی تمہارا دس منٹ پہلے کا بنا تازہ تازہ شوہر ھوں "
"اور میں دس منٹ پہلے کی بنی تمہاری تازی تازی گھر والی ھوں اور تم کہہ رہے ہو تمہے آدھی گھر والی بھی چاہیے ؟ خبر دار ایسی خرافات دوبارہ منہ سے نکالی تو "
اس کا ہاتھ جوتے تک گیا تو دانیال بول اٹھا ۔
"نہیں ۔۔۔ نہیں یار وعدہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا پکا وعدہ "
فلک نے سر ہلایا اور جھک کر بید کا پیکٹ اٹھا لیا ۔ آریان نے باقاعدہ کانوں کو ہاتھ لگایا ۔
"مستقبل قریب میں جناب دانیال شاہ صاحب بزنس مین بنے نا بنیں زن مرید پکا بنیں گے "
فلک نے فہد کو گھورا ۔
"بھائی اب آپ بھی کوئی ڈھونڈھ لیں ایسی جو آپ کی بولتی بھی بند کروا دے "
اس کی بات پر فہد کی نظریں بے ساختہ دائیں جانب گئیں جہاں نور کھڑی تھی ۔پتا نہیں ایک وہی تو تھی جو اس کی بولتی بند کروا دیتی تھی ۔ نور گھبرا گئی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔فہد نے نظروں کا زاویہ بدلا ۔آریان نے دونوں کو دیکھا ۔سب بڑے ایک طرف کھڑے باتوں میں مصروف تھے ۔ کچھ دیر بعد ان سب کا فوٹو شوٹ ہوا ۔ان کے پیچھے بادشاہی مسجد پورے جاہ و جلال سے کھڑی تھی ۔درمیان میں وہ چاروں کھڑے مسکرا رہے تھے فلک اور دانیال دونوں کے ہاتھوں میں بید کے پیکٹ تھے ۔آریان نے دونوں سے پیکٹ کھینچے ۔"اب تو چھوڑ دو انھے ۔!"وہ دونوں کھسیانی ہنسی ہنسے اور تصویر کھیچوانے لگے ۔بچے آگے اور بڑے پیچھے کھڑے تھے ۔ نور نے ہاتھ بلند کر کے وکڑی بنائی ہوئی تھی اور فہد نے اس کے منہ کے الٹے سیدھے زاویے دیکھ کر سر جھٹکا ۔
۔۔۔۔۔*************** ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لان میں مہندی کا انتظام کیا گیا مگر آج لان میں مارکی لگائی گئی تھی ۔ تھیم گولڈن اور بلیک تھا ۔ انٹرس پر بہت ھی خوبصورت واس رکھے گئے تھے ساتھ خوبصورت ڈیکوریشن پیس تھے جن سے موتیوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں اندر داخل ھوں تو سب سے پہلے نظر سامنے مہارت سے سجائے جھولے پر پڑتی جو اسٹیج پڑ پڑا تھا جھولے کو گیندے کے پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔اسٹیج سے اتریں تو سامنے ھی منی اسٹیج تھا جہاں سب نے ڈانس کرنا تھا ۔ اسٹیج کے دائیں جانب فلور کشن پڑے تھے جن کے درمیان بڑی سے ڈھولک پڑی تھی ۔ بائیں جانب ساؤنڈ سسٹم پڑا تھا ۔ پورے لان میں میز لگاے گئے تھے جن کے کوور سیاہ تھے جب کہ کرسیاں گولڈن تھیں اور ان کے ارد گرد سیاہ ریبن لگے تھے ۔ ہر ٹیبل کسی نا کسی فیملی کے لیے ریزرو تھا ۔ منی اسٹیج اور اسٹیج کے ارد گرد ڈسکو بال لگی ہوئی تھیں ۔ مہندی کا فنکشن کمبائین تھا ۔ فنکشن رات نو بجے شروع ہونا تھا ۔ امل ،نور اور فلک عالیہ کو چار بجے ھی پالر لے گئی تھیں ۔ دانیال ،آریان اور فہد انتظامات میں مصروف تھے ۔سات بجے کے قریب انہوں نے اپنے ساتھ کام کرواتے صارم کو تیار ہونے کے لیے زبردستی کمرے میں بھیج دیا کیوں کے مہمان آنے لگے تھے ۔
"بچو جلدی جاؤ شاباش اب تم لوگ بھی تیار ہو جاؤ ۔حلیے دیکھو تم لوگ اپنے "
ارفع بیگم تیار ہو کر ان کے پاس آئیں ۔انہوں نے دانیال کا کہا انگوری رنگ کا سوٹ ھی پہنا تھا ۔انھے دیکھتے ھی دانیال نے سیٹی بجائی ۔انہوں نے خفگی سے اسے گھورا مگر وہاں اثر کسے ہونا تھا وہ اب بھی انھے یونہی تنگ کر رہا تھا ۔ آریان نے اسے گھورا تو وہ دانت نکالنے لگا ۔ارفع بیگم کو دیکھ کر ایک آنکھ دباتا وہ تیار ہونے چل دیا ۔ آریان اور فہد ہنسے تو ارفع بیگم نے اپنا ڈوبٹہ سیٹ کرتے ہوے انھے گھورا اور جلد تیار ہونے کی تنبیہہ کی ۔
صارم نے سفید شلوار قمیض اور گولڈن واسکوٹ پہنا تھا ۔ آریان ، فہد اور دانیال نے کریم شلوار قمیض اور ایک جیسی ھی مہندی کی شال لے رکھی تھیں ۔ سب اپنے معمول کے حلیے سے یکسر مختلف نظر آرہے تھے ۔ انھا دیکھتی ہر آنکھ نے انھے سراہا اور ہر زبان نے " ماشااللّه " کہا تھا ۔
۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
"نور میں بال کٹوا لوں شولڈر سے نیچے جانے لگے ہیں "
وہ چاروں اس وقت پالر میں تھیں ۔ امل نے اپنے بالوں کو دیکھا پھر نور کی جانب مڑی جو مہندی لگوا رہی تھی عالیہ کی مہندی لگ چکی تھی ایک اور لڑکی فلک کے مہندی لگا رہی تھی ۔
"ہاں کٹوا لو مرضی ہے تمہاری "
نور نے کندھے اچکائے ۔
"امو ڈیر ۔۔"
جی ؟؟
عالیہ کے بلانے پر اس نے رخ موڑ کر عالیہ کو دیکھا ۔
"پہلے بہت بڑے ہیں بیٹا جی آپ کے بال ؟"
عالیہ نے اس کے چھوٹے بالوں پر طنز کیا ۔
"بڑے نہیں پر ہو رہے ہیں "
امل نے بالوں کی طرف اشارہ کیا ۔
"مت کٹواو آریان کو لمبے بال پسند ہیں بہت وہ تمہے کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پاتا ۔ وہ چاہتا تھا تم شلوار سوٹ پہنو اور تم نے اس کے کہے بغیر شلوار قمیض پہننا شروع کر دیے اب یہ کام بھی اس کے بن کہے چھوڑ دو "
عالیہ نے مسکرا کر اسے دیکھا ۔آریان کی پسند ۔۔۔۔۔وہ رکی پھر اس لڑکی کی جانب مڑی جو قینچی پکڑے کھڑی تھی ۔
"سنو ۔۔۔رہنے دو "
عالیہ ،نور اور فلک مسکرا دیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فہد بیٹا تم پالر جاؤ اور بچیوں کو لے آو "
فہد سر ہلاتا گاڑی کی چابیاں لیے باہر کی جانب بڑھ گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تیار ہو چکی تھیں ۔امل ،فلک اور نور نے ایک جیسی ھی شلوار قمیض پہنی تھیں جن کے ڈیزائن ایک ھی تھے مگر رنگ مختلف تھے ۔
وہ تینوں بھی شلوار قمیض اور گوٹے کے ڈوبٹوں میں ہلکا ۔ہلکا میک اپ کیے بہت پیاری لگ رہی تھیں ۔ میک اپ فنکشن کے لحاظ سے کیا گیا تھا اور تینوں نے پہلی بار اتنے ہیوی جھمکے پہنے تھے کھلے بال تینوں نے پشت پر پھیلا رکھے تھے ۔عالیہ نے پیلے رنگ کی کرتی اور پیلے ھی رنگ کا شرارہ پہن رکھا تھا اور ہم رنگ ڈوبٹہ لے رکھا تھا لمبے بالوں کی چوٹی بنائی گئی تھی جسے بائیں کندھے پر ڈالا گیا تھا جس میں گیندے اور گلابوں کے پھول لگاے گئے تھے ۔میک اپ ، پھولوں کے نازک زیور اور حنائی ہاتھوں میں مہندی وہ بہت دل کش لگ رہی تھی ۔خود ان تینوں نے بھی مہندی لگوائی تھی ۔ نور مادام کے شوق نور جیسے ۔۔۔جنہوں نے دونوں پاؤں پر بھی مہندی لگائی تھی ۔ تھوڑی ھی دیر پہلے انہوں نے عائشہ بیگم کو فون کیا تھا کہ وہ تیار ہو چکی ہیں اب وہ فہد کے انتظار میں بیٹھی تھیں ۔ تھوڑی ھی دیر بعد فہد آگیا ۔نو بجنے والے تھے ۔ نور فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر سب سے پہلے بیٹھ گئی وہ تینوں پیچھے بیٹھ گئیں ۔گیر لگانے کے لیے جونہی فہد نے بائیں جانب رخ موڑا اس کی نظریں برابر میں بیٹھی نور کے حنائی ہاتھوں اور پیروں پر ٹک گئیں وہ جانتا تھا وہ غیر اخلاقی حرکت کر رہا تھا مگر نظریں بے اختیار ہو رہی تھیں ۔
"فہد بھائی ؟؟؟"
امل نے اسے منجمد دیکھ کر بلایا وہ چونک کر سیدھا ہوا ۔
"جی ؟؟"
"چلیں "
"جی ۔۔وہ میں ۔بس ۔۔وہ میں ۔۔۔"
اسے سمجھ ھی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا جواز پیش کرے پھر تھک کر وہ خاموش ہو گیا ۔
"یا اللّه میں کیوں اس لڑکی کو بات پہ بات دیکھتا ھوں ؟؟"
(وادیِ عشق میں رقص کرتی محبت اس بات پر رکی اور پریشان نظر آتے شہزادے کے پاس جا رکی۔شہزادے نے ذرا کی ذرا نظر اٹھا کر دیکھا سامنے ھی محبت کھڑی مسکرا رہی تھی شہزادے نے محبت کو دیکھا پھر اس کے پیچھے نظر آتے ایک کھلے دروازے کو دیکھا جہاں سے روشنی پھوٹ رہی تھی شہزادہ آنکھوں میں حیرت سموئے سامنے دیکھ رہا تھا پھر اس نے دیکھا کہ محبت اس سے کچھ فاصلے پر ہاتھ پھیلائے کھڑی تھی گویا اس کی منتظر تھی ۔ وہ کچھ جھجھکا پھر محبت کا ہاتھ تھام لیا محبت کھل کر مسکرا اٹھی اور اسے لیے آہستہ آہستہ اس دروازے کی جانب بڑھنے لگی ۔ اسے لیے خود پہ نازاں محبت وادیِ عشق میں داخل ہوئی )
"جی میں بس چلا نے ھی لگا تھا بھابھی جی "
اس کے بھابھی کہنے پر امل کو آج دوپہر ہونے والا اپنا اور آریان کا نکاح یاد آیا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی ۔ فلک اور عالیہ ایک دوسرے سے کوئی بات کر رہی تھیں ۔اور فہد خود کو لاکھ سمجھا کر بھی بار بار نور کا مشرقی روپ دیکھنے پر مجبور تھا ۔
"کیا دیکھ رہے ہو ؟"
اچانک نور بول اٹھی تو وہ سمبھلا ۔
"کسی بھی خوش فہمی میں مت رہنا ۔کم از کم آپ کو نہیں دیکھ رہا "
وہ آہستہ بولا اتنا کہ اس کی آواز صرف نور تک پہنچی ۔
"سچ بول دیتے تو میں نے کون سا تمہے پھانسی پر چڑھا دینا تھا ؟ دیکھ رہے ہو تو مان کیوں نہیں لیتے ؟"
"محترما میں موڑ کاٹ رہا ھوں یہ آپ کا انگلینڈ نہیں ہے کہ لوگ مہذب انداز میں گاڑی چلائیں ۔یہ پاکستان ہے یہاں موڑ کاٹنے سے پہلے دونوں طرف دیکھنا پڑتا ہے ۔"
اس نے سر جھٹکا اور موڑ کاٹا ۔ نور ڈھٹائی سے مسکرائی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالیہ کو دیکھ کر صارم بھرپور انداز میں مسکرایا ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ آج بلاآخر سات دن کے مایوں کے بعد اس کے سامنے آئی تھی ۔ عالیہ نے بھی اسے دیکھا اور سر جھکا کر مسکرائی ۔وہ دونوں ایک ساتھ اندر داخل ہوے ۔ لڑکوں نے چاروں طرف سے چادر پکڑ رکھی جس کے سائے میں ان دونوں کو اسٹیج تک لانا تھا ۔ ان کے پیچھے ھی نور ، امل اور فلک مہندی کے بڑے بڑے تھال لیے اندر داخل ہوئیں جن پر دیے ،اور موم بتیاں لگی تھیں ۔ پیچھے ان کی دوستیں اور رشتہ دار لڑکیاں بھی چھوٹی چھوٹی تھال پکڑے داخل ہوئیں ۔ ہر طرف اتنے خوبصورت انداز پر ہوٹنگ ہو رہی تھی ۔ اس کے بعد گھر کی بڑی عورتیں مہندی لیے داخل ہوئیں ۔ لڑکیوں نے وہ تھال اسٹیج کے ارد گرد رکھے جبکہ فلک ،امل اور نور نے اپنے اپنے تھال اسٹیج پر رکھے ۔ آریان نے دلچسپی سے امل کا جائزہ لیا جو مکمل مشرقی روپ میں اس کے دل ، گردے اور پھیپھڑے سب دھڑکا گئی تھی ۔ امل نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا مگر وہ صارم سے کوئی بات کر رہا تھا ۔ امل مسکرائی ۔
"سنو آریان "
"سناؤ امل ؟"
وہ جو باہر جا رہا تھا امل کی آواز پر رکا اور اسے اسی کے انداز میں جواب دیا ۔
"اچھے لگ رہے ہو "
امل پہلے اس کے انداز پہ ہنسی پھر سنجیدہ ہوتے ہوے بولی ۔ ایک ہاتھ سے اس نے اپنے چہرے سے بالوں کی لٹ کو بھی ہٹایا ۔
"کیا تم نے میری تعریف اس لیے کی ہے کہ جوابا میں بھی تمہاری تعریف کروں ؟"
اس نے ابرو اچکائی ۔
"ہاہاہاہا ۔۔(وہ کھلکھلائی ) نہیں سچ میں میرا ایسا کوئی مقصد نہیں تھا "
"کیوں تمہارا دل نہیں چاہ رہا کہ میں بھی تمہاری تعریف کروں ؟"
آریان نے شرارتی انداز اپنایا ۔
"جی نہیں ۔۔۔"
امل نے تڑخ کر جواب دیا ۔
"کیوں نہیں ؟"
آریان کو اسے چھیڑ کر مزہ آرہا تھا ۔
"اففففف ۔۔تم تعریف نا بھی کرو تو بھی میں جانتی ھوں کہ میں بہت خوبصورت لگ رہی ھوں "
اسے اب خود پر غصہ آرہا تھا کہ کیا ضرورت تھی تعریف کرنے کی ؟
"ایک بات کہوں ؟؟بلکل بچے کھانے والی ڈائین لگ رہی ہو کیوں کہ تمہے تو ٹھیک سے لپسٹک بھی لگانا نہیں آتی "
امل کو جلتا کلستا چھوڑ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گیا کیوں کہ امل اپنا پاؤں جوتے کی قید سے آزاد کروا چکی تھی ۔دور جا کر آریان نے اسے آنکھ ماری اس کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا اس نے فورا رخ پھیر لیا اور اسٹیج کی جانب بڑھ گئی لڑکیاں بیٹھی ڈھولک بجا رہی تھیں نور اور فلک بھی وہیں بیٹھی تھیں امل بھی اسٹیج سے اتر کر انہی کی جانب بڑھ گئی ۔ ۔۔۔کھانا کھانے اور مہندی لگنے کا کام ختم ہوا تو بارہ بج چکے تھے ۔کچھ مہمان جا بھی چکے تھے اب صرف گھر کے فرد اور کچھ دوست احباب بیٹھے تھے ۔اسٹیج پر صارم عالیہ سے کچھ کہہ رہا تھا جسے سن کر وہ دھیمے انداز میں ہنس رہی تھی ۔نور اب پوری طرف ڈھولک بجانے اور فارغ ہوجانے کے بعد ادھر ادھر سب کے ساتھ سیلفیاں کھینچتی پھر رہی تھی ۔
"سب لوگ متوجہ ھوں اب ہم سب آپ کو اپنے پچھلے ایک ہفتے کی محنت دکھانے والے ہیں "
دانیال نے ساؤنڈ سسٹم کے پاس جا کر سپیکر میں کہا ۔
سب ان کی طرف متو جہ ہوے ۔ سپاٹ لائٹ منی اسٹیج پر پڑیں جہاں امل ،فلک اور نور ایک جانب کھڑی تھیں ان کی دوسری طرف فہد ، آریان اور دانیال کھڑے تھے ۔ اور پھر ان سب نے مل کر "منڈیاں تو بچ کے رہیں " گانے پر ڈانس کیا ہر طرف زبردست ہوٹنگ ہو رہی تھی ۔ عالیہ اور صارم بھی اسٹیج سے اتر کر منی اسٹیج پر آگئے اور ڈانس کرنے لگے ۔ڈی جے نے گانا بدلا اور اب وہاں موجود سب بچے ناچ رہے تھے ۔سب بڑے بیٹھے ہوٹنگ کر رہے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے ۔ پھر دیکھتے ھی دیکھتے شاہزیب صاحب اسما بیگم ،سہیل صاحب ارفع بیگم کو لیے اسٹیج پر چڑھ گئے ۔
"شرم کر لیں کچھ بوڑھے ہو گئے ہیں ہم اب "
جب فرحان صاحب نے عائشہ بیگم کو اٹھنے کا کہا تو وہ جھینپ گئیں ۔
"دل جوان ہونا چاہیے بیگم ۔محبت کا عمروں سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا "
وہ بولے اور عائشہ بیگم کو اپنے ساتھ لیے انہی کی طرف بڑھ گئے جو ایک دوسرے کے ساتھ ہنستے ، ہوٹنگ کرتے ناچنے گانے میں مگن تھے ۔
۔............ . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . . .
فنکشن دو بجے ختم ہوا ۔ ناچ ناچ کر امل ،فلک نور اور دانیال کی ٹانگیں دکھنے لگی تھیں ۔ آریان اور فہد بلکل نارمل تھے البتہ تھکاوٹ انھے بھی ہو رہی تھی ۔فلک دانیال کے پاس آئی جو زمین پر چوکڑی مارے بیٹھا تھا اس کے بال بھکر کر ماتھے پر بے ترتیب پڑے تھے ۔فلک بھی لڑکھڑاتی ہوئی اس کے برابر میں بیٹھ گئی ۔نور اور امل عالیہ کو کمرے تک چھوڑنے گئی تھیں ۔ سب بڑے اندر جا چکے تھے ۔ارد گرد کیٹرینگ والے سامان سمیٹ رہے تھے کیوں کہ کل اور پرسوں کا فنکشن ہال میں ھی تھا ۔
" میاں جی ۔۔۔"
"جی بیگم جی "
دانیال اس کی جانب رخ موڑ کر بیٹھ گیا اس کے بال بھی اب بھکرے ہوے تھے ۔ مٹے مٹے میک اپ اور آنکھوں میں سرخ ڈورے لیے وہ بہت حسین لگ رہی تھی دانیال کی تھکاوٹ ایک دم دور ہوئی ۔
"میں کیسی لگ رہی تھی آج ؟"
وہ آنکھیں پٹپٹائے اسے دیکھنے لگی ۔ایک پل تو دانیال کا دل کیا کہ دے حسین بہت حسین ۔مگر پھر رگِ شرارت پھڑک اٹھی ۔
"ڈائین لگ رہی تھی ،چڑیل ۔ مجھے تو تم سے اب بھی خوف آرہا ہے ۔بال دیکھے ہیں تم نے اپنے ؟ پھٹا گھونسلا لگ رہا ہے "
وہ دانت نکالتا اپنے گھر کی جانب دھوڑ گیا ۔فلک بھی اس کے پیچھے دھوڑی کیوں کہ جب تک شادی تھی وہ سب بچہ پارٹی وہیں رکنے والے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
3:00 بجے :۔
دو سائے خاموشی سے ایک کمرے سے نکلے ۔ سارے گھر میں تاریکی تھی باہر لگے واحد روشنی باہر لگے برقی قمقموں کی تھی ۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں کچھ تھا ۔ دبے قدموں چلتیں وہ دونوں بائیں جانب بنے کمرے کے سامنے آرکے ۔ پہلے سائے نے دوسرے سائے کی طرف دیکھا ۔
"تم کھولو ۔۔۔"
"نہیں تم "
دوسرا سایہ بول اٹھا ۔
امل نے فلک کو گھورا اور آہستہ سے بنا آواز دروازہ کھولا ۔
"آنکھ تو نہیں کھلے گی ان تینوں کی ؟"
امل نے فلک سے پوچھا جس نے نفی میں سر ہلایا ۔
"نیند کی گولی دی ہے مذاق نہیں "
اور پھر وہ دونوں آدھے گھنٹے کے بعد اپنے کام سے فارغ ہوئیں اور اسی طرح خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد نے آنکھیں کھولیں اسے اپنا سر بھاری محسوس ہوا ۔
"افف لگتا ہے رات کے ہنگامے کے باعث سر درد ہے ۔جا کر چائے پی لیتا ھوں "
اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو 9:00 بجا رہی تھی ۔ پھر اس کی نظر صوفے پر گئی جہاں دانیال منہ تک کمبل لپیٹے سو رہا تھا اس نے چہرہ گھمایا اور بیڈ کی طرف دیکھا جہاں آریان اوندھے منہ لیٹا سو رہا تھا اس نے بھی سر تک کمبل لیا ہوا تھا ۔
"آکر جگاؤں گا "
اس نے پہلا سوچا کہ ان دونوں کو بھی جگا دے مگر پھر دکھتے سر کو سمبھالتا اٹھا اور دروازے تک پہنچا ۔دروازہ کھولا تو باہر سے آوازیں آرہی تھیں ۔اسے نور کی آواز سنائی دی ۔
"انٹی آپ نے بھی چائے پنی ہے ؟"
غالباً وہ چائے بنا رہی تھی ۔
"واہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے "
اس نے دل میں سوچا پھر خود پر ایک سو ایک دفع لعنت بھیجتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا ۔
وہ نیچے آیا تو سامنے ھی اسما ببیگم ملازم سے کوئی بات کر رہی تھیں وہ انہی کی طرف چلا آیا ۔
"صبح بخیر انٹی "
"صبح بخیر ۔۔!!! آریان نے اٹھایا ہو گا تمہے بھی اور دانیال کو بھی ؟ نماز کے معاملے میں وہ ایسا ھی ہے "
انھے لگا کہ فہد کو آریان نے جگایا ہو گا ۔
"نہیں انٹی وہ خود سو رہے ہیں میں جاگا تو سر میں بہت تکلیف ہو رہی تھی سوچا چائے پی لوں "
اس نے دکھتے سر کو دبایا ۔
"ہاں جاؤ نور کچن میں ہے اس سے کہ دو بنا دے گی "
وہ اثبات میں سر ہلاتا کچن کی جانب بڑھ گیا ۔
نور چولہے کے پاس کھڑی تھی فہد کی طرف اس کی پشت تھی ۔ اس نے ڈھیلا ڈھالا سا سوٹ پہن رکھا تھا بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا ۔فہد کے آنے پر وہ مڑی اور اسے دیکھا جو اسی کی طرف چلتا آرہا تھا ۔نور نے آنکھیں سکیڑ اسے دیکھا وہ نور کے پاس آیا اور اس سے کچھ فاصلے پر پڑا چائے کا مگ اٹھایا ۔
_"اپنے لیے اور بنا لینا "
نامحسوس انداز میں وہ "آپ " سو "تم " پر آیا تھا ۔ نور کچھ لمحے اسے دیکھتی رہی پھر سر ہلاتی فریج کی طرف بڑھ گئی ۔
"خاصی غیر اخلاقی حرکت ہے "
وہ بڑبڑائی ۔
"چائے ھی تو لی تھی "
"چائے صرف چائے ؟ تمہے پتا ہے چائے میری زندگی ہے ۔ میں اکثر کہتی ہوتی ھوں
میرا ہاتھ تھام کر مجھے لے چلو وہاں
جہاں چائے کی ندیاں بہتی ھوں "
" میری زندگی کی زندگی چائے ہے ؟"
وہ کیا بولا اسے خود بھی پتا نا چلا تھا نور اچھنبے سے اسے دیکھنے لگی ۔
"میں سمجھی نہیں ؟"
فہد کی بات اس کے سر پر سے ھی گزری تھی ۔
"اچھا ہے نہیں سمجھی اور چائے کے لیے شکریہ "
آخر میں چائے کا کپ اسے دکھاتا وہ باہڑ کی جانب بڑھ گیا ۔نور نے کندھے اچکائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فہد چائے کا خالی کپ کچن میں رکھتا اوپر کمرے کی جانب بڑھ گیا اس کا ارادہ آریان اور دانیال کو جگانے کا تھا ۔ دروازہ بند کر کے وہ پلٹا اور دانیال کی طرف آیا ۔
"شش ۔۔دانی اٹھ جاؤ یار "
دانیال ویسے کا ویسے ھی لیٹا رہا فہد نے گہرا سانس کھینچا اور اس پر سے کمبل ہٹایا ۔حیرت کی زیادتی سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ دھوڑ کر آریان تک آیا اور اس کا کمبل ہٹایا ایک بار پھر وہ حیران رہ گیا ۔ آریان اور دانیال کی آنکھ فہد کے قہقہوں سے کھلی ۔وہ دونوں اٹھ بیٹھے اور فہد کو دیکھا جو اب ہنس ہنس کر مزید لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ۔
"سالو ۔۔۔اف ۔۔سالو ویسے تم دونوں کے ساتھ ہوئی بڑی وہ والی ہے "
وہ ہنستے ہوے بولا اب کی بار دانیال نے آریان کو اور آریان نے دانیال کو دیکھا پھر ایک دم سے وہ دونوں بوکھلا کر بستر سے اٹھے اور شیشے کے سامنے جا کھڑے ہوے وہ حیرانی سے اپنے بالوں کو دیکھ رہے تھے جنہے پینٹ سپرے سے مزید خوبصورت بنایا گیا تھا ۔آریان کے بال لال اور دانیال کے بال پیلے پینٹ سپرے سے بہت ھی مضحکہ خیز لگ رہے تھے ۔دانیال بیچارہ تو کچھ زیادہ ھی مسکین نظر آرہا تھا آریان کو اس کے غم کے سامنے اپنا غم تھوڑا ھی لگا ۔ اچانک دانیال کی نظر بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی پرچی پر گئی اس نے فورا اس پرچی کو اٹھایا ۔
"ہم ڈائین لگ رہی تھیں نا ؟ بچے کھانے والی چڑیل لگ رہی تھیں نا ؟ اب ذرا بتاؤ خود کیا لگ رہے ہو ؟ جن بھوت نا ؟"
"امل "
"فلک "
وہ دونوں ایک ساتھ چیخے ۔فہد نے انھے آنکھیں دکھائیں ۔
"اب ہم کیا کریں یار وہ کیسے ہم سے اتنا بڑا ۔۔بڑا بد ۔۔بدلا لے سکتی ہیں "
حیرت کی زیادتی سے دانیال سے بولا بھی نا گیا ۔آریان نے فورا امل کا نمبر ٹرائے کیا جو بند جا رہا تھا اس نے فلک کا نمبر بھی ٹرائے کیا وہ بھی بند تھا ۔
"نہیں اٹھا رہیں فون "
"دروازہ اسٹڈی کی طرف سے لاک ہے "
دانیال اسٹڈی روم سے باہر آتا ہوا بولا ۔ آریان اور دانیال ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر زمین پر بیٹھ کر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگے ۔
"ہماری بیویوں نے ہمیں نیند کی گولی کھلا کر ہمارے بال پینٹ کر ڈالے "
"ایک دن کی بیویوں نے "
دانیال نے بھی لقمہ دیا ۔
"میری توبہ آئندہ اسے کچھ برا بھلا کہا "
آریان نے کانوں کو ہاتھ لگایا ۔
"میرے بڑوں کی بھی توبہ "
دانیال کچھ زیادہ ھی تائب تھا ۔
"تو کدھر ؟"
فہد کو دروازے کی جانب بڑھتا دیکھ کر آریان نے پوچھا ۔
"نور جاگ رہی ہے ناول بہت پڑھتی ہے وہ اور تم دونوں کی بیویوں کے مقابلے میں سگھڑ بھی ہے اسی سے پوچھنے جا رہا ھوں کچھ تو معلوم ہو گا اسے یا نا جاؤں ؟ تم لوگوں کا جوکر بن کر ھی شادی اٹینڈ کرنے کس ارادہ ہے ؟"
فہد نے پلٹتے ہوے پوچھا ۔
"نہیں جاؤ جاؤ جلدی آنا "
وہ دونوں ایک ساتھ بولے ۔
"یار کیا کریں ہم بدلا کیسے لیں ؟"
آریان سوچتے ہوے بولا ۔
"آہاں دیکھنا آریان اب ہم کیا کھیل کھیلیں گے "
اس نے کہا اور آریان کو اپنا پلان بتایا ۔دو منٹ بعد وہ دونوں اپنا کام کر چکے تھے دونوں نے ایک دوسرے کو شاباش دی اور اٹھ کھڑے ہوے کیوں کہ نور اور فہد کمرے میں آچکے تھے ۔
"بہت فننی لگ رہے ہیں آپ دونوں "
وہ اپنی ہنسی روکتے ہوے بولی ۔
"نور یہ اترے گی کیسے ؟"
"بس بھائی تھوڑی دیر تک سر پر سرسوں کا تیل لگانا ہو گا "
"کیا ؟؟؟؟؟"
وہ دونوں ایک ساتھ بولے ۔ سرسوں کے تیل سے تو دونوں کو بچپن سے ھی چڑ تھی مگر مجبوری میں تو گدھے کو بھی باپ بنانا پڑتا ہے ۔ فہد اور نور ایک طرف کھڑے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے جو ناک دبائے بےزار بیٹھے تھے ۔
وہاں دوسری طرف امل سو کر اٹھی اسے رات میں کی گئی اپنی شرارت یاد آئی ۔اس نے موبائل پاور اون کیا تو آریان کی تین مس کال دیکھ کر مسکرائی ۔پھر اس نے واٹسپ کھولا اور اسی کے ساتھ اس کی ساری کی ساری نیند بھک سے اڑ گئی ۔وہ فورا سیدھی ہوئی ایک نظر سوئی ہوئی فلک کو دیکھا ۔ا سکرین پر اس کی تصویر تھی جس میں وہ منہ کھولے سونے کا شغل فرما رہی تھیں تصویر دیکھ کر ایک بار تو اسے خود ھی ہنسی آئی تھی اس نے اگلی فوٹو کھولی تو وہ فلک کی تصویر تھی جس میں وہ پورے بستر پر پھیل کر سو رہی تھی بال بھکرے پڑے تھے ۔منہ پھولا ہوا تھا ۔یہ تسوئر دانیال اور آریان نے ان کے فیملی گروپ میں بھیجی تھی اس گروپ میں نور ۔ امل ،فلک ، دانیال ،عالیہ ،صارم ،فہد اور آریان ایڈ تھے ۔ کسی کا کمینٹ نہیں آیا تھا مطلب سب سو رہے تھے ۔امل نے جھنجھوڑ کر فلک کو اٹھایا ۔جو بوکھلا کر اٹھ بیٹھی ۔
"ک ۔ ککک ۔۔کیا ہوا کیا ہوا ؟"
"یہ ہوا ہے دیکھ لو وہ دونوں اپنا بدلا لے چکے ہیں "
امل نے موبائل سکرین اس کے سامنے کی اس کی بھی ساری نیند بھک سے اڑی تھی ۔
"یہ ۔۔یار یہ کب کھینچی انہوں نے ؟"
"جب ہم دونوں تمہاری طرف سوے تھے اور جب سہیل انکل اور ان کی فیملی واپس "آفندی مینشن " آے تھے ۔"
امل تصویروں کو پہچان چکی تھی ۔
"اھہ ہاں ۔۔ یار انھے کہو ڈیل کر دیں ابھی زیادہ ٹائم نہیں گزرا ۔"
اور پھر وہ دونوں ان کا نمبر بار بار ڈائل کرتی رہیں مگر انہوں نے نا اٹھانا تھا نا اٹھایا ۔ اور باری باری سب تصویر کو دیکھ چکے تھے ۔وہ دونوں دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک گئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالیہ سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنے بال سلجھا رہی تھی ۔ فیروزی کرتی اور چوڑی دار پاجامے اور مٹے مٹے میک اپ میں وہ بہت دل کش لگ رہی تھی،گلے میں صارم کا دیا نازک سا پینڈٹ تھا ۔ ڈریسنگ روم سے صارم باہر نکلا وہ کالے کرتا شلوار میں تھا ۔ اس نے مسکرا کر عالیہ کو دیکھا پھر تولیہ ایک طرف رکھتا عالیہ کی طرف آیا ۔ عالیہ آہستہ آہستہ بالوں میں برش پھیر رہی تھی ۔ اس نے عالیہ کے ہاتھوں سے برش لیا اور نرمی سے اس کے بالوں میں برش چلانے لگا ۔
"دل کش لگ رہی ہو "
وہ دھیرے سے بولا تو عالیہ مسکرائی ۔اس نے اس کا رخ اپنی طرف موڑا کچھ توقف کے بعد اس نے اپنی پیشانی اس کی پیشانی سے ٹکا دی ۔عالیہ کو اس کی آواز سنائی دی ۔
"مجھے یقین تھا عالی کہ میں نے تمہے جس رب کی امان میں دیا تھا وہ رب کبھی بھی اپنے در کے سوالیوں کو خالی دامن نہیں لوٹاتا ۔دیکھو اس رب نے ہمارے دامن کو بھی خالی نہیں چھوڑا اور ہمیں پھر سے ایک دوسرے کا ساتھ عطا کیا ہے "
صارم نے نرمی سے اس کے ہاتھ تھامے ۔ عالیہ نے محبت بھرے انداز میں اپنے محرم کو دیکھا وہ اتفاق کرتی تھی اس کی اس بات سے ،اس کی ہر بات سے ۔
صارم نے اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب کھانے کے میز پر بیٹھے تھے ۔ عائشہ بیگم اور امل کچن میں تھیں صارم اور عالیہ میز کی دائیں جانب بیٹھے تھے بائیں جانب فلک ،اس کے ساتھ دانیال ،آریان اور فہد بیٹھے تھے ۔ صارم کے ساتھ شاہزیب صاحب ،سہیل صاحب ،ارفع بیگم ،اسما بیگم اور فرحان صاحب بیٹھے تھے ۔ شام میں ولیمہ تھا مگر اس وقت وہ سب ناشتہ کر رہے تھے ۔امل اور عائشہ بیگم بھی ٹیبل سیٹ کرنے کے بعد آبیٹھیں ۔ نور سیڑھیاں اترتی نیچے آئی ۔اس کا ناول ابھی ختم ہوا تھا ۔ ۔ ۔ اس نے نظریں گھما کر دیکھا فہد کے ساتھ والی کرسی خالی تھی ۔ وہ گھوم کر اس طرف آئی اور کرسی کھسکا کر بیٹھی ۔اس نے جوس پیتے فہد کی طرف دیکھا اسی لمحے فہد نے بھی اسے دیکھا یہ پہلی بار تھا کہ نور نے ان نیلی آنکھوں کو بہت قریب سے دیکھا تھا ۔ ان آنکھوں میں سمندر سی گہرائی تھی نور کو لگا وہ ان آنکھوں میں ڈوب جائے گی بے ساختہ ھی اس کی زبان پھسلی "blue eyes hypnotise "وہ گانا گنگنانے لگی ۔جوس پیتے فہد کو اچھوکا لگا وہ زور زور سے کھانسنے لگا ۔
"فہد ٹھیک ہو تم ؟؟"
سہیل صاحب میز پر قدرے اگے ہو کر بیٹھے فکرمندانہ انداز میں پوچھ رہے تھے ۔
"جج ۔۔جی انکل "
وہ بوکھلایا ہوا تھا ۔
(وادیِ عشق میں پریاں رقص کر رہی تھیں محبت اپنے ہونے پر نازاں تھی ۔ وہ شہزادہ دیکھ سکتا تھا وادیِ عشق کے دروازے سے ایک شہزادی اندر داخل ہوئی ہے اسی دروازے سے جہاں سے وہ داخل ہوا تھا )
نور نے خود پر ایک سو ایک بار لعنت بھیجی اور کھانے کی پلیٹ پر مزید جھک گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیمہ کے للئے ہال کو بہت نفیس انداز میں سجایا گیا تھا ۔ اسٹیج نہایت خوبصورت تھا اسٹیج پر ایک دیوان پڑا تھا ۔ اسپیشل مہمانوں کے لیے صوفے رکھوائے گئے تھے ۔اور دائیں اور بائیں جانب میز اور کرسیاں لگاے گئے تھے ۔آج تھیم رائل بلیو اور وائٹ تھا ۔ میز کے کوور سفید تھے کرسیاں بلیو اور ان کے گرد سفید ریبن تھے ۔ عالیہ رائل بلیو میکسی ، سلور ڈائمنڈ کے زیور اور پارٹی میک اپ میں بہت حسین لگ رہی تھی ۔صارم نے بھی رائل بلیو تھری پیس پہنا تھا ۔ آریان ،فہد اور دانیال تینوں نے بلیک ٹیکسیڈو (taxido) پہن رکھے تھے ۔ بیرڈ اور بال ایک طرف جیل سے سیٹ کیے ہوے تھے ۔ امل ،فلک اور نور نے آج بھی ایک ھی ڈیزائن کی میکسی پہنی تھی جس کے رنگ مختلف تھے امل نے گرے ،فلک نے پیچ اور نور نے پستا رنگ کی میکسی پہنی تھی ۔ آج انہوں نے بالوں جوڑا بنا رکھا تھا میکسی کا گلا اوپر گردن تک بند تھا اس لیے انہوں نے صرف ہلکے سے ایررنگ پہنے تھے اور ان تینوں نے بھی پارٹی میک اپ کر رکھا تھا ۔ صارم اور عالیہ ایک ساتھ ہال میں داخل ہوے ان کے پیچھے امل اور آریان اور ساتھ میں دانیال اور فلک داخل ہوے ۔ پھر عالیہ اور صارم تو اسٹیج کی طرف بڑھ گئے اور ان چاروں سے باری باری مہمان مل رہے تھے اور انھیں نکاح کی مبارک بعد پیش کر رہے تھے ۔وہ چاروں مسکراتے ہوے سب سے مل رہے تھے ۔سب کی نظروں میں جوڑیوں کے لئے ستائش تھی ۔ نور اسٹیج سے اتری اور کونے میں فون پر بات کرتے فہد کے پاس آئی ۔
"سنو "
فہد نے فون بند کیا اور سوالیہ انداز میں اسے دیکھا ۔
"سوری صبح جو ہوا اممم مجھے نہیں پتا بس بے اختیار سی کیفیت میں کہہ دیا ۔فہد قریشی تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں جھیل کی مانند گہری اور نیلی ۔"
وہ مسکرائی فہد اس کی صاف گوئی پر ہنس دیا تو طے تھا یہ لڑکی ہر موڑ پر اسے حیران کرنے والی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امل ،فلک ۔دانیال اور نور کے مہینہ بعد سیکنڈ سیمسٹر کے امتحان شروع ہونے والے تھے ۔
آریان اور فہد کے سی ۔ایس ۔ایس کے ٹیسٹ کا آج رزلٹ آنا تھا ۔آریان اپنے کمرے میں مسلسل ادھر ادھر چکر کاٹ رہا تھا اس سے کچھ فاصلے پر فہد بیٹھا تھا وہ دونوں کمرے کی کنڈی لگاے بیٹھے تھے باہر سب گھر والے بیٹھے آریان کے کمرے کے بند دروازے کو دیکھ رہے تھے ۔ دروازہ کھلا اور ایک دم آریان اور فہد بھنگڑے ڈالتے باہر نکلے ۔
"سب شروع ہوجاؤ مل کر بھنگڑے ڈالو ہمارا ٹیسٹ کلیر ہو گیا ہے "
فہد بھنگڑے ڈالتا ہوا بولا سب ہنس دیے ۔
"میں شکرانے کے نفل ادا کر آوں "
عائشہ بیگم اٹھیں ان کے پیچھے ھی عائشہ بیگم اور ارفع بیگم بھی اٹھیں ۔
"میں بابا جان اور صارم کو فون کرتی ھوں "
عالیہ نے فورا فون نکالا ۔
دونوں کا نام ٹاپ ٹوئنٹی میں تھا ۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔
وہ چاروں کیفے ٹیریا سے نکلے تو سامنے سے بینش چلتی آرہی تھی ۔
"ہیلو دانی ۔۔ہے امل ۔۔"
اس نے باری باری سب سے ہاتھ ملایا فلک نے ناگواری سے اسے دیکھا جو دانیال کے سامنے ہاتھ کیے کھڑی تھی ۔فلک ایک دم سامنے آئی ۔
"بینش آپی گڈ نیوز دوں آپ کو ؟"
"کیا ہے گڈ نیوز ؟؟ دانی بتاؤ نا ۔۔!!!
وہ دانیال کی طرف بڑھی ۔دانیال نے امل ،نور اور فلک کو دیکھا پھر بائیں جانب کھڑی فلک کو مسکرا کر بازؤں کے گھیرے میں لیا ۔
"مبارک ہو آج سے فلک تمہاری اصل بھابھی بن چکی ہے ہفتے پہلے ھی ہمارا نکاح ہو گیا ہے "
وہ مسکرایا اور فلک کو دیکھا ۔فلک بھی مسکرائی اور اثبات میں سر ہلایا ۔بینش نے مسکراہٹ چہرے پر سجائی۔
"اوہ گریٹ ۔۔مبارک ہو بہت تم دونوں کو ۔میں چلتی ھوں میرے فرینڈ میرا انتظار کر رہے ہیں "
وہ مڑی اور واپس چلی گئی کچھ دور جا کر اس نے مڑ کر دیکھا تو فلک اب بھی دانیال کے بازؤں کے ہلکے میں کھڑی تھی دانیال اس سے کچھ کہہ رہا تھا جس پر وہ مسکرا دی اور امل اور نور کھڑی دونوں کو دیکھ رہی تھیں ۔امل نے کچھ کہا جس پر دانیال جھین پتا فلک سے دور ہوا ۔بینش نے نفرت و حسد سے اس منظر کو دیکھا ۔
"کاش مجھے تم سے محبت نا ہوئی ہوتی دانیال شاہ "
اور وہ پلٹ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نومبر کا آدھا مہینہ گزر چکا تھا ۔ موسم سرد ہو رہا تھا ۔ہوا میں روز بہ روز خنکی بڑھ رہی تھی ۔ موسم ھی کی طرح امل بھی اداس تھی اس کی حالت بھی موسم ھی کی طرح تھی ۔ کیوں کہ آج رات آریان اور فہد نے ٹریننگ کے لیے پنڈی چلے جانا تھا ۔صبح سے وہ آریان کے ساتھ مل کر اس کی پیکنگ کروا رہی تھی حالانکہ دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی ۔ آریان باہر گیا تو وہ صوفے پر جا بیٹھی اور کب کے رکے آنسووں کو نکلنے کا راستہ مل گیا ۔آریان فون پر فہد سے بات کرتا کمرے میں داخل ہوا امل فورا اٹھی اور رخ موڑ لیا وہ نہیں چاہتی تھی کہ جاتے جاتے آریان کو پریشان کرے ۔ مگر آریان اسے روتا دیکھ چکا تھا فون پر جلد از جلد بات ختم کرتا وہ اس کی طرف آیا ۔
"امو ؟؟؟ وائفی؟؟"
اس نے امل کا رخ اپنی طرف موڑا امل اسے دیکھ کر مسکرانے لگی ۔
"کس سے چھپا رہی ہو آنسو ؟؟"
اس نے امل کی آنکھوں میں جھانکا ۔
"میں رو نہیں رہی وہ تو بس ۔۔وہ "
اسے سمجھ نا آئی وہ کیا کہے ۔
"آنکھوں میں کچھ چلا گیا ہے نا ؟؟"
آریان نے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوے پوچھا ۔
"نہیں آریان ۔۔۔بس تمہارے جانے کا سوچا تو آنکھیں بھر آئیں "
وہ سر جھکائے بولی ۔
"ادھر دیکھو میری طرف وائفی یار میں تم سے بات کر رہا ھوں "
اس نے ٹھوری سے پکڑ کر امل کا چہرہ اٹھایا ۔
"میں آتا جاتا رہوں گا امل ۔یوں تو رخصت نا کرو۔ اداس مت ہونا ۔خود بھی خوش رہنا سب کو بھی خوش رکھنا سب کا خیال رکھنا ، کھانا پکانا سب سیکھ لینا کیوں کہ میں ٹریننگ سے واپس آکر شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ھوں "
امل کا چہرہ سرخ ہوا تھا اس کی آخری بات سن کر ۔آریان مبہوت سا اس کے چہرے کے رنگ دیکھ رہا تھا ۔وہ جھکا اور اپنے لب اس کی پیشانی پر رکھ دیے ۔
"خوش رہو ہمیشہ ،مسکراتی رہو ہمیشہ "
اتنی محبت ،اتنا احترم ؟ محبت کو اپنے ہونے پر ناز ہوا ۔درحقیقت محبت یہی سب تو ہے ۔ محبت خود کو فنا خود کو مٹا دینے کا نام ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نور لان میں بیٹھی موبائل چلا رہی تھی فلک اندر کافی بنانے گئی تھی ۔ کچھ فاصلے پر انگیٹھی پڑی تھی ۔۔اسے ہارن کی آواز سنائی دی ۔ اس نے گیٹ کی طرف دیکھا فہد اندر داخل ہوا ۔
"تم کیوں آے ہو ؟؟"
جانتے بوجھتے بھی وہ اسے تنگ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔
"رشتہ لینے "
جواب غیر سنجیدہ آیا تھا ۔
"ککک کس کا ؟؟"
نور بوکھلائی ۔
"تمہارا ۔۔!!"
وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا اس تک چلا آیا ۔
"سوچ لو میں تمہارے ٹشو ختم کر دوں گی "
نور کا اشارہ پلین میں ہونے والی پہلی ملاقات پر تھا فہد کی مسکراہٹ گہری ہوئی ۔
"کوئی بات نہیں میں ٹشو کی فیکٹری بنا لوں گا "
وہ اطمینان سے بولا "یا اللّه ؟؟" نور کا منہ کھلا ۔
"میں پھر بھی کر دوں گی "
"پھر ۔۔ہاں پھر میں تمہارا موبائل آگ میں جھونک دوں گا "
اس نے نور کی آنکھوں میں دیکھا ۔
"کر کے تو دکھانا ۔۔۔میں تمہے گنجا کر دوں گی "
وہ وارننگ دیتے ہوے بولی ۔
"میں کون سا تمہارے بال چھوڑوں گا میں بھی تمہے گنجا کر دوں گا"
اس کی آنکھیں شرارت سے چمکیں ۔نور اس کی آنکھوں میں پھر سے خود کو ڈوبتا محسوس کرنے لگی اور فہد یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا۔وہ دونوں اس سحر زدہ ماحول سے تب نکلے جب انھیں اپنے پیچھے دانیال کی آواز آئی ۔
"واہ گنجوں کی جوڑی "کتنی اچھی لگے گی نا ٹکلوں کی جوڑی "
ان کے پیچھے آریان اور دانیال کھڑے تھے ۔دانیال نے بات کر کے اپنا ہاتھ تالی بجانے کے لیے آریان کے آگے کیا ۔جسے آریان نے سرے سے اگنور کیا دانیال بیچارہ شرمندہ ہوتے سر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا ۔
"پھر کیا خیال ہے "
فہد نے ابرو اچکائی۔
"فضول خیال ہے ۔پہلے مانو ٹشو ختم ہونے پر کچھ نہیں کہا کرو گے ، مجھے ناول ڈاونلوڈ کر کے دیا کرو گے میرے ساتھ ناول پڑھنے کا مقابلہ کیا کرو گے ۔اگر یہ سب نہیں کرو گے تو میں تمہے گنجا کر دوں گی ۔"
"سوچو پھر تو بچے بھی گنجے ھوں گے " وہ آہستہ آواز میں بولا کہ آواز نور کو سنائی دی جو اسے گھورنے لگی ۔فہد نے نور کو آنکھ ماری اور مسکراہٹ دباتے دانیال اور آریان کے ساتھ اندر کی جناب بڑھ گیا ۔
"بےشرم آدمی ۔۔"
۔۔۔۔۔۔**************۔۔۔۔*جاری ہے۔۔۔
YOU ARE READING
ماہی وے ✔
Humorماہی وے کہانی ہے بےغرض اور مخلص رشتے کی ۔یہ کہانی ہے دوستی ،محبت اور وفا کی ،کہانی ہے رب پر یقین کی ،کہانی ہے ہجر کی اور ہجر میں کٹی راتوں کی ،کہانی ہے منجھلوں ،دیوانوں کی، دوستی کرنے والوں کی اور اسے آخری دم تک نبھانے والوں کی ۔کہانی ہے امل ،آریان...